اہل جاہلیت کا شیوہ تھا کہ کثرت تعداد پر اعتماد کرتے اور سواد اعظم کو دلیل بناتے تھے ان کے نزدیک تعداد کی قلت اس چیز کے باطل ہونے کی دلیل تھی اس کی تردید میں اللہ تعالی نے یہ آیات نازل فرمائیں :
وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّـهِ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ ٭ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَنْ يَضِلُّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ [6-الأنعام:116]
” اور اکثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں (گمراہ ہیں) اگر تم اب کا کہنا مان لو گے تو وہ تمہیں اللہ کے رستے سے بھٹکا دیں گے یہ محض خیال کے پیچھے چلتے ہیں اور نرے اٹکل کے تیر چلاتے ہیں۔ تمہارا رب ان کو خوب جانتا ہے جو راستے پر نہیں چل رہے ہیں۔ “
اہل بصیرت کا یہ کام نہیں کے حق کی اتباع سے محض اس لئے انکار کرے کہ اس کے متبعیں کی تعداد کم ہے، حق تو اس کا مستحق ہے کہ اس کی اتباع کی جائے خواہ اس کے ماننے والے کتنے ہی کم کیوں نہ ہوں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَى نِعَاجِهِ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَا هُمْ [38-ص:24]
” انہوں نے کہا کہ جو تیری دنبی مانگتا ہے کہ اپنی دنبیوں میں ملا لے بے شک تم پر ظلم کرتا ہے اور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی ہی کیا کرتے ہیں ہاں جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور ایسے لوگ بہت کم ہیں۔“
اسی طرح اللہ تعالی نے واضح فرمایا ہے اہل حق کی تعداد ہمیشہ کم ہی رہی ہے لیکن تعداد کی یہ قلت ان کا کچھ بگاڑ نہ سکی۔ سمواں نے کہا :
تعيرنا انا قليل عديد نا . . . فقلت لها ان الكرام قليل
تم ہمیں عار دلاتے ہو کہ ہم تعداد میں کم ہیں . . . میں نے اس سے کہا کہ شریف لوگ ہمیشہ کم ہی رہے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ صاحب بصیرت دلیل پر نظر رکھتا ہے اور جو کچھ دلیل سے ثابت ہوتا ہے اس پر عمل کرتا ہے چاہے اسے جاننے اور ماننے والے کم ہی کیوں نہ ہوں لیکن جو شخص اکثریت کو عمل کا مدار بنا دے اور بلادلیل عوام کی پسندیدہ باتوں کو اختیار کرے، وہ یقیناً غلطی پر ہے۔ جاہلیت کی راہ پر چلنے والوں کو سمجھدار آدمی برا ہی خیال کرے گا۔