بے ستری کا کھلا مظاہرہ
تالیف: الشیخ السلام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ، ترجمہ: مولانا مختار احمد ندوی حفظ اللہ

اللہ کا ارشاد ہے :
وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّـهُ أَمَرَنَا بِهَا قُلْ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ٭ قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ [7-الأعراف:28]
”اور جب کوئی بےحیائی کا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے اور اللہ نے بھی ہم کو یہی حکم دیا ہے کہہ دو اللہ بےحیائی
کے کام کرنے کا حکم ہرگز نہیں دیتا، بھلا تم اللہ کی نسبت ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں، کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو انصاف کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ کہ ہر نماز کے وقت سیدھا (قبلے کی طرف) رخ کیا کرو، اور خاص اسی کی عبادت کرو اور اسی کو پکارو اس نے جس طرح تم کو ابتداء میں پیدا کیا تھا۔ اسی طرح تم پھر پیدا ہو گے۔“
بعض مفسرین کا بیان ہے کہ ”فاحشہ“ سے مراد یہاں انتہائی قبیح فعل مراد ہے۔ یعنی بتوں کی بندگی اور طواف میں بے پردہ ہونا۔ اور ”فراء“ کے نزدیک یہاں فاحشہ سے مراد صرف طواف میں بے پردگی ہے۔ آیت کا مفہوم دراصل یوں ہے کہ جب وہ کوئی فحش کام کرتے ہیں اور انہیں منع کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو ایسا ہی پایا ہے اور اللہ نے بھی ہم کو ایسا ہی کم دیا ہے۔ اپنے برے کاموں کے جواز کے لیے انہوں نے جو دلیل پیش کیں، باپ دادا کی تقلید اور اللہ پر بہتان اور قریش کی عادت تھی کہ موسم حج میں عرفات نہیں جاتے تھے بلکہ مزدلفہ ہی میں ٹھہر جاتے تھے اور نہ گھی بناتے اور نہ پنیر اور بکریوں اور گایوں کو باندھتے بھی نہ تھے اور نہ اون اور بال کاٹتے اور نہ بال اور چمڑے کے گھر میں داخل ہوتے، بلکہ حرام مہینوں میں سرخ قبوں میں چھپ جاتے، پھر انہوں نے تمام عربوں پر یہ مطلق فرض کر دیا کہ جب حرم میں داخل ہوں تو حل کے تمام توشے پھینک دیں اور حل کے کپڑے کو حرم کے کپڑے سے بدل لیں چاہے خرید کر یا مانگ کر یا ہبہ کے طور پر۔ اگر یہ ممکن ہو تو ٹھیک ورنہ ننگے ہی بیت اللہ کا طواف کریں اور عرب کی عورتوں کے لئے بھی ایسے ہی ضروری کر دیا البتہ وہ کپڑے کا ایسا ٹکڑا لپیٹ کر طواف کر سکتی تھی کہ اگلا اور پچھلا حصہ کھلا ہو۔
ایک عورت جو بیت اللہ کا طواف کر رہی تھی، یہ اشعار کہے۔
اليوم يبدوا بعضه ادكله . . . وما بدامنه فلا احله
آج جسم کا کچھ یا پورا حصہ کھلے گا . . . اور جو کھل جائے گا اس کو میں حلال نہیں کروں گی
اخثم مثل القعب نادظله . . . كان حمي خبير تمله
میں پیالے کی طرح چوڑا کروں گی جس کا سایہ ظاہر ہے جیسے خیبر کا بخار اس کو آزردہ کئے ہوئے ہے
اور عربوں کو انہوں نے پابند کر دیا کہ مزدلفہ سے واپس جائیں جب کہ وہ عرفات سے واپس ہوتے تھے اس کے علاوہ اور بہت سی باتیں تھیں جن کو انہوں نے گڑھ کر شریعت بنا دیا تھا، جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی تھی۔ اس کے باوجود محض اپنی جہالت سے وہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ حضرت ابراہیم کی شریعت پر ہیں۔
آج بھی بہت سے نام نہاد مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے مساجد میں گانے بجانے کو عبادت سمجھ رکھا ہے۔ کچھ ایسے ہیں جو قبروں پر طواف اور قبروں کی طرف سفر کرنا اور قبروں پر نذر چڑھانا، اور ان کی طرف سفر کرنے کو خالص بندگی اور بہترین طاعت سمجھتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جنہوں نے درویشی اور شیطانی حیلے ایجاد کر رکھے ہیں اور سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ زاہدوں اور عابدوں کی راہ پر چل رہے ہیں، لیکن ان کا سب سے بڑا مقصد اپنی حیوانی خواہشات کو حاصل کرنا اور دنیا کی زندگی کو کامیاب بنانا ہے لیکن انہیں معلوم نہیں کہ وہ اس شعر کا کیا جواب دیں گے۔
الي ديان يومه الدين نمضي . . . وعند الله تجتمع الخصوم
روز جزا کے مالک کے پاس ہمیں جانا ہے . . . اور اسی کے پاس تمام فریق جمع ہوں گے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے