حجاج بن یوسف ثقفی: ایک ظالم و جابر حکمران
تحریر: محمد ارشد کمال، مجلہ نور الحدیث
حجاج بن یوسف ثقفی ایک ظالم و جابر حکمران تھا۔ اس کے ظلم و جبر سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ ناطق وحی سید نا محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی زبان نبوت سے اس کے ظلم و ستم اور سفاکیت کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔ اس سفاک انسان کا تعارف کرواتے ہوئے امام ذہبیؒ (المتوفی : ۷۴۸ھ) فرماتے ہیں:
الـحـجـاج: أهـلـكـه الله في رمضان، سنة خمس وتسعين كهلا، وكان ظلوماً جباراً ، ناصبيا، خبيئًا، سفاكًا للدماء، وكان ذا شجاعة وإقدام ومكر، ودهاء، وفصاحة، وبلاغة، وتعظيم للقرآن . قد سُقْتُ من سوء سيرته في (تاريخي الكبير) ، وحصاره لابن الزبير بالكعبة، وَرَمِّيهِ إِيَّاهَا بالمنجنيق، وإذلاله لأهل الحرمين ، ثم ولايته على العراق والمشرق كُلّه عشرين سنة، وحروب ابن الأشعث له، وتأخيره للصلوات إلى أن استَأصَلَه الله ، فَنَسبه و به ولا نُحِبُّه،وبل تبغضه في الله ، فإن ذلك من أوثق عُرَى الإيمان .وله حسنات مغمورة في بحر ذنوبه، وأمره إلى الله، وله توحيد في الجملة، ونظراءُ مِن ظَلَمَةِ الجبابرة والأمراء
”حجاج:اللہ تعالیٰ نے اسے ماہ رمضان ۹۵ ھ کو بڑھاپے کی حالت میں ہلاک کیا، اور وہ بڑا ہی ظالم، جابر، ناصبی، خبیث النفس، بے دریغ خون بہانے والا تھا اور وہ شجاعت و جرات مند، چالباز و زیرک، فصاحت و بلاغت اور قرآن کی تعظیم کرنے والا تھا۔ میں نے اپنی مفصل تاریخ میں اس کی بد خصلتی، ابن زبیرؓ کے لیے کعبہ کا محاصرہ اور منجنیق سے اس پر سنگ باری ، اہل حرمین کی بے عزتی و بے توقیری، بے چین اور پریشان کرنا۔ پھر عراق اور پورے مشرق پر بیس سال تک اس کی حکومت، ابن الاشعث کی اس کے ساتھ جنگیں اور نمازوں کو تاخیر سے پڑھنے (وغیرہ سے لے کر ) اس کی موت تک تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ ہم اسے برا کہتے ہیں اور اس سے محبت نہیں کرتے ، بلکہ اللہ کی خاطر اس سے بغض رکھتے ہیں، کیونکہ یہ (مسئلہ ) ایمان کے مضبوط کڑوں میں سے ہے۔ اور اس کے گناہوں کے سمندر میں ڈوبی ہوئی اس کی کچھ اچھائیاں بھی ہیں، اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ تاہم وہ توحید کا حامل تھا اور تاریخ میں اس جیسے اور بھی ظالم و جابر حکمران (گزرے) ہیں۔‘‘
(سير أعلام النبلاء : ٤ / ٥٠٥، ٥٠٦)

❀علامہ ابن الجوزی رحم الله (المتوفی : ۵۹۷ھ) فرماتے ہیں:
وكـان الـحـجـاج قـد أذل أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وأهل المدينة خاصة وأقبح بأنهم لم ينصروا عثمان، وقتل الخلق الكثير يحتج عليهم بأنهم خرجوا على عبد الملك ۔
اور حجاج نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی اور خصوصاً اہل مدینہ کی اس چیز کو دلیل بناتے ہوئے تذلیل کی کہ انھوں نے عثمانؓ کی مدد نہیں کی اور اس نے خلق کثیر کو موت کے گھاٹ اتارا ، اس چیز کو دلیل بنا کر کہ انھوں نے عبد الملک کے خلاف خروج کیا ہے۔
(المنتظم : ٤ / ٤٦٦)

❀حافظ ابن کثیرؒ (المتوفی : ۷۷۴ھ) فرماتے ہیں:
وقد كَانَ الحجاجُ من الملوك الجبارين الذين طغوا في البلاد، وقتل الجم الغفير من صدر هذه الأمة ومع هذا فأمره إلى الله فإنه لم يُترف بغير الظلم وسفك الدماء ولا يُلتفتُ ملوك الإسلام ، لهم ما لهم وعليهم ما عليهم
اور حجاج ان جابر و ظالم حکمرانوں میں سے تھا جنھوں نے شہروں میں سرکشی کی اور اس امت کے ابتدائی لوگوں کے جم غفیر کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اس کے باوجود اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ظلم اور قتل و غارت کے سوا اس کی کوئی شہرت نہیں، اس کی اور اس کے اہل کاروں کی تکفیر سے متعلق رافضیوں کا قول قابل التفات نہیں، بلکہ وہ ان اسلامی حکمرانوں میں سے ہے جو اپنے اچھے اور برے اعمال کا بدلہ پائیں گے ۔
(مسند الفاروق : ٨٤/٣)
اہل علم کی ان عبارتوں سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں:
➊حجاج ایک ظالم و جابر، خبیث ، ناصبی اور سفاک حکمران تھا۔
➋اس نے امت کے ابتدائی لوگوں کے جم غفیر کو قتل کیا۔
➌وہ اصحاب رسول کی اہانت و تذلیل کرتا تھا۔
➍اس کے گناہوں کے سمندر میں ڈوبی ہوئی کچھ نیکیاں بھی ہیں۔
➎وہ روز قیامت اپنے اچھے اور برے اعمال کی ضرور جزا پائے گا۔
➏وہ مسلمان اور توحید کا حامل تھا اس کی تکفیر والا قول قابل التفات نہیں۔
➐ ہم اس سے محبت نہیں کرتے ، بلکہ اس سے بغض اور نفرت کرتے ہیں، ہمارا یہ بغض صرف اللہ کی رضا کے لیے ہے اور یہ ایمان کا بھی تقاضا ہے۔

◈سید نا عبد اللہ بن زبیرؓ کا قتل اور سیدہ اسماءؓ کی گستاخی :

سیدہ اسماء، خلیفہ اول اور یار غار سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی صاحبزادی، زبیر بن عوامؓ کی زوجہ، ام المومنین سیدہ عائشہؓ کی بہن اور رسول اللہ ﷺ کی جواہر نسبتی ہیں۔ آپ کا شمار جلیل القدر صحابیات میں ہوتا ہے۔
زبان نبوت سے آپ کو ”ذات النطاقین‘‘ کا لقب ملا ہے۔ سید نا عبد اللہ بن زبیرؓ آپ ہی کے فرزند اجمند ہیں۔
سیدہ اسماءؓ فرماتی ہیں کہ (میں ہجرت کے وقت ) عبد اللہ بن زبیرؓ سے حاملہ تھی، میں اس وقت ( مکہ سے) نکلی جب وضع حمل کا وقت قریب آ پہنچا۔ میں مدینہ طیبہ آئی اور قباء میں قیام کیا تو عبد اللہ بن زبیر وہیں پیدا ہوئے ، پھر میں اسے نبی ﷺ کی خدمت میں لے آئی اور اسے آپ ﷺ کی گود میں رکھ دیا تو آپ نے ایک کھجور منگوائی اور اسے چبا کر اس میں اپنا لعاب دہن ملایا اور نومولود (عبد اللہ ) کے منہ میں ڈال دیا (اس طرح) سب سے پہلے جو چیز اس (عبد اللہ ) کے شکم میں گئی وہ رسول اللہ ﷺ کا لعاب دہن تھا۔ پھر آپ نے اس کے منہ میں کھجور ڈالنے کے بعد اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ یہ ( عبد اللہ ) مہاجرین کا زمانہ اسلام میں پہلا بچہ تھا جو (مدینہ طیبہ میں ) پیدا ہوا تھا۔
(صحیح البخاري : ٣٩٠٩)
سیدہ اسماء اور سیدنا عبد اللہؓ ماں بیٹے دونوں کے ان گنت فضائل و مناقب ہیں، ان جلیل القدر اور عظیم الشان ہستیوں کے ساتھ حجاج بن یوسف کا سلوک ایسا کہ تاریخ شرما جائے۔ سیدنا عبد اللہؓ کو شہید کر کے لاش کا مثلہ کیا اور کھجور کے تنے پر لٹکائے رکھا۔ بعد ازاں یہودیوں کے قبرستان میں لاش پھینک دی۔ ان کی ضعیف العمر والدہ سیدہ اسماء ؓ کی اہانت کی ۔

❀ثقہ تابعی ابو نوفل بیان کرتے ہیں:
رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ عَلَى عَقَبَةِ الْمَدِينَةِ، قَالَ: فَجَعَلَتْ قُرَيْشُ تَمُر عَلَيْهِ وَالنَّاسُ ، حَتَّى مَرَّ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، فَوَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ: السَّلامُ عَلَيْكَ ، أَبَا خُبَيْبِ السَّلَامُ عَلَيْكَ ، ابا خُبَيْبِ السَّلَامُ عَلَيْكَ ، أَبَا حُبَيْب أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هذَا، أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا ، أَمَا وَاللَّهِ! لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا ، أَمَا وَاللَّهِ! إِنْ كُنْتَ ، مَا عَلِمْتُ ، صَوَّامًا ، قَوَّامًا ، وَصُولا لِلرَّحِمِ ، أَمَا وَاللَّهِ! لَأُمَّةٌ أَنْتَ أَشَرُّهَا لَأُمَّةٌ خَيْرٌ . ثُمَّ نَفَدَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، فَبَلَغَ الْحَجَّاجَ مَوْقِفُ عَبْدِ اللَّهِ وَقَوْلُهُ ، فَاَرْسَلَ إِلَيْهِ فَأُنْزِلَ عَنْ جَدْعِهِ ، فَأَلْقِيَ فِي قُبُورِ الْيَهُودِ ، ثُمَّ اَرْسَلَ إِلَى أُمِّهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، فَابَتْ أَنْ تَأْتِيَهُ ، فَاَعَادَ عَلَيْهَا الرَّسُولَ: لَتَأْتِيَنِّي أَوْ لَابْعَثَنَّ إِلَيْكِ مَنْ يَسْحَبُكِ بِقُرُونِكِ ، قَالَ: فَاَبَتْ وَقَالَتْ: وَاللَّهِ! لَا آتِيكَ حَتَّى تَبْعَثَ إِلَيَّ مَنْ يَسْحَبُنِي بِقُرُونِي، قَالَ: فَقَالَ: أَرُونِي سِبْتَيَّ ، فَأَخَذَ نَعْلَيْهِ ، ثُمَّ انْطَلَقَ يَتَوَفَّفُ، حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهَا، فَقَالَ: كَيْفَ رَأَيْتِنِي صَنَعْتُ بِعَدُوّ اللَّهِ؟ قَالَتْ: رَأَيْتُكَ أَفْسَدْتَ عَلَيْهِ دُنْيَاهُ، وَأَفْسَدَ عَلَيْكَ آخِرَتَكَ ، بَلَغَنِي أَنَّكَ تَقُولُ لَهُ: يَا ابْنَ ذَاتِ النِّطَاقَيْنِ أَنَا وَاللَّهِ! ذَاتُ النِّطَاقَيْنِ ، أَمَّا اَحَدُهُمَا فَكُنْتُ اَرْفَعُ بِهِ طَعَامَ رَسُولِ اللهِ ، وَطَعَامَ أَبِي بَكْرِ مِنَ الدَّوَاتِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَنِطَاقُ الْمَرْأَةِ الَّتِي لَا تَسْتَغْنِي عَنْهُ ، أَمَا إِنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم حَدَّثَنَا: ((أَنَّ فِي ثَقِيفٍ كَذَّابًا وَمُبِيرًا) فَأَمَّا الْكَذَّابُ فَرَأَيْنَاهُ، وَأَمَّا الْمُبِيرُ فَلَا إِخَالُكَ إِلَّا إِيَّاهُ، قَالَ: فَقَامَ عَنْهَا وَلَمْ يُراجعها .
’’میں نے عبد اللہ بن زبیرؓ (کے جسد خاکی ) کو شہر کی گھاٹی میں (کھجور کے ایک تنے سے لٹکا ہوا) دیکھا، کہا: قریش اور دوسرے لوگوں نے وہاں سے گزرنا شروع کر دیا، یہاں تک کہ عبد اللہ بن عمرؓ وہاں سے گزرے تو وہ ان (ابن زبیرؓ) کے پاس کھڑے ہو گئے ۔ اور (انھیں مخاطب کرتے ہوئے) کہا: ابوخبیب! آپ پر سلام! ابو خبیب ! آپ پر سلام ! ابو خبیب ! آپ پر سلام ! اللہ گواہ ہے کہ میں آپ کو اس سے روکتا تھا، اللہ گواہ ہے کہ میں آپ کو اس سے روکتا تھا، اللہ گواہ ہے کہ میں آپ کو اس سے روکتا تھا، اللہ کی قسم! جتنا مجھے علم ہے۔ آپ بہت روزے رکھنے والے، بہت قیام کرنے والے، بہت صلہ رحمی کرنے والے تھے۔ اللہ کی قسم! وہ امت جس میں آپ سب سے برے (قرار دیے گئے ) ہوں، وہ امت تو پوری کی پوری بہترین ہوگی۔ ( جبکہ اس میں تو بڑے بڑے ظالم، قاتل اور مجرم موجود ہیں۔ آپ کسی طور پر اس سلوک کے مستحق نہ تھے۔)
پھر عبد اللہ بن عمرؓ وہاں سے چلے گئے ۔ حجاج کو عبد اللہ بن عمرؓ کے وہاں پر کھڑے ہونے کی خبر پہنچی تو اس نے کارندے بھیجے، ان (کے جسد خاکی ) کو کھجور کے تنے سے اتارا گیا اور انھیں یہود کی قبروں میں پھینک دیا گیا، پھر اس نے (ابن زبیر ؓ کی والدہ ) اسماء بنت ابی بکرؓ کے پاس کارندہ بھیجا۔ انھوں نے اس کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔ اس نے دوبارہ قاصد بھیجا کہ یا تو تم میرے پاس آؤ گی یا پھر میں تمھارے پاس ان لوگوں کو بھیجوں گا جو تمھیں تمھارے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے آئیں ۔ اسماءؓ نے پھر انکار کر دیا اور فرمایا: میں ہرگز تیرے پاس نہ آؤں گی، یہاں تک کہ تو میرے پاس ایسے شخص کو بھیجے جو مجھے میرے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے جائے ۔ تو حجاج کہنے لگا: مجھے میرے جوتے دکھاؤ، اس نے جوتے پہنے اور اکڑتا ہوا تیزی سے چل پڑا، یہاں تک کہ ان کے ہاں پہنچا اور کہا: تم نے مجھے دیکھا کہ میں نے اللہ کے دشمن کے ساتھ کیا کیا؟ انھوں نے جواب دیا: میں نے تمھیں دیکھا ہے کہ تم نے اس پر اس کی دنیا تباہ کر دی جبکہ اس نے تمھاری آخرت برباد کر دی، مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تو اسے دو پیٹیوں والی کا بیٹا (ابن ذات النطاقین ) کہتا ہے۔ ہاں اللہ کی قسم! میں دو پیٹیوں والی ہوں۔ ایک پیٹی کے ساتھ میں رسول اللہ ﷺ اور ابوبکرؓ کا کھانا سواری کے جانور پر باندھتی تھی اور دوسری پیٹی وہ ہے جس سے کوئی عورت مستغنی نہیں ہو سکتی (سب کو لباس کے لیے اس کی ضرورت ہوتی ہے ) اور سنو! رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتایا تھا کہ بنو ثقیف میں ایک بہت بڑا جھوٹا اور ایک بہت بڑا سفاک انسان ہوگا۔ بہت بڑا جھوٹا ( مختار ثقفی) تو ہم نے دیکھ لیا اور رہا بہت بڑا سفاک تو میں نہیں سمجھتی کہ تیرے علاوہ کوئی اور ہوگا ۔یہ سن کر وہ (حجاج ) وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور انھیں کوئی جواب نہ دے سکا۔‘‘
(صحیح مسلم : ٢٥٤٥)

اس روایت کا ایک ایک لفظ سید نا عبد اللہ بن زبیرؓ اور ان کی والدہ ماجدہ کی عظمت وشان اور حجاج بن یوسف کی سفاکیت بیان کر رہا ہے۔
◄۔۔۔سیدنا ابن عمرؓ سیدنا ابن زبیرؓ بھی ان کے پاس آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں، تین بار سلام کہتے ہیں اور پھر تین بار یہ جملہ بولتے ہیں: ’’أما والله لقد كنت أنهاك عن هذا‘‘ ’’اللہ کی قسم ! میں آپ کو اس سے منع کرتا تھا‘‘۔
سید نا ابن عمرؓ کا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میں آپ کو ان لوگوں سے الجھنے سے بار بار منع کرتا تھا ، لیکن بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ آپ ولی الله سیدنا ابن زبیرؓ کو منع کیوں کرتے تھے؟

❀علامہ ابو العباس احمد بن عمر القرطبیؒ (المتوفی ۶۵۶ھ) فرماتے ہیں:
’’لما رأى من كثرة عدوه وشدة شوكتهم‘‘
کیونکہ آپ سیدنا ابن زبیرؓ کے دشمنوں کی کثرت اور ان کی شان و شوکت ملاحظہ کر چکے تھے۔
(الـمـفـهـم لـما أشكل من تلخيص کتاب مسلم : ٥٠٣/٦)
پھر سیدنا ابن عمرؓ نے فرمایا:
” أما والله ! إن كنت ما علمت صواما قواما وصولا للرحم‘‘
اللہ کی قسم! جتنا مجھے علم ہے آپ بہت زیادہ روزے رکھنے والے، قیام کرنے والے اور صلہ رحمی کرنے والے تھے۔ یہ جملہ بول کر سیدنا ابن عمر ؓ نے لوگوں کو سیدنا ابن زبیرؓ کے محاسن ، ان کی منقبت اور فضیلت بتائی۔
پھر فرمایا:
’’أما والله ! لأمة أنت أشرها لأمة خير“
اللہ کی قسم! وہ امت جس میں آپ سب سے برے ہوں وہ امت تو بہترین ہوگی۔

❀علامہ نوویؒ (المتوفی ۶۷۶ھ) فرماتے ہیں:
’’فأراد ابن عمر براءة ابن الزبير من ذلك الذي نسبه إليه الحجاج وأعلم الناس بمحاسنه وأنه ضدما قاله الحجاج‘‘ حجاج نے ابن زبیرؓ کی طرف جس بات کی نسبت کی تھی ( کہ وہ اللہ کا دشمن ہے ) سید نا ابن عمرؓ نے اپنی اس بات کے ذریعے سے سیدنا ابن زبیرؓ کی اس سے براءت کا اظہار کیا اور لوگوں کو ان کے محاسن بتائے اور حجاج نے جو کچھ ان (ابن زبیرؓ) کے بارے میں کہا تھا تو یہ اس کے بالکل برعکس بات تھی۔
(صحیح مسلم مع شرح النووي : ٣١٢/٢)

❀علامہ ابو العباس القرطبیؒ فرماتے ہیں:
’’يعني بذلك أنهم اما قتلوه وصلبوه لأنه شر الأمة في زعمهم، مع ما كان عليه من الفضل والدين والخير فإذا لم يكن في تلك الأمة شر منه فالأمة كلها أمة خير وهذا الكلام يتضمن الإنكار عليهم فيما فعلوه به‘‘
”آپ کی اس سے یہ مراد تھی کہ انھوں نے آپ (ابن زبیرؓ) کو شہید کیا اور سولی چڑھایا ( کیوں؟) اس لیے کہ آپ باوجود اپنی فضیلت دین داری اور خیر و بھلائی کے، ان کے گمان میں اس امت کے بدترین انسان تھے۔ تو جب آپ سے زیادہ اس امت میں کوئی برا نہ ہوا تو وہ امت تو ساری کی ساری بہترین ہوگی اور اس کلام میں ان کے اس سلوک کا انکار ہے جو انھوں نے آپ کے ساتھ کیا تھا۔‘‘
(المفهم : ٥٠٣/٦-٥٠٤)
◈کہا جاتا ہے کہ سید نا عبد اللہ بن عمرؓ نے سیدنا ابن زبیرؓ کی شہادت پر اظہار افسوس تو کیا، لیکن ان کے جسد کو یوں لٹکا دیکھ کر حجاج یا ان کی فوج کی بابت کوئی سخت لفظ نہیں کہے یا کوئی اعتراض نہیں کیا۔
ہم کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمرؓ کو اس موقع پر جتنا کہنا چاہیے تھا اور جو کچھ کہنا چاہیے تھا وہ انھوں نے کہا، اس وقت آپ کا علی الاعلان حجاج اور اس کی فوج کو برا بھلا کہنا اور انھیں جہنم کی وعید سنانا بنتا بھی نہیں تھا۔

ذرا بتلائیے! حجاج جیسا سنگ دل انسان جس کے منہ صحابی رسول کا خون لگ چکا تھا اگر سید نا ابن عمرؓ وہاں کھڑے ہو کر اسے برا بھلا کہے یا جہنم کی وعید سنانے لگ جاتے تو فتنہ مزید بڑھ جاتا اور کیا بعید تھا کہ وہ لوگ آپ کو بھی نقصان پہنچا دیتے۔ اس لیے آپ نے کمال حکمت کا مظاہرہ کیا۔ یہ بھی یادر ہے کہ ابن عمرؓ اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کرتے تھے کہ انھوں نے حجاج کا مقابلہ کیوں نہیں کیا اور حجاج سے لڑے کیوں نہیں، چنانچہ جلیل القدر تابعی سعید بن جبیر فرماتے ہیں:
جب سیدنا ابن عمرؓ کے اعضاء کو نقصان پہنچا جو مکہ میں انھیں پہنچا تھا، اور انھیں تیر مارا گیا تھا جس سے وہ زمین پر گر پڑے تھے تو انھیں اندیشہ ہوا کہ مبادا یہ تکلیف انھیں (مناسک حج کی ادائیگی سے نہ ) روک دے تو انھوں نے کہا: اے ام دھماء کے بیٹے ! (سعید بن جبیر )! مجھے مناسک ادا کروا دو۔ پھر جب ان کی تکلیف شدت اختیار کر گئی تو حجاج کو معلوم ہوا وہ ان کے پاس عیادت کے لیے آیا اور کہنے لگا: اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ آپ کو کس نے تکلیف پہنچائی ہے تو میں ضرور یہ کرتا، وہ کرتا۔ جب اس نے بہت باتیں بنائیں تو سیدنا ابن عمرؓ نے کہا: تو ہی تو ہے جس نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے تو نے اس دن ہتھیار اٹھائے جس دن ہتھیار نہیں اٹھائے جاتے۔ پھر جب حجاج چلا گیا تو آپ نے فرمایا:’’مــــا آســى مـــن الدنيا إلا على ثلاث: ظمء الهواجر ، ومكابدة الليل، وألا أكون قاتلتُ هذه الفئة الباغية التي حلت بنا‘‘ ’’مجھے سوائے تین چیزوں کے دنیا کی کسی چیز پر افسوس نہیں ہے: گرم دنوں کی پیاس، رات کی مشقت اور اس بات پر کہ میں نے اس باغی گروہ سے قتال کیوں نہ کیا جو ہمارے پاس گھس آیا تھا۔“
(الطبـقـات الكبير لابن سعد: / ١٧٣، وسنده صحيح)

امام ذہبی اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
یعنی: الحجاج یعنی حجاج۔
(سير أعلام النبلاء : ١٢١/٤)

◄۔۔۔حجاج نے سیدنا ابن زبیرؓ کو حرم شریف میں شہید کیا۔ لاش کھجور کے تنے پر لٹکا دی۔ بعد ازاں یہود کے قبرستان میں پھینک دی۔ ایک صحابی رسول کے ساتھ اس طرح کا سلوک کون کرسکتا ہے؟
اور پھر یہیں پر بس نہیں بلکہ آپؓ کو ’’عدو اللہ‘‘ اللہ کا دشمن کہا۔ کیا بعد میں آنے والوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اصحاب رسول میں سے کسی کو اللہ کا دشمن کہیں؟ اہل السنہ کا تو اصحاب رسول کے متعلق عقیدہ ہی یہ ہے:
’’نحِبُّ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلَا نفرط في حب أحد منهم ، ولا نبرأ من أحد منهم، ونبغض من يبغضهم وبغير الخير يذكرهم ولا نذكرهم إلا بخير وحبهم دين وإيمان وإحسان وبغضهم كفر ونفاق وطغيان“
ہم اصحاب رسول سے محبت رکھتے ہیں ان میں سے کسی کی محبت میں افراط کا شکار نہیں ہوتے اور ہم ان میں سے کسی سے بھی برات کا اعلان نہیں کرتے اور ہم ہر ایسے شخص سے بغض رکھتے ہیں جو ان میں سے کسی سے بغض رکھے اور انھیں اچھے الفاظ میں یاد نہ کرے۔ ہم ان سب کا ذکر خیر ہی کرتے ہیں اور ان کی محبت دین، ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض کفر نفاق اور سرکشی ہے۔
(شرح العقيدة الطحاوية ، ص : ٤٦٧)
اس عبارت میں کتنے صاف لفظوں میں اہل السنہ کی طرف سے یہ اعلان ہے کہ نبی ﷺ کے کسی ایک صحابی سے بغض رکھنے والے شخص سے ہم بغض رکھتے ہیں۔

حجاج بن یوسف کے ترجمہ میں امام ذہبی نے صاف لکھا ہے کہ:
’’فَنَسُبُهُ وَلَا نُحِبُّهُ بَلْ نُبْغِضُهُ فِی اللہ‘‘
ہم اسے برا کہتے ہیں ہمیں اس سے محبت نہیں بلکہ اللہ کی خاطر اس سے بغض ہے۔
◈کہا جاتا ہے کہ اگر سید نا عبد اللہ بن زبیرؓ کی جگہ خود حجاج یا امیر عبد الملک بن مروان ہوتے اور سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ کو ان پر فتح حاصل ہو جاتی تو ابن زبیر بھی حجاج و عبد الملک کے ساتھ شاید ایسا ہی کرتے ۔
ہم کہتے ہیں کہ یہ کہنا کہ اگر سید نا ابن زبیرؓ کو فتح مل جاتی تو وہ بھی اپنے مخالفین کے ساتھ یہی سلوک کرتے ۔ یہ صحابی کے متعلق بدگمانی ہے جس سے ہمیں منع کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں جن روایات کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ ان کی اسنادی حیثیت مشکوک ہے۔ کوئی ایک روایت بھی بسند صحیح یا حسن ثابت نہیں۔ حجاج کی وکالت کرنے والوں پر افسوس ہے کہ وہ ایک ظالم انسان کی محبت اور حمایت میں ایک جلیل القدر اور مظلوم صحابی کے متعلق بدگمانی پیدا کر رہے ہیں ۔

◄۔۔۔حجاج کی ایک اور بدمعاشی پر غور کریں، جس کے دفاع میں آج کتابیں لکھی جارہی ہیں۔ تاریخی، بے سند اور غیر مستند روایات کو سہارا بنا کر اسے اسلام کا ہیرو باور کروایا جارہا ہے۔ اس نے سیدہ اسماء بنت ابی بکرؓ کو جو ضعیف العمر ہو چکی تھیں بصارت جا چکی تھی۔ (المعجم الكبير ، ح : ٢٧٤ ، جز : ٢٤ ، وسندہ صحیح) کو لانے کے لیے اپنے کارندے بھیجے ۔ جب انھوں نے آنے سے انکار کیا تو دھمکی دیتے ہوئے کہا: ’’لَتَأْتِينِي أَوْ لا بعَثَنَّ إليك من يسحبك بقرونك‘‘ ’’يا تو تم میرے پاس آؤ گی یا پھر میں تمھارے پاس ان لوگوں کو بھیجوں گا جو تمھیں تمھارے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے آئیں گے‘‘۔ یہ کیسا ظالم جابر اور سنگدل انسان تھا جو ایک بے قصور، ضعیف و کمزور، نابینا بوڑھی اور دکھیاری ماں کو دھمکیاں دے رہا تھا کہ تجھے بالوں سے گھسیٹ کر لایا جائے گا۔
وکیل حجاج بھی حجاج کے اس قول کی تاویل کرنے سے قاصر آ گیا۔ چنانچہ اس نے لکھا: ’’تاہم اپنی جبلی و فطری سختی کے سبب امیر حجاج نے ایک سن رسیدہ بزرگ صحابیہ سیدہ اسماء بنت ابی بکرؓ کے ساتھ جو سختی اور ترشی کا مظاہرہ کیا ہم اسے غلط جانتے ہیں اور اس بابت امیر حجاج کے کسی قسم کے دفاع کے قائل نہیں۔ اللہ ان کی اس لغزش پر ان کو معاف فرمائے ۔ آمین
(امیر حجاج بن یوسف ثقفی ،ص ۱۰۹)

◄۔۔۔جب سیدہ اسماءؓ نے آنے سے انکار کیا تو حجاج نے جوتے پہنے اور اکڑتا ہوا تیزی سے چلتا ہوا سیدہ اسماءؓ کے پاس آیا اور کہا:’’كيف رايتني صنعت بعد والله‘‘تم نے مجھے دیکھا کہ میں نے اللہ کے دشمن کے ساتھ کیا کیا ؟ گویا سیدہ اسماءؓ کے زخموں پر نمک چھڑ کنے آیا تھا۔ آپ نے جواب دیا:’’رايتك افسدت عليـــه ديـنـاه وافسد عليك آخرتك“ میں نے تجھے دیکھ لیا ہے کہ تو نے اس کی دنیا بر باد کر دی اور اس نے تیری آخرت برباد کر دی۔ اس کے بعد سیدہ اسماءؓ نے فرمایا: مجھے پتا چلا ہے کہ تو اسے (بطور طنز ) ذات النطاقین ( دو پیٹوں والی ) کا بیٹا کہتا ہے۔ ہاں، اللہ کی قسم ! میں ذات النطاقین ہوں، ایک پیٹی کے ساتھ میں رسول اللہ ﷺ اور ابوبکرؓ کا کھانا سواری پر باندھتی تھی اور دوسری وہ پیٹی ہے جس کی ہر عورت کو ضرورت ہوتی ہے۔

پھر حدیث نبوی سنائی کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں بیان کیا تھا:(أَنَّ فِي ثَقِية كَذَابًا وَمُبِيرًا) ”بے شک ثقیف میں ایک کذاب اور ایک مبیر (سفاک) ہوگا۔“ کذاب تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں باقی جہاں تک مبیر کا تعلق ہے تو میں نہیں سمجھتی کہ تیرے علاوہ کوئی اور ہو۔

◄۔۔۔حجاج کا ایک وکیل حجاج کا مقدمہ لڑتے ہوئے کہتا ہے: یہ ایک ایسی دکھی ماں کا قول ہے جس کو ابھی ابھی اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر ملی ہے اور اس کا سامنا اس شخص سے ہورہا ہے جس کی فوج سے قتال کرتے ہوئے اس کا بیٹا شہید ہوا ہے سوفرط جذبات میں سیدہ اسماءؓ کا ایسا کہنا ان کے غم وغصہ اور ذاتی رائے کا اظہار تو ہوسکتا ہے لیکن فرمان رسول ﷺ یا وحی الہی نہیں کہ اس پر لازمی ایمان لاتے ہوئے امیر حجاج کو قطعیت سے ظالم یا فاسق ثابت کرنے کے لیے پیش کرنا نہایت نامعقول سعی ہے جس کی کوئی ٹھوس علمی بنیاد نہیں۔
(ص: ۱۰۹)
ہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان کہ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک مبیر سفاک ہوگا ۔ سیدہ اسماءؓ نے اس فرمان رسول کی تشریح و تفسیر اور وضاحت فرمائی کہ کذاب سے مراد مختار ثقفی اور مبیر سے مراد حجاج ہے۔ آپؓ کی یہ تفسیر بالکل درست تھی ، کیونکہ:

(۱) آپؓ نے بقائمی ہوش و حواس یہ تفسیر کی ہے، ایسا نہیں کہ آپ جذبات سے مغلوب ہوکر حواس باختہ ہوگئی ہوں اور فرمان رسول کی غلط تشریح کرگئی ہوں۔

(۲)سیدہ اسماءؓ جلیل القدر صحابیہ تھیں ۔ فرمان رسول کی تشریح اور مراد بعد والوں سے زیادہ بہتر جانتی تھیں۔

(۳) آپ کی اس تشریح کا کسی نے بھی انکار نہیں کیا، خود حجاج کو بھی یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ اس کا انکار کرے، اگر سیدہؓ کی یہ بات غلط ہوتی تو وہ ظالم نہ صرف انکار کرتا بلکہ کیا بعید کہ آپ کو سزا بھی دیتا جو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹنے کی دھمکیاں دے رہا تھا۔

(۴) جلیل القدر اہل علم نے بھی فرمان رسول کی یہی تشریح کی ہے۔
چنانچہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں:
فالكذاب: المختار بن أبي عبيد، والمبير هو الحجاج، كما فسرت ذلك للحجاج حين قتل ولدها
’’پس کذاب سے مراد مختار بن ابی عبید اور مبیر سے حجاج مراد ہے، جیسا کہ آپ (سیدہ اسماء)ؓ نے حجاج کے سامنے اس کی تفسیر کی جب اس نے ان کے بیٹے کو شہید کیا تھا۔‘‘
(مسند الفاروق : ٨٣/٣، ٨٤)

