لَيْسَ فِيمَا أَقَلُّ مِنْ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ
” پانچ وسق سے کم پیداوار میں زکوٰۃ (عشر) نہیں ہے۔ “ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة: 1484]
فوائد :
عشر کے لئے یہ زرعی پیداوار کا نصاب ہے۔ اس سے کم پر عشر دینا ضروری نہیں، کیونکہ اس سے کم مقدار تو کاشتکار کے گھر کا سالانہ خرچہ ہی تصور کیا جائے گا۔ ہاں پانچ وسق یا اس سے زیادہ پیداوار میں عشر واجب ہو گا۔ واضح رہے کہ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ جدید اعشاری نظام کے مطابق ایک صاع دو کلو سو گرام کا ہوتا ہے۔ اس حساب سے پانچ وسق یعنی تین صد صاع میں چھ صد تیس کلو گرام ہوتے ہیں جبکہ کچھ اہل علم کے ہاں ایک صاع اڑھائی کلو کے مساوی ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کے ہاں زرعی پیداوار کا نصاب ساڑھے سات سو کلو مقرر کیا جانا زیادہ مناسب ہے۔ عشر کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ :
”فصل کاٹتے ہی اس سے اللہ کا حق ادا کر دو۔“ [ الانعام : 141 ]
اس آیت کریمہ میں ”حق“ کی مقدار مقرر نہیں کی گئی بلکہ اس کی تعین خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے۔
چنانچہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
”وہ زمین جسے بارش یا قدرتی چشمہ کا پانی سیراب کرتا ہو یا کسی دریا کے کنارے ہونے کی وجہ سے خود بخود سیراب ہو جاتی ہو۔ اس قسم کی پیداوار سے دسواں حصہ بطور عشر لیا جائے گا اور وہ زمین جسے کنویں وغیرہ سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو، اس کی پیداوار سے بیسواں حصہ لیا جائے گا۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة: 1483]
ہمارے ہاں عام طور پر زمینوں کی آبپاشی پر محنت و مشقت کے علاوہ اخراجات بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں، اس بناء پر پیداوار پر نصف عشر یعنی بیسواں حصہ بطور زکوٰۃ دینا ہو گا۔ اس سے کسی قسم کے دوسرے اخراجات منہا نہیں کئے جائیں گے۔