طلاق کی نیت سے نکاح کرنا
فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : ایک شخص حکومتی نمائندے کے طور پر ملک سے باہر جانا چاہتا ہے، وہ شرمگاہ کے تحفظ (بے حیائی سے بچنے) کی خاطر بیرون ملک معینہ مدت تک شادی کرنا چاہتا ہے، اس عرصے کے بعد وہ اسے طلاق دے دے گا، لیکن وہ عورت کو اس کے متعلق آگاہ نہیں کرتا کہ وہ اسے طلاق دے گا۔ اس کے اس فعل کا کیا حکم ہے ؟
جواب : طلاق کی نیت سے نکاح کرنا دو حالتوں سے خالی نہیں، یا تو وہ نکاح کے وقت شرط لگائے کہ وہ لڑکی سے ایک ماہ، ایک سال یا تعلیم مکمل ہونے تک شادی کرے گا۔ یہ نکاح متعہ ہے اور حرام ہے۔ یا پھر بوقت نکاح اس بات کو مخفی رکھے اور بطور نکاح کی شرط کے اس کا تذکرہ نہ کرے تو حنابلہ کے مشہور مذہب کی رو سے یہ بھی حرام ہے اور نکاح فاسد ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ”مخفی بھی مشروط کی طرح ہے۔ “ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
إنما الأعمال بالنيات، وإنما لكل امرىء ما نوٰى [البخاري حديث 1]
”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، ہر آدمی کے لئے وہی کچھ ہے جو اس نے نیت کی۔ “
نیز اس لئے بھی کہ اگر کوئی شخص مطلقہ ثلاثہ سے اس بنا پر نکاح کرے کہ وہ اس عورت کو پہلے خاوندر کے لئے حلال کرنے کی خاطر طلاق دے دے گا (یعنی حلالہ کرے) تو یہ نکاح فاسد ہو گا اگرچہ یہ نکاح بغیر کسی شرط کے تھا، کیوں کہ نیت والا مشروط کی طرح ہے۔ جس طرح حلالہ کی نیت نکاح کو فسخ کر دیتی ہے اس طرح متعہ کی نیت بھی نکاح کو فسخ کر دیتی ہے یہ حنابلہ کا قول ہے۔
اس مسئلے میں اہل علم کا دوسرا قول یہ ہے کہ طلاق کی نیت سے نکاح کرنا جائز ہے، مثلاً ان اجنبی مسافروں کے لئے جو حصول تعلیم وغیرہ کے لئے باہر جائے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ایسا نکاح اس لئے جائز ہے کہ اس نے ایسی کوئی شرط عائد نہیں کی۔ اس نکاح اور نکاح متعہ میں فرق یہ ہے کہ نکاح متعہ کی صورت میں معینہ عرصہ پورا ہونے پر فریقین میں ازخود جدائی ہو جاتی ہے، خاوند چاہے یا نہ چاہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، جبکہ ایسے نکاح میں ممکن ہے کہ خاوند بیوی میں دلچسپی کا اظہار کرے تو وہ اس کے ساتھ رہ سکتی ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے دو قولوں میں سے ایک قول یہی ہے۔
میرے نزدیک ایسا نکاح صحیح ہے۔ متعہ نہیں، اس لئے کہ اس پر متعہ کی تعریف صادق نہیں آتی لیکن یہ نکاح اس اعتبار سےحرام ہے کہ اس میں بیوی اور اس کے خاندان کو دھوکہ دیا جاتا ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکہ دہی کو حرام قرار دیا ہے۔ اگر اس عورت یا اس کے خاندان کو اس بات کا علم ہو جائے کہ یہ شخص بس ایک مدت تک اس سے شادی کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کے لئے کبھی بھی آمادہ نہ ہوں گے۔ بعینہ یہ شخص بھی یہ نہیں چاہے گا کہ کوئی شخص اس کی بیٹی سے شادی کرے اور پھر مطلب پورا ہوئے کے بعد اسے طلاق دے دے۔ آخر یہ شخص دوسروں سے وہ سلوک کیوں کرنا چاہتا ہے جسے وہ خود اپنے لئے پسند نہیں کرتا ؟ یہ رویہ ایمان کے تقاضوں کے منافی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشار ہے :
لا يؤمن أحدكم حتي يجب لأخيه ما يحب لنفسه [البخاري -حديت 13 ]
”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے وہ کچھ پسند نہ کرے جو کچھ وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ “
میں نے سنا ہے کہ بعض لوگ اس کام کو ایسے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کا کوئی بھی قاتل نہیں وہ یہ کہ بعض لوگ صرف شادی رچانے کے لیے ہی بیرون ملک جاتے ہیں، پھر جس عورت کے ساتھ انہوں نے ایک معینہ مدت تک شادی کی ہوتی ہے اس عرصے تک اس کے ساتھ رہتے ہیں اور پھر واپس لوٹ آتے ہیں۔ یہ رویہ بھی سخت ممنوع ہے، چونکہ اس میں سنگین قسم کا دھوکہ اور فراڈ ہے لہٰذا ایسے غیر پسندیدہ اعمال کا سدباب کرنا ضروری ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں کہ لوگ جاہل ہیں اور اکثر لوگوں کو ان کی نفسانی خواہشات حدود اللہ کو پامال کرنے سے نہیں روکتیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے