تشہد میں انگشت شہادت کو حرکت دینا

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا دوران تشہد انگشت شہادت کو حرکت دینا مسنون ہے ؟
جواب : دورانِ تشہد انگشتِ شہادت کو حرکت دینی چاہیے کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے جب کہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے :
ثُمَّ رَفَعَ اُصْبَعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُوْ بِهَا [نسائي، كتاب الصلاة : باب قبض الثنتين من أصابع اليد اليمني وعقد الوسطي والإبهام منها 1269]
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو اٹھایا پھر اسے حرکت دیتے رہے اور دعا کرتے رہے۔“
مولوی سلام اللہ حنفی شرح مؤطا میں لکھتے ہیں :
وِفِيْهِ تَحْرِيْكُهَا دَائِمًا اِذَا الدُّعَاءُ بَعْدَ التَّشَهُّدِ
”اس حدیث میں ہے کہ انگلی کو تشہد میں ہمیشہ حرکت دیتے رہنا چاہیے کیونکہ دعا تشہد کے بعد ہوتی ہے۔ “
علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فَفِيْهِ دَلِيْلٌ عَلٰي اَنَّ السُّنَّةَ اَنْ يَّسْتَمِرَّ فِي الْاِشَارَةِ وَفِيْ تَحْرِيْكِهَا اِلَي السَّلَامِ لِاَنَّ الدُّعَاءَ قَبْلَهُ [صفة صلاة النبى ص/158]
”اس حدیث میں دلیل ہے کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ انگلی کا اشارہ اور حرکت سلام تک جاری رہے کیونکہ دعا سلام سے متصل ہے۔ “
اس کے علاوہ صرف ایک مرتبہ انگلی اٹھا کر رکھ دینا یا اَشْهَدُ اَنْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ پر اٹھانا، اس کے بارے میں صحیح احادیث سے کوئی دلیل نہیں ملتی جب کہ یہ عمل مذکورہ حدیث کے منافی ہے۔
جس روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے وہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس میں محمد بن عجلان عامر بن عبداللہ بن زبیر سے بیان کرتا ہے اور محمد بن عجلان متکلم فیہ راوی ہے، اس کے علاوہ چار ثقہ راویوں نے عامر بن عبداللہ سے اسی روایت کو بیان کیا ہے لیکن اس میں لَا يُحَرِّكُهَا کے الفاظ نہیں ہیں۔
معلوم ہوا یہ الفاظ شاذ ہیں۔
امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی محمد بن عجلان کے طریق سے یہی روایت ذکر کی ہے، اس میں بھی لَا يُحَرِّكُهَا کے الفاظ نہیں ہیں۔ جب کہ اس کے مقابلے میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ والی روایت کو ابن ملقن، ابن قیم اور امام نووی کے علاوہ ناصرالدین البانی رحمۃ اللہ علیہم نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔ صرف ”الھدایة في تخریج أحادیث البدایة“ کے مؤلف نے اس حدیث کو شاذ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ يُحَرِّكُهَا والے الفاظ صرف زائدہ بن قدامہ عاصم سے بیان کرتا ہے، زائدہ کے علاوہ عاصم کے دوسرے شاگرد يُشِيْرُ بِيَدِهِ کے الفاظ ذکر کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات تحقیق اور انصاف سے عاری ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ سب محدثین نے اس حدیث کی صحت کو تسلیم کیا ہے جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اشارہ والی حدیث کے ثبوت سے حرکت دینے کی نفی نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے اور صحابہ پیچھے کھڑے تھے فَاَشَارَ اِلَيْهِمْ اَنِ اجْلِسُوْا ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ “ [بخاري، كتاب الأذان : باب إنما جعل الإمام ليؤتم به 688]
اس حدیث سے ہر عقلمند آدمی یہ سمجھے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ صرف ہاتھ کو اٹھا دینا نہیں تھا جیسا کہ آپ سلام کے جواب میں کرتے تھے، بلکہ یہ اشارہ تھا جس سے سمجھ آتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھنے کا حکم دے رہے ہیں۔ یہ اشارہ حرکت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ اس مثال سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اشارہ والی احادیث کو تحریک والی احادیث کے مخالف قرار دینا درست نہیں ہے۔
اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما والی روایت ہے :
لَهِيَ اَشَدُّ عَلَي الشَّيْطَانِ مِنَ الْحَدِيْدِ [صفة صلاة النبى للألباني ص/159]
”یہ انگلی شیطان کے لیے لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے۔ “
اس حدیث کو حرکت نہ دینے کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ اس میں حرکت دینے یا نہ دینے کی صراحت موجود ہی نہیں ہے، جب کہ حرکت دینا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہو چکا ہے۔ اگر اس بات کو تسلیم کر لیں کہ اس میں حرکت نہ دینے کی صراحت ہے تو پھر صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ دونوں امر جائز ہیں جیسا کہ علامہ صنعانی رحمہ اللہ نے سبل السلام میں اسے ترجیح دی ہے۔ لیکن پہلی بات زیادہ پختہ ہے کیونکہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ایک خاص اہتمام کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ بیان کر رہے ہیں اور خاص کر تشہد کی حالت کا اور انہوں نے تشہد میں ایسی چیزیں بیان کی ہیں جو کسی نے بیان نہیں کیں۔ اس لیے ان کی روایت کو ترجیح ہو گی۔
مزید تفصیل کے لیے علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ کی کتاب ”تمام المنة“ کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔

تشہد میں شہادت کی انگلی کا قبلہ رخ ہونا
——————
سوال : کیا حالت نماز میں شہادت کی انگلی قبلہ رخ ہونی چاہیے اور نظر کا اس پر مرکوز ہونا کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے ؟
جواب : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھ جاتے تو اپنی انگلی سے قبلہ رخ اشارہ کرتے اور اپنی نگاہ اسی پر رکھتے۔ “ [أبوعوانة، كتاب الصلاة : باب بيان الإشارة 2017، ابن خزيمة، كتاب الصلاة : باب الإشارة بالسبابة 719]
دوسری حدیث میں ہے :
”یقیناًً نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد بیٹھ جاتے تو اپنا بایاں ہاتھ بائیں ران پر اور دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھتے اور شہادت والی انگلی سے اشارہ کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ آپ کے اشارے سے تجاوز نہیں کرتی تھی۔ “ [أبوعوانة، كتاب الصلاة : باب الإشارة بالسبابة : 2018]
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ تشہد کی صورت میں شہادت کی انگلی اٹھا کر قبلہ رخ اشارہ کرنا اور نظر اس پر رکھنا مسنون ہے۔

اس تحریر کو اب تک 39 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply