اہل جاہلیت اس فریب میں مبتلا تھے کہ جن کو فہم و ادراک کی قوت اور اقتدار حاصل ہے وہ گمراہ نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس باطل خیال کی تردید فرمائی۔
فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَـذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهِ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ ٭ تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ بِأَمْرِ رَبِّهَا فَأَصْبَحُوا لَا يُرَى إِلَّا مَسَاكِنُهُمْ كَذَلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ ٭ وَلَقَدْ مَكَّنَّاهُمْ فِيمَا إِنْ مَكَّنَّاكُمْ فِيهِ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَأَبْصَارًا وَأَفْئِدَةً فَمَا أَغْنَى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَا أَبْصَارُهُمْ وَلَا أَفْئِدَتُهُمْ مِنْ شَيْءٍ إِذْ كَانُوا يَجْحَدُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ [46-الأحقاف:24]
”پھر جب انہوں نے اس عذاب کو اپنی وادیوں میں آتے دیکھا تو کہنے لگے یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کرے گا، نہیں بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کی تم جلدی مچا رہے تھے۔ یہ ہوا کا طوفان ہے جس میں دردناک عذاب چلا آ رہا ہے۔ اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کر ڈالے گا آخر کار ان کا حال یہ ہوا کہ ان کہ رہنے کی جگہوں کے سوا وہاں کچھ نظر نہ آتا تھا اس طرح کو ہم بدلہ کیا کرتے ہیں۔ ان کو ہم نے وہ کچھ دیا تھا جو تم لوگوں کو نہیں دیا ہے ان کو ہم نے کان آنکھیں اور دل سب کچھ دے رکھے تھے مگر نہ وہ کان ان کے کام آئے، نہ آنکھیں، نہ دل کیونکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور اسی چیز کے پھیر میں وہ آ گئے جس کا مذاق اڑاتے تھے۔“
آیات کی تشریح
ان آیات میں اللہ تعالیٰ عرب کے اہل جاہلیت کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قوت و اقتدار کا معیار نہیں دیکھو ہم نے قوم عاد کو تم سے زیادہ قوت و اقتدار عطا کیا تھا اور انہیں کان آنکھ اور دل سب نعمتیں عطا کی تھیں تاکہ وہ ان سے کام لے کر اللہ کی نعمتوں کو پہچانیں اور منعم حقیقی اللہ عزوجل کے شکر گزار بنیں لیکن انہوں نے ان نعمتوں کا صحیح استعمال نہیں کیا نہ تو کانوں سے وحی کی باتیں اور رسول کی نصیحتیں سنیں اور نہ دل سے معرفت الہیٰ حاصل کی بلکہ عقل سے اتنے کورے ثابت ہوئے کہ عذاب الہیٰ دیکھ کر بھی اس کا مذاق اڑانے لگے۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اہل عرب جن قوموں کو بڑا طاقتور اور ممدن سمجھتے تھے ان کی قوت فہم نے بھی ان کو حق کی راه نہیں دکھائی اور وہ ان سب کے باوجود گمراہ ہو گئے اور اپنی باطل پرستی کے زعم میں انبیاء کو جھٹلا دیا، لہٰذا قوت و عقل کو حق کا معیار نہیں بنایا جا سکتا، اللہ و رسول پر ایمان لانا، حق کے آگے سر تسلیم خم کرنا اور اللہ کی راہ پر چلنا اس کی توفیق ہی سے ممکن ہے نہ کہ کثرت مال اور خوشحالی سے اب جو بھی حق کو ٹھکرائے اور دلیل پیش کرے کہ میری حالت تم سے بہتر ہے اور میں تم سے زیادہ مالدار ہوں تو اس بات میں کوئی وزن نہیں ہے کیونکہ وہ جاہلیت کی روش پر چل رہا ہے اور پسندیدہ راہ سے ہٹ گیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّـهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الْكَافِرِينَ [ 2-البقرة:89]
” اور اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نفرت کی دعائیں مانگتے تھے مگر جب وہ چیز آ گئی جسے وہ پہچان بھی گئے تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا خدا کی لعنت ہو ان منکرین پر۔ “
یہودیوں کو ان کی کتابوں کے ذریعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا علم تھا اور وہ جانتے تھے کہ بہت جلد اللہ ایک معزز نبی عرب میں سے مبعوث کرے گا۔ آپ کی بعثت سے پہلے مشرکین پر فتح پانے کے لیے آپ کی بعثت کے وسیلے سے دعائیں مانگا کرتے تھے، کہ اے پروردگار جس نبی کے بھیجنے کا تو نے وعدہ کیا ہے اس کو مبعوث فرما تاکہ دشمنوں پر ہم فتح پائیں لیکن جب ان کی جانی پہچانی شخصیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ان ظالموں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی ماننے سے انکار کر دیا محض اس کی وجہ سے کی نبوت عربوں میں کیسے آ گئی محض اس زعم میں کہ وہ ان عربوں سے زیادہ شان و شوکت رکھتے ہیں، اور اتنی بات نہ سمجھ سکے کہ ایمان اور نبوت تو اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے، اسی طرح اللہ کا یہ ارشاد بھی ہے :
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ٭ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ [2-البقرة:146]
”جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وه تو اسے ایسا پہچانتے ہیں جیسے کوئی اپنے بچوں کو پہچانے، ان کی ایک جماعت حق کو پہچان کر پھر چھپاتی ہے۔ آپ کے رب کی طرف سے یہ سراسر حق ہے، خبردار آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا۔ “
آیت میں يَعْرِفُونَهُ اس کو جانتے ہیں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت حقہ کا ان کو بخوبی علم ہو چکا ہے اس کے باوجود وہ اس حق کو محض اپنے جاہلی عقیدہ کی بنیاد پر چھپا رہے ہیں کہ اللہ کا فضل صرف انہیں کے لئے خاص ہے، دوسروں تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔
ذیل کی آیت سے بھی یہی ثابت ہوتی ہے۔
قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً قُلِ اللَّـهُ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّـهِ آلِهَةً أُخْرَى قُلْ لَا أَشْهَدُ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ ٭ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمُ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
”ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر کس کی شہادت ہے کہہ دو کے خدا ہی میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور یہ قرآن مجھ پر اس لیے اتارا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے تم کو اور جس شخص تک وہ پہنچ سکے اس کو آگاہ کر دوں، کیا تم اس بات کی شہادت دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی معبود ہیں، کہدو کہ میں تو ایسی شہادت نہیں دیتا کہدو کہ صرف وہی ایک معبود ہے وہ جن کو تم لوگ شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ ان کو (ہمارے پیغمبر) اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانا کرتے ہیں جنہوں نے اپنے تئیں نقصان میں ڈال رکھا ہے۔ وہ ایمان نہیں لاتے۔“