روزے کی فضیلت :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ، فَلَا يَرْفُثْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَسْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ، فَلْيَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ "، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ، أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ، وَلِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ بِفِطْرِهِ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ
”ابن آدم کے تمام اعمال اسی کے لئے ہوتے ہیں مگر روزہ، یہ محض میرے لئے ہوتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا، روزہ ڈھال ہے، تو جب تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو بےہودہ فحش کلامی سے بچے، شور نہ کرے، اگر کوئی اس کے ساتھ گالی گلوچ پر بھی اتر آئے یا لڑائی کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ اسے بتا دے کہ میں روزے سے ہوں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، روزے دار کی منہ کی بو قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں کستوری سے بھی عمدہ ہوگی۔ روزے دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں ایک تو جب وہ روزہ افطار کرتا ہے تو کھانے پینے سے خوش ہوتا ہے اور دوسرے جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے رکھنے سے خوش ہو گا۔“ [صحيح مسلم 2706 ]
”باب الریان “ روزہ داروں کے لئے جنت کا خصوصی دروازہ
حضرت سہیل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا، يُقَالُ لَهُ: الرَّيَّانُ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لَا يَدْخُلُ مَعَهُمْ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، يُقَالُ: أَيْنَ الصَّائِمُونَ؟ فَيَدْخُلُونَ مِنْهُ، فَإِذَا دَخَلَ آخِرُهُمْ أُغْلِقَ، فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ
”جنت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے جس میں سے قیامت کے روز صرف روزے دار ہی داخل ہوں گے اور دوسرے لوگ ان کے ساتھ شامل نہ ہوں گے،کہا جائے گا، کہاں ہیں روزے دار ؟ تو انہیں اس میں سے داخل کیا جائے گا، اور جب سب داخل ہو چکیں گے تو دروازہ بند کر دیا جائے گا اور کوئی دوسرا اس میں سے داخل نہیں ہو سکے گا۔ “ [صحيح مسلم 2710]
”ریان “ کا لفظی معنی ”سیراب کرنے والا“ ہے۔۔۔ یعنی روزے دار جو پیاس وغیرہ کی مشقت برداشت کرتا رہا تو جزا کے طور پر اسے سیراب کرنے والی نعمتوں سے نوازا جائے گا اور اسی مناسبت سے اس دروازے کا نام ہی ”ریان“ رکھا گیا ہے۔
ایک دن کا روزہ بھی جہنم سے بچاو اور دوری کا باعث ہے
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مَا مِنْ عَبْدٍ يَصُومُ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا بَاعَدَ اللَّهُ بِذَلِكَ الْيَوْمِ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا
”جو بندہ اللہ کی راہ میں ایک دن کا بھی روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس دن کے بدلے اس کے چہرے کو جہنم سے 70 سال کی مسافت پر دور فرما دے گا۔“ [صحيح مسلم 2711 ]
محرم کے رازوں کی فضیلت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نقل فرما تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ صِيَامُ شَهْرِ اللَّهِ الْمُحَرَّمِ
”ماہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے حرمت والے مہینے محرم کے ہیں۔“ [صحيح مسلم 2756 ]
عاشوراء کے روزے
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے دسویں محرم ( عاشوراء ) کے روزے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضیلت کے اعتبار سے عاشوراء کے علاوہ کسی اور دن کا انتخاب کیا ہو ؟ یا رمضان کے بعد محرم کے علاوہ کسی اور مہینے کو ترجیح دی ہو۔ [متفق عليه]
اور صحیح مسلم میں حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی روایت وارد ہے جس میں یوم عاشوراء کی فضیلت کا بیان ہے۔ مزید یہ بھی ہے کی یہ سال گزشتہ کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔
شعبان کے روزوں کا بیان
صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت بیان ہوئی ہے کہ:
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں روزے رکھنا شروع کرتے تو ہم سمجھتے کہ اب تو مسلسل روزے ہی رکھتے جائیں گے اور جب کبھی چھوڑ دیتے تو ہم کہتے کہ اب تو روزے نہ رکھیں گے۔ (عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ) میں نہیں جانتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں۔ البتہ ماہ شعبان میں سب سے زیادہ روزے رکھتے تھے۔“
صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے الفاظ یوں ہیں :
لَمْ أَرَهُ صَائِمًا مِنْ شَهْرٍ قَطُّ أَكْثَرَ مِنْ صِيَامِهِ مِنْ شَعْبَانَ، كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ، كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ إِلَّا قَلِيلًا
”میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینے میں زیادہ روزے رکھتے نہیں پایا۔ گویا آپ پورا شعبان روزے رکھتے سوائے چند دنوں کے۔“ [صحيح مسلم2722]
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے دریافت فرمایا، کیا تو نے اس مہینہ شعبان میں کوئی روزے رکھے ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فرمایا کہ رمضان گزر جانے کے بعد (اس کے عوض) دو روزے رکھ لینا “۔ [متفق عليه]
فضائل رمضان
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :
إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ، فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ، وَصُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ
”جب رمضان شروع ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطیں کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ “ [ صحيح مسلم 2495]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، إِيمَانًا، وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
”جو شخص بموجب ایمان اور حصول اجر کے لئے رمضان کے روزے رکھے گا اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔“ [صحيح مسلم 1781]
شوال کے چھ روزوں کا بیان
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ :
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَأَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوّالٍ. كَانَ كَصِيَامِ الدّهْرِ
”جس نے رمضان کے روزے رکھے اور بعد ازاں شوال میں چھ روزے رکھ لئے تو گویا اس نے سدا روزے رکھے۔“ [صحيح مسلم 2758 ]
ذوالحج کے پہلے دس دنوں میں عمل کی فضیلت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :
ما من ايام العمل الصالح فيهن احب إلى الله من هذه الايام العشر ” فقالوا : يا رسول الله ولا الجهاد فى سبيل الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” ولا الجهاد فى سبيل الله إلا رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذلك بشيء .
عام دنوں کی بہ نسبت ان دس دنوں میں کیا جانے والا کوئی بھی عمل صالح، اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ صحابہ نے پوچھا : کیا (عام دنوں کا ) جہاد بھی (یہ فضیلت نہں پاتا) ؟
فرمایا : ہاں جہاد بھی ! الا یہ کی کوئی شخص اپنی جان اور مال لے کے نکلا اور پھر کچھ واپس لے کہ نہ لوٹا۔ [سنن ترمذي 757]
عرفہ (نو ذوالحج ) سوموار اور ہر مہینے میں تین روزے رکھنے کی فضیلت
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے روزوں کی تفصیل پوچھی گئی۔۔۔ تو آپ خفا ہو گئے۔۔۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے :
رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَبِبَيْعَتِنَا بَيْعَةً، قَالَ: فَسُئِلَ عَنْ صِيَامِ الدَّهْرِ، فَقَالَ: ” لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ، أَوْ مَا صَامَ وَمَا أَفْطَرَ "، قَالَ: فَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمَيْنِ وَإِفْطَارِ يَوْمٍ، قَالَ: ” وَمَنْ يُطِيقُ ذَلِكَ "، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمٍ وَإِفْطَارِ يَوْمَيْنِ، قَالَ: ” لَيْتَ أَنَّ اللَّهَ قَوَّانَا لِذَلِكَ "، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمٍ وَإِفْطَارِ يَوْمٍ، قَالَ: ” ذَاكَ صَوْمُ أَخِي دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام "، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ، قَالَ: ” ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ "، قَالَ: فَقَالَ: ” صَوْمُ ثَلَاثَةٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانَ إِلَى رَمَضَانَ صَوْمُ الدَّهْرِ "، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ، فَقَالَ: ” يُكَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ وَالْبَاقِيَةَ "، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: ” يُكَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ "، وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ مِنْ رِوَايَةِ شُعْبَةَ، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ، فَسَكَتْنَا عَنْ ذِكْرِ الْخَمِيسِ لَمَّا نُرَاهُ وَهْمًا
”ہم راضی ہیں اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کو بطور دین قبول کرنے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول تسلیم کرنے پر اور اپنی بیعت کے حقیقی بیعت ہونے پر ! “
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صوم دہر (ہمیشہ، مسلسل روزے رکھنے ) کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ایسے شخض نے نہ روزہ رکھا نہ افطار کیا۔ “
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ دو دن روزہ رکھنا اور ایک دن چھوڑ دینا کیسا ہے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کون ہے جو اس کی ہمت پاتا ہو ؟ ! “
پھر مزید پوچھا گیا کہ ایک دن روزہ رکھنا اور دو دن افطار کرناکیسا ہے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”کاش کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی طاقت دے دے۔ “
پھر پوچھا گیا : ایک دن روزہ اور ایک دن افطار کیسا ہے ؟
فرمایا : ”یہ میرے بھائی داود علیہ السلام کا روزہ ہے۔ “
پھر سوموار کے روزے کا پوچھا گیا :
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ :” میں اسی دن پیدا ہوا، اسی دن مبعوث کیا گیا، اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہونا شروع ہوئی۔“
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
”ہر مہینے میں تین دن اور رمضان کے رمضان روزہ صوم دہر (سدا روزہ رکھنا) ہے۔“
پھر آپ سے عاشورا (دسویں محرم ) کے روزے کے متعلق پوچھا گیا۔۔۔ تو فرمایا کہ :” یہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔“ [صحيح مسلم2747]
ہر ماہ میں تین دن روزے رکھنے کی ترغیب
حضرت معاذہ نے حضرت عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہا سے پوچھا،کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے تین روزے رکھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : کہ ”ہاں “وہ کہتی ہیں کی میں نے پوچھا کہ مہینے کے کن دنوں میں روزہ رکھتے تھے، تو بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھنے میں دنوں کی تعین کا اہتمام نہ فرما تے تھے۔ [صحيح مسلم]
اور گزشتہ باب نماز چاشت کے بیان میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت نقل ہو چکی ہے کہ ”میرے خلیل علیہ السلام نے مجھے ہدایت فرمائی تھی کہ ہر مہینے تین دن روزے رکھا کروں۔“ [صحيح بخاري و مسلم]
(صحیح مسلم میں حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے بھی اسی مفہوم کی روایت وارد ہے )