اما ا نك لا يتجعن بطنك أبدا .
” خبردار ! بے شک آپ آج کے بعد کبھی اپنے پیٹ میں بیماری نہ پاؤ گی۔ “ [ المستدارك على الصحيحين للحاكم : 64، 63/4، حلية الاوليائ لا بي نعيم الاصبهاني : 68/2، الائل النبوة لا بي نعيم الاصبهاني 381، 380/2، المعجم الكبير للطبراني : 90، 89/25، التلخيص الحبير لابن حجر : 31/1، البداية والنهاية لابن كثير : 326/5، الاصابة فى تميز الصحابة لا بن حجر : 433/4 ]
تبصرہ :
اس کی سند ” ضعیف ’’“ ہے۔
اس کا راوی عبد المالک التعی ” متروک “ ہے۔ [تقريب التهذ يب لابن حجر : 8337 ]
تنبیہ :
ابویعلٰی کی سند میں ابومالک تخعی کا واسطہ گر گیا ہے۔ اس پر قرینہ یہ ہے کہ ابومالک تخعی کے استادوں میں یعلٰی بن عطائی اور یعلٰی بن عطائی کے شاگردوں میں ابومالک تخعی موجود ہے جبکہ یعلٰی بن عطائی کے شاگردوں میں حسین بن حرب موجود نہیں۔ اس سند کے دو راوی مسلم بن قتیبہ اور الحسین بن حرب کا تعین اور توثیق درکار ہے۔
اس پر دوسرا قرینہ یہ ہے کہ :
◈ حافظ سیوطی لکھتے ہیں :
و أخرج أ بو يعلٰي والحاكم والدار قطني و أبو نعيم عن أم أيمن .
” ابویعلٰی، حاکم، دار قطنی اور ابونعیم نے اسے ام ایمن سے بیان کیا ہے۔ “ [الخصائص الكبري للبهيقي : 252/2 ]
حافظ سیوطی یہ باور کرا رہے ہیں کہ یہ سند ایک ہی ہے جس کا دارومدار ابومالک نخعی پر ہے جو کہ متروک ہے، نیز الولید بن عبدالرحمٰن کا ام ایمن سے سماع بھی درکار ہے۔
ابویعلٰی کے علاوہ باقی سب میں نبیح العنزی اور ام ایمن کے درمیان انقظاع بھی ہے۔
تنبیہ :
فما مرضت قط حتي كانت مرضها الذى ماتت فيه .
” تو اس کے بعد خاتون مرض الموت تک کبھی بیمار نہیں ہوئی۔“ [التلخيص الحبير لابن حجر : 32/1 ]
اس کی سند سخت ” منقطع “ اور ”مدلّس“ ہے۔
اس میں عبدالرزاق اور امام ابنِ جریج دونوں مدلَّس ہیں اور مخبر نامعلوم و مجہول ہے۔
ان النبى صلى الله عليه و سلم كان له قدح من عيد ان يبول فيه، ثم يوضع تحت سريره، فجا ئت امرأة يقال لها بركة . جائت مع أم حبيبة من الحبشة، فشربته بركة، فسألها، فقالت : شربته، فقال : لقد احتضرني من النار بحضار، أو قال : جنة، أو هذا معناه .
” نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لکڑی کا ایک پیالا تھا جس میں آپ پیشاب کرتے تھے، پھر اسے چارپائی کے نیچے رکھ د یا جاتا۔ ایک برکتہ نامی عورت آئی۔ وہ سیدنا امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ حبشہ سے آئی تھی۔ اس نے وہ پیالا نوش کر لیا۔ سید نا زینب رضی اللہ عنہا نے اس سے پوچھا: تو اس نے کہا: میں نے اسے پی لیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو نے آگ سے بچاو حاصل کر لیا ہے یا فرمایا ڈھال بنا لی ہے یا اس طرح کی کوئی بات کہی۔ “
[ الآحاد والمثاني لابن ابي عاصم : 3342، و سنده حسن، الاستيعاب فى معرفة الصحابة لابن عبد البر : 251/4، و سنده حسن، المعجم الكبير للطبراني : 189/24، السنن الكبري للبهيقي 67/7 و سنده صحيح ]
غالباً یہ کام اس لونڈی کی غلطی سے سر زد ہو گیا تھا اور غلطی سے ایک ناپسندیدہ کام کرنے پر جو کراہت اور تکلیف بعد میں اسے ہوئی اس کے عوض میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے جہنم سے آزادی مل گئی کیونکہ مومن کی کوئی مشقت و تکلیف نیکی سے خالی نہیں ہوتی۔ والله اعلم بالصواب !
تنبیہ :
حرم الله بدنك على النار .
” اللہ تعالیٰ تیرے بدن کو آگ پر حرام کرے۔ “ [ مجمع الزوائد 483/8 ]
◈ حافط ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
و رواه الطبراني فى الأوسط، و فيه معمر بن محمد، و هو كذاب .
” اسے امام طبرانی نے اپنی کتاب الاوسط میں بیان کیا ہے۔ اس میں معمر بن محمد راوی ہے اور وہ کذاب ہے۔ “ [مجمع الزوائد : 270/8 ]
◈ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
و فى السند الضعف .
” اس کی سند میں کمزوری ہے۔ “ [ التلحيص لابن حجر : 32/1 ]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات کے پاک ہونے پر کوئی دلیل شرعی نہیں۔ لیکن :
جناب زکریا تبلیغی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
” حضور کے فضلات، پاخانہ، پیشاب وغیرہ سب پاک ہیں۔ “ [تبليغي نصاب از زكريا : 185 ]
اس بے دلیل اور غلو امیز دعویٰ کے ردّ میں جناب اشرف علی تھانوی دیو بندی صاحب کا قول بھی سن لیں۔ وہ کہتے ہیں :
” طہارت (پاک ہونے ) کا دعویٰ بلا دلیل ہے۔“ [بواد النوادر از تهانوي : 393 ]