❀امام ذہبی مختار ثقفی کے حالات میں لکھتے ہیں:
’’وقد قال النبي صلى الله عليه وسلم (يَكُونُ فِي تَقِيْفِ كَذَّابٌ وَمُبِيرٌ)فكان الكذاب هذا ادعى أن الوحي ياتيه، وأنه يعلم الغيب، وكان المبير الحجاج قبحهما الله“
نبی ﷺ نے فرمایا:’’ثقیف میں ایک کذاب اور ایک مبیر ہوگا۔ پس کذاب تو یہی شخص تھا اس نے دعوی کیا تھا کہ اس کے پاس وحی آتی ہے اور وہ غیب جانتا ہے، جبکہ مبیر حجاج تھا، اللہ ان دونوں کو رسوا کرے۔‘‘
(سیر اعلام النبلاء : ٢٩٤/٤)

❀شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
”و أمـا الــمبير فكان هو الحجاج بن يوسف الثقفي وكان مبيرا سفـاكـا للدماء بغير حق انتصار لملك عبدالملك بن مروان الذي استنابہ‘‘ اور رہا مبیر تو وہ حجاج بن یوسف ثقفی تھا اور وہ مبیر ملک عبد الملک بن مروان جس نے اسے اپنا نائب مقرر کیا تھا اس کے لیے بدلہ لیتے ہوئے ناحق خون ریزی کرنے والا تھا ۔
( الجواب الصحيح : ١٢٤/٦ الشامله)

❀شارح صحیح مسلم علامہ نوویؒ فرماتے ہیں:
”واتفق العلماء على أن المراد بالكذاب هنا المختار بن أبي عبيد وبالمبير الحجاج بن يوسف والله أعلم‘‘ علماء کا اتفاق ہے کہ یہاں کذاب سے مختار بن ابی عبید اور مبیر سے حجاج بن یوسف مراد ہے، واللہ اعلم ۔
(صحیح مسلم مع شرح النووي : ٢/ ٣١٢)
معلوم ہوا کہ مبیر سے مراد حجاج بن یوسف ہی ہے۔ وکلائے حجاج سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ اپنی لاجک اپنے پاس رکھیں اور حدیث کا خود ساختہ مفہوم بیان نہ کریں۔ بتائیں کہ سلف میں سے کسی ثقہ و صحیح العقیدہ عالم نے سیدہ اسماءؓ کی تفسیر کو غلط قرار دیا ہے؟ اور بتائیں کہ اگر مبیر سے مراد حجاج نہیں تو کون ہے؟

◈خلافت ابن زبیرؓ

سید نا عبد اللہ بن زبیرؓ کی خلافت بالکل صحیح اور درست تھی ۔

❀علامہ ابوالعباس القرطبیؒ رقم طراز ہیں:
’’لما مات معاوية بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان، ولم يول أحدًا ، بـقـي الناس لا خليفة لهم، ولا إمام مدةً قد تقدم ذكرها، فعند ذلك بايع الناس لعبد الله بن الزبير بمكة واجتمع على طاعته أهل الحجاز وأهل اليمن والعراق وخراسان وحــج بالناس ثماني حجج، ثم بايع أهل الشام لمروان بن الحكم واجتمع عليه أهل الشام ومصر والمغرب وكان ابن الزبير أولى بالأمر من مروان وابنه على ما قاله مالك وهو الحق لعلم ابن الزبير وفضله‘‘
’’جب معاویہ بن یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کا انتقال ہوا اور انھوں نے کسی کو ولی مقرر نہیں کیا تو لوگ اس حال میں رہے کہ ان کا کوئی خلیفہ نہ تھا اور نہ کوئی عارضی امام تھا تو اس وقت لوگوں نے مکہ میں ابن زبیرؓ کی بیعت کر لی اور ان کی اطاعت پر اہل حجاز اور اہل یمن و عراق اور خراسان جمع ہو گئے اور انھوں نے (اپنی امارت میں ) لوگوں کو آٹھ حج کروائے۔ پھر اہل شام نے مروان بن حکم کی بیعت کر لی اور ان کی بیعت پر اہل شام و مصر اور مغرب اکٹھے ہو گئے ۔ اور امام مالک کے قول کے پیش نظر ابن زبیرؓ اپنے علم وفضل کی بنا پر مروان اور اس کے بیٹے (عبد الملک) سے خلافت کے زیادہ حق دار تھے اور یہی حق ہے ۔
(المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم : ٥٠٢/٦)

❀علامہ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:
”فلما مات یزید بن معاوية وابنه معاوية بن يزيد من بعده قريبا استفحل أمر عبد الله بن الزبير جدًا وبويع له بالحجاز والعراق و مصر‘‘
پھر جب یزید بن معاویہ اور اس کے بعد جلد ہی اس کا بیٹا معاویہ بن یزید فوت ہو گیا تو عبد اللہ بن زبیرؓ کی حکومت نہایت مضبوط ہو گئی اور حجاز ، عراق اور مصر میں ان کی بیعت کر لی گئی ۔
(البداية والنهاية : ۱۱۸/۹)

❀امام ذہبیؒ عبد العزیز بن مروان کے حالات میں لکھتے ہیں:
”عبد العزيز بن مروان أبو الأصبغ الأموي ، أمير ،مصر ، وولي عهد المؤمنين بعد أخيه عبد الملك بعهد من مروان ، إن صححنا خلافة مروان، فإنه خارج على ابن الزبير باغ ، فلا يصح عهده إلى ولديه ، إنما تصح إمامة عبد الملك من يوم قتل ابن الزبير‘‘
عبد العزيز بن مروان ابوالا صبغ الاموی امیر مصر، وہ مروان کی طرف سے اپنے بھائی عبد الملک کے بعد ولی عہد مقرر ہوا تھا۔ اگر ہم مروان کی خلافت کو درست مانیں، کیونکہ وہ (مروان) ابن زبیر پر خروج کرنے والا تھا، باغی تھا۔ اس لیے اس کا اپنے بیٹوں کو ولی عہد مقرر کرنا بھی درست نہیں تھا۔ البتہ ابن زبیرؓ کی شہادت کے بعد عبد الملک کی خلافت درست ہے۔
(تاریخ الاسلام : ٦٧/٦ ، ٦٨)

❀خطیب بغدادیؒ (المتوفی ۴۶۳ھ) عبد الملک بن مروان کے حالات میں لکھتے ہیں:
”فکانت خلافته من مقتل ابن الزبير إلى أن توفي ثلاث عشر سنة وأربعة أشهر وثمانيا وعشرين ليلة‘‘
اس ( عبد الملک) کی خلافت ابن زبیرؓ کی شہادت کے بعد سے لے کر اس کے فوت ہونے تک تیرہ سال چار ماہ اور اٹھائیس دن تک ہے۔
(تاریخ مدينة السلام : ١٢٩/١٢)
یعنی عبد الملک کی حکومت ابن زبیرؓ کی شہادت کے بعد ہی درست مانی گئی ہے۔ معلوم ہوا کہ سیدنا ابن زبیرؓ کی خلافت بالکل درست تھی، ان کے خلاف خروج کیا گیا اور انھیں مظلومانہ شہید کیا گیا۔

❀علامہ نووی فرماتے ہیں:
”و مذهب أهل الحق أن ابن الزبير كان مظلومًا وأن الحجاج ورفققته كانوا خوارج عليه“
”اور اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ ابن زبیر مظلوم تھے، جبکہ حجاج اور اس کے ساتھی ان کے خلاف خروج کرنے والے تھے۔“
(صحیح مسلم شرح النوى : ۲/ ۳۱۲)

شارح مشكاة المصابيح علامه شرف الدين الحسين بن عبد اللہ الطیمی لکھتے ہیں:
ومذهبنا أن ابن الزبير كان مظلوما
”اور ہمارا مذہب یہ ہے کہ ابن زبیرؓ مظلوم تھے ۔‘‘
(شرح الطيبي على مشكاة المصابيح : ١٢ / ٣٨٤٠)
معلوم ہوا کہ سید نا عبد اللہ بن زبیرؓ کی خلافت بالکل درست اور جائز تھی ، معاویہ بن یزید کے بعد جب مسلمانوں کا کوئی خلیفہ نہ تھا، انھوں نے اپنی بیعت لی اور وہ اس لائق بھی تھے۔ پھر ان کی بیعت ہو جانے کے بعد مروان بن حکم نے ان کے مقابلے میں خلافت کا اعلان کر دیا اور لوگوں سے بیعت لینا شروع کر دی جو کسی بھی لحاظ سے درست اقدام نہیں تھا، سیدنا عبد اللہ ہر لحاظ سے مروان سے زیادہ خلافت کے اہل اور حق دار تھے۔ مروان اور بعد ازاں اس کے بیٹے عبد الملک نے ان کی حکومت سے بغاوت کی اور پھر عبدالملک نے حجاج المبیر کے ذریعہ خلیفہ وقت پر چڑھائی کر کے انھیں بے دردی سے شہید کیا۔ کعبہ اللہ کی حرمت کو پامال کیا۔ اسی بناء پر عبد الملک اور حجاج کے گروہ کو سید نا ابن عمرؓ نے ’’فتنہ باغیہ‘‘ قرار دیا ہے۔

◈سیدنا ابن عمرؓ کی گستاخی:

کہا جاتا ہے کہ حجاج بن یوسف نہ صرف صحابہ کرامؓ کا بے حد احترام کرتا تھا بلکہ ان کی ڈانٹ ڈپٹ تک خاموشی سے سن لیا کرتا تھا۔ اور اس کے لیے دلیل درج ذیل روایت کو بنایا گیا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمٍ قَالَ كَتَبَ عَبْدُ الْمَلِكِ إِلَى الْحَجَّاجِ أَنْ لَا يُخَالِفَ ابْنَ عُمَرَ فِى الْحَجِّ فَجَاءَ ابْنُ عُمَرَ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ وَأَنَا مَعَهُ يَوْمَ عَرَفَةَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ فَصَاحَ عِنْدَ سُرَادِقِ الْحَجَّاجِ فَخَرَجَ وَعَلَيْهِ مِلْحَفَةٌ مُعَصْفَرَةٌ فَقَالَ مَا لَكَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَقَالَ الرَّوَاحَ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ السُّنَّةَ قَالَ هَذِهِ السَّاعَةَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَأَنْظِرْنِي حَتَّى أُفِيضَ عَلَى رَأْسِي ثُمَّ أَخْرُجَ فَنَزَلَ حَتَّى خَرَجَ الْحَجَّاجُ فَسَارَ بَيْنِي وَبَيْنَ أَبِي فَقُلْتُ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ السُّنَّةَ فَاقْصُرِ الْخُطْبَةَ وَعَجِّلِ الْوُقُوفَ فَجَعَلَ يَنْظُرُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ قَالَ صَدَقَ .
’’سالمؒ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ خلیفہ عبد الملک بن مروانؒ نے حجاج بن یوسفؒ کو خط لکھا کہ وہ احکام حج میں سید نا عبد اللہ بن عمرؓ کی مخالفت نہ کرے، چنانچہ عبد اللہ بن عمرؓ عرفہ کے دن زوال آفتاب کے بعد تشریف لائے جبکہ میں بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ انھوں نے حجاجؒ کے ڈیرے کے پاس پہنچ کر زور سے آواز دی تو حجاج کسم میں رنگی ہوئی چادر اوڑھے باہر نکلے اور کہنے لگا ابوعبد الرحمن ! کیا بات ہے؟ سیدنا ابن عمرؓ نے فرمایا: اگر تمھیں سنت کی پیروی مطلوب ہے تو ابھی چلنا چاہیے۔ حجاج بولے: بالکل اسی وقت؟ انھوں نے فرمایا: ہاں۔ حجاج نے کہا: مجھے اتنی مہلت دیں کہ میں اپنے سر پر پانی بہالوں پھر چلتا ہوں ۔ سیدنا ابن عمرؓ اپنی سواری سے نیچے اتر پڑے، یہاں تک کہ حجاج فارغ ہو کر نکلے۔ جب وہ، میرے اور والد گرامی کے درمیان چلنے لگے تو میں نے کہا کہ اگر آپ سنت کی پیروی چاہتے ہیں تو خطبہ مختصر پڑھیے گا اور وقوف میں جلدی کیجیے گا۔ یہ سن کر حجاج سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کی طرف دیکھنے لگے۔ جب سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ نے انھیں دیکھا تو فرمایا کہ سالم سچ کہتا ہے۔“
(صحيح البخاري : ١٦٧٧)

گر آنکھیں ہوں بند تو دن بھی رات ہے
بھلا اس میں قصور کیا ہے سورج کا

کاش! ایسا ہی ہوتا۔ جیسا کہ آج حجاج کی وکالت کرنے والے باور کراتے ہیں کہ وہ اصحاب رسول کا بے حد احترام کرتا تھا اور ان کی ڈانٹ ڈپٹ تک برداشت کر لیتا تھا۔ مگر ہمیں نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسا ہر گز نہیں تھا۔ جو کوئی بھی سنجیدگی سے حجاج کی سیرت پڑھے گا اس پر یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی کہ ادب و احترام نام کی چیز تو اس شخص کے قریب سے بھی نہیں گزری تھی ، حکومت کے نشے نے اسے چھوٹے بڑے کی تمیز بھلا دی تھی۔
گذشتہ سطور میں سیدنا ابن زبیر اور ان کی والدہؓ کے ساتھ اس کا رویہ بیان ہو چکا ہے۔ کیا بے حد احترام ڈانٹ ڈپٹ برداشت کرنے والے اور مکمل اتباع کرنے والے ایسا کرتے ہیں؟ وکلائے حجاج کہتے ہیں کہ ابن زبیر کے ساتھ سیاسی چپقلش تھی اس لیے وہ حجاج کے عتاب کا نشانہ بنے مگر ہم پوچھتے ہیں کہ سیدہ اسماءؓ نے اس ظالم کا کیا بگاڑا تھا؟ کیا بیٹے کی سزا ماں کو دی جاسکتی ہے؟ حجاج کی وکالت کرنے والو! روز قیامت اللہ کی عدالت میں کیا جواب دو گے؟ یہی کہ ہم نے گستاخ صحابہ کا دفاع کیا؟ ایک صحابی رسول کو ’’عدو اللہ‘‘ اللہ کا دشمن قرار دینے والے کی وکالت کی؟ سیدہ اسماءؓ کے زخموں پر نمک چھڑ کنے والے کی حمایت کی؟ ایمان سے بتاؤ! کیا جس طرح تم لوگ آج بے جا حجاج کی وکالت کر رہے ہو، اس کے حق میں کتابیں لکھ کر اسے اسلام کا ہیرو کہہ رہے ہو، اسلاف میں سے بھی کوئی تمھارے ساتھ ہے؟ کیا سلف صالحین میں سے بھی کسی نے اس طرح حجاج کی وکالت کی ہے؟
سید نا ابن عمرؓ کے احترام کے سلسلے میں سطور بالا میں جو روایت پیش کی گئی ہے اگر حجاج کی وکالت کی پٹی اتار کر اسے پڑھا جائے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ کتنے صاف الفاظ میں ہے:’’كَتَبَ عبد الملك إلى الحجاج أن لا يخالف ابن عمر “ عبدالملك بن مروان نے حجاج بن یوسف کو خط لکھا کہ وہ احکام حج میں سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کی مخالفت نہ کرے۔
یعنی یہ خلیفہ عبد الملک کی طرف سے حکم تھا کہ ابن عمرؓ کی مخالفت نہ کرنا۔ تو جناب من! یہ جو ’’بے حد احترام‘‘ اور مکمل اتباع ہو رہی تھی۔ اس کے پیچھے خلیفہ کا ڈنڈا تھا۔ اگر حجاج واقعتاً صحابہ کرام کا بے حد احترام اور مکمل اتباع کرنے والا ہوتا تو خلیفہ کو کبھی خط لکھنے کی ضرورت پیش نہ آتی، بلکہ یہ چیز بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ حجاج کے اندر احترام اور اتباع والی کوئی بات نہ تھی، اگر وہ ایسا ہوتا تو خلیفہ بھی اسے یہ خط نہ لکھتا۔

حجاج سیدنا ابن عمرؓ اور دیگر اصحاب رسول کا کتنا احترام کرتا تھا؟ ملاحظہ کیجیے:
جلیل القدر تابعی ابو العالیہ سے مروی ہے کہ انھوں نے ابن عمرؓ کو دیکھا وہ ابن زبیرؓ کے لیے دعائے مغفرت کر رہے تھے جس وقت انھیں سولی پر لٹکایا ہوا تھا۔ ابن عمرؓ کہہ رہے تھے: اللہ کی قسم! جہاں تک مجھے معلوم ہے آپ بہت زیادہ روزے رکھنے والے بہت زیادہ قیام کرنے والے تھے، آپ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتے تھے۔ یہ سن کر ایک آدمی حجاج کی طرف گیا اور کہا: یہ ابن عمرؓ ہیں جو کھڑے ابن زبیرؓ کے لیے دعائے مغفرت کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اللہ کی قسم ! جہاں تک مجھے معلوم ہے آپ بہت زیادہ روزے رکھنے والے بہت زیادہ قیام کرنے والے تھے، آپ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتے تھے۔ اس پر حجاج نے ایک شامی شخص سے کہا: اٹھو اور اسے میرے پاس لاؤ، تو وہ شامی کافی دیر کھڑا رہا، پھر کہنے لگا اللہ تعالیٰ امیر کو سلامت رکھے، آپ مجھے بات کرنے کی اجازت دیجیے، حجاج نے کہا: بات کرو۔ اس نے کہا: درحقیقت لوگوں کی آنکھیں اس شخص ابن عمرؓ کی طرف لگی ہوئی ہیں، اگر آپ نے اسے بھی قتل کر دیا تو ایسا فتنہ برپا ہو جائے گا جو ختم نہ ہوگا۔ یہ سن کر حجاج نے کہا: تم بیٹھ جاؤ اور پھر حجاج نے ان کی طرف دس ہزار (درہم) بھیجے اور کہا کہ یہ امیر (حجاج) نے بھیجے ہیں تا کہ آپ ان کے ذریعے سے فائدہ اٹھائیں ۔ آپ نے انھیں قبول کر لیا، پھر اس سے خاموش ہو گئے ۔ حجاج نے پھر ان کی طرف پیغام بھیجا کہ ہمارے درہم ہمیں واپس کر دو۔ حجاج یہ سب کچھ اس لیے کر رہا تھا تا کہ وہ دیکھے کہ آپ نے ان میں سے کچھ خرچ کیے ہیں یا نہیں۔ آپ نے اس کی طرف پیغام بھیجا کہ ہم نے ان میں سے کچھ خرچ کر لیے ہیں اور کچھ باقی ہیں۔ ہم انھیں ایک دو دن میں جمع کر کے آپ کو لوٹا دیں گے تو حجاج نے آپ کی طرف پیغام بھیجا کہ ان سے فائدہ اٹھاؤ، ہمیں ان کی ضرورت نہیں ۔ (الطبقات الكبير لابن سعد : ٥١٣/٦ ، وسنده حسن)
معلوم ہوا کہ حجاج تو سیدنا ابن عمرؓ کے بھی قتل کے درپے تھا، وہ تو بھلا ہو اس شامی کا جس نے یہ مشورہ دیا کہ حضور! ابن عمر کا لوگوں کی نگاہوں میں بڑا مقام ہے۔ اس وقت تمام لوگوں کی نظریں ان پر لگی ہوئی ہیں۔ اگر آپ نے انھیں قتل کر دیا تو ایسا فتنہ بھڑک اٹھے گا جو بجھ نہیں سکے گا اور پھر آخر میں اس نے آپ کا امتحان لینے کے لیے کچھ پیسے آپ کی طرف بھیجے تا کہ معلوم کر سکے کہ آپ انھیں قبول کرتے ہیں یا نہیں مگر آپ نے حکمت کے تحت انھیں قبول کر لیا۔

❀۔ثقہ و صدوق تابعی خالد بن سمیر کہتے ہیں:
’’خــطـب الحجاج الفاسق على المنبر فقال: إنّ ابن الزبير حرّف كتاب الله ، فقال له ابن عمر: كذبت كذبت كذبت ، ما يستطيع ذلك ولا أنت معه . فقال له الحجاج: اسکت فإنّك شيخ قد خَرِفْتَ وذهب عقلك، يوشك شيخ أن يُؤْخَذَ فتضرب عنقه فيُجَرِّ قد انتفخت حُصَيَّتَاه يطوف به صبيان أهل البقيع .“
حجاج فاسق نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے کہا: بے شک ابن زبیر نے کتاب اللہ میں تحریف کی ہے۔ یہ سن کر سیدنا ابن عمرؓ نے اسے کہا: تو نے جھوٹ بولا ہے، تو نے جھوٹ بولا ہے، تو نے جھوٹ بولا ہے۔ نہ انھیں اس کی طاقت تھی اور نہ تجھے اس کی طاقت ہے۔ یہ سن کر حجاج نے انھیں کہا: خاموش ہو جا۔ تم تو ایک بوڑھے انسان ہو جو بڑھاپے سے سٹھیا گئے ہو اور تمھاری عقل جا چکی ہے۔ قریب ہے کہ بوڑھا پکڑ لیا جائے اور اس کی گردن اڑا دی جائے۔ پھر اس طرح گھسیٹا جائے کہ اس کے دونوں خصیے پھولے ہوئے ہوں، اہل بقیع کے بچے اسے لے کر گھماتے پھریں۔
(الطبقات الكبير لابن سعد : ٤ / ١٧٢ وسنده حسن)
یہ ہے جی ، حجاج بن یوسف کے صحابہ کرامؓ کے بے حد احترام اور مکمل اتباع کی ایک جھلک۔

❀ سعید بن جبیر کہتے ہیں:
میں ابن عمرؓ کے ہمراہ تھا جب ان کے پاؤں کے تلوے میں نیزے کی نوک چبھ گئی اور ان کا پاؤں رکاب سے چمٹ گیا، چنانچہ میں نیچے اترا اور اسے پاؤں سے نکالا۔ یہ واقعہ منی میں ہوا تھا۔ حجاج بن یوسف کو جب اس کی اطلاع ملی تو وہ آپ کی عیادت کے لیے آیا اور کہنے لگا: اے کاش! ہمیں معلوم ہو جائے کہ کس نے آپ کو یہ تکلیف پہنچائی ہے۔ سیدنا ابن عمرؓ نے جواب دیا کہ تو نے ہی مجھے یہ تکلیف پہنچائی ہے۔ اس نے کہا: ایسا کیونکر ہو سکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا: تو نے ہی اس دن ہتھیار اٹھائے جس دن ہتھیار نہیں اٹھائے جاتے اور تو نے ہی حرم میں ہتھیار داخل کیے، حالانکہ حرم میں ہتھیار نہیں لائے جاتے ۔
(صحیح البخاري : ٩٦٦)
اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سیدنا ابن عمرؓ حجاج سے قطعاً خوش نہ تھے ، بھلا جو شخص بے حد احترام اور مکمل اتباع کرے اس کے متعلق ایک جلیل القدر صحابی کے اس طرح کے تاثرات ہو سکتے ہیں؟

◈سیدنا علیؓ کی گستاخی:

❀ابراہیم بن عبدالاعلیٰ الجعفی کہتے ہیں:
حجاج نے سوید بن غفلہ کی طرف پیغام بھیجا اور کہا:
’’لا تؤم قومك ، واذا رجعت فاسبب علیا‘‘
اپنی قوم کی امامت نہ کر اور جب واپس جائے تو علیؓ کو برا بھلا کہنا۔ سوید کہتے ہیں کہ میں نے کہا: سمع واطاعت ہوگی۔
(المصنف لابن أبي شيبة ، ح : ۳۱۲۷۷ وسنده حسن)

❀ امام اعمش فرماتے ہیں:
میں نے عبد الرحمن بن ابی لیلی کو دیکھا جبکہ حجاج نے انھیں کھڑا کیا ہوا تھا اور انھیں کہا: ’’الـعــن الــكــذابين علي بن أبي طالب وعبد الله بن الزبير والمختار بن أبي عبيد ۔جھوٹوں پر یعنی علی بن ابی طالب، عبد اللہ بن زبیر اور مختار بن ابی عبید پر لعنت کر۔ تو عبد الرحمن نے کہا:’’لَعَنَ اللهُ الكذابين“ اللہ جھوٹوں پر لعنت کرے پھر ( تھوڑا رک کر جملے کی) ابتداء کرتے ہوئے کہا: ’’على بن أبي طالب وعبد الله بن الزبير والمختار بن أبي عبيد“ علی بن ابی طالب عبد اللہ بن زبیر اور مختار بن ابی عبید۔ اعمش کہتے ہیں: میں سمجھ گیا کہ جب انھوں نے جملہ کی ابتدا کی تو ان ناموں کو مرفوع پڑھا، یوں انھوں نے ان پر لعنت نہیں کی ۔ ( یعنی اگر وہ ان پر لعنت کرتے تو منصوب پڑھتے )۔
(المصنف لابن أبي شيبة ، ح : ٣١٢٥٩- الطبقات لابن سعد : ۲۳۲/۸ ، ۲۳۳ وسنده صحیح)

◈سیدنا سلمہ بن الاکوعؓ کی گستاخی :

یزید بن ابی عبید کہتے ہیں کہ سیدنا سلمہ بن الاکوعؓ حجاج کے پاس آئے تو اس نے کہا: ’’يَا ابْنَ الْاكْوَع ارتَدَدْتَ عَلَى عَقِبَيْكَ، تَعَرَّبْتَ ؟“ اے ابن الاکوع ! تم مرتد ہو گئے ہو، تم نے آبادی سے باہر رہائش رکھ لی ہے؟ انھوں نے فرمایا: ایسا نہیں ، اور لیکن رسول اللہ ﷺ نے مجھے بادیہ میں رہنے کی اجازت دی ہے۔
(صحیح البخاري ، ح : ۷۰۸۷)

❀ فضیلۃ الشیخ حافظ محمد امین اللہ اس حدیث کے فوائد و مسائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(۱) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ ہجرت کرنے کے بعد بادیہ نشینی نبی ﷺ کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے۔
(۲) یہ حدیث مبارکہ حضرت سلمہ بن اکوعؓ کے صبر اور ان کی جرات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ انھوں نے حجاج کی بے ادبی پر صبر کیا اور پھر اسے جواب بھی دیا۔ حجاج بنو امیہ کے دور کا ایک ظالم اور گستاخ گورنر تھا۔ حضرت سلمہ بن اکوع نبی ﷺ جیسے جلیل القدر صحابی سے اس کا انداز تخاطب اس کے تکبر اور گستاخی کی واضح دلیل ہے۔ اسے اقتدار کے نشے نے چھوٹے بڑے کی تمیز بھلا دی تھی۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی اسے اچھے لفظوں سے یاد نہیں کرتا بلکہ لعنت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ بے ادبی انسان کی خوبیوں کو چھپا دیتی ہے۔
(۳) بادیہ مراد صحرائی علاقہ ہے، یعنی آبادیوں سے باہر کھلے اور آزاد علاقے ۔ ان میں رہنے والے کو بدوی یا اعرابی کہتے ہیں۔
(۴) حجاج کا اعتراض فضول تھا۔ کوئی شخص کسی بھی جگہ رہائش اختیار رکھ سکتا ہے۔ حضرت سلمہ بن اکوعؓ کوئی مہاجر نہیں تھے کہ مدینہ چھوڑ کر اپنے سابقہ گھر چلے گئے ہوں اور ان پر اعتراض ہو سکے۔ بہت سے مہاجر صحابہ بھی مدینہ چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں آباد ہو گئے تھے۔ خیر انھوں نے تو نبی ﷺ سے اجازت بھی لے رکھی تھی اور پھر وہ فوت بھی مدینہ منورہ ہی میں ہوئے ۔ رضی الله عنه وأرضاه .
(سنن نسائی مترجم، دار السلام : ۲۰۲/۶)

◈سیدنا ابن مسعودؓ کی گستاخی:

سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ جلیل القدر صحابی ہیں۔ آپ کا شمار سابقون اولون میں ہوتا ہے۔ صاحب النعلین والوسادہ والمطہرہ کے لقب سے ملقب ہیں۔
(صحيح البخاري : ٣٧٤٢)

آپ کے ان گنت فضائل ہیں۔ سیدنا حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ وقار، سنجیدگی ، ہیت وصورت اور سیرت میں عبداللہ بن مسعودؓ سے زیادہ کوئی شخص نبی ﷺ کے قریب تھا۔ (صحيح البخاري : ٣٧٦٢)
نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ چار آدمیوں سے قرآن سیکھو : عبد اللہ بن مسعود، سالم مولی ابی حذیفہ، ابی بن کعب اور معاذ بن جبل ۔ آپ نے سب سے پہلے عبد اللہ بن مسعود کا ذکر کیا۔ (صحيح البخاري : ٣٧٥٨۔ مسلم : ٢٤٦٤)
حجاج المبیر نے آپؓ کو بھی نہیں بخشا بلکہ علی الاعلان آپ کی اہانت کی اور گستاخی کا مرتکب ہوا، چنانچہ صدوق تابعی عاصم بن بہدلہ فرماتے ہیں: میں نے حجاج سے سنا، وہ برسر منبر کہہ رہا تھا:
اتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ لَيْسَ فِيهَا مَثْنَوِيَّةٌ، وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا لَيْسَ فِيهَا مَثْنَوِيَّةٌ لأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَبْدِ الْمَلِكِ وَاللَّهِ لَوْ أَمَرْتُ النَّاسَ أَنْ يَخْرُجُوا مِنْ بَابِ مِنَ الْمَسْجِدِ فَخَرَجُوا مِنْ بَابِ آخَرَ لَحَلَّتْ لِى دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ . وَاللَّهِ! لَوْ أَخَذْتُ رَبِيعَةَ ره دوره بِمُضَرَ لَكَانَ ذَلِكَ لِي مِنَ اللَّهِ حَلَالًا وَيَا عَذِيرِى مِنْ عَبْدِ هُدَيْلٍ يَزْعُمُ أَنَّ قِرَائَتَهُ مِنْ عِنْدِ اللهِ ، وَاللهِ مَا هِيَ إِلَّا رَجَزٌ مِنْ رَجَزِ الْأَعْرَابِ مَا أَنْزَلَهَا اللهُ عَلَى نَبِيِّهِ عَلَيْهِ السَّلَامِ وَعَذِيرِى مِنْ هَذِهِ الْحَمْرَاءِ يَزْعُمُ أَحَدُهُمْ أَنَّهُ يَرْمِي بِالْحَجَرِ فَيَقُولُ إِلَى أَنْ يَقَعَ الْحَجَرُ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ فَوَاللَّهِ الأَدَعَنَّهُمْ كَالْأَمْسِ الدَّابِرِ
’’اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جہاں تک ہمت پاؤ، اس میں کوئی استثنا نہیں۔ امیر المومنین عبد الملک (بن مروان ) کی بات سنو اور اطاعت کرو، اس میں کوئی استثنا نہیں۔ اللہ کی قسم ! اگر میں لوگوں کو حکم دوں کہ مسجد کے فلاں دروازے سے باہر جاؤ اور وہ دوسرے کسی دروازے سے باہر نکلیں تو میرے لیے ان کے خون اور مال حلال ہوں گے۔ اللہ کی قسم !اگر میں مضر کے بدلے قبیلہ ربیعہ کی گرفت کروں تو یہ میرے لیے اللہ کی طرف سے حلال ہے۔ اور کون ہے جو مجھے ہذیل کے غلام ( اشارہ ہے سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ) کی طرف سے معذور جانے ، اس کا خیال ہے کہ اس کی قراءت اللہ کی طرف سے ہے۔ اللہ کی قسم! (یہ اس کی قراءت) تو بدویوں کے رجز (چھوٹے چھوٹے شعروں) کی مانند ہے۔ اللہ نے اسے اپنے نبی ﷺ پر نازل نہیں کیا ہے۔ اور کون ہے جو مجھے ان عجمیوں سے معذور جانے ،ان میں سے کوئی پتھر پھینک دیتا ہے (فتنے کی بات کر دیتا ہے) پھر کہتا ہے کہ دیکھو یہ کہاں تک جاتا ہے۔ اللہ کی قسم ! میں انھیں کل ماضی کی مانند کر کے رکھ دوں گا ( نیست و نابود کر دوں گا۔)
راوی نے کہا کہ میں نے یہ واقعہ اعمش کو بیان کیا تو انھوں نے کہا: میں نے بھی اللہ کی قسم ! اسے اس سے سنا ہے ۔
(سنن أبي داود : ٤٦٤٣ ، وسنده حسن)

اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے۔ عاصم بن بہدلہ کو جمہور نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے، لہذا آپ کی روایت حسن درجے سے کم نہیں۔ ابوبکر بن عیاش بھی قول راج میں صدوق و حسن الحدیث ہیں سوائے ان روایات کے جن میں ان کو غلطیاں لگی ہیں، اخطاء و اوہام ہوئے ہیں۔ مذکورہ روایت میں آپ کی خطا و وہم کی کوئی دلیل نہیں، لہذا یہ روایت حسن لذاتہ ہے۔
شیخ البانی نے اس سند کو صحیح اور شیخ زبیر علی زئیؒ نے حسن کہا ہے۔

ایک دوسری روایت میں ہے:یا عجبا من عبد هذيل، يزعم أنه يقرا قرآنًا من عند الله، والله ما هو إلا رجز من رجز الأعراب، والله! لو أدركت عبد هذيل لضربت عنقہ ہائے عبد ہذیل پر تعجب ! وہ سمجھتا ہے کہ اس نے اللہ کے ہاں سے قرآن پڑھا ہے، اللہ کی قسم! یہ تو بدؤں کے رجز کی مانند ہے، اللہ کی قسم ! اگر میں اس کو پالیتا تو ضرور اس کی گردن اڑا دیتا ۔
(تاریخ دمشق : ١٢/ ١٦٢ وسنده حسن)
قارئین! آپ نے دیکھا کہ حجاج اصحاب رسول کی اہانت و تنقیص میں کس قدر جری و دلیر تھا۔ سیدنا ابن مسعودؓ کی قرآت کو بدؤں کے رجز (چھوٹے چھوٹے شعروں) کے مانند قرار دے رہا ہے اور کہتا ہے کہ اگر میں ان کو پالیتا تو ضرور ان کی گردن اڑا دیتا۔ یاد رہے کہ سیدنا ابن مسعودؓ حجاج کے پیدا ہونے سے پہلے ہی وفات پاچکے تھے۔

❀ حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:
’’و هذا من جراءة الحجاج قبحه الله وإقدامه على الكلام السئي والدماء ،الحرام، وإنما نقم على قراءة ابن مسعود ا لكونه خالف القراءة على المصحف الإمام الذي جمع الناس عليه عثمان والظاهر أن ابن مسعود رجع إلى قول عثمان و موافقیه والله اعلم‘‘۔
اور یہ چیز حجاج کی دریدہ دہنی ، بدترین کلام کی ادائیگی کا اقدام اور حرمت والے خون بہانے میں سے ہے۔ اللہ اسے تباہ کرے۔ اسے ابن مسعودؓ کی قراءت سے محض اس لیے نفرت تھی کہ ان کی قراءت مصحف الامام سے مختلف تھی جس کی قراءت پر عثمان نے لوگوں کو جمع کیا تھا، حالانکہ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ ابن مسعودؓ نے عثمان کے قول اور ان کی موافقت کرنے والوں کی طرف رجوع کر لیا تھا۔ واللہ اعلم
(البداية والنهاية : ٣١٤/٩)

◈انسانیت کا بے دریغ قتل:

تاریخ کے اوراق اس بات پر گواہ ہیں کہ حجاج نے انسانیت کا بے دریغ قتل کیا۔

❀ ثقہ ثبت تابعی امام ہشام بن حسان کہتے ہیں:
”احصوا ما قتل الحجاج صبرا فبلغ ماته ألف و عشرين ألف قتيل‘‘
حجاج نے جن لوگوں کو باندھ کر قتل کیا تھا، انھیں شمار کیا گیا تو ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تھی۔
(سنن الترمذي : ۲۲۲۰ ، وسنده صحيح)
یادر ہے کہ اسلام میں باندھ کر کسی کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

◈رعایا کے ساتھ برتاؤ:

سیدنا عوف بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ سلام نے فرمایا:
خِيَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ وَتُصَلُّوْنَ عَلَيْهِمْ وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ وَتَلْعَنُونَهُم وَيَلْعَنونَ
’’تمھارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں تم ان کے لیے دعا کرو اور وہ تمھارے لیے دعا کریں۔ اور تمھارے بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔“
(صحیح مسلم : ١٨٥٥)
اور آپ ﷺ نے فرمایا: اللَّهُمَّ مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَشَقَ عَلَيْهِمْ فَاشْقُقْ عَلَيْهِ ، وَمَنْ وَلِيَ مَنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَرَفَقَ بِهِمْ فَارْفُق بِهِ
’’اے اللہ ! جو شخص بھی میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور ان پر سختی کرے تو اس پر سختی کر اور جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور ان کے ساتھ نرمی برتے تو بھی اس کے ساتھ نرمی فرما۔‘‘
(صحیح مسلم : ۱۸۲۸)
حجاج کا اپنی رعایا کے ساتھ جس میں اکثریت جلیل القدر صحابہ اور تابعین کی تھی، کے ساتھ کیا معاملہ تھا؟ اس کا اندازہ آپ درج ذیل روایت سے لگا سکتے ہیں:

❀ زبیر بن عدی کہتے ہیں:
” أتينا أنس بن مالك فشكونا إليه ما يلقون من الحجاج فقال: "اصبروا فإنه لا ياتي عليكم زمان إلا والذي بعده شر منه حتى تلقوا ربكم سمعته من نبيكم ﷺ ‘‘
ہم سیدنا انس بن مالکؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حجاج سے پہنچنے والی تکلیفوں کی شکایت کی تو انھوں نے فرمایا:
’’صبر کرو کیونکہ بعد میں آنے والا دور پہلے دور سے بدتر ہوگا، یہاں تک کہ تم اپنے رب سے جاملو۔‘‘
میں نے یہ بات تمھارے نبی ﷺ سے سنی ہے۔
(صحيح البخاري : ٧٠٦٨)

حجاج سے لوگ کس قدر تنگ تھے ؟ اس روایت سے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ سیدنا انسؓ کے شاگرد اپنے استاد سیدنا انسؓ سے حجاج کے مظالم کی شکایت کر رہے تھے ۔ سیدنا انسؓ نے انھیں صبر کی تلقین کی، یہ نہیں کہا کہ تم غلط کہتے ہو حجاج تو ایک مجاہد انسان ہے۔ اسلام کا ہیرو ہے جس طرح کہ آج کل وکلائے حجاج باور کروا رہے ہیں۔

◈فتنه ابن الاشعث :

’’ابن الاشعث کی بغاوت کی وجہ بھی حجاج کے مظالم ہی تھے۔ جیسا کہ امام ذہبی لکھتے ہیں:
بعثه الحجاج على سجستان، فثار هناك، وأقبل في جمع كبير وقام معه علماء وصلحاء لله تعالى لما انتهك الحجاج من إماتة وقت الصلاة ولجوره وجبروته فقاتله الحجاج وجرى بينهما عِدة مصافات وينتصر ابن الأشعث ودام الحرب أشهرا وقتل خلق من الفريقين وفي آخر الأمر انهزم جمع ابن الأشعث .‘‘
”ابن الاشعث کو حجاج نے سجستان کا ( والی ) مقرر کیا تو وہاں وہ باغی ہو گیا اور ایک بڑا لشکر لے کر آیا اس کے ہمراہ علماء اور صلحاء بھی اٹھ کھڑے ہوئے ، اس کی وجہ حجاج کا نماز کے وقت میں تاخیر اور اس کا جور و جبر تھا۔ پھر حجاج نے اس سے جنگ کی اور ان کے درمیان کئی ایک معرکے ہوئے ۔ ابن الاشعث کو کامیابی ملی ، یہ جنگ کئی ماہ تک جاری رہی، فریقین کے بہت سارے افراد قتل ہوئے۔ آخر ابن الاشعث کی فوج کو شکست اٹھانی پڑی۔
(سیر أعلام النبلاء : ٤ / ١٣ ٤ – ٤١٤ )

ثقہ تابعی سلیمان بن علی الربعی کہتے ہیں:
جب ابن الاشعث کا فتنہ برپا ہوا، جب حجاج بن یوسف نے جنگ کی تو عقبہ بن عبد الغافر، ابو الجوزاء اور عبد اللہ بن غالب اپنے ہم خیال چند حضرات کو لے کر امام حسن بصری کے پاس آئے اور کہنے لگے: ابوسعید ! آپ کا اس سرکش کی جنگ کے بارے میں جس نے حرمت والے خون بہائے ، حرمت والا مال لوٹا، نماز چھوڑ دی اور یہ یہ کیا، کیا خیال ہے؟ راوی کہتا ہے کہ انھوں نے حجاج کے بعض افعال کا تذکرہ کیا، یہ سن کر امام حسن نے کہا: میری رائے میں تم ان سے جنگ نہ کرو کیوں کہ اگر اس کی جنگ اللہ کی طرف سے تم پر عذاب ہے تو تم اپنی تلواروں کے ذریعے اسے ہٹا نہیں سکتے اور اگر یہ آزمائش ہے تو پھر صبر کرو حتی کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمادے اور وہی سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔ راوی کہتا ہے کہ یہ سن کر وہ لوگ یہ کہتے ہوئے واپس ہوئے کہ کیا ہم اس اکھڑ مزاج آدمی کی اطاعت کریں اور وہ سب عرب کے لوگ تھے۔ آخر یہ لوگ ابن الاشعث کے ساتھ نکلے اور سب کے سب قتل کر دیے گئے۔
(الطبقات الكبير لابن سعد : ١٦٤/٩ وسنده حسن)

❀ ثقہ تابعی ابوالتیاح کہتے ہیں:
میں امام حسن اور سعید بن ابی الحسن کے پاس آیا جب ابن الاشعث آیا تھا۔ امام حسن حجاج پر خروج سے منع کر رہے تھے اور رک جانے کا حکم دے رہے تھے اور سعید بن ابی الحسن ابھار رہے تھے۔ پھر باتوں باتوں میں سعید کہنے لگے: شامی ہمیں کیا کہیں گے جب ہم کل کو ان سے ملیں گے؟ تو ہم نے کہا: اللہ کی قسم ! ہم نے امیر المومنین کی بیعت نہیں توڑی اور نہ توڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ البتہ ہم امیر المومنین کے خلاف اظہار غیظ و غضب کرتے ہیں کہ ہم پر حجاج کو کیوں حاکم بنایا اسے معزول کیجیے۔ جب سعید اپنی گفتگو سے فارغ ہوئے تو حسن نے گفتگو کی ، انھوں نے اللہ کی حمد وثنا کی پھر کہا: لوگو ! اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے حجاج کو بطور عذاب ہی تم پر مسلط کیا ہے، لہذا تلوار کے ساتھ اللہ کے عذاب کا مقابلہ مت کرو اور لیکن پر امن رہو اور گڑ گڑاؤ۔ اور رہا تمھارا یہ کہنا کہ میرا شامیوں کے بارے میں کیا گمان ہے؟ سوان کے بارے میں میرا یہ گمان ہے کہ اگر وہ آئیں اور حجاج ان کی طرف دنیا پھینک دے تو وہ حجاج کی ہر بات ماننے کو تیار ہوں گے۔ میرا تو ان کے متعلق یہی گمان ہے۔
(الطبقات الكبير لابن سعد : ٩/ ١٦٥ وسنده صحيح)
معلوم ہوا کہ ابن الاشعث اور اس کے ساتھیوں کی حجاج کے خلاف بغاوت اس کے ظلم و ستم ہی کی بنا پر تھی۔ وہ محض اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا چاہتے تھے تاکہ خلیفہ وقت حجاج کو ان سے معزول کر کے کسی اور کو ان کا حاکم مقرر کر دے۔

◈امام سعید بن جبیر کا قتل:

امام سعید بن جبیر جلیل القدر تابعین میں سے تھے۔ آپ کے قتل کا سبب یہ تھا کہ آپ نے ابن الاشعث کے ہمراہ حجاج کے خلاف خروج کیا تھا۔ اس خروج کی ایک بڑی وجہ حجاج کے مظالم ہی تھے اور دوسرا ابن الاشعث کا آپ پر دباؤ تھا۔

❀ ابو یونس القوی کہتے ہیں:
میں نے سعید بن جبیر سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان کے متعلق پوچھا:
إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ (النساء : ۹۸)
’’سوائے کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کے ‘‘۔ انھوں نے کہا: مکہ میں کچھ لوگ تھے مظلوم و مقہور تھے ۔ یہ ان کے متعلق اتری تھی میں نے کہا: میں بھی آپ کے پاس ایسے ہی (مظلوم و مقہور ) لوگوں کے پاس سے آیا ہوں، یعنی حجاج کے دور میں ۔ انھوں نے کہا: اے بھتیجے! ہم نے تو بڑی خواہش اور جدوجہد کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ کو جو منظور تھا وہی ہوا۔ (الطبقات الکبیر لابن سعد : ۳۸۱/۸ وسنده صحیح)

اس سے معلوم ہوا کہ سعید بن جبیر اور ان کے ساتھی حجاج کے ظلم کے خلاف اٹھے تھے مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

