وعَنْ أبى عَبْدِ اللَّهِ جابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيِّ رضِيَ اللهُ عنْهُمَا قَالَ: كُنَّا مَع النَّبِيِّ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم فى غَزَاة فَقَالَ: "إِنَّ بِالْمَدِينَةِ لَرِجَالاً مَا سِرْتُمْ مَسِيراً، وَلاَ قَطَعْتُمْ وَادِياً إِلاَّ كانُوا مَعكُم حَبَسَهُمُ الْمَرَضُ” وَفِي روايَةِ: "إِلاَّ شَركُوكُمْ فى الأَجْر” رَواهُ مُسْلِمٌ. ورواهُ البُخَارِيُّ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: رَجَعْنَا مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ مَعَ النَّبِيِّ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم فَقَالَ: "إِنَّ أَقْوَامَاً خلْفَنَا بالمدِينةِ مَا سَلَكْنَا شِعْباً وَلاَ وَادِياً إِلاَّ وَهُمْ مَعَنَا، حَبَسَهُمْ الْعُذْرُ”
حضرت ابو عبداللہ جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کہتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں شریک تھے تو آپ نے فرمایا: ”یقینا مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ تم نے جتنا بھی سفر کیا اور جو بھی وادی طے کی وہ تمہارے ساتھ رہے ہیں، انہیں تو مرض نے روکے رکھا۔“ اور ایک روایت میں ہے : ” وہ تمہارے ساتھ اجر میں شریک رہے ہیں۔“ مسلم
اور بخاری میں روایت اس طرح ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ تبوک سے لوٹے تو آپ نے فرمایا: ” یقیناً کچھ لوگ ہمارے پیچھے مدینے میں رہے کہ ہم جس گھائی یا وادی سے گزرے (اجر و ثواب کے لحاظ سے ) وہ ہمارے ساتھ تھے، انہیں تو عذر نے روکے رکھا۔“
توثيق الحديث:
[ حديث جابر أخرجه مسلم 1911 ، و حديث أنس أخرجه البخاري 46/6 – 47 – فتح]
مصنفؒ نے حدیث کے آخر میں متفق عليه نہیں لکھا حالانکہ امام بخاریؒ ہے اور امام مسلمؒ دونوں نے اسے روایت کیا ہے مگر ان دونوں نے تھوڑے سے اختلاف الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے، اگرچہ یہ الفاظ کا اختلاف مطلق طور پر کوئی باعث نقصان نہیں لیکن مصنف نے انہیں متفق عليه اس لیے نہیں لکھا کہ جمہور اہل حدیث صرف اس حدیث کو متفق عليه سمجھتے ہیں جس کی سند اور متن دونوں پرشیخین کا اتفاق ہو ۔ جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ نے "النكت على مقدمة ابن الصلاح میں اس کی وضاحت کی ہے۔
غريب الحديث :
في غزاة : ”ایک غزوے میں“ اس سے مراد غزوہ تبوک ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وضاحت ہے۔
شركو كم فى الاجر: ”اجر و ثواب میں تمہارے ساتھ شریک ہیں ۔ “
اقواما : ”مرد“ کیونکہ قوم مردوں کے ساتھ مختص ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ امَنُوا۟ لَا يَسْخَرْ قَوْمٌۭ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰٓ أَن يَكُونُوا۟ خَيْرًۭا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَآءٌۭ مِّن نِّسَآءٍ عَسَىٰٓ أَن يَكُنَّ خَيْرًۭا مِّنْهُنَّ [الحجرات: ١١]
”اے ایما ندارو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں، ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔“
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
الشعب: شین کے نیچے زیر” گھائی ۔“
الوادي : پہاڑوں اور ٹیلوں کے درمیان پانی کی گزرگاہ۔
العذر : عین پر پیش، ایسی صورت جو مکلف کو درپیش ہو، جس کی وجہ سے اس سے رعایت کرنا مناسب ہو۔
فقه الحديث:
➊ اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنے والے گھروں میں بیٹھے رہنے والوں کی نسبت افضل ہیں۔
➋ اگر کوئی اندھا، مریض اور لنگڑا ہو اور وہ جہاد میں شرکت نہ کر سکے تو اس پر گناہ نہیں۔
➌ اگر کسی شخص کو کوئی عذر مانع ہو تو وہ بھی اولی الضرر کے زمرے میں آئے گا۔
➍ اولی الضرر اور عذر والوں میں سے جس کی نیت درست ہوگی وہ نیت کے درست ہونے کی وجہ سے مجاہدین کے اجر و ثواب کو پائے گا۔
➎ یہ حدیث رب العالمین کی وسعت رحمت پر دلیل ہے نیز یہ اسلام کے آسان دین ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
اس حدیث کی مزید وضاحت اللہ تعالی کے اس فرمان سے ہوتی ہے:
لَّا يَسْتَوِى ٱلْقَـٰعِدُونَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُو۟لِى ٱلضَّرَرِ وَٱلْمُجَـٰهِدُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ بِأَمْوَٰلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ [النساء: 95]
”اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں۔“