اہل جاہلیت کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ مسائل میں قیاس فاسد کو دلیل بناتے تھے اور قیاس صحیح کا انکار کرتے تھے نیز جامع اور فاروق کی تمیز نہیں کرتے تھے جامع یعنی وہ باتیں جو فطری طور پر سب انسانوں میں موجود ہوتی ہیں اور انہیں بشریت پر جمع کرتی ہیں اور فاروق یعنی وہ صفات جو مخصوص انسانوں میں موجود ہوتی ہیں اور انہیں اپنے دوسرے ابناء جنس سے الگ کرتی ہیں جیسے نبوت وحی معجزات وغیرہ اللہ نے سورہ المؤمنون میں فرمایا :
فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا هَـذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُرِيدُ أَنْ يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَأَنْزَلَ مَلَائِكَةً مَا سَمِعْنَا بِهَـذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ ٭ إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ بِهِ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتَّى حِينٍ [23-المؤمنون:24]
” تو ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے یہ تو ہم جیسا آدمی ہے تم پر بڑائی حاصل کرنا چاہتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو فرشتے اتار دیتا ہم نے اگلے باپ دادا میں تو یہ بات کبھی نہیں سنی تھی۔ اس آدمی کو تو دیوانگی کا عاضہ ہے تو اس کے بارے میں کچھ مدت انتظار کرو۔“
اسی طرح اس سے پہلی آیت نمبر 23 وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ میں بھی اللہ نے ان جاہلوں کا ذکر فرمایا ہے کہ کس طرح یہ حقائق کو مہمل سمجھتے ہیں، اللہ کی نعمتوں پر نہ نظر ڈالتے اور نہ ان سے عبرت حاصل کرتے ہیں اور نہ ان کے زوال سے ڈرتے ہیں۔ نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کے اس قصے کو یہاں محض اس لئے بیان کیا ہے کہ قریش کو ڈرایا دھمکایا جائے کہ وہ اس سے عبرت حاصل کریں۔ چنانچہ مشفقانہ طور پر ان کو حق کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا :
”اے میری قوم والو ! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تم اپنے انجام اور عذاب الٰہی سے ڈرتے نہیں ہو۔ “
تو قوم کے سرداروں نے جواب دیا، جواب تو دراصل پوری قوم نے دیا تھا لیکن محض اہمیت کے لیے اللہ نے سرداروں کا ذکر فرمایا مَا هَـذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ یہ تو تمہارے ہی جیسا ایک آدمی ہے، یعنی تمہارے اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ ایسا اس لئے کہا تاکہ آپ کو منصب نبوت سے گرا کر بےوقعت کر دیں اور ساتھ ہی عوام کو مشتعل کرنے اور ان کو دشمنی پر اکسانے کے لئے یہ بھی بہتان لگایا يُرِيدُ أَنْ يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ یہ تم پر بڑائی چاہتا ہے یعنی اپنی نبوت کا دعویٰ کر کے تم پر سردار بن جانا چاہتے ہیں، لیکن یہ تو ہم جیسے انسان ہیں اگر اللہ کو نبی بنانا ہوتا تو ہم جیسے انسان کو کیوں بناتا، کسی فرشتے کو نبی بنا کر اتار دیتا، یعنی ان کے جاہلانہ عقیدہ کے مطابق بشر رسول نہیں ہو سکتا۔ اسی فاسد عقیدے کے تحت اس میں اشارہ ہے، ایسی بات تو ہم نے اپنے باپ دادا سے کبھی نہیں سنی، لہٰذا یہ قابل تسلیم نہیں ہے۔ سوچو حق کے خلاف ان کا قیاس کتنا فاسد تھا۔
نیز ظالموں نے یہ تہمت بھی باندھی کہ (معاذ اللہ) ان کو جنون اور پاگل پن ہے اس لیے ایسی نامانوس باتیں کرتے ہیں، لہٰذا صبر کرو اور دیکھو یہ جلد ہی ہوش میں آ جائیں گے اور خود ہی ان کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے گا۔ یہ ان جاہلوں کی کیسی تضاد بیانی تھی کہ جس کو پاگل سمجھتے تھے اس کی ہوشمندی کے معترف بھی تھے۔
ان تفصیلات سے معلوم ہوا کہ اہل جاہلیت اپنے استدلال کی بنیاد فاسد قیاس پر رکھتے تھے اور حقائق کا فرق جاننے کے باوجود ان میں تمیز نہیں کرتے تھے، مثلاً انبیاء کرام اور عوام الناس میں بشریت اور اس کے ضروری لوازم کے اعتبار سے یکسانیت ہے۔ اس بنا پر رسولوں کی بحثیت انسان کا دوسرے انسانوں پر قیاس کرنا صحیح ہے جیسا کہ فرمایا قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ 18-الكهف:110] ” یعنی میں تم جیسا ایک آدمی ہوں۔ “ لیکن اس کے ساتھ ہی انبیاء اور دوسرے انسانوں میں بہت سی امتیازی باتیں بھی ہیں جیسے اللہ نے ان کو اپنی رسالت کے لیے منتخب کیا ان کو اپنے کلام سے نواز، ان پر وحی نازل کی، ان کی ان اعلیٰ خصوصیات کو نظرانداز کر کے ان کو عام انسانوں پر قیاس کرنا اور یہ کہنا یہ تو تمہارے جیسا ایک آدمی ہے قیاس فاسد ہے۔
معلوم ہوا کہ اہل جاہلیت کے قیاس صحیح اور قیاس فاسد میں فرق نہیں کرتے تھے۔ اور نہ ہی انہیں جامع اور فاروق کا علم تھا اور یہی حال ان کے موجودہ مبتعین کا بھی ہے۔