❀ فضل بن سوید کہتے ہیں:
مجھے حجاج نے کسی کام کے سلسلے میں بھیجا تھا کہ اسی دوران میں سعید بن جبیر کو لایا گیا، میں واپس آیا تو میں نے کہا: میں ضرور دیکھوں گا کہ ان کے ساتھ کیا برتاؤ ہوتا ہے۔ میں حجاج کے سرہانے کھڑا ہو گیا۔ حجاج نے انھیں کہا: اے سعید ! کیا میں نے تجھے اپنی امانت میں شریک نہیں کیا تھا؟ کیا میں نے تجھے عامل نہیں بنایا تھا؟ کیا میں نے ایسا نہیں کیا تھا؟ اس پر مجھے (فضل کو) گمان ہوا کہ وہ ضرور ان کو چھوڑ دے گا۔ انھوں نے کہا: جی ایسا ہی ہے۔ حجاج نے کہا: پھر تجھے میرے خلاف خروج پر کس چیز نے ابھارا؟ سعید نے کہا: مجھ پر دباؤ ڈالا گیا تھا۔ یہ سن کر حجاج سخت غصہ میں آ گیا اور کہنے لگا: واہ! تو نے اللہ کے دشمن کے حق کو اپنے اوپر حق سمجھا اور اللہ، امیر المومنین اور میرا، اپنے اوپر کوئی حق نہ سمجھا۔ اس کی گردن اڑا دو، چنانچہ ان کی گردن اڑا دی گئی۔ ان کا سر تن سے جدا ہوکر گر پڑا، اس وقت ان کے سر پر چھوٹی سی سفید گول ٹوپی تھی ۔
(الطبقات لابن سعد : ۸/ ۳۸۳- ۳۸۳/۸۔ صحیح . تاريخ الطبري : ٢٠٤/٤، وسنده حسن)

◈نمازوں میں تاخیر:

حجاج بن یوسف نمازوں کو بھی ان کے اوقات سے مؤخر کرتا تھا۔ چنانچہ محمد بن عمرو بن حسن بن علی کہتے ہیں:’’كان الحجاج يؤخر الصلوات ‘‘ حجاج نمازوں کو مؤخر کر دیتا تھا۔ (صحیح مسلم : ٤٦٤) یوں حجاج پر وہ احادیث بھی صادق آتی ہیں جن میں نماز مؤخر کرنے والے حکمرانوں کا ذکر ہے۔

ثقہ محدث علی بن مدرک بیان کرتے ہیں کہ سوید بن غفلہ دو پہر کو ( زوال کے فوراً بعد ) اذان دے دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ حجاج مقام دیر میں تھا۔ اس نے اذان سنی تو کہا: اس مؤذن کو میرے پاس لاؤ۔ سوید بن غفلہ کو لایا گیا تو حجاج نے کہا: تجھے دوپہر کو ( زوال کے فوراً بعد نماز پر کس نے ابھارا؟ انھوں نے کہا: میں نے ابوبکر وعمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی ہے (وہ اسی وقت میں نماز پڑھا کرتے تھے ) ۔ یہ سن کر حجاج نے کہا: تو اپنی قوم کے لیے نہ اذان دیا کر اور نہ امامت کرایا کر۔
( الطبقات الكبير لابن سعد : ۱۹۱/۸ وسنده حسن)
نبی کریم ﷺ نماز ظہر زوال کے فوراً بعد ادا کیا کرتے تھے۔ حضرات شیخین کریمین کا بھی اسی پر عمل تھا۔ اسی لیے جلیل القدر تابعی سوید بن غفلہ بھی نماز ظہر کو زوال کے فوراً بعد اول وقت ہی میں ادا کر لیا کرتے تھے۔ مگر حجاج کو یہ بات اس قدر بری لگی کہ اس نے جناب سوید کو اذان اور امامت ہی سے معزول کر دیا۔

◈حجاج کے متعلق محدثین کی آراء:

گزشتہ سطور میں اس بات کی وضاحت ہو چکی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ثقیف میں سے جس ”مبیر“ کی آمد کی خبر دی تھی ، وہ حجاج بن یوسف ہی تھا۔ جیسا کہ سیدہ اسماءؓ نے اس کی وضاحت فرمائی۔ علاوہ ازیں سید نا ابن عمرؓ نے بھی ایک موقع پر تین بار حجاج سے کہا: كذبت كذبت کذبت تو نے جھوٹ بولا ہے، جھوٹ بولا ہے، جھوٹ بولا ہے۔ یوں صحابہ کرام کی نظر میں حجاج ایک کذاب شخص تھا۔

اب ہم اس کے متعلق ائمہ محدثین کی آراء بیان کرتے ہیں:

❀۔۔۔ثقه فاضل تابعی ابورزین (المتوفی : ۸۵ھ) فرماتے ہیں:
’’إن كــــــــــــان الحجاج على هدى ، إنى إذا لفي ضلال مبین‘‘ اگر حجاج ہدایت پر ہے تو یقین کرو! میں تو پھر کھلی گمراہی میں ہوں ۔
(العلل ومعرفة الرجال : ١١٦٢ وسنده حسن)

❀۔۔۔صدوق تابعی خالد بن سمیر کا بیان گزر چکا ہے کہ انھوں نے فرمایا:
”خـــطــب الحجاج الفاسق‘‘ حجاج الفاسق نے خطبہ دیا۔
(الطبقات الكبير لابن سعد : / ١٧٢ وسنده حسن)

❀۔۔۔علامہ ابن عبدالبر (المتوفی : ۴۶۳ھ) فرماتے ہیں:
’’كان الحجاج عند جمهور العلماء أهلا أن لا يروى عنه ولا يؤثر حديثه، ولا يذكر بخير لسوء سره وإفراطه فى الظلم ومن أهل العلم طائفة تكفره“
جمہور علماء کے نزدیک حجاج اس لائق ہے کہ اس سے روایت نہ لی جائے نہ اس کی حدیث کو ترجیح دی جائے اور اس کی بد خصلتی اور بے حد ظلم وستم کی بنا پر اس کا ذکر خیر نہ کیا جائے اور اہل علم کی ایک جماعت نے تو اس کی تکفیر کی ہے.“
(التمهيد : ٦/١٠)

❀۔۔۔علامہ ابن الجوزی (المتوفی: ۵۹۷ھ) فرماتے ہیں:
”وليس بأهل أن يروى عنہ“ وہ اس لائق نہیں کہ اس سے روایت لی جائے۔
(المنتظم : ٤ / ٤٦٦)

❀۔۔۔امام نووی (المتوفی : ۶۷۶ھ) فرماتے ہیں:
’’الجائر المشهور بالظلم وسفك الدماء“ ظالم جو ظلم اور خون ریزی میں مشہور تھا۔
(صحیح مسلم مع شرح النووي : ١٣/١)

❀۔۔۔امام ذہبی (المتوفی : ۷۴۸ھ) نے سیر اعلام النبلاء میں حجاج کا جو ترجمہ لکھا وہ آپ اس مضمون کے شروع میں ملاحظہ کر چکے ہیں۔ امام موصوف ”دیوان الاسلام“ میں فرماتے ہیں:
’’الحجاج بن يوسف بن الحكم الثقفي الظالم الغاشم السفاك الفاسق والى مكة المشرفة ثم العراق هلك ٩٥هـ“
حجاج بن يوسف بن حکم ثقفی ظلم و ستم ڈھانے والا ، خون بہانے والا، فاسق ، مکہ شریف بعد ازاں عراق کا حاکم ۹۵ھ میں ہلاک ہوا۔
(دیوان الاسلام : ١/ ٣٤ الشامله)

❀۔۔۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن کثیر کا کلام بھی بیان ہو چکا ہے کہ انھوں نے ’’المبیر‘‘ حجاج ہی کو کہا ہے۔

❀۔۔۔حافظ ابن حجر (المتوفی ۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:
”حجاج بن يوسف بن أبي عقيل الثقفي الأمير الشهير الظالم المبير، وقع ذكره وكلامه في الصحيحين وغيرهما وليس بأهل أن يروى عنه ولي إمرة العراق عشرين سنة ومات سنة خمس وتسعين“
حجاج بن یوسف بن ابی عقیل الثقفی مشہور امیر ظالم مبیر صحیحین وغیر ہما میں اس کا ذکر اور اس کا کلام بیان ہوا ہے اور یہ اس لائق نہیں کہ اس سے روایت لی جائے۔ بیس سال تک عراق کا حاکم رہا اور ۹۵ھ میں فوت ہوا۔
(التقریب : ١١٤١)

❀۔۔۔شارح ترندی علامہ عبد الرحمن مبارک پوری (المتوفی : ۱۳۵۳ھ) فرماتے ہیں:
’’قلت: حجاج بن يوسف هذا هو الأمير الظالم الذي يضرب به المثل في الظلم والقتل والسفك“ ’’میں کہتا ہوں کہ یہ حجاج بن یوسف ظالم حاکم تھا جو ظلم قتل اور خون ریزی میں ضرب المثل بنا“
(تحفة الأحوذي : ٤٦٩/٦)

❀۔۔۔شیخ البانی (المتوفی : ۱۴۲۰ھ ) ایک سند کے متعلق فرماتے ہیں:
’’صحيح إلى الحجاج الظالم‘‘ حجاج ظالم تک صحیح ہے۔
(سنن أبي داود : ٤٦٤٥)

❀۔۔۔علامہ رئیس احمد ندوی فرماتے ہیں:
حنفی مذہب اسی حجاج ثقفی جیسے ناصبی بدعت پرست اور ظالم و قاہر حکام کی سنت پر قائم ہے۔
(اللمحات : ٤ / ٤٥٤)

خلاصہ:
اس پورے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ حجاج بن یوسف ایک ظالم و جابر حکمران تھا اس نے صحابہ سمیت بے شمار لوگوں کو ناحق قتل کیا۔ صحابہ کا بہت بڑا گستاخ تھا۔ صحیح حدیث میں ثقیف کے جس مبیر کا ذکر آیا ہے اس سے بالا تفاق یہی شخص مراد ہے۔ اپنے ظلم وجور کی بنا پر یہ اس قابل نہیں کہ اس سے روایت لی جائے۔ صحابہ کرام، تابعین عظام، آئمہ محدثین اور ثقہ و صحیح العقیدہ اہل علم میں سے کوئی بھی اسے اچھے لفظوں میں یاد نہیں کرتا۔ لہذا آج جو لوگ اس کے دفاع میں دن رات ایک کیسے ہوئے ہیں اور جو اسے اسلام کا ہیرو باور کروار ہے ہیں وہ اہل السنہ کے مسلک و منہج سے بھٹکے ہوئے ہیں۔
اللہ ہدایت عطا فرمائے۔

بدعتی کی نشانی

امام احمد بن سنان الواسطی ( متوفی ۲۵۹ھ) فرماتے ہیں:
’’ليس في الدنيا مبتدع إلا وهو يبغض أهل الحديث، وإذا ابتدع الرجل نزع حلاوة الحديث من قلبه“۔
’’دنیا میں جو بھی بدعتی ہے وہ اہل حدیث سے بغض رکھتا ہے۔ اور آدمی جب بدعتی ہو جاتا ہے تو حدیث کی مٹھاس اس کے دل سے نکل جاتی ہے۔‘‘
(معرفة علوم الحديث للحاكم : ص ٤ و اسناده صحيح)

یہ تحریر مجلہ نور الحدیث سے ماخوذ ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: