ایک آدمی فوت ہو جاتا ہے اور تنگدستی کی وجہ سے اپنا قرض نہیں اتار سکتا، کیا وہ گناہ گار ہوگا؟
یہ اس کے قرض لینے پر منحصر ہے، اگر اس نے لوگوں سے مال واپس کرنے کی نیت سے لیا تھا تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادا کر دیں گے لیکن اگر اس نے لوگوں کا مال ضائع کرنے کی نیت سے قرض لیا تھا تو رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
جس نے لوگوں کا مال لیا اور وہ انہیں ادا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادا کر دے گا، اور جس نے اسے تلف کرنے کی نیت سے لیا، اللہ تعالیٰ اسے تلف کر دے گا؟ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2387]
اس لیے جب انسان کسی سے قرض لے تو واپس کرنے کی نیت رکھے، جب اللہ تعالیٰ اس کو آسانی مہیا کرے تو وہ اپنا قرض اتار دے حتی کہ اگر انسان کسی سے کوئی چیز ادھار لیتا ہے اور وہ ادا کرنے کی نیت رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اسے ادا کرنے کی کوئی راہ نکال دیتے ہیں۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 16/244]