جادوگروں کا فرعون کے ساتھ تعلق: قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں تجزیہ
تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

سوال:

جادوگروں کا فرعون کے ساتھ کیا اتفاق تھا ؟

جواب :

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ إِن كَانُوا هُمُ الْغَالِبِينَ
”شايد ہم ان جادوگروں كے پيروكار بن جائيں، اگر وہى غالب رہيں.“ [ الشعرآء: 40]
انھوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ حق کی اتباع کریں، خواہ وہ موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے ہو یا جادوگروں کی طرف سے، بلکہ رعایا اپنے بادشاہ کے دین پر ہوتی ہے۔
ارشاد ربانی ہے :
فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَةُ قَالُوا لِفِرْعَوْنَ أَئِنَّ لَنَا لَأَجْرًا إِن كُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِينَ
”پھر جب جادوگر آ گئے تو انھوں نے فرعون سے کہا: کیا واقعی ہمارے لیے ضرور کچھ صلہ ہوگا، اگر ہم ہی غالب ہوئے؟“ [الشعرآء: 41 ]
یعنی جب جادوگر فرعون کی مجلس میں آئے، جس کے لیے انھوں نے ایک پردہ (خیمہ) لگا رکھا تھا اور اس نے اپنے نوکر چاکر، امرا، وزرا، اپنی حکومت کے بڑے اور اپنی مملکت کے لشکروں کو جمع کر رکھا تھا۔ پھر جادوگر فرعون کے سامنے کھڑے ہوئے اور اس سے اپنے ساتھ احسان اور غالب آنے کی صورت میں تقرب کا مطالبہ کیا، یعنی یہ وہ چیز ہے جس کے لیے تو نے ہمیں جمع کیا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل