اللہ کے ناموں اور صفتوں میں کج روی کرنا
تالیف: الشیخ السلام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ، ترجمہ: مولانا مختار احمد ندوی حفظ اللہ

اللہ کا ارشاد ہے۔
وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ [7-الأعراف:180]
”اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی۔ “
اللہ تعالی اس آیت میں اہل ایمان کو تنبیہ فرما رہے ہیں کہ اللہ کا ذکر کس طرح کیا جائے اور جو لوگ ذکر الہیٰ کے بارے میں غفلت و ضلالت کے شکار ہیں ان سے کیا معاملہ کیا جائے۔ فادعوه بها اللہ کو اس کے اچھے ناموں سے پکارو کا دو مطلب ہے یعنی اللہ کو اس کے اچھے ناموں سے موسوم کرو۔ دوسرا مطلب یہ کہ اللہ کو اس کے اچھے نام سے پکارو اور یاد کرو وذر والذين يلحدون فى اسمائه اور ان کو چھوڑ دو جو اللہ کے ناموں میں الحاد کرتے ہیں، الحاد یعنی حق سے ہٹ کر باطل کی راہ اختیار کرنا اور اللہ کو ایسے نام سے پکارنا جن کی اللہ نے خبر نہیں دی، جیسا کہ دیہاتی اللہ کو ابوالمكارم اور ابيض الوجه جیسے ناموں سے پکارتے ہیں جس سے اللہ کی شان کے خلاف فاسد معنی کا اظہار ہو رہا ہے۔
اور اللہ کا ارشاد ہے :
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَا أُمَمٌ لِتَتْلُوَ عَلَيْهِمُ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَـنِ قُلْ هُوَ رَبِّي لَا إِلَـهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ [13-الرعد:30]
”اسی طرح اے محمد ہم نے تم کو اس امت میں جس سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں بھیجا ہے تاکہ ان کو وہ کتاب جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے پڑھ کر سنا دو اور یہ لوگ رحمنٰ کو نہیں مانتے کہہ دو وہی تو میرا پروردگار ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔“
قتادہ، ابن جریج اور مقاتل کا بیان ہے کہ یہ آیت مشرکین عرب کے بارے میں نازل ہوئی، مشرکین نے جب حدیبیہ کے دن صلح نامہ دیکھا جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بسم الله الرحمن الرحيم لکھا تھا تو سہیل بن عمرو نے کہا کہ ہم تو صرف مسیلمہ ہی کو رحمٰن سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ابوجہل نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو يا الله يارحمنٰ کہتے سنا تو کہنے لگا : محمد ہم کو بہت سے معبودوں کی عبادت سے روک رہے ہیں اور صرف دو ہی معبودوں کو پکار رہے ہیں، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض کہتے ہیں کہ جب کفار قریش سے کہا گیا اسجدو واللرحمنٰ رحمٰن کو سجدہ کرو تو کہنے لگے ”رحمٰن کیا ؟“ اس آیت کے متعلق اور بھی تفصیلات ہیں۔
اللہ کا ارشاد ہے :
وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدتُّمْ عَلَيْنَا ۖ قَالُوا أَنطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ٭ وَمَا كُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَن يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَٰكِن ظَنَنتُمْ أَنَّ اللَّهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِّمَّا تَعْمَلُونَ ٭ وَذَٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنتُم بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَ [ 32-السجدة:21]
”اور وہ اپنے چمڑوں یعنی اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی، وہ کہیں گے کہ جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اسی نے ہم کو بھی گویائی دی اور اسی نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا اور اسی کی طرف تم کو لوٹ کر جانا ہے۔ اور تم اس بات سے تو پردہ نہیں کرتے تھے کہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور چمڑے تمہارے خلاف شہادت دیں گے بلکہ تم یہ خیال کرتے تھے کہ اللہ کو تمہارے بہت سے عملوں کی خبر نہیں اور اسی خیال نے جو تم اپنے پروردگار کے بارے میں رکھتے تھے تم کو ہلاک کر دیا اور تم خسارہ پانے والوں میں ہو گئے۔“
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اہل جاہلیت اللہ کے اسماء و صفات میں کج روی اختیار کرتے تھے، اس آیت کی شان نزول کے بارے میں احمد، بخاری، مسلم، ترمذی نسائی وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن غلاف کعبہ سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا کے تین شخص آئے ایک قریشی اور دو ثقفی یا ایک ثقفی اور دو قریشی، خوب فربہ و تنومند اور ناسمجھ تھے۔ آپس میں کچھ باتیں کرنے لگے جنہیں اچھی طرح نہیں سن سکا، ان میں سے ایک نے کہا: تمہارا کیا خیال ہے کہ اللہ ہماری یہ بات سن رہا ہے ؟ دوسرے نے کہا: جب بلند آواز سے کہیں گے تو سنے گا ورنہ نہیں، تیسرے نے کہا: جب تھوڑی سنے گا تو سب ہی سن لے گا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا جس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی، لوگ اسی قسم کی باتوں کے ذریعہ صفات الہٰی میں کجروی اختیار کرتے ہیں۔
اور آپ کو خوب معلوم ہے کہ آج اکثر مسلمان متکلمین اللہ اسماء و صفات میں عہد جاہلیت سے زیادہ کج روی اختیار کئے ہوئے ہیں، اور اللہ کے ایسے ایسے نام رکھے ہیں جن کے بارے میں اللہ نے کوئی آیت نہیں نازل کی۔ ان میں کچھ تو یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی صفات نہ اس کی ذات کے عین ہیں نہ غیر، کچھ کا یہ کہنا ہے کہ صفات الہیٰ اس کی ذات کی غیر ہیں۔ اور کچھ یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے جو کتابیں نازل کی ہیں ان کے ساتھ کلام نہیں کیا ہے۔ اور اللہ کے لیے کلام نفسی ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنے رسولوں میں سے کسی سے کلام نہیں کیا اور اسی قسم کی بکواس سے اپنی پوری کتابیں بھر ڈالی ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہی آیت اہل جاہلیت کے ساتھ مخصوص ہے اور انہیں یہ معلوم نہیں کہ وہ بھی اس آیت کے عموم میں شامل ہیں اللہ نے جن کو بصیرت عطا کی ہے اور جن کے قلب کو روشنی بخشی ہے وہ ان جیسے گمراہ لوگوں کی کتابوں سے عقائد نہیں اخذ کرتے ہیں بلکہ کتاب و سنت کے دلائل پر مشتمل کتب سلف سے معرفت الہیٰ حاصل کرتے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے