الْحَدِيثُ السَّادِسُ: عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ { حَمَلْتُ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، فَأَضَاعَهُ الَّذِي كَانَ عِنْدَهُ ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِيَهُ ، [ ص: 537] فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يَبِيعُهُ بِرُخْصٍ . فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: لَا تَشْتَرِهِ . وَلَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ ، وَإِنْ أَعْطَاكَهُ بِدِرْهَمٍ . فَإِنَّ الْعَائِدَ فِي هِبَتِهِ كَالْعَائِدِ فِي قَيْئِهِ } .
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اللہ کی راہ میں ایک گھوڑ اوقف کیا تو جس کے پاس وہ گھوڑا تھا اس نے اسے ضائع کر کے رکھ دیا، میں نے اسے خریدنا چاہا اور میں نے یہ سمجھا کہ وہ اس گھوڑے کو ارزاں نرخ پر بیچ دے گا، چنانچہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے (اس کے بارے میں مسئلہ ) پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے مت خرید اور تو اپنا صدقہ واپس نہ لے اگر چہ وہ تجھے ایک درہم کے بدلے ہی دے، کیونکہ اپنے عطیے کو واپس لینا یقیناً ایسے ہی ہے جیسے اپنی قے کو دوبارہ چاٹنا۔
ایک روایت میں ہے: یقیناً وہ شخص جو اپنے صدقے کو واپس لیتا ہے، اس کتے کے مانند ہے جو قے کرتا ہے، پھر اپنی قے کو سپاٹ لیتا ہے۔
شرح المفردات:
برخص: ستے داموں، ارزاں نرخ۔
شرح الحديث:
حدیث میں وارد ممانعت کے ظاہر سے عطیہ میں دی ہوئی چیز واپس لینے کی حرمت معلوم ہوتی ہے، لیکن جمہور علماء نے اسے تحریم کی بجائے تنزیہہ پر محمول کیا ہے۔ [ارشاد الساري للقسطلاني: 75/3]
اور قتادہ فرماتے ہیں کہ میری رائے میں قے حرام ہے۔ [سنن ابي داؤد: 3538]
جب قے حرام ہے تو اس کو چاٹنا بھی حرام ہوا اور قے کو چاٹنے کے ساتھ جس چیز کو تشبیہ دی گئی ہے وہ بھی حرام ٹھہری۔
(285) صحيح البخارى كتاب الزكاة، باب هل يشترى صدقته ، ح: 1490 – صحيح مسلم ، كتاب الهبات ، باب كراهة شراء الانسان ما تصدق به، ح: 1620