اس عورت کا حکم جس کی عادت حیض تبدیل ہو جائے
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

جب حائضہ کی پہلی عادت تبدیل ہو جائے اور اس میں دو ، تین یا چار دنوں کا اضافہ ہو جائے ، مثلاًً پہلے اس کی عادت ہی تھی کہ اس کو چھ یا سات دن خون حیض آتا تھا ، پھر اس کو دس یا پندرہ دن خون آنے لگا ، وہ ایک دن یا ایک رات طہر دیکھتی ہے ، پھر اس کو خون جاری ہو جاتا ہے ، کیا وہ غسل کر کے نماز ادا کرے یا کامل طہارت حاصل ہونے تک (نماز روزہ سے ) بیٹھی رہے ؟ اس لیے کہ اس کی پہلی ماہواری کی عادت میں اضافہ ہو گیا ہے اور وہ استحاضہ والی بھی نہیں ہے ، اس مسئلہ میں شریعت کاکیا حکم ہے ؟

جواب :

جب مذکورہ صورت کے مطابق عورت کے ایام حیض کے دوران ایک دن یا ایک رات کے لیے خون حیض بند ہو جائے تو عورت پر لازم ہے کہ وہ غسل کر کے اور اس طہر میں جتنی نماز میں اس کو مل جائیں ادا کرے ، کیونکہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول کے مطابق پاک ہے :
أما إذا رأت الدم البحراني فإنها لا تصلي ، وإذا رأت الطهر . ساعة فلتغتسل [ صحيح سنن أبى داود ، رقم الحديث 286 ]
”جب عورت تیز بہاؤ دیکھے تو وہ نماز ادا نہ کرے اور اگر کچھ وقت کے لیے طہارت حاصل ہو جائے تو وہ غسل کرے (اور نماز ادا کرے ) ۔ “
اور یہ بھی مروی ہے کہ بلاشبہ جب طہر ایک دن سے کم ہو تو اس کو کچھ نہ سمجھتے ہوئے اس کی طرف التفات نہ کیا جائے ، کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے :
لا تعجلن حتي پرين القصة البيضاء [صحيح البخاري ، رقم الحديث 314 ]
”عورتین جلدی نہ کریں جب تک سفید روئی کو نہ دیکھ لیں ۔“
اور اس لیے بھی کہ خون ایک وقت میں جاری ہوتا ہے اور دوسرے وقت میں رک جاتا ہے ، لہٰذا محض خون کے انقطاع سے طہارت ثابت نہ ہو گی ، جیسے کہ ایک ساعت سے کم وقت کے لیے خون رک جائے ، اور یہی رائے ہے صاحب ”المغنی“ ابن قدامہ حنبلی کیا ۔
وصلى اللہ على نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم ۔

(سعودی فتوی کمیٹی)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: