داڑھی کی کاٹ چھانٹ کا شرعی حکم حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

کیا داڑھی کی کاٹ چھانٹ کرنا جائز ہے اور کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی حدیث مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم داڑھی تراشتے تھے؟

جواب :

بعض لوگ داڑھی تراشنے اور اس کی کاٹ چھانٹ کرنے سے متعلق ترمذی شریف کی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اپنی داڑھی کو عرض وطول سے کاٹتے تھے۔“
(ترمذی، کتاب الأدب، باب ما جاء في الأخذ من اللحية 2762)
اگر یہ روایت درست ہوتی تو داڑھی ترشوانے اور کاٹ چھانٹ کرنے پر استدلال صحیح ہوتا، لیکن یہ روایت تو انتہائی کمزور بلکہ من گھڑت ہے۔ اس کی سند میں عمرو بن ہارون نامی رادی ہے جس کے بارے میں حافظ الحدیث امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: امام عبد الرحمن بن مہدی، امام احمد ابن منبل اور امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ متروک ہے، امام یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ کذاب، خبیث ہے اور امام صالح جزرہ رحمہ اللہ بھی اسی طرح کہتے ہیں۔ امام علی ابن مدینی اور امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بے حد ضعیف ہے۔ ابوعلی الحافظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ متروک الحدیث ہے۔ امام ساجی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس میں ضعف ہے۔ امام ابو نعیم رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ سن کر حدیثیں بیان کرتا ہے اور محض پیچ ہے۔ امام عجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ ضعیف ہے ۔
(تهذيب التهذيب 317،316/4)
امام ترندی رحمہ اللہ اس روایت کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ عمر بن ہارون کی یہ روایت بالکل بے اصل ہے۔ (ترمذی، تہذیب التہذیب ) علامہ البانی اس کو موضوع یعنی من گھڑت کہتے ہیں۔ بعض لوگ اس بے بنیاد روایت کو دلیل بنا کر داڑھی کا حلیہ اس طرح بگاڑ دیتے ہیں کہ کچھ داڑھی اوپر والے حصے سے موٹھ دی اور کچھ نیچے والے حصے سے اور چہرے پر ایک چھوٹی سی پٹی کی صورت میں چند بال رکھ لیے، جو علم کھلا شریعت سے مذاق اور شیطان کی پیروی ہے اور اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم سے بغاوت اور اظہار بیزاری ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے اور اپنے آپ کو سکالر اور اعلی تعلیم یافتہ سمجھنے والے لوگ اس سنت متواترہ کا نہ صرف مذاق اڑاتے ہیں بلکہ اسے سنت نبوی سے بھی خارج گردانتے ہیں۔
ایک مسلم کے لیے اللہ کے رسول سر انجام کے فرمان جو مبنی بر وحی ہوتا ہے، اس سے بڑھ کر کسی اور چیز کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم کی احادیث صحیحہ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ داڑی کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اس کی کاٹ چھانٹ نہ کی جائے۔ (واللہ اعلم بالصواب)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے