کیا نبیﷺ اور رشتہ داروں پر ہمارے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ؟
تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی

سوال : کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور رشتہ داروں پر ہمارے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ؟
جواب : ایک مفتی صاحب نے داڑھی منڈوانے والوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : ’’ داڑھی منڈوانے والو : تمہارے اعمال روزانہ فرشتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حرکات دیکھ کر کتنا دکھ ہوتا ہو گا۔ “ اس پر مفتی صاحب نے [كنز العمال : 5/ 318] اور [حلية الاولياء : 6/ 179] کا حوالہ دیا پھر مزید عزیز و اقارب کے سامنے اعمال پیش کرنے کی دلیل کے طور پر [مسند احمد : 3/ 165] اور [مجمع الزوائد : 2/ 228] کا حوالہ ذکر کیا ہے۔

یہ بات درست کہ داڑھی منڈوانا اسلام میں حرام ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور عذاب الیم کو دعوت دینا ہے، لیکن اس ضمن میں اعمال پیش ہونے کے متعلق جو روایات پیش کی جاتی ہیں وہ درست نہیں ہیں۔
✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ
’’ اللہ تعالیٰ جو کچھ ان کے سامنے ہے اسے بھی جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے اس سے بھی واقف ہے اور سارے معاملات اس کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ “ [22-الحج:76]
↰ یعنی کائنات میں کسی چھوٹے یا بڑے معاملے کا مرجع اللہ تعالیٰ ہی ہے، کوئی دوسرا نہیں۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ [210] ، آل عمرا ن [109] ، حدید [5] وغیرہ میں بیان کیا ہے۔

اور صحیح مسلم میں :
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تعرض الاعمال في كل يوم خميس واثنين فيغفر الله عز وجل في ذلك اليوم لكل امرئ لا يشرك بالله شيئا إلا امرا كانت بينه وبين اخيه شحناء فيقال : اركوا هذين حتى يصطلحا اركوا هذين حتى يصطلحا ’’ ہر جمعرات اور سوموار کو تمام اعمال پیش کیے جاتے ہیں تو اس دن اللہ تعالیٰ ہر اس آدمی کو بخش دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کرتا سوائے اس آدمی کے کہ جس کے درمیان اور اس کے بھائی کے درمیان عداوت ہو۔ کہا جا تا ہے ان دونوں کو چھوڑ دیجیے یہاں تک کہ صلح کر لیں۔ “ [مسلم، كتاب البروالصلة : باب النهي عن الشخناء : 2565]

❀ ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’ اے اللہ کے رسول ! شعبان کے مہینے میں جس قدر آپ روزے رکھتے ہیں، میں نے آپ کو اس قدر کسی دوسرے مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ذلك شهر يغفل الناس عنه بين رجب ورمضان، ‏‏‏‏‏‏وهو شهر ترفع فيه الاعمال إلى رب العالمين، ‏‏‏‏‏‏فاحب ان يرفع عملي وانا صائم ’’ یہ رجب اور رمضان کے درمیان ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہیں اور یہ ایسا مہینہ ہے جس میں رب العالمین کی طرف اعمال کو اٹھایا جاتا ہے۔ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس حالت میں اٹھایا جائے کہ میں روزہ دار ہوں۔ “ [نسائي، كتاب الصيام : باب صوم النبى بابي هو وامي : 2359]

❀ اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اس دن اللہ تعالیٰ کے ہاں اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل پیش ہو تو میں روزے کی حالت میں ہوں۔ “

❀ ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يرفعه يرفع إليه عمل الليل قبل عمل النهار وعمل النهار قبل عمل الليل
’’ اس کی طرف رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اٹھایا جاتا ہے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے۔ “ [مسلم، كتاب الايمان : باب فى قوله تعالىٰ ان الله لا ينام : 445]
↰ ان تمام احادیث میں تطبیق دیتے ہوئے :
◈ محدث شہیر عبدالرحمن مبارک پوری رقمطراز ہیں :
وهذا لا ينافي قوله عليه السلام: يرفع عمل الليل قبل عمل النهار، وعمل النهار قبل عمل الليل، للفرق بين الرفع والعرض، لأن الأعمال تجمع فى الأسبوع وتعرض فى هذين اليومين. فى حديث مسلم تعرض الاعمال الناس فى كل جمعة مرتين يوم الاثنين ويوم خميس فيغفر لكل مومن الا عبد بينه وبين اخيه شحناء فيقال : انظروا هذين حتى يصطلحا قال ابن حجر: ولا ينافي هذا رفعها فى شعبان، فقال: إنه شهر ترفع فيه الأعمال، وأحب أن يرفع عملي وأنا صائم. لجواز رفع أعمال الأسبوع مفصلة، وأعمال العام مجملة
’’ ( سوموار اور جمعرات کو اعمال کا پیش کیا جانا) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کے منافی نہیں جس میں ہے کہ رات کا عمل دن سے قبل اور دن کا عمل رات سے قبل اٹھایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ رفع ( یعنی اٹھانے ) اور عرض (یعنی پیش کیے جانے ) میں فرق ہے۔ اس لیے کہ پورے ہفتے میں اعمال جمع کیے جاتے ہیں اور ان دو دنوں ( سوموار اور جمعرات ) میں پیش کیے جاتے ہیں۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ ہر جمعہ میں دو مرتبہ سوموار اور جمعرات کو اعمال اللہ کے ہاں پیش کیے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہر مومن کو بخش دیتا ہے سوائے ان دو آدمیوں کے جن کی آپس میں عداوت ہو۔ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کو مؤخر کر دو یہاں تک کہ وہ آپس میں صلح کر لیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ احادیث اس حدیث کے بھی خلاف نہیں جس میں ہے کہ اعمال شعبان کے مہینے میں اٹھائے جاتے ہیں اور میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل روزے کی حالت میں اٹھایا جائے۔ اس لیے کہ جائز ہے ہفتے کے اعمال تفصیلاً اٹھائے جاتے ہوں اور سال کے اعمال اجمالی طور پر شعبان میں اٹھائے جاتے ہوں۔ “ [تحفته الاحوذي : 2/ 55]
↰ مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ ہمارے تمام اعمال اللہ کی طرف اٹھائے اور پیش کیے جاتے ہیں جو ان کی جزا و سزا کا مالک ہے اور اللہ کے علاوہ کوئی متصرف الامور نہیں جس کے سامنے ہمارے اعمال پیش کیے جاتے ہوں۔

مسند احمد کے حوالے سے جو روایت پیش کی گئی ہے کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن أعمالكم تعرض على أقاربكم وعشائركم من الأموات، فإن كان خيرا استبشروا به، وإن كان غير ذلك قالوا: اللهم لا تمتهم حتى تهديهم كما هديتنا.
’’ تمہارے اعمال تمہارے عزیز و اقارب میں سے مرنے والوں پر پیش کیے جاتے ہیں۔ اگر اعمال بہتر ہوں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور اگر بہتر نہ ہوں تو وہ کہتے ہیں : ’’ اے اللہ ! تو ان کو اتنی دیر تک موت نہ دے جب تک انہیں ہماری طرح ہدایت نہ دے دے۔ “ [مسند احمد : 3/ 165]

یہ روایت ضعیف ہے اس لیے کہ اس کی سند میں سفیان اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے درمیان مجہول راوی ہے۔ مفتی صاحب نے مسند احمد کے ساتھ مجمع الزوائد کا بھی حوالہ دیا ہے لیکن تعجب ہے کہ مفتی صاحب نے مجمع الزوائد کا حوالہ تو ذکر کر دیا لیکن امام ہیثمی رحمہ اللہ کی اس روایت پر جرح کو ہضم کر گئے۔ امام ہیثمی رحمہ اللہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : رواه احمد وفيه رجل لم يسم ’’ اس کو احمد نے روایت کیا ہے اور اس سند میں ایک آدمی ہے جس کا نام نہیں لیا گیا۔ “ [مجمع الزوائد : 331، 332]

↰ اس کے بعد امام ہیثمی رحمہ اللہ نے اس روایت کے مطابق ابوایوب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت کی طرف اشارہ کیا ہے اور ابوایوب رضی اللہ عنہ کی یہ روایت امام ہیثمی رحمہ اللہ اس باب سے پہلے والے باب میں لائے ہیں اور اس کے بعد فرمایا : [ رواه الطبراني في الكبير 194/1] [ والاوسط 72/1] وفيه مسلمة بن علي وهو ضعيف ’’ اس روایت کو امام طبرانی ’’ المعجم الکبیر “ اور ’’ المعجم الاوسط “ میں لائے ہیں۔ اس کی سند میں مسلمہ بن علی ضعیف راوی ہے۔
◈ مسلمہ بن علی کے متعلق امام بخاری، امام ابن حبان اور امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ یہ منکر الحدیث ہے۔ “
◈ امام ذہبی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
قال البخاري كل من قلت فيه منكر الحديث فلا تحل الرواية عنه
امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا : ہر وہ شخص جس کے متعلق میں یہ کہوں کہ منکر الحدیث ہے اس سے روایت بیان کرنا حلال نہیں۔ “ [ ميزان الاعتدال : 6/1]
◈ امام یعقوب بن سفیان فسوی نے اسے ضعیف الحدیث، امام جوزجانی، امام ازدی، امام نسائی، امام دارقطنی، امام برقانی نے متروک الحدیث، امام آجری نے ابوداؤد سے غیر ثقہ و غیر مامون نقل کیا ہے۔
◈ امام حاکم رحمہ اللہ نے کہا:
يروي عن الاوزاعي والزبيدي المناكير والموضوعات
’’ مسلمہ بن علی امام اوزاعی اور زبیدی سے منکر و موضوع روایات بیان کرتا تھا۔ “ [تهذيب التهذيب 440، 439/5]
لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ روایت انتہائی کمزور ہے۔

