وثبت فى الصحيح فى حديث هرقل أن النبى على كتب إليه: ( (بسم الله الرحمن الرحيم من محمد عبد الله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم )) وفيه و ﴿يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم أن لا نعبد إلا الله ولا نشرك به شيئا ولا يتخذ بعضنا بعضا أربابا من دون الله فإن تولوا فقولوا اشهدوا بأنا مسلمون﴾ [آل عمران: 64]
بخاری ، مسلم میں ہرقل کی حدیث میں یہ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف لکھا: ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾ اللہ کے رسول محمد بن عبد اللہ سے عظیم روم ہرقل کی طرف اور اس میں یہ درج تھا ”اے اہل کتاب ایک ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہمارے تمہارے درمیان مشترکہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ، اور ہم میں کوئی کسی کواللہ کے سوا رب نہ بنائے اگر تم پیٹھ پھیر گئے تو کہو گواہ رہنا بے شک ہم مسلمان ہیں ۔
تحقيق و تخريج: البخاري: 2941 مسلم: 1773
فوائد:
➊ کفار کا نام لینے یا لکھنے سے نہ زبان پلید ہوتی ہے اور نہ ہی تحریر متاثر ہوتی ہے ۔ ابوجہل ، فرعون ، ابولہب، ہامان ہرقل وغیرہ کے نام لکھنے اور بولنے شرعاً جائز ہیں اسی طرح حرام سے حرام اور پلید سے پلید جانوروں کے نام لینا بھی درست ہے ۔ ابوجہل اور دیگر کے نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیے اسی طرح خنزیر کا لفظ قرآن نے ذکر کیا لہٰذا کوئی مضائقہ نہیں ۔
➋ خط و کتابت میں یا ہر تحریر کے شروع میں ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾ مکمل لکھنی چاہیے اور انہی الفاظ میں ہی لکھا جائے ہندسوں میں ﴿بسم الله﴾ لکھنا احادیث سے ثابت نہیں ہے اسی طرح پہلے بھیجنے والے کا نام ہو اور بعد میں مرسل الیہ کا نام پتہ ہو جیسے ”من محمد بن عبد الله و رسوله الى هرقل عظيم الروم“ ہے جو مخاطب ہو اس کو احترام سے مخاطب کیا جائے ۔ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا ”عظيم الروم“ مراد روم کاسر براہ ہے ہمارے نبی صلى الله عليه وسلم نے زندگی کے ہر معاملہ میں ہماری راہنمائی فرمائی جیسا کہ اس حدیث میں خط و کتابت کرنے کے اصول بتائے ۔
➌ خاص خطوط میں آیت قرآنی اور فرمان نبوی لکھا جاسکتا ہے کوئی حرج نہیں پھر بھی کافر ملک میں بھیجتے وقت احتیاط برتنا چاہیے ۔ کہیں تو ہین کرتے ہوئے روندانہ جائے بہتر یہ ہے کہ تحریری پیمان کسی ڈاکیا یا سفیر کے ہاتھ بھیجے جائیں ۔
بخاری ، مسلم میں ہرقل کی حدیث میں یہ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف لکھا: ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾ اللہ کے رسول محمد بن عبد اللہ سے عظیم روم ہرقل کی طرف اور اس میں یہ درج تھا ”اے اہل کتاب ایک ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہمارے تمہارے درمیان مشترکہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ، اور ہم میں کوئی کسی کواللہ کے سوا رب نہ بنائے اگر تم پیٹھ پھیر گئے تو کہو گواہ رہنا بے شک ہم مسلمان ہیں ۔
تحقيق و تخريج: البخاري: 2941 مسلم: 1773
فوائد:
➊ کفار کا نام لینے یا لکھنے سے نہ زبان پلید ہوتی ہے اور نہ ہی تحریر متاثر ہوتی ہے ۔ ابوجہل ، فرعون ، ابولہب، ہامان ہرقل وغیرہ کے نام لکھنے اور بولنے شرعاً جائز ہیں اسی طرح حرام سے حرام اور پلید سے پلید جانوروں کے نام لینا بھی درست ہے ۔ ابوجہل اور دیگر کے نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیے اسی طرح خنزیر کا لفظ قرآن نے ذکر کیا لہٰذا کوئی مضائقہ نہیں ۔
➋ خط و کتابت میں یا ہر تحریر کے شروع میں ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾ مکمل لکھنی چاہیے اور انہی الفاظ میں ہی لکھا جائے ہندسوں میں ﴿بسم الله﴾ لکھنا احادیث سے ثابت نہیں ہے اسی طرح پہلے بھیجنے والے کا نام ہو اور بعد میں مرسل الیہ کا نام پتہ ہو جیسے ”من محمد بن عبد الله و رسوله الى هرقل عظيم الروم“ ہے جو مخاطب ہو اس کو احترام سے مخاطب کیا جائے ۔ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا ”عظيم الروم“ مراد روم کاسر براہ ہے ہمارے نبی صلى الله عليه وسلم نے زندگی کے ہر معاملہ میں ہماری راہنمائی فرمائی جیسا کہ اس حدیث میں خط و کتابت کرنے کے اصول بتائے ۔
➌ خاص خطوط میں آیت قرآنی اور فرمان نبوی لکھا جاسکتا ہے کوئی حرج نہیں پھر بھی کافر ملک میں بھیجتے وقت احتیاط برتنا چاہیے ۔ کہیں تو ہین کرتے ہوئے روندانہ جائے بہتر یہ ہے کہ تحریری پیمان کسی ڈاکیا یا سفیر کے ہاتھ بھیجے جائیں ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]