اہل جاہلیت کا ایک عمل یہ بھی تھا کہ جن باتوں کے متعلق ان کو اقرار تھا کہ یہ ان کے دین کی ہیں ان سے بھی انکار کر دیتے تھے جیسا کہ حج بیت اللہ کے بارے میں ان کا عمل تھا، انھوں نے اس کا انکار کیا اور اس سے اپنی برات ظاہر کی، جبکہ ان کو اقرار تھا کہ یہ ان کے دین کی باتیں ہیں جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے۔
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى [2-البقرة:125]
”اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے لیے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ مقرر کر لیا اور (حکم دیا) کہ جس مقام پر ابراہیم کھڑے ہوئے تھے اس کو نماز کی جگہ بنا لو۔“
نیز فرمایا :
وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ ٭ إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ٭ وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ [2-البقرة:130]
”اور ابراہیم کے دین سے کون روگردانی کر سکتا ہے بجز اس کے جو بہت نادان ہو۔ ہم نے اس کو دنیا میں بھی منتخب کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ (زمرۃ ) صلحا میں ہوں گے، جب ان سے ان کے رب نے فرمایا کہ اسلام لے آؤ تو انھوں نے عرض کیا کہ میں رب العالمین کے آگے سر اطاعت خم کرتا ہوں اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اسی بات اور یعقوب نے بھی اپنے فرزندوں سے یہی کہا کہ بیٹا خدا نے تمہارے لئے یہی دین پسند فرمایا ہے تو مرنا تو مسلمان ہی مرنا۔“
اس آیت کا سبب نزول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اپنے دو بھتیجوں سلمہ اور مہاجر کو اسلام لانے کی دعوت دی اور ان سے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تورات میں فرمایا ہے کہ میں اسمعیل کی اولاد سے ایک نبی مبعوث کرنے والا ہوں جس کا نام ”احمد“ ہو گا جو ان پر ایمان لائے گا رشد و ہدایت پائے گا اور جو ایمان نہیں لائے گا وہ ملعون ہوگا۔
چنانچہ سلمہ نے اسلام قبول کر لیا اور مہاجر نے انکار کر دیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