حلیۃ الاولیاء اور کنز العمال کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :

ان اعمال امتي تعرض علي في كل يوم جمعة واشتد غضب الله علي الزناة
’’ ہر جمعہ کو مجھ پر میری امت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، زنا کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب بہت سخت ہوتا ہے۔ “ [حلية الاولياء : 6/ 179، كنزالعمال : 5/ 318]

یہ روایت بھی انتہائی ضعیف ہے۔ اس کی سند میں دو راوی مجروع ہیں۔ احمد بن عیسیٰ بن ماہان الرازی، یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں جھوٹی روایتیں بیان کرتا تھا اور عجیب و غریب روایات نقل کرتا تھا۔ محدثین نے اس پر کلام کیا ہے۔ [ميزبان الاعتدال : 1/ 128، لسان الميزان : 1/ 244]
اس روایت کا دوسرا راوی عباد بن کثیر بصری بھی متکلم فیہ ہے۔ لہٰذا یہ روایت بھی قابل حجت نہیں۔

اسی مضمون کی دو اور روایتیں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب ہیں۔ ایک روایت کو امام ابن عدی رحمہ اللہ نے نقل فرمایا ہے۔ [الكامل : 2/ 127]

اس کی سند میں فراش بن عبداللہ ساقط الاعتبار ہے اور دوسری روایت میں محمد بن عبدالملک بن زیاط ابوسلمہ انصاری ہے جو من گھڑت اور جھوٹی روایتیں بیان کرتا ہے۔ جسے امام ابن طاہر نے کذاب کہا ہے۔ [سلسلة الاحاديث الضعيفة : 975 : 2/ 404۔ 406]
لہذٰا مفتی صاحب کی بیان کردہ روایات ضعیف اور ناقابل حجت ہیں جن سے استدلال کرنا کسی طرح بھی اہل علم کے لیے جائز نہیں، جب قرآن مجید اور احادیث سے یہ بات بالیقین ثابت ہے کہ تمام اعمال کا مرجع اللہ تعالیٰ کی طرف جو متصرف الامور، جزا و سزا کا مالک ہے۔ اس کے علاوہ کوئی ہستی اسباب عالم سے بالاتر ہو کر متصرف الامور نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو متصرف الامور سمجھنا اور اعمال کو اس کی طرف لوٹانے کا عقیدہ رکھنا قطعاً غلط اور باطل ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کئی ایک ایسے واقعات ہوئے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اوجھل رہے اور وہ اعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش نہیں کیے گئے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کا ایک خادم (یا خادمہ) تھا جو وہاں صفائی کا کام سر انجام دیتا تھا۔ جب وہ فوت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر اطلاع کیے اسے دفنا دیا گیا۔ چند روز بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ وہ تو فوت ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : افلا كنتم اذنتموني به؟ دلوني علي قبره ’’ تم نے مجھے اس کی اطلاع کیو نہ دی ؟ میری اس کی قبر پر رہنمائی کرو۔ “ [بخاري، كتاب الصلاة : باب كنس المسجد و التقاط الحرق : 458]
↰ اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ سارا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر مخفی رہا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر امت کے اعمال پیش کرنے والی بات درست ہوتی تو یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کبھی مخفی نہ رہتا۔ اسی طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو جب حدیبیہ کے موقع پر سفیر بنا کر بھیجا گیا تو ان کا معاملہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اوجھل رہا۔ لہذا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ پر اعمال پیش نہیں کیے گئے تو آپ کے بعد یہ عقیدہ رکھنا کہ ہمارے اعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیے جاتے ہیں اور اعمال صالحہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے ہیں اور اعمال سیئہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے ہیں اور اسی طرح اعزا و اقارب کے بارے میں ایسا عقیدہ درست نہیں ہے۔

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے