مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِي جَارَهُ.
”جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہو، اسے چاہئے کہ وہ اپنی پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ “ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5185]
فوائد :
دین اسلام معاشرتی زندگی میں مل جل کر رہنے کی تاکید کرتا ہے۔ لیکن افسوس کہ جب سے ہم لوگوں نے کوٹھیوں اور بنگلوں میں رہائش اختیار کی ہے۔ ہم اپنے ہمسائے کی غمی اور خوشی سے قطعی طور پر بےخبر رہتے ہیں بلکہ اسے تکلیف دینے کے درپے رہتے ہیں۔ حالانکہ ایسا کرنا ایک کبیرہ گناہ ہے اور اس کے متعلق شریعت میں بہت وعید آئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
”اللہ کی قسم ! وہ شخص مومن نہیں، وہ شخص مومن نہیں، وہ شخص مومن نہیں ؛ عرض کیا گیا کون ؟ یا رسول اللہ ! آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ شخص جس کے پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہوں۔ “ [بخاري، الادب : 6016 ]
پڑوسی کو تکلیف دینے اور بدسلوکی کرنے کی مندرجہ ذیل صورتیں عام ہیں :
◈ اپنے گھر کی صفائی کر کے کوڑا کرکٹ اور کچرا پڑوسی کے دروازے پر پھینک دینا۔
◈ اپنے گھر کی کھڑکی ہمسایے کی طرف کھولنا جس سے اس کی پردہ دری ہوتی ہو۔
◈ مشترکہ دیوار کو اتنا اونچا کرنا کہ ہمسایہ دھوپ، روشنی اور ہوا سے محروم ہو جائے۔
◈ وہ اپنی ضرورت کے لئے مشترکہ دیوار پر لکڑی لگانا چاہے لیکن اسے منع کر دیا جائے۔
◈ اپنے گھر میں اس قدر پریشان کن شورشرابا کرنا جس سے ہمسایہ تنگ ہو جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمسایہ کی ایذا رسانی اور اس کی سنگینی کو بایں الفاظ بیان کیا ہے :
”جس شخص کی ایذا رسانی سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ “ [مسلم، الايمان : 73 ]
ہمیں چاہئے کہ اپنے پڑوسی کا خیال رکھیں اور اس کی ایذا رسانی سے اجتناب کریں۔