وعنه رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: لا يشربن احد منكم قائما [ أخرجه مسلم] ، [بلوغ المرام : 1246]
”اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص کھڑا ہو کر ہرگز نہ پیئے۔ “ [مسلم]
تخریج : [مسلم، الاشربه : 116] ، [بلوغ المرام : 1246] دیکھئے [تحفة الاشراف 89/11]
فوائد : صحیح مسلم میں اس حدیث کے ساتھ یہ الفاظ بھی ہیں : فمن نسي فليستقي ”جو بھول جائے قے کر دے۔“ صحیح مسلم میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا قتادہ فرماتے ہیں ہم نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ پھر کھانے کا کیا حکم ہے تو فرمایا ذاك اشر واخبث ”وہ تو اس سے بھی بدتر ہے۔“ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کھانے میں پینے کی بہ نسبت زیادہ دیر کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ [فتح]
➋ کھڑا ہو کر پینے کی ممانعت کی طبی وجہ یہ ہے کہ آدمی بیٹھ کر پیئے تو عموماً اطمینان سے پیتا ہے جس سے اچھو لگنے کا خطرہ کم ہوتا ہے اسی طرح حلق، غذا کی نالی اور معدہ و جگر میں درد کا امکان کم ہو جاتا ہے جب کہ کھڑے ہو کر پینے سے جلد بازی کی وجہ سے ان تکلیفوں کا امکان زیادہ ہوتا ہے قے کرنے سے ان تکلیفوں کے زائل ہونے کی امید ہے۔ کیونکہ اس سے رکی ہوئی وہ خلط رواں ہو جاتی ہے جو قے کے بغیر رواں نہیں ہو سکتی۔ ممانعت کی ایک وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرمائی ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کھڑے ہو کر پیتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : قے کر دو عرض کیا کیوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم پسند کرتے ہو کہ تمہارے ساتھ بلا پیئے، اس نے کہا نہیں، فرمایا : تمہارے ساتھ اس نے پیا ہے جو اس سے بدتر ہے۔ شیطان ( نے تمہارے ساتھ پیا ہے)۔ [مسند احمد 7990]
اس حدیث کی سند کے رجال شیخین کے رجال ہیں سوائے ابوزیاد کے انہیں یحییٰ بن معین نے ثقہ اور ابوحاتم نے صالح الحدیث کہا ہے۔ [سلسلة الأحاديث الصحيحة 175]
➌ ان احادیث کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کھڑے ہو کر پینا صحیح احادیث سے ثابت ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمزم پلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہونے کی حالت میں پیا۔ [بخاري 5617، مسلم الاشربه 117 ]
علی رضی اللہ عنہ نے ظہر کی نماز پڑھی پھر کوفہ کے رحبہ میں لوگوں کی ضروریات کے لئے بیٹھے ہے۔ یہاں تک کہ عصر کا وقت ہو گیا تو ان کے پاس پانی لایا گیا۔ انہوں نے منہ اور ہاتھ دھوئے۔ راوی نے سر اور پاؤں کا بھی ذکر کیا۔ پھر کھڑے ہو کر بچا ہوا پانی پی لیا پھر فرمایا : کچھ لوگ کھڑے ہو کر پینے کو برا جانتے ہیں حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کیا جس طرح میں نے کیا۔ [بخاري : 5616]
کبشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مشکیزے کے منہ سے جو لٹکا ہوا تھا کھڑے ہو کر پیا۔ [ترمذي / الاشربه صحيح الترمذي 1542]
ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چلتے ہوئے کھا لیتے تھے اور کھڑے ہوئے پی لیتے تھے۔ [ترمذي/ الاشربه، صحیح الترمذي 1533]
مؤطا میں ہے کہ عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم کھڑے ہو کر پی لیتے تھے سعد اور عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ [فتح الباري 86/10]
➍ جب ممانعت اور جواز کی احادیث صحیح سند کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں تو اب ان پر عمل کیسے ہو گا۔ اہل علم نے اس میں مختلف طریقے اختیار فرمائے ہیں۔
پہلا طریقہ : حافظ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نہی کی احادیث سے جواز کی احادیث منسوخ ہو گئیں کیونکہ اشیاء میں اصل اباحت ہے۔ اس لئے پہلے کھڑے ہو کر پینا جائز تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا تو اب کھڑے ہو کر پینا حرام ہے کیونکہ نہی کا اصل یہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نسخ صرف احتمال سے ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے تاریخ معلوم ہونا ضروری ہے۔ جو یہاں معلوم نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں کھڑے ہو کر پانی پیا ہے۔ اس لئے یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔ کھڑے ہو کر پینے سے انسان گو گناہ گار نہیں بنتا البتہ اجر و ثواب سے ضرور محروم رہتا ہے جب کہ بیٹھ کر پینے سے اجر و ثواب ملتا ہے اور سنت پر عمل ہوتا ہے۔
دوسرا طریقہ : کھڑے ہو کر پینے سے نہی کی احادیث نہی تنزیہی ہے۔ اس لئے قے کرنے کا حکم بھی استحباب پر محمول ہو گا۔ یعنی اجر و ثواب یہی ہے کہ قے کر دے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ منع کرنے کے باوجود جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کھڑے ہو کر پانی پیا تو اس سے ثابت ہوا کہ کھڑے ہو کر پینا گناہ نہیں خلفاء راشدین اور صحابہ کرام کے عمل سے اس کی مزید تائید ہوتی ہے۔ البتہ اس سے بچنا اجر و ثواب ہے کیونکہ اگر یہ بھی نہ مانا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع فرمانے کا کوئی فائدہ ہی باقی نہیں رہتا۔
اکثر اہل علم نے اس مسئلہ میں یہی موقف اختیار فرمایا ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سب سے اچھا مسلک ہے اور اس پر اعتراض کی گنجائش سب سے کم ہے۔
تیسرا طریقہ : کھڑے ہو کر پینا منع ہے لیکن اگر کوئی عذر ہو تو کھڑا ہو کر پی سکتا ہے جن مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیا ہے ان پر اگر غور کریں تو یہی بات سمجھ آتی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ زمزم کنوئیں پر آپ کو ڈول پکڑایا گیا تو آپ نے کھڑے ہو کر پیا ظاہر ہے کہ حاجیوں کے انبوہ میں کنوئیں کے پاس جہاں چاروں طرف پانی بکھرا ہوا ہو ڈول سے بیٹھ کر پینا آسان نہیں اس لئے آپ نے کھڑے ہو کر پی لیا۔
کبشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ آپ نے لٹکے ہوئے مشکیزے کے منہ سے پانی پیا، جو بیٹھ کر پینا مشکل تھا۔ على رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آپ نے وضوء کا بچا ہوا پانی کھڑے ہونے کی حالت میں پیا اگرچہ احتمال موجود ہے کہ آپ نے وضو بیٹھ کر کیا ہو مگر یہ امکان بھی ہے کہ آپ نے مشکیزے سے وضو کیا ہو اور اسی میں سے کھڑے کھڑے پانی پی لیا ہو۔
یہی بات زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کہ نہی کو اس کے اصل معنی پر رکھا جائے کہ کھڑے ہو کر پینا ناجائز ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کو کسی عذر پر محمول کیا جائے۔ کیونکہ کھڑے ہو کر پینے پر قے جیسے تکلیف دہ عمل کے حکم اور کھڑے ہو کر پینے کی صورت میں شیطان کے ساتھ پینے کے ذکر کے بعد نہی کو تنزیہ پر محمول کرنا مشکل ہے۔
جن صحابہ سے کھڑے ہو کر پینے کا ذکر آیا ہے ممکن ہے انہیں نہی کی احادیث نہ پہنچی ہوں اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھ کر اس عمل کو مطلقاً جائز سمجھ لیا ہو۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہی پہنچ جانے کے بعد بلاعذر کھڑے ہو کر کھانے پینے سے اجتناب کرنا ہو گا۔ ہاں اگر بیٹھنے سے معذور ہوں، تو کھڑے ہو کر کھا پی سکتے ہیں۔ والله اعلم
چوتھا طریقہ : آب زمزم اور وضو سے بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پی سکتے ہیں ان دونوں کے سوا کھڑے ہو کر پینا منع ہے۔
پانچواں طریقہ : کھڑے ہو کر پینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے دوسرے کھڑے ہو کر نہیں پی سکتے۔