نفل روزے کو توڑنے پر قضاواجب نہیں ہے
❀ «عن ابي جحيفة رضى الله عنه، قال:” آخى النبى صلى الله عليه وسلم بين سلمان، وابي الدرداء رضى الله عنه : فزار سلمان ابا الدرداء، فراى ام الدرداء متبذلة، فقال لها: ما شانك؟ قالت: اخوك ابو الدرداء ليس له حاجة فى الدنيا، فجاء ابو الدرداء فصنع له طعاما، فقال: كل، قال: فإني صائم، قال: ما انا بآكل حتى تاكل، قال: فاكل، فلما كان الليل، ذهب ابو الدرداء يقوم، قال: نم، فنام ثم ذهب يقوم، فقال: نم، فلما كان من آخر الليل، قال سلمان: قم الآن فصليا، فقال له سلمان: إن لربك عليك حقا، ولنفسك عليك حقا، ولاهلك عليك حقا، فاعط كل ذي حق حقه”، فاتى النبى صلى الله عليه وسلم، فذكر ذلك له، فقال النبى صلى الله عليه وسلم: صدق سلمان.»
حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا تھا۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے ملاقات کو گئے، تو دیکھا کہ ام درداء رضی اللہ عنہا پرانا دھرانا کپڑا پہنے ہوئے ہیں، ان سے پوچھا: کیا بات ہے؟ انہوں نے جواب دیا: آپ کے بھائی ابو درداء کو دنیا سے کوئی واسطہ نہیں۔ پھر حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ آئے، اور کھانا لایا گیا، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کھاؤ، تو حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تو روزے سے ہوں۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تو نہیں کھاؤں گا جب تک تم نہ کھاؤ گے۔ چنانچہ حضرت ابودرداء نے کھا لیا۔ پھر جب رات آئی تو حضرت ابو درداء اٹھے تاکہ عبادت کریں، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابھی سوؤ، چنانچہ وہ سو گئے، پھر عبادت کے لیے کھڑے ہوئے تو انہوں نے کہا کہ ابھی سوئے رہو، پھر جب رات کا آخری حصہ آیا تو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب اٹھو، پھر دونوں نے نماز پڑھی۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تمہارے رب کا تم پر حق ہے، اور تمہاری جان کا تم پر حق ہے، اور تمہارے گھر والوں کا تم پر حق ہے، اس لیے ہر حق دار کا حق ادا کرو۔ پھر ابودرداء رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعے کا تذکرہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلمان نے سچ کہا۔“ [صحيح بخاري 1968]
نوٹ: جمہور اہل علم کے نزدیک اگر نفل روزہ رکھنے والا کسی عذر کی وجہ سے یا بغیر عذر کے روزہ توڑ دے تو اس پر قضا واجب نہیں ہے۔ جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ قضا کو واجب قرار دیتے ہیں۔ جمہور کی رائے زیادہ مناسب ہے، اس لیے کہ قضا کے وجوب کے سلسلے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیں: [الجامع الكامل فى الحديث الصحيح الشامل 673/4 -678]