مہلت کے بدلے سامان کی قیمت میں اضافہ
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

مہلت کے بدلے سامان کی قیمت میں اضافہ کرنے کا حکم

اس مسئلے کو اہل علم کے ہاں مسئلہ تورق کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ آدمی کسی کو وہ چیز ایک مقرر مدت تک اور مقرر قیمت کے بدلے ادھار بیچ دے جو اس کی ملکیت اور قبضے میں تھی، پھر خریدار اسے اپنے قبضے میں لے لے اور اس کے بعد اس میں تصرف کرے، عموماً یہ کام پیسوں کی ضرورت کی خاطر کیا جاتا ہے، اس طریقے سے یہ بیع علما کے درست قول کے مطابق شرعاً جائز ہے اور ان آیات مبارکہ میں داخل ہے۔
«وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا» [البقرة: 275]
”حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا۔“
نیز فرمایا:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ» [البقرة: 282]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب آپس میں ایک مقرر مدت تک قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو۔“
البتہ قرض دینے والے کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خواہش مند شخص کو تاجروں کے پاس پڑا ہوا مال بیچ دے، جسے اس نے ان سے خریدا ہو نہ اپنے قبضے ہی میں لیا ہو، بلکہ یہ اس فرمان نبوی کی وجہ سے باطل ہے:
«لا يحل سلف و بيع، ولا بيع ما ليس عندك» [سنن الترمذي، رقم الحديث 1234 سنن النسائي، رقم الحديث 4611]
”سلف (قرض) اور بیع (ایک ہی وقت میں) جائز نہیں، اور جو تیرے پاس نہیں اس کی کوئی بیع نہیں۔“
مسئلہ تورق میں بیع اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ مال بائع کے پاس ہو اور اس کے قبضے میں ہو۔ پھر خریدار کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ اسے قرض دینے والے کے ہاں ہی بیچ دے جب تک اسے اپنے قبضے میں نہ لے لے یا بازار میں نہ لے جائے، خریدار قرض دینے والے کو اس قیمت سے کم پر نہیں بیچ سکتا جس قیمت پر اس نے اس سے وہ سامان خریدا تھا، کیونکہ یہ سود خوری کے لیے حیلہ سازی ہے اور قرض دینے والے کو اس قیمت سے کم قیمت پر بیچ دینا جس قیمت پر اس نے وہ چیز اس سے خریدی تھی، صحیح نہیں، اس بیع کو بیع عینہ کہا جاتا ہے اور یہ سودی بیع ہے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوى و المقالات: 95/19]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: