اولاد کی تمنا میں شادی کرنے کا حکم قرآن و حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال:

کیا اولاد کی آرزو کے لیے شادی کرنی چاہیے، کتاب و سنت میں اس کے بارے کیا رہنمائی کی گئی ہے؟

جواب:

شادی کے بعد خاوند اور بیوی کی بڑی آرزو اور تمنا نیک اولاد کا حصول ہے اور یہ ایک فطری امر ہے، انسان اس بات کا خواہش مند ہے کہ اللہ اسے ایک ایسا وارث عطا کرے جو اس اللہ کے بعد اس کی املاک، مال و متاع اور زر و زمین کا صحیح تصرف کرے اور اس کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے معاون و مددگار اور صحیح جانشین بن سکے۔ اولاد نسل انسانی کی بقا کا بنیادی ذریعہ ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس پہلو کو خالی نہیں چھوڑا، بلکہ انسان کو اس
کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
﴿فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا﴾ (البقرة : 187)
”اب تم اپنی بیویوں سے شب باشی کیا کرو اور اللہ نے جو تمھارے لیے لکھ دیا ہے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو۔“
کئی ائمہ مفسرین نے وضاحت کی ہے کہ ”اللہ نے تمھارے لیے جو لکھ دیا ہے“ اس سے مراد اولاد ہے۔ (تفسير ابن كثير وغيره) اس دنیا میں سب سے برگزیدہ ہستیاں انبیاء ورسل کی گزری ہیں، ان ہستیوں نے نیک اولاد کو حاصل کرنے کی نہ صرف تمنا کی ہے بلکہ اللہ سے دعائیں مانگی ہیں۔ جد الانبیاء ابراہیم علیہ السلام کی دعا یہ ہے:
﴿رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ﴾ (الصافات : 100)
”اے میرے پروردگار! مجھے نیکوکار اولاد عطا کر۔“
ذکریا علیہ السلام نے بڑھاپے کے عالم میں یوں دعا کی:
﴿وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا . يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا﴾ (مريم : 5-6)
”اے میرے پروردگار! میں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے، تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا کر جو میری اور اولاد یعقوب کی میراث کا مالک ہو اور اے میرے پروردگار! اس کو پسندیدہ انسان بنا۔“
رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شادی کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:
”زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے دینے والی عورت سے شادی کرو، میں تمھاری وجہ سے دیگر امتوں پر فخر کروں گا۔“
(ابن حبان (4057، 4056، 4028)، مسند احمد (245015/2، ح : 13604، 12640)، ابو داود (2000))
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ کثرت اولاد کے لیے شادی کرنا شرعاً مطلوب ہے اور اپنے لیے وارث کی دعا کرنا بھی سنت انبیاء ہے۔ لہذا شادی کے مقاصد میں نسل انسانی کی بقا بھی ہے، اس لیے شادی کرنی چاہیے، شریعت میں مرد کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے، جیسا کہ سورۃ النساء میں توضیح موجود ہے اور یہ مرد کا حق رجولیت ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے