عورت کے مال میں خاوند کا تصرف کرنا

ناخن اور بال اتارنے کے بعد دفن کرنا
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : میں نے بعض لوگوں، خاص طور پر عورتوں کو دیکھا ہے کہ وہ ناخن اور بال اتارنے کے بعد انہیں دفن کر دیتی ہیں اس اساس پر کہ ان کا کھلی جگہ پر چھوڑنا گناہ ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے ؟
جواب : بعض علماء کا کہنا ہے کہ بالوں اور ناخنوں کو دفن کر دینا افضل ہے۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی ایسا منقول ہے۔ جہاں تک ان کے کھلی جگہ پڑے رہنے یا کسی جگہ پھینک دینے سے گناہ لازم آنے کا تعلق ہے تو ایسا نہیں ہے۔

سونے کا تبادلہ کرنا
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : اس بارے میں کیا حکم ہے کہ سونے کا کاروبار کرنے والے اکثر لوگ مستعمل سونا خریدتے ہیں پھر اسے سنار کے پاس لے جاتے ہیں اور تیار شدہ ہم وزن نئے سونے سے تبدیل کر لیتے ہیں وہ لوگ صرف نیا سونا تیار کرنے کی اجرت لیتے ہیں ؟
جواب : نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الذھب بالذھب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعير بالشعير والتمر بالتمر والملح بالملح مثلا بمثل سواء بسواء، يدا بيد [رواه مسلم فى كتاب البيوع 81]
”سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے، جو جو کے بدلے، نمک نمک کے بدلے ہم مثل برابر برابر اور نقد و نقد ہو گا۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا :
من زاد أو استزاد فقد أربى إلا ما اختلفت ألوانه [حواله سابقه 83]
”جو شخص زیادہ دے یا زیادہ چاہے ( طلب کرے) تو اس نے سود کا ارتکا ب کیا۔ “
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عمدہ کھجوریں لائی گئیں تو آپ نے ان کے بارے میں دریافت فرمایا، لوگوں نے کہا: ہم ایسی کھجوروں کا ایک صاع دو صاع کے بدلے، دو صاع تین صاع کے بدلے حاصل کرتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا۔

نصیحت بار بار کرنا
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : کیا کسی ایسے قریبی یا دوست کی شکایت کی جا سکتی ہے جو حرام کا ارتکاب کرتا ہو، مثلاً شراب پینا وغیرہ جبکہ میں نے اس سے قبل اسے کئی بار نصیحت کی ؟ یا یہ اس کے حق میں رسوائی سمجھی جائے گی ؟ دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ حق کے اظہار سے خاموش رہنے والا گونگا شیطان ہوتا ہے ؟
جواب : ہر ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو کسی بھی قسم کا کوئی حرام و ناجائز کام کرتے ہوئے دیکھے تو اسے نصیحت کرے اور اس کو اللہ کی نافرمانی میں سرکشی کرنے سے ڈرائے اور اس پر یہ بات واضح کر دے کہ گناہوں کی سزا اور ان کے اثرات دل، نفس جوارح، فرد اور معاشرے پر ایک جیسے ہوتے ہیں، شاید وہ بار بار نصیحت کی وجہ سے اپنے مذموم کردار سے باز آ جائے اور رشد و ہدایت کی طرف واپس لوٹ آئے اور اگر پند و نصائح کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا تو پھر ناصح کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے معصیت سے نکالنے کے لیے کوئی قریب ترین راستہ اپنائے۔ اس کا معاملہ ذمہ دار ایجنسیوں کے سامنے اٹھائے یا کسی ایسے شخص کو بتائے جس کی تعظیم اس کی نظر میں نصیحت کرنے والے سے زیادہ ہو۔ الغرض اسے ایسا قریب ترین راستہ اختیار کرنا چاہیے جس سے وہ اپنا مقصود حاصل کر سکے، حتیٰ کہ اگر معاملہ اس حد تک پہنچ جائے کہ اسے ذمہ داران حکو مت تک پہنچانا پڑے تاکہ وہ اسے اس کی حرکات سے روک سکیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

سمجھے بغیر قرآن کی تلاوت کرنا
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : میں ہمیشہ تلاوت قرآن مجید کرتی رہتی ہوں لیکن اس کا مفہوم نہیں سمجھتی کیا مجھے اس کا ثواب ملے گا ؟
جواب : قرآن مجید بابرکت کتاب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ [38-ص:29]
”یہ قرآن ایک بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پر نازل کیا تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور تاکہ اہل فہم نصیحت حاصل کریں۔ “
ہر انسان تلاوت قرآن مجید پر اجر و ثواب کا مستحق ہے وہ قرآنی مفاہیم سے آگاہ ہو یا نہ ہو لیکن عمل بالقرآن کے مکلف مومن انسان کے شایان شان نہیں کہ وہ قرآن مجید کے مفاہیم کو نہ سمجھے۔ اگر کوئی شخص مثلاً علم طب سیکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ طبی کتب پڑھنا چاہتا ہے تو جب تک وہ ان کا مفہوم نہیں سمجھے گا ان سے استفادہ نہیں کر سکے گا۔ وہ انہیں بخوبی سمجھنا چاہے گا تاکہ عملی زندگی پر ان کا اطلاق کر سکے۔ پھر آخر آپ کا کتاب اللہ کے بارے میں کیسا رویہ ہے جو شفاء لما فی الصدور ہے، موعظۃ للناس ہے کہ انسان بغیر تدبر اور فہم معانی کے اسے پڑھتا چلا جائے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو دس آیات سے آگے نہ بڑھتے جب تک کہ وہ انہیں اور ان میں موجود علم و عمل کو اچھی طرح سیکھ نہ لیتے۔ انسان چاہے قرآنی مفاہیم سے آگاہ ہو یا نہ ہو اسے بہرحال تلاوت قرآن کا ثواب تو ملے گا لیکن اسے فہم معانی و مطالب کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیئے۔ اسے اس کے لیے قابل اعتماد علماء سے استفادہ کرنا چاہیئے۔ مثلاً تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابن کثیر وغیرہ۔

مقدس آیات و عبارات
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : ہم ایسے اخبارات و رسائل کا استعمال کرتے ہیں جو کہ مقدس آیات اور اسماء باری تعالیٰ پر مشتمل ہوتے ہیں، پھر انہیں کوڑا دان میں پھینک دیتے ہیں ؟
جواب : جس چیز میں قرآنی آیات یا احادیث نبوی موجود ہوں انہیں بے ادبی کی جگہ پر نہیں پھینکنا چاہیے اس لئے کہ کلام اللہ عظیم تر ہے اس کا احترام ضروری ہے۔ اسی احترام کے پیش نظر ایک جنبی (ناپاک) شخص قرآن مجید نہیں پڑھ سکتا اور بہت سے بلکہ اکثر علماء کی رائے میں بے وضو شخص اسے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔ مقدس آیات و عبارات پر مشتمل اخبارات و رسائل کو مکمل طور پر نذر آتش کر دینا یا بعض جدید آلات کی مدد سے اس طرح صاف کر دینا چاہیے کہ جس سے کوئی چیز باقی نہ رہے۔

باطل وصیت کرنا
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : میرے والد نے اپنی مملوکہ زرعی زمین اپنے مرنے کے بعد اپنے ایک بیٹے کے نام الاٹ کر دی جبکہ اس بیٹے کے علاوہ اس کی چار بیٹیاں بھی ہیں کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟ اگر باپ کی زمین کو ایک بیٹے اور چار بیٹیوں میں تقسیم کیا جائے تو تقسیم کیسے ہو گی ؟
جواب : اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں میت کی وراثت کی تقسیم کا اصول بیان فرما دیا ہے :
يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ [ 4-النساء:11 ]
”اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کرتا ہے ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔ “
نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن الله قد أعطى كل ذى حق حقه فلا وصية لوارث [أبوداؤد و كتاب الوصايا، والترمذي وكتاب الوصايا]
”اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے۔ وارث کے لئے وصیت نہیں۔ “
اس بناء پر ایک بیٹے کے نام باپ کی وصیت باطل ہے۔ لہٰذا اس کا نفاذ ناجائز ہے۔ ہاں اگر تمام شرعی ورثاء اس پر اپنی رضامندی اور موافقت کا اظہار کر دیں تو پھر کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر شرعی ورثاء ایسا نہ کریں تو اس سے زرعی زمین کو واپس لینا اور تمام ورثاء میں اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اصول کے مطابق تقسیم کرنا ضروری ہے۔ یہ ترکہ تمام وارثوں پر تقسیم ہو گا اگر ایک بیٹے اور تین بیٹیوں کے علاوہ اور کوئی وارث نہ ہو تو للذكر مثل حظ الانثيين کے اصول کے تحت ترکہ تقسیم ہو گا۔ اس کھیت کی قیمت تقسیم کی جائے گی اور میت نے جو حصے ترکے میں چھوڑے ہیں تو ہر لڑکی کو ایک حصہ اور لڑکے کو دو حصے ملیں گے۔

علمی مجالس میں عورت کی شرکت کا حکم
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : کیا مسلمان خاتون مساجد میں منعقدہ علمی اور فقہی مجالس میں شرکت کر سکتی ہے ؟
جواب : ہاں ! عورت کے لئے علمی مجالس میں شرکت کرنا جائز ہے۔ یہ مجالس فقہ الاحکام سے متعلق ہوں یا فقہ العقیدۃ و التوحید سے، شرط یہ ہے کہ عورت باپردہ ہو خوشبو کا استعمال نہ کرے، مردوں سے دور رہے اور ان سے اختلاط نہ کرے۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خير صفوف النساء آخرها و شرها أولها [رواه مسلم 132 وأبوداؤد 97 فى كتاب الصلاة]
”عورتوں کی بہترین صف آخری ہے اور بدترین پہلی صف ہے۔ “
اور یہ اس لئے ہے کہ پہلی صف آخری صف کے مقابلے میں مردوں سے قریب تر ہے لہٰذا آخری صف پہلی صف سے بہتر ہو گی۔

مطالعہ کے بعد اخبارات
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : اخبارات کے مطالعہ کے بعد ان کا کیا کریں ؟
جواب : اخبارات قرآنی آیات، اسماء باری تعالیٰ اور احادیث نبوی پر مشتمل ہوتے ہیں، لہٰذا ان کی توہین نہیں ہونی چاہیئے۔ مگر افسوس کہ بعض لوگ کھانا کھانے کے لئے دستر خوان کی بجائے اخبارات کو استعمال کرتے ہیں، یہ ان کی جہالت ہے اگر ایسے مقدس ناموں پر مشتمل اخبارات کو جلانا ممکن ہو تو یہ سب سے بہتر عمل ہے اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو انہیں کسی تھیلے وغیرہ میں باندھ رکھنا چاہیئے تاکہ وہ دوسری متروکہ اشیاء سے الگ احترام کے ساتھ پڑے رہیں۔

خود کشی کا حکم ؟
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : خودکشی کا کیا حکم ہے ؟
جواب : خودکشی کا مطلب ہے انسان کا اپنے آپ کو کسی بھی ذریعہ سے عمداً قتل کرنا۔ خود کشی کرنا حرام ہے اور یہ کبیرہ گناہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا [ 4-النساء:93]
” اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً (دانستہ) قتل کر ڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہو گا، اور اس پر اللہ نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔“
خود کشی کی حرمت اس آیت کے تحت آتی ہے۔ دوسری طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جس شخص نے اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کیا، اسے اسی چیز کے ساتھ جہنم میں عذاب دیا جائے گا وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہے گا۔ “ خود کشی کا ارتکاب کرنے والا عام طور پر تنگی حالات کی وجہ سے ایسا کرتا ہے۔ ایسے حالات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوں یا لوگوں کی طرف سے وہ مصائب و آلام کو برداشت نہیں کر سکتا اور اپنی جان کا خاتمہ کر لیتا ہے۔ درحقیقت ایسا شخص گرمی سے بچنے کے لئے آگ کی پناہ میں آتا ہے۔ وہ چھوٹی برائی سے بڑی برائی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ اگر وہ صبر کرتا تو اللہ تعالیٰ اسے مصائب برداشت کرنے کی توفیق عطا فرما دیتا۔ اور جیسا کہ کہا جاتا ہے حالات کا ایک جیسا رہنا محال ہے اس کے حالات بدل بھی سکتے تھے۔

عورت کے لئے جائز کام
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : عورت کے لئے ایسا جائز میدان عمل کون سا ہے جس میں وہ اپنی دینی تعلیمات کی مخالفت کے بغیر کام کر سکے ؟
جواب : عورتوں کا میدان عمل وہ ہے جو صرف عورتوں کے ساتھ مخصوص ہو، مثلاً تعلیم البنات کا شعبہ، اس کا یہ عمل فنی ہو یا اداری۔ اسی طرح وہ گھر میں کام کاج کر سکتی ہے۔ مثلاً خواتین کے کپڑے سینا وغیرہ وغیرہ۔ باقی رہا عورت کا ایسے شعبوں میں کام کرتا جو مردوں کے ساتھ مخصوص ہیں تو اس کا وہاں کام کرنا جائز نہیں ہے، اس سے مرد و زن کا باہم اختلاط ہوتا ہے جو کہ بہت بڑا فتنہ ہے اس سے بچنا ضروری ہے۔ ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما تركت بعدى فتنة أضر على الرجال من النساء، وإن أول فتنة بني إسرائيل كانت فى النساء [ متفق عليه – مسلم و كتاب الذكر والدعاء ]
”میں نے اپنے بعد مردوں کے لئے عورتوں سے بڑھ کر خطرناک کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔ بنی اسرائیل کا فتنہ عورتوں کی وجہ سے تھا۔“
ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو ہر حالت میں فتنہ کے اسباب اور اس کے مقامات سے بچائے۔

حاملہ عورت سے جماع کرنا
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : کیا حاملہ بیوی سے جماع کرنا جائز ہے ؟ کیا کتاب و سنت میں اس کی حرمت یا حلت کے بارے میں کوئی نص موجود ہے ؟
جواب : آدمی کے لئے حاملہ عورت سے جماع کرنا جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ [2-البقرة:223]
”تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔۔۔ “
مزید برآں ارشاد باری ہے :
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ٭ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ [23-المؤمنون:5]
”اور وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی نگہداشت رکھنے والے ہیں، ہاں البتہ اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے نہیں کہ اس صورت میں ان پر کوئی الزام نہیں ہے۔ (یعنی وہ ان سے جماع کر سکتے ہیں)“
اللہ تعالیٰ نے لفظ عَلَى أَزْوَاجِهِمْ مطلقاً بیان فرمایا ہے اور یہ اس لئے کہ اصل میں آدمی کا اپنی بیوی سے استمتاع ہر حالت میں جائز ہے۔ کتاب و سنت میں عورت سے اجتناب کے بارے میں وارد احکام ہی اس عموم سے مانع ہو سکتے ہیں، اس بناء پر حاملہ عورت سے جماع کے جواز کے بارے میں کسی مستقل دلیل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جواز اصل ہے۔ آدمی کے لئے دوران حیض شرم گاہ میں جماع کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وہ کسی بھی حصے سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ اسی طرح بیوی کی دبر میں جماع کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ کیونکہ وہ گندگی اور نجاست کا عمل ہے۔ نفاس کی حالت میں بھی خاوند بیوی سے جماع نہیں کر سکتا۔ جب وہ حیض اور نفاس سے پاک ہو جائے تو اس سے جماع کرنا جائز ہے۔ اگر عورت نفاس کے دوران چالیس دن سے پہلے ہی پاک ہو جائے تو جماع کرنا جائز ہے۔

بےدین والدہ کی فرمانبرداری کرنا
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : میری والدہ صراط مستقیم پر گامزن نہیں۔ میں نے اسے جب بھی نصیحت کی وہ مجھ سے ناراض ہو گئی۔ کئی کئی دن گزر جاتے ہیں وہ مجھ سے بات بھی نہیں کرتی۔ میں اسے کیسے سمجھاؤں کہ وہ مجھ پر ناراض بھی نہ ہو کہ اس سے اللہ ناراض ہوتا ہے یا پھر اسے ایسے ہی چھوڑ دوں تاکہ وہ مجھ سے راضی رہے اور پھر اللہ تعالیٰ بھی ؟
جواب : اپنی والدہ کو بار بار نصیحت کریں اور اسے بتائیں کہ اس کا عمل باعث گناہ و عقاب ہے۔ اگر وہ پھر بھی قبول نہ کرے تو اس کے خاوند، باپ یا ولی کو اس سے آگاہ کریں، تاکہ وہ اسے سمجھائیں۔ اگر آپ کی ماں کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتی ہے تو اس سے الگ ہو جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کی بد دعائیں یا آپ پر قطع رحمی اور نافرمانی کے الزامات آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ کیونکہ آپ نے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے غیرت اور منکر کا انکار کرنے کے پیش نظر کیا ہے اور اگر وہ کسی کبیرہ گناہ کی مرتکب نہیں ہوئی تو پھر آپ کو قطع تعلقی کا حق حاصل نہیں ہے۔

ضرورت کے لئے منع حمل کا حکم
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ

سوال : میری عمر ستائیس برس ہے۔ میں شوگر کی مریضہ ہوں‘ آخری حمل کے دوران شوگر نے مجھے بے بس کر دیا تو میں نے انسولین کا انجکشن لگوانا شروع کر دیا بچے کی ولادت آپریشن کے ذریعے عمل میں آئی، بناء بریں میں نے نس بندی کرا لی، کیا یہ حلال ہے یا حرام ؟ میں آپ کو یہ بتاتی چلوں کہ میں اس وقت آٹھ بچوں کی ماں ہوں۔ جزاكم الله احسن الجزاء
جواب : ضرورت کے علاوہ مستقل طور پر حمل روکنا یا اسے وقتی طور پر معطل کرنا ناجائز ہے۔ ضرورت کا پیمانہ یہ ہے کہ کوالیفائیڈ ڈاکٹر یہ فیصلہ دے دیں کہ ولادت بیماری میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے یا حمل اور پھر وضع حمل سے عورت کی ہلاکت کا ڈر ہے۔ علاوہ ازیں مستقل حمل روکنے یا وقتی طور پر معطل کرنے کے لئے خاوند کی رضا مندی بھی ضروری ہے۔ پھر عذر ختم ہونے پر عورت گزشتہ حالت پر لوٹ آئے گی۔ بیوی کی بیماری، جسمانی کمزوری، وضع حمل کی تکلیف کا عدم برداشت اور مناسب طور پر بچوں کی تربیت نہ کر سکنا بھی ضرورت کے ضمن میں آتا ہے۔

میاں بیوی کے مابین کھیل خفیہ ہونا چاہیئے
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ

سوال : کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے باہمی مسابقہ کو عورت کے لئے کھیل کود کو جائز قرار دینے کی اساس بنا سکتے ہیں ؟
جواب : یہ مسابقہ (دوڑ میں مقابلہ) کسی خاص جگہ پر ہوا تھا۔ بظاہر وہ رات کا وقت تھا جبکہ لوگ سو رہے تھے۔ یہ مسابقہ مسجد میں یا اس کے قریب یا مضافات شہر میں ہوا اور شاید اس سے مقصود اچھے انداز میں معاشرتی زندگی کی تکمیل تھا اور میاں بیوی کے درمیان محبت و مودت کا حصول تھا۔ اس بناء پر اس واقعہ سے اس جیسے عمل کے لئے ہی استدلال کیا جا سکتا ہے۔ خاوند کے لئے بیوی کے ساتھ اس جیسا مسابقہ جائز ہے، بشرطیکہ وہ مخفی ہو اور فتنہ وغیرہ سے بچ کر پر امن ہو۔ باقی رہے کھیلوں کے اوپن مقابلے مثلا دوڑ یا کشتی وغیرہ تو ان کے لئے اس واقعہ سے استدلال نہیں ہو سکتا، ایسا مسابقہ صرف میاں بیوی کے درمیان ہی ہو سکتا ہے۔ واللہ اعلم

بیوی کا مال اور حق مہر
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ

سوال : کیا خاوند کے لئے بیوی کی رضا مندی سے اس کا مال لینا اور اسے اپنے مال میں ضم کرنا جائز ہے یا ان کی اولاد کی رضامندی بھی ضروری ہے ؟
جواب : اس میں تو کوئی شک نہیں کہ بیوی اپنے مہر اور مملوکہ مال کی حقدار ہے۔ وہ مال اس کا کمایا ہوا ہو، اس کے نام ہبہ شدہ ہو یا اسے وراثت میں ملا ہو،
بہرحال وہ اس کا مال ہے اور اس کی ملکیت ہے وہ اس میں مکمل تصرف کا حق رکھتی ہے۔ اگر عورت اپنے کل مال یا اس کے ایک حصے پر خاوند کا تصرف قبول کر لے تو اس کے لئے ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ اس طرح وہ مال اس کے خاوند کے لئے حلال ہو گا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَرِيئًا [4-النساء:4]
”اور تم بیویوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دے دیا کرو اور اگر وہ خوش دلی سے تمہارے لئے اس کا کوئی حصہ چھوڑ دیں تو اسے مزے دار اور خوشگوار سمجھ کر کھاؤ۔ “
اس میں شرط یہ ہے کہ عورت خوش دلی سے ایسا کرے۔ اگر عورت عاقلہ اور رشیدہ ہے تو اس کی اجازت کے بعد اولاد یا کسی اور سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن بیوی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس کو ناز و نخرہ اور مدح سرائی کا سبب بنائے یا خاوند پر احسان جتلائے، اسی طرح خاوند کو بھی نہیں چاہیے کہ وہ عورت کے انکار کی صورت میں اس سے بدسلوکی کرے، اسے تنگ کرے یا کسی طرح کا کوئی نقصان پہنچائے کیونکہ وہ اپنے حق کی زیادہ حقدار ہے۔ واللہ اعلم

رسائل و جرائد اور فلموں میں عورتوں کی تصاویر دیکھنا
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ

سوال : کیا کسی رسالہ یا فلم میں عورت کی ننگی تصویریں دیکھنا جائز ہے ؟
جواب : کسی اجنبی عورت کی ننگی تصویر دیکھنا جائز نہیں ہے۔ جن رسائل و مجلات اور فلموں میں ایسی تصویریں موجود ہوں ان کا خریدنا بھی ناجائز ہے بلکہ ان کا تو جلانا واجب ہے تاکہ منکرات اور فواحش اپنے اسباب کے وجود کی بنا پر عام نہ ہو سکیں۔

گانے سننے اور بے ہودہ ٹی وی پروگرام دیکھنے کا حکم
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : موسیقی اور گانے سننے کا کیا حکم ہے ؟ نیز ایسے پروگرام دیکھنے کا کیا حکم ہے جن میں عورتیں بن سنور کر جلوہ گر ہوتی ہیں ؟
جواب : موسیقی اور گانا سننا حرام ہے اور ان کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ علیہم سے منقول ہے کہ گانا دل میں نفاق پیدا کرتا ہے اور اس کا سننا لہو الحدیث سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ [ 31-لقمان:6]
”اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی چیزیں خریدتے ہیں تاکہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں، ایسے ہی لوگوں کے لئے رسوا کن (ذلیل کرنے والے ) عذاب ہیں۔“
اس آیت کی تفسیر میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ”اس اللہ کی قسم ! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اس سے مراد غناء ہے“ صحابی کی تفسیر حجت ہے اور وہ تفسیر کے تیسرے مرتبہ میں ہے، اس لئے کہ تفسیر کے تین مراتب ہیں۔ قرآن کی تفسیر قرآن سے۔ قرآن کی تفسیر حدیث سے اور قرآن کی تفسیر اقوال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہاں تک کہ بعض علماء کا تو یہ کہنا ہے کہ صحابی کی تفسیر مرفوع کا علم رکھتی ہے۔ اس بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ اگرچہ صحابی کی تفسیر مرفوع کا حکم تو نہیں رکھتی لیکن وہ دیگر اقوال کے مقابلے میں اقرب الی الصواب ہے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ موسیقی اور گانا سننا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تنبیہ کے تحت آتا ہے :
ليكونن من أمتي أقوام يستحلون الحر والحرير والخمر والمعازف [صحيح البخاري، كتاب الأشربة باب 6 ]
”یقیناً میری امت کے کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو زناء، شراب، ریشم اور آلات لہو و لعب کو حلال سمجھیں گے۔“
یعنی وہ بدکاری (زنا) کرنے، شراب پینے اور ریشم پہننے کو حلال سمجھیں گے حالانکہ وہ تو مرد ہیں ان کے لئے ریشم پہننا حرام ہے۔ المعازف سے مراد گانے بجانے کے آلات ہیں۔ اس بناء پر میری مسلمان بھائیوں کو نصیحت ہے کہ وہ گانے اور موسیقی سے پرہیز کریں اور ان لوگوں کے دھوکے میں نہ آئیں جنہوں نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے اس لئے کہ اس کی تحریم کے دلائل واضح اور صریح ہیں۔ باقی رہا ایسے پروگراموں کا دیکھنا جن میں عورتوں کا کردار ہو تو یہ بھی حرام ہے۔ وہ جب تک فتنہ کا باعث بنتی رہیں گی ایسے پروگرام حرام رہیں گے۔ ایسے پروگراموں اور عورتوں سے تعلق عام طور پر نقصان دہ ہی ہوتا ہے۔ حتی کہ اگر عورت یا مرد ایک دوسرے کو نہ بھی دیکھیں تب بھی نقصان دہ ہے کیونکہ ایسے پروگراموں کے عموی مقاصد میں اخلاقی طور پر معاشرے کا نقصان سرفہرست ہوتا ہے۔ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس کے شر سے محفوظ رکھے اور مسلم حکمرانوں کی اصلاح فرمائے۔ (آمین)

عورت کا دستانے پہن کر مصافہ کرنا
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ

سوال : کیا فطری منظر کے سامنے نماز پڑھنا جائز ہے ؟ اگر عورت دستانے پہن کر مرد سے مصافہ کرے تو کیا وہ گناہ گار ہو گی ؟
جواب : کسی خاتون کے لئے غیر محرم مردوں سے مصافحہ کرنا جائز نہیں ہے، اگرچہ اس نے دستانے ہی کیوں نہ پہن رکھے ہوں اور اگرچہ وہ آستین یا عباء کے پیچھے ہی سے مصافہ کیوں نہ کرے، یہ مصافہ ہی ہے اگرچہ وہ پردے کے پیچھے سے ہو رہا ہو۔ اگر فطری منظر تصویری ہو اور نمازی کے دھیان کو مشغول کر دے تو ایسے منظر کے سامنے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔

ہسپتال میں اختلاط
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ

سوال : میں ایک ہسپتال میں کام کرتا ہوں، میرا کام کچھ اس نوعیت کا ہے جو ہمیشہ اجنبی (غیر محرم عورتوں سے اختلاط اور ان سے بات چیت کا متقاضی ہے۔ اس کا کیا حکم ہے ؟ اور خاص طور پر رمضان المبارک میں اجنبی عورتوں سے مصافحہ کرنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب : عورتوں سے اختلاط ناجائز اور انتہائی خطرناک ہے۔ خصوصاً جب وہ زیب و زینت (میک اپ) کئے ہوئے ہوں اور بے پردہ بھی ہوں۔ لہٰذا آپ پر اس اختلاط سے دور رہنا ضروری ہے۔ کوئی ایسا کام تلاش کریں جس میں عورتوں سے اختلاط نہ ہو۔ الحمدللہ ! کام تو بے شمار ہیں۔ آدمی کا غیر محرم عورتوں سے مصافحہ کرنا حرام ہے، کیونکہ یہ عمل باعث فتنہ اور شہوت بھڑکانے والا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی اجنبی عورت کے ہاتھ کو ہاتھ نہیں لگایا۔ آپ عورتوں کے ساتھ صرف گفتگو کے ذریعے بیت فرماتے۔

عورتوں کا اپنے بال کاٹنا، اونچی ایڑی والے جوتے پہننا اور میک اپ کرنا
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : (الف) خوبصورتی کے لئے شادی شدہ یا کنواری نوجوان لڑکی کے لئے کندھوں تک بال کاٹنے کا کیا حکم ہے ؟
(ب) کم یا زیادہ اونچی ایڑی والی جوتی پہننے کا کیا حکم ہے ؟
(ج) خاوند کے لئے میک اپ کرنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب
(الف) اگر کوئی عورت اپنے بال اس انداز سے کاٹے جس سے مردوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہو تو یہ حرام اور کبیرہ گناہ ہے اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے سے مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اور اگر مردوں سے مشابہت نہ ہوتی ہو تو اس کے متعلق علماء کے تین اقوال ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ دوسرا فریق اس کے حرام ہونے کا حکم لگاتا ہے جبکہ تیسرا قول یہ ہے کہ ایسا کرنا مکروہ ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مشہور مذہب یہ ہے کہ ایسا کرنا مکروہ ہے۔
اور حقیقت تو یہ ہے کہ غیر مسلم لوگوں کی تمام عادات کو اپنا لینا ہمارے شایان شان نہیں۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے تک عور تیں بالوں کی کثرت اور لمبائی پر فخر کیا کرتی تھیں۔ اب انہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ غیر ممالک سے درآمد شدہ ایک عادت کی طرف بھاگے جا رہی ہیں۔ میں ہر نئی چیز کا منکر نہیں ہوں، لیکن میں اس چیز کا ضرور انکار کروں گا جو ہمارے معاشرے کو درآمد شدہ عادات و اطوار کے رنگ میں ڈھال دے۔
(ب) اونچی جوتی اگر معمول سے ہٹ کر ہو، بے پردگی، عورت کی نمائش اور لوگوں کو متوجہ کرنے کا باعث ہو تو ایسی جوتی کا پہننا ناجائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ [ 33-الأحزاب:33]
”اور قدیمی جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ سنگار کا اظہار نہ کرو۔“
ہر وہ چیز جو عورت کی بے پردگی، نمائش اور مصنوعی حسن کی وجہ سے دوسری عورتوں میں سے امتیاز کا سبب ہو وہ حرام اور ناجائز ہے۔ باقی رہا میک اپ کرنا جیسا کہ ہونٹ اور رخسار وغیرہ کا سرخ کرنا تو خاص طور پر شادی شدہ عورت کے لئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ مصنوعی حسن جو بعض عورتیں ابرو کے بال اکھاڑ کر یا انہیں باریک کر کے اپناتی ہیں تو ایسا کرنا حرام ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بال اکھاڑنے والی اور ایسا کروانے والی پر لعنت فرمائی ہے۔ اسی طرح خوبصورتی کے لئے دانتوں کو باریک کرنا بھی حرام ہے اور ایسا کرنے والا ملعون ہے۔

متبرک اوراق کا حکم
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ

سوال : جو شخص اخباری کاغذات کو دستر خوان کے طور پر استعمال کرتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : عام طور پر ایسے اوراق اسماء باری تعالیٰ، قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سے خالی نہیں ہوتے۔ لہٰذا ان کی توہین کرنا، ان کے اوپر بیٹھنا اور انہیں دستر خوان کے طور پر استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ انہیں پڑھنے کے بعد جلا کر تلف کر دینا چاہیے۔

خاوند کی اجازت کے بغیر اس کا مال لینا
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ

سوال : میں ایک شادی شدہ خاتون ہوں، بحمد اللہ میرا گھر ہے، خاوند ہے اور بچے ہیں۔ میں نماز روزے کی پابندی کرتی ہوں اور تمام فرائض دینیہ بجا لاتی ہوں۔ میرا ایک چھوٹا سا سوال ہے۔ امید ہے کہ آپ جواب باصواب سے نوازیں گے۔ سوال یہ ہے کہ میں گھریلو اخراجات سے کچھ مال جمع کرتی رہتی ہوں جس کا میرے خاوند کو علم نہیں ہوتا، اسی طرح میں اس کے علم میں لائے بغیر اس کی جیب سے کچھ پیسے نکال لیتی ہوں، ویسے بحمد اللہ میں اس کے مال کو کسی ناجائز مصرف میں نہیں لاتی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک تو حالات کا علم نہیں ہوتا، پھر خاوند اور اولاد سے متعلق خوف بھی لاحق رہتا ہے۔ کیا اس طرح میں گناہ گار ٹھہروں گی ؟ کیونکہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے عذاب سے ڈرتی رہتی ہوں۔
جواب : میں سمجھتا ہوں کہ جب تک خاوند بیوی بچوں کے جائز اخراجات ادا کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتا اسے بتائے بغیر اس کا مال لینا اور پھر اسے جمع کرتے رہنا جائز نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ جب تک آپ کے پاس گزشتہ جمع شدہ مال موجود ہے خاوند سے اخراجات کا مطالبہ ناروا ہے۔ خاوند خود حوادثات زمانہ کے لئے مال بچاتا، اسے بڑھانا اور اس کی حفاظت کرتا ہے، اس بناء پر جمع شدہ مال اسے واپس لوٹا دینا چاہیے کیونکہ یہ اس کا مال ہے جو اسے بتائے بغیر روک لیا گیا ہے۔

ناخن بڑھانا جائز نہیں
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ

سوال : کیا زیبائش کے لئے ناخن بڑھانا حرام ہے ؟
جواب : ناخن بڑھانا ناجائز ہے بلکہ ہر ہفتے بعد یا زیادہ سے زیادہ چالیس دن تک انہیں ترشوانے کا حکم ہے۔

قضاء سے پہلے نفل پڑھنا
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ

سوال : اگر کسی عورت کے ذمے رمضان المبارک کے روزوں کی قضاء واجب ہو تو کیا وہ واجب القضاء روزوں کی موجودگی میں نفلی روزے مثلا یوم عرفہ کا روزہ رکھ سکتی ہے ؟
جواب : رمضان المبارک کے روزوں کی جلد قضاء دینی چاہئیے۔ قضاء سے پہلے نفلی روزے نہیں رکھنے چاہیں لیکن اگر وہ یوم عرفہ یا کوئی نفلی روزہ رکھے تو اس سے فرض ساقط نہیں ہو گا۔ اگر وہ اس نیت سے روزے رکھے کہ رمضان کے روزے اس کے ذمہ قرض ہیں تو روزے صحیح ہوں گے اور وہ ان شاء اللہ اجر کی مستحق ہو گی۔

عورت کے مال میں خاوند کا تصرف کرنا
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ

سوال : کیا میرے خاوند کو اس بات پر اعتراض کا حق حاصل ہے کہ میں نے اپنی میراث اپنی ماں کو دے دی ہے ؟ اور کیا اسے بیوی کے مال اور اس کی تنخواہ میں تصرف کا حق حاصل ہے ؟
جواب : عورت اپنے مال کی مالک ہے اور وہ اس میں تصرف کا حق رکھتی ہے اس سے کسی کو تحفہ دے سکتی ہے صدقہ کر سکتی ہے اپنا قرض اتار سکتی ہے اپنے کسی عزیز یا غیر عزیز جس سے بھی وہ چاہے اپنے کسی حق مثلاً قرضہ یا وراثت سے دست بردار ہو سکتی ہے اس پر خاوند کو کسی بھی صورت میں اعتراض کا حق حاصل نہیں ہے۔ ہاں اس میں یہ ضرور ہے کہ عورت عاقلہ رشیدہ ہو خاوند اس کی مرضی کے بغیر اس کے مال میں تصرف نہیں کر سکتا لیکن اگر عورت کوئی ایسا کام کرتی ہے جس سے مرد کے کسی حق کی ادائیگی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہو تو وہ اسے اس کام سے کسی شرط کے تحت روک سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میاں بیوی اپنی اپنی تنخواہ ایک دوسرے کو تقسیم کرنے پر اتفاق کر لیں۔ خاوند اسے گھریلو کام کاج سے دستبرداری کی اجازت اور اسے لانے لیجانے کے عوض اس سے کچھ وصول کرے۔

کیا میں اپنے سسر کی خدمت کر سکتی ہوں
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : میں خاوند کے باپ کی خدمت بجا لاتی ہوں، میرے خاوند کے علاوہ اس کا کوئی نہیں کیا اسے نہلانا اور اس کی دیگر خدمات بجا لانا میرے لئے درست ہے ؟
جواب : آپ کا خاوند کے باپ کی خدمت کرنا ایک ایسا کام ہے جس کے لئے آپ شکریہ کی مستحق ہیں کیونکہ یہ اس معمر شخص اور خاوند پر آپ کا احسان ہے۔ آپ شرمگاہ کے علاوہ اسے غسل بھی دے سکتی ہیں۔ اگر وہ شرم گاہ کو خود نہیں دھو سکتا تو آپ دستانے پہن کر اسے دھو سکتی ہیں تاکہ آپ کا ہاتھ براہ راست شرم گاہ سے مس نہ ہونے پائے۔ اسی طرح اس کی شرمگاہ کو دیکھنے سے بھی نگاہیں جھکا لیں، کیوں کہ خاوند کی شرم گاہ کے علاوہ آپ کے لئے کسی دوسرے کی شرمگاہ کو دیکھنا جائز نہیں ہے اور یہی حکم خاوند کے لئے بھی ہے۔

امتحان میں ناجائز ذرائع استعمال کرنا
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ

سوال : کیا انگریزی زبان یا دیگر علوم مثلاً ریاضیات وغیرہ کے کورسز میں ناجائز ذرائع استعال کرنا جائز ہے ؟
جواب : کسی بھی مضمون میں ناجائز استعمال کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ امتحان کا مقصد متعلقہ مضمون میں طالب علم کی صلاحیت کو جانچنا ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس میں سستی و کاہلی اور دھوکہ دہی کے مرتکب کام چور کو ایک محنتی شخص پر ترجیح دینا ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
من غشنا فليس منا [رواه مسلم، كتاب الإيمان، حديث 164]
”جو شخص ہم کو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“
میاں غش کا لفظ ہر چیز کے لئے عام ہے۔

بال کاٹنا
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : عورت کا اپنے بال کاٹنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے ؟
جواب : حنابلہ کے نزدیک عورت کا اپنے بال کاٹنا مکروہ ہے، ہاں ایسی کٹنگ جو مردوں کے بالوں سے مشابہ ہو حرام ہے۔
اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المتشبهين من الرجال بالنساء والمتشبهات من النساء بالرجال [رواه البخاري وكتاب اللباس باب 61]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ مشابہت اپنانے والے مردوں اور مردوں کے ساتھ مشابہت اپنانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔
اسی طرح اگر وہ کافر عورتوں کا سا انداز اختیار کرے تو یہ بھی حرام ہے کیونکہ کافر اور بدکار عورتوں سے مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلم کا ارشاد گرای ہے :
من تشبه بقوم فهو منهم [رواه أبوداؤد، كتاب اللباس حديث 4 ]
”جو شخص کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے تو وہ ان میں سے ہے۔“
اگر مردوں اور کافر عورتوں سے مشابہت نہ ہو تو حنبلی علماء کے نزدیک ایسی کٹنگ کا حکم کراہت کا ہے۔

کیا بیماریوں کی شدت گناہوں میں تخفیف کا باعث ہے ؟
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : کیا سکرات الموت کی شدت گناہوں میں تخفیف کا سبب بن سکتی ہے ؟ اور کیا بیماری گناہوں میں تخفیف کا باعث ہے ؟ برائے کرم آگاہ فرمائیں۔
جواب : ہاں انسان کو لاحق ہونے والی ہر بیماری، سختی، غم، پریشانی یہاں تک کہ کانٹا چبھنا بھی اس کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ اگر وہ صبر سے کام لے اور ثواب کی امید رکھے تو گناہوں کے کفارہ کے ساتھ ساتھ صبر کے اجر کا بھی مستحق ہو گا۔ چاہے وہ مصیبت موت کے وقت آئے یا اس سے پہلے زندگی میں۔ مصائب ہر حالت میں مومن کے لئے گناہوں کا کفارہ ہیں۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے :
وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ [42-الشورى:30]
”اور جو مصیبت بھی تمہیں پہنچتی ہے تو تمہارے ہی ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہے اور اللہ تعالیٰ بہت سی چیزوں سے تو درگزر فرما دیتا ہے۔“
اگر مصائب و آلام ہماری ہی کمائی کا نتیجہ ہیں تو وہ ہماری بدعملی اور گناہوں کا کفارہ بھی ہیں، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ مومن کو جو بھی غم، پریشانی اور تکلیف پہنچتی ہے یہاں تک کہ چبھنے والا کانٹا بھی اس کے گناہوں کا کفارہ ہے۔

چہرے کے داغ دھبے دور کرنا
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : میری بعض سہیلیاں چہرے کے داغ دھبے اور پرچھائیاں دور کرنے کے لئے شہد، دودھ اور انڈے استعمال کرتی ہیں کیا ان کے لئے یہ جائز ہے ؟
جواب : یہ بات طے شدہ ہے کہ یہ چیزیں اس خوارک کا حصہ ہیں جنہیں اللہ رب العزت نے جسم کی غذا کے طور پر پیدا فرمایا ہے اگر انسان کو کسی مقصد مثلاً علاج وغیرہ کے لئے ان کے استعمال کی ضرورت پیش آئے تو وہ نجس نہیں ہیں ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا [ 2-البقرة:29]
”وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لئے پیدا کیا جو کچھ بھی زمین میں ہے سب کا سب۔“
اس آیت میں لفظ لكم ، عموی فائدے کے لئے ہے جہاں تک زیبائش کے لئے ان چیزوں کے استعمال کا تعلق ہے تو ان کے علاوہ بھی کئی ایک چیزوں سے یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے لہٰذا ان کا استعمال بہتر ہے۔ حصول زیبائش میں کوئی حرج نہیں اس لئے کہ اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے لیکن اس میں اس حد تک اسراف کرنا کہ یہ انسان کی سب سے بڑی آرزو بن جائے اور وہ صرف اسی کے اہتمام میں مگن رہے اور دیگر تمام دینی اور دنیوی تقاضوں سے غافل ہو جائے تو یہ ناروا بات ہے کیونکہ یہ اسراف ہے اور اسراف اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔

تالی اور سیٹی بجانے کا حکم
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : تقریبات میں لوگ سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے ہیں اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : اس بارے میں حکم یہ ہے کہ یہ بظاہر غیر مسلموں سے اخذ کردہ ایک عادت ہے لہٰذا اسے اپنانا مسلمان کے شایان شان نہیں۔ اگر اسے کوئی چیز پسند آئے تو اللہ اکبر کہے یا سبحان اللہ وہ بھی اجتماعی طور پر نہیں جیسا کہ بعض لوگوں کا عمل ہے وہ انفرادی طور پر ایسا کرے گا۔ جہاں تک کسی خوشی کے وقت اجتماعی تکبیر یا تسبیح کا تعلق ہے تو میرے نزدیک اس کی کوئی اساس نہیں۔

امتحان میں دھوکہ دہی
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : میں دوران امتحان اپنی طالبہ ساتھی کو کسی سوال کا جواب مانگنے پر کسی بھی طریقے اور ممکنہ وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اسے جواب نقل کراتی رہتی ہوں۔ اس بارے میں دین کیا کہتا ہے ؟
جواب : دوران امتحان ناجائز ذرائع کا استعمال کرنا یا انہیں کرنے والوں کی کسی طرح اعانت کرنا جائز نہیں ہے۔ ایسی اعانت خفیہ کلام سے ہو یا ساتھی کو نقل جواب کا موقعہ دینے کی صورت میں یا کسی بھی اور طریقے سے، اس لئے کہ یہ معاشرے کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس طرح وہ دھوکہ دہی سے ایسی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا جس کا وہ استحقاق نہیں رکھتا اور اس منصب پر فائز ہو جائے گا جس کا وہ اہل نہیں ہے اور یہ اجتمائی نقصان اور دھوکہ ہے۔ واللہ اعلم

استانیوں کا مذاق اڑانا اور انہیں برے القاب سے پکارنا
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : بعض طالبات معلمات کا مذاق اڑاتی ہیں اور انہیں برے القابات سے پکارتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہم تو صرف مذاق کر رہی ہیں۔ اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : مسلمان کو ایسی چیزوں سے اپنی زبان کو محفوظ رکھنا چاہیے جو کسی کی ایذاء اور بےعزتی کا باعث بنتی ہوں۔ حدیث شریف میں ہے :
لا تؤذوا المسلمين ولا تتبعوا عوراتهم [الترغيب والترهيب للمنذري 3/ 239 ومجمع الزوائد 246/6]
”مسلمانوں کو تکلیف نہ دو اور ان کی پوشیدہ چیزوں کی ٹوہ میں نہ لگے رہو۔“
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ [104-الهمزة:1]
”ہلاکت ہے پس پشت عیب جوئی کرنے والے کے لئے۔“
هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [68-القلم:11]
”طعنہ باز (عیب گو) ہے، چلتا پھرتا چغل خور ہے۔“
وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ [49-الحجرات:11]
”اور ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو۔“
مسلمان کی تنقیص اور ایذاء رسانی حرام ہے۔

استاد کا طالب علم کو استحقاق سے کم نمبر دینا
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : بعض معلمات طالبات کو ان کی سالانہ کارکردگی جانچتے وقت مناسب حق نہیں دیتیں وہ ایسا کرتے وقت اپنی پسند ناپسند کے تحت فیصلہ کرتی ہیں۔ اس بارے میں —- —- شریعت کا کیا حکم ہے ؟
جواب : استاذ کا طالب علم پر ظلم کرنا حرام ہے۔ اسے اس کے استحقاق کے مطابق پوزیشن نہ دینا یا اس کے استحقاق سے بڑھ کر خاص مقاصد کے پیش نظر اسے اچھی پوزیشن دینا حرام ہے۔ اسے عدل و انصاف اور برابری کا رویہ اپنانا چاہیے اور ہر حقدار کو اس کا حق دینا چاہیئے۔

بیوی نے اچھا بھی کیا اور برا بھی
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : ایک بیوی نے گھریلو اخراجات سے بچ جانے والے خاوند کے مال سے اس کے علم کے بغیر دو ہزار ریال سے زیادہ پس انداز کر لئے اس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ اس کے خاوند کے ذمہ اس کے بھائی کا جو قرض ہے اس طرح وہ ادا ہو جائے گا۔ جب عورت نے اچانک خاوند کو اس بات سے آگاہ کیا تو وہ وقتی طور پر اس عمل سے خوش ہوا پھر معلوم ہوا کہ خاوند کچھ کبیدہ خاطر ہو رہا ہے۔ وہ بیوی پر شک بھی کرنے لگا اور اس پر اس کا اعتماد بھی ختم ہو گیا۔ حالانکہ وہ انتہائی دیندار اور مومنہ عورت ہے۔ اس کی نیت بھی اچھی تھی، لیکن بعض کینہ پرور لوگوں نے بیوی کے اس عمل کو خاوند کے سامنے غلط رنگ میں پیش کیا۔ اب عورت یہ معلوم کرنا چاہتی ہے کہ کیا وہ اس عمل پر گناہ گار ٹھرے گی یا نہیں ؟
جواب : اس عورت نے ایک اعتبار سے اچھا بھی کیا اور ایک اعتبار سے برا بھی۔ اچھا تو یوں کہ اس نے چاہا کہ کسی طرح اس کے خاوند کا دامن قرض سے پاک ہو جائے۔ وہ کسی شخص کے زیر بار تھا اس کی بیوی اس سے یہ بوجھ اتارنا چاہتی تھی۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہو اس لئے کہ اس کا خاوند دوسروں کے حقوق کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لیتا ہے اور قدرت کے باوجود انہیں ادا نہیں کرنا چاہتا۔ اس نے چاہا کہ اس کے بھائی کو اس کا حق مل جائے کہ اسے اس کی ضرورت ہے اس کے لئے عورت نے یہ حیلہ اپنایا۔ دوسری طرف اس کا یہ عمل ایک طرح سے غلط بھی ہے وہ یوں کہ یہ عمل خیانت کے مترادف ہے۔ اس نے خفیہ طریقے سے خاوند سے کچھ مال حاصل کیا جسے وہ روز مرہ کی ضروریات کی تکمیل کے لئے وصول کیا کرتی تھی۔ ہم خاوند کو نصیحت کریں گے کہ وہ بیوی کو معذور مجھے اور اس کے متعلق حسن ظن سے کام لے، اس پھر سے امانت دار اور قابل اعتماد سمجھے۔

ہو سکتا ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس میں خیر کثیر پیدا فرما دے
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

سوال : تقریبا پانچ سال قبل میں ایک کام سے منسلک ہوئی۔ میں اس دن سے ہی اس کام سے مطمئن نہیں ہوں، کیونکہ میں کماحقہ اس ڈیوٹی کے ادا کرنے سے قاصر ہوں لہذا چاہتی ہوں کہ یہ کام چھوڑ کر کوئی اور کام کروں۔ اس سے قبل کہ میں نئے میدان عمل کے بارے میں سوچوں میں نماز استخارہ ادا کرتی ہوں تاکہ میری کوشش صحیح خطوط پر آگے بڑھ سکے۔ اس کے بعد ترک عمل کے بارے مجھے شرح صدر ہو جاتا ہے اور میں عملی طور پر تبدیلی عمل کے لئے کوشاں ہو جاتی ہوں لیکن جلد ہی معلوم ہوتا ہے کہ امید کی تمام کرنیں ماند پڑ گئیں ہیں اور ہر چیز پہلی حالت پر لوٹ آئی ہے۔ میں اس وقت سے یہ کام چھوڑنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن ابھی تک کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس مقصد کے لئے نماز استخارہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟ اگر جائز ہے تو میرے پانچ سال اس کام پر لگے رہنے کی حکمت کیا ہے جبکہ میں اسے پسند نہیں کرتی اور کسی طرح کی تبدیلی بھی رونما نہیں ہوئی۔ براۓ کرم فتوی سے نوازیں۔ جزاکم اللہ خیرا
جواب : آپ اس کام کو غیرپسندیدگی کی نظر سے نہ دیکھیں چاہے اس پر عرصہ دراز ہی کیوں نہ بیت جائے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کام دوسرے کام سے بہتر ہو اس کے ساتھ ہی ساتھ آپ مقدور بھر اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کریں اس کے باوجود اگر کوئی کی رہ جائے تو وہ قابل معافی ہے دوسرے کام کی جستجو کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں اور نہ ہی قبولیت دعا کے لئے جلد بازی کا شکار ہوں، ممکن ہے اس میں بہتری ہو۔ نماز استخارہ سنت ہے اور فضیلت کی چیز ہے۔ عین ممکن ہے اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات ہو کہ آپ کے لئے کسی اور کام کی نسبت یہ کام زیادہ بہتر ہے اگرچہ اس میں نفسیاتی کراہت ہی کیوں نہ ہو۔

اس تحریر کو اب تک 20 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply