معاشرتی دیوثیت اور بے حیائی: ایک خطرناک المیہ
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام

ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا اور عام ہو جانے والا گناہ دیوثیت اور بے حیائی ہے۔ یہ وہ زہر ہے جس نے گھروں کو کھوکھلا کر دیا ہے، عزتوں کو برباد کر دیا ہے اور نسلوں کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

آج گھروں میں غیر محرموں کا آزادانہ آنا جانا معمول بن چکا ہے۔

بے ہودہ لباس نے شرم و حیا کو دفن کر دیا ہے۔

ہر فراڈی، چالاک اور دھوکہ باز شخص کو گھروں میں آنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

حالانکہ اسلام نے تو دیور کو بھی اجازت نہیں دی کہ وہ عورت کے پردے والے حصے میں داخل ہو۔

اب حالت یہاں تک آ گئی ہے کہ:

مرد خود بڑے شوق سے اپنی بیویوں، بیٹیوں اور بہنوں کی تصاویر اور ویڈیوز ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتے ہیں۔

گھروں کے فنکشنز، ڈانس، میک اپ، اور خواتین کے بے پردہ مناظر عام کر دیے گئے ہیں۔

یہ سب غیرت اور حیا کی موت ہے، اور یہی دیوثیت ہے جس پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے۔

❌ اس کے معاشرتی نقصانات ❌

➊ گھروں کا سکون ختم ہو جاتا ہے، محبتیں شک میں بدل جاتی ہیں۔
➋ طلاقیں بڑھتی ہیں اور بچے برباد ہوتے ہیں۔
➌ نوجوان نسل بے راہ روی اور زنا کی طرف بڑھتی ہے۔
➍ غیرت اور حیا ختم ہو جاتی ہے۔
➎ جرائم اور حرام تعلقات عام ہو جاتے ہیں۔
➏ سب سے بڑھ کر اللہ کا غضب اور عذاب نازل ہوتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"لا يدخل الجنة ديوث”
(مسند احمد 5669)
یعنی "دیوث جنت میں داخل نہیں ہوگا۔”

عورتوں کے لیے واضح مثالیں 

لباس: اسلامی لباس ڈھیلا ڈھالا اور ایسا ہو کہ جسم کی ساخت ظاہر نہ کرے۔
پردہ: قرآن کہتا ہے کہ عورت اپنی زینت چھپائے اور دوپٹہ گریبان پر ڈالے
(النور: 31)۔
سوشل میڈیا:
ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر اپنی تصاویر یا ویڈیوز اپلوڈ کرنا پردہ نہیں، یہ فتنہ ہے۔

مرد اگر اپنی عورتوں کی بے پردہ تصاویر خود شوق سے اپلوڈ کرے تو یہ اس کی غیرت کے مرنے کی علامت ہے۔

"پردہ دل کا ہوتا ہے” کہنے والے دراصل شیطان کے دھوکے میں ہیں۔

📌 خلاصہ

یہ تلخ حقیقت ہے کہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی، سب اس جرم کے مرتکب ہیں۔
اگر گھروں کو عزت کے قلعے بنانا ہے تو عورتوں کو لباس اور پردے میں باحیا ہونا پڑے گا، اور مردوں کو اپنی غیرت جاگانی ہوگی۔
گھروں کے دروازوں پر سب سے پہلی تختی ہونی چاہیے:

👉 "نو انٹری برائے غیر محرم”
👉 "بیوی، بیٹی اور بہن کی عزت ٹک ٹاک نہیں، امانت ہے”

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے