نماز جنازہ کا مسنون طریقہ قران وسنت کی روشنی میں
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

سوال

نماز جنازہ کا مسنون طریقہ قران وسنت کی روشنی میں بیان کریں؟

جواب

(1)نماز جنازہ فرض کفایا ھے ۔

یعنی چند مسلمانوں کے نماز جنازہ ادا کر لینے سے پوری بستی یا شہر کی طرف سے نماز جنازہ ادا ہو جائے گئی۔
[سنن ابي داود كتاب الجهاد حديث 2710حسن]

( 2) اگر میت مرد کی ہو توامام میت کے سر کے سامنے نماز جنازہ پڑھانے کے لئے کھڑا ہوگا ۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ھے کے رسول اللہ ﷺ کا سنت طریقہ یہ ھے اگر میت مرد کی ھوتی تو رسول اللہ ﷺنماز جنازہ پڑھانے کے لئے میت کے سر کے سامنے کھڑے ھوتے تھے۔
[ سنن ابن ماجه كتاب الجنائز حديث 1494 حسن ]

(3) اگر میت عورت کی ھوتو امام میت کے پیٹ کے برابر کھڑا ھوگا۔

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کے رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کی میت کا نماز جنازہ پڑھائی جو حالت نفاس کیا فوت ھوگئی تھی تو آپﷺ اس کے پیٹ کے وسط میں کھڑے ھوۓ۔
[صحيح بخاري 1331صحيح مسلم 2235 ]

(4) مروجہ نمازجنازہ کی نیت کے الفاظ سنت سے ثابت نہیں ھیں۔

یعنی نہ رسول اللہ ﷺ اور نہ ھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تابعین بلکہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بھی ثابت نہیں ھیں۔

(5) نماز جنازہ کی چار تکبیریں

ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ھے رسول اللہ ﷺنے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھائی ھے تو آپ ﷺ نے نجاشی کے نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہیں تھی۔
[ مسلم 951]

(6) پہلی تکبیر

قبلہ کی جانب منہ کر کے اَللّٰهُ اَكْبَرُ کہتے ھوئے رفع الیدین کریں یعنی دونوں ھاتھوں کو کندھوں تک اٹھائیں۔
عبداللہ بن عمر ؓ کا بیان ھے :
رَأَيْتُ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ افْتَتَحَ التَّكْبِيرَ فى الصَّلَاةِ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ حتَّى يَجْعَلَهُما حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ
ترجمہ : میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تکبیر تحریمہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اس وقت (کندھوں) تک اٹھائے۔
[صحيح بخاري حديث 738]

(7)ھاتھ اٹھاتے وقت اپنی انگلیاں نارمل طریقہ پر کھلی رکھیں۔

ابو ھریرہ ؓکا بیان ھے کےرسول اللہ ﷺانگلیوں کے درمیان نہ زیادہ فاصلہ کرتے اور نہ زیادہ آپس میں انگلیاں ملاتے ۔
[مستدرك حاكم 856حسن ]
تنبیہ :
شیخ البانی رحمة اللہ فرماتے ھیں کہ رفع الیدین کرتے وقت ہاتھوں سے کانوں کو چھونے کی کوئی دلیل نہیں ہے ان کا چھونا بدعت ہے۔

(8)پھر دایاں ھاتھ بائیں ھاتھ پر رکھ کر سینے پر باندھ لیں ۔

عَنْ وَائِلِ بِنْ حُجْرٍ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ فَوَضَعَ يَدَهٗ الْيُمْنٰي عَليٰ يَدِهِ الْيُسْرٰي عَليٰ صَدْرِهِ
ترجمہ :
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ مبارک اپنے بائیں ہاتھ مبارک کے اوپر اپنے سینے مبارک پر رکھا ۔
[ صحيح ابن خزيمه حديث 479 ]
سیدنا ہلب طائی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سینے پر ہاتھ رکھے ہوئے دیکھا۔
[مسند احمد،226/5، حديث 22026 حسن]
نوٹ :
ان دو روایات سے ثابت ہوا نماز میں ہاتھ سینے پر باندھنے چاہئیں۔
تنبیہ بلیغ :
اکثر لوگ جنازہ میں ثناء یعنی سُبْحَانك اللَّهم وبحَمْدِك وتبارك اسْمُك، وتعالى جَدُّك،وجل ثناءك ولا إله غَيْرَك پڑھنے کے قائل ھیں حالانکہ اس کا پڑھنا کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ یہ دعا نماز جنازہ میں نہ رسول اللہ ﷺ نے پڑھی ھے اور نہ ھی صحابہ کرام ؓمیں سے کوئی پڑھنے کا قائل تھا، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے اس آدمی کے متعلق سوال ہو ا جو جنازہ میں دعا ئے استفتاح یعنی سبحانك اللهم پڑھتا ہے ؟ آپ نے فر مایا :” میں نے اس کے متعلق کچھ نہیں سنا۔
[مسائل ابي داود: 1042 حسن]

پھر آپ ( بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) پڑھیں

عن أبى هريرة، قال: قال رسول الله ﷺ: إذا قرأتم ﴿الحمد لله﴾ الفاتحة فاقرؤوا ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾، فانها / أم القرآن، وأم الكتاب، والسبع المثاني، و ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾ –إحدى آياتها
ترجمہ :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب تم الحمد للہ (سورہ فاتحہ) پڑھو تو بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی پڑھو کیوں کہ یہ (سورہ فاتحہ) ام القرآن،ام الکتاب اور سبع مثانی ہے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم اس کی ایک آیت ہے۔
[أخرجه الدارقطني ، 1190، والبيهقي فى الكبري-2390]

پھر سورہ فاتحہ بلند آواز میں پڑھیں۔
جابر رضى الله عنه قال كان رسول اللّٰه ﷺ يكبر عَلٰي جنائز اربعاً و يقرأ بفاتحة الكتاب فى التكبيرة الاوليٰ
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں کے جنازوں پر چار تکبیریں کہا کرتے تھے، اور پہلی تکبیر میں سورہ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔
[ والامام الشافعي كتاب الