اجنبی عورت کے ساتھ گفتگو کرنے کا حکم
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

جب آدمی کسی سے بات کرنے کے لیے ٹیلی فون کرتا ہے تو سامنے سے عورت اس سے مخاطب ہو جاتی ہے ، پس وہ اس کے بھائی یا خاوند یا کسی اور فرد کے متعلق پوچھتا ہے ، تو کیا اس میں کوئی حرج ہے ؟

جواب :

جب مجبوراً کلام کرنا پڑے تو اولی اور بہتر یہ ہے کہ پہلے سلام کیا جائے ۔ اس مسئلہ میں اصل یہ ہے کہ مرد فتنہ کاسد باب کرتے ہوئے عورت سے کلام نہ کرے ، اور اگر اس کلام کے پیچھے کسی فتنے فساد کا ڈر نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ ایسے ہی جب عورت اپنی بہن یاسہیلی سے ٹیلی فون کے ذریعہ رابطہ کرے تو سامنے سے مرد اس سے مخاطب ہو جائے تو وہ ضرورتا اس سے اپنی بہن یا سہیلی کے متعلق پوچھے ۔ اور جب عورت کو مجبور اً مرد سے کلام کرنا پڑے تو وہ کلام سے پہلے سلام کہے ، کیونکہ بعض صیح احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان موجود ہے :
من بدأكم بالكلام قبل السلام فلا تجيبوه [صحيح صحيح الجامع ، رقم الحديث 6122 ]
”جو شخص سلام کرنے سے قبل ہی تم سے مخاطب ہو جائے تو اس کو جواب نہ دو ۔“

( عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: