کھانے پینے اور پہننے میں فضول خرچی

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده رضي الله عنهم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏كل واشرب والبس وتصدق فى غير سرف ولا مخيلة [اخرجه ابو داود واحمد وعلقه البخاري. ]
”عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (عبد اللہ بن عمرو) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کھا، پی، پہن اور صدقہ کر جس میں فضول خرچی نہ ہو اور تکبر نہ ہو۔ “ اسے ابوداود اور احمد نے روایت کیا ہے اور بخاری نے اسے تعلیقًا (دانستہ سند حذف کر کے) روایت کیا ہے۔
تخریج : [بخاري تعليقًا اللباس باب 1] ، [احمد 181/2، 182] ، [ابو داود]
مفردات : سَرَفٌ اور إِسْرَافٌ کسی بھی قول یا فعل میں حد سے گزرنا، خرچ میں حد سے تجاوز کرنے میں یہ لفظ زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے مقتول کے وارثوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ قتل کرنے میں حد سے تجاوز نہ کرے اور فرمایا : وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ”کھاؤ پیو اور حد سے نہ بڑھو۔ “ [فتح]
مخيلةٌ مصدر میمی ہے بروزن مفعلة خيلاء کا ہم معنی ہے یعنی تکبر۔ آدمی جب اپنے آپ میں کسی خوبی کا خیال جما لیتا ہے تو یہ بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔ تخیل نفس میں کسی چیز کے خیال کی نقش بندی کو کہتے ہیں۔ [راغب]
فوائد :
➊ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے دنیا کی ہر طیب چیز حلال فرما دی ہے کھانے کی ہو یا پینے کی ہو یا رہنے کی یا کوئی سواری ہو۔ صرف وہ چیزیں حرام فرمائیں جو خبیث ہیں اور انسان کے جسم یا عقل یا مال یا عزت یا دین کے لیے نقصان دہ ہیں کیونکہ یہ پانچوں چیزیں انسان کی عزیز ترین چیزیں ہیں اور ان کی حفاظت ضروری ہے۔
وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ [7-الأعراف:157]
”وہ پاکیزہ چیزیں ان کے لئے حلال کرتا ہے اور گندی چیزیں ان پر حرام کرتا ہے۔ “
➋ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دنیا کی ہر مباح چیز انسان استعمال کر سکتا ہے اور جتنی چاہے استعمال کر سکتا ہے یہ نہیں کہ فلاں تو کر سکتا ہے اور فلاں نہیں اور اتنی کر سکتا ہے اور اتنی نہیں :
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا [2-البقرة:29]
” وہی ذات ہے جس نے دنیا کی سب چیزیں تمہارے لیے بنائیں۔ “
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ [7-الأعراف:32]
”تو کہہ جس زینت کو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا اس کو اور پاکیزہ رزق کو کس نے حرام کیا ہے۔ “
➌ یہ حلال چیزیں اس وقت ناجائز ہوں گی جب وہ ضرورت کی حد سے تجاوز کر جائیں مثلاً اتنا کھانا یا پینا جو جسم کے لئے وبال بن جائے اور صحت کو نقصان پہنچائے یا کھانے پینے یا صدقہ کرنے میں اتنا خرچ کر دینا جو استطاعت سے زیادہ ہو پھر زیربار ہو کر پریشان رہنا یا کھانے پینے، پہننے یا صدقہ کرنے میں نمود و نمائش اور لوگوں سے اونچا ہونے کا مقصد دل میں رکھنا ان سب چیزوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا :
➍ کھانے پینے کی حد جس سے گزرنا نہیں چاہئیے ترمذی کی ایک حدیث میں بیان ہوئی ہے مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما ملا آدمي وعاء شرا من بطن بحسب ابن آدم اكلات يقمن صلبه فإن كان لا محالة فثلث لطعامه وثلث لشرابه وثلث لنفسه
”کسی آدمی نے کوئی برتن نہیں بھرا جو پیٹ سے زیادہ برا ہو ابن آدم کے لئے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں پس اگر اسے (زیادہ کھائے بغیر) کوئی چارہ ہی نہ ہو تو تیسرا حصہ کھانے کے لئے ہے اور تیسرا پینے کے لئے اور تیسرا سانس کے لیے۔ “ [ترمذي/الزهد 47 حديث صحيح ديكهيے صحيح الترمذي 1939 ]
اگر زیادہ دیر کا بھوکا پیاسا ہو تو زیادہ بھی کھا پی سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو سخت بھوک کے بعد بار بار دودھ پینے کے لیے کہا یہاں تک کہ انہوں نے کہا لا والذي بعثك بالحق ما اجد له مسلكا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس کے داخل ہونے کے لئے (پیٹ میں) کوئی جگہ نہیں پاتا۔ [صحيح بخاري 6452 ]
➎ لباس میں حد سے گزرنا یہ ہے کہ ٹخنوں سے نیچے ہو یا ریشم کا ہو یا عورتوں کے مشابہ ہو یا اس میں کفار سے مشابہت ہو۔
➏ صدقے میں اسراف کی وضاحت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہوتی ہے :
وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا [17-الإسراء:29]
”اور نہ اپنے ہاتھ کو گردن کی طرف طوق سے بندھا ہوا بنا لو اور نہ اسے پورا ہی کھول دو ورنہ اس حال میں بیٹھ رہو گے کہ ملامت کئے ہوئے تھک کر رہ جانے والے ہو گے۔ “
حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں صدقہ کے علاوہ کھانے پینے، پہننے اور دوسرے کاموں میں خرچ کی وہ حد بیان کی گئی ہے جس سے آدمی بڑھتا ہے تو اسراف میں داخل ہو جاتا ہے۔

 

 

اس تحریر کو اب تک 14 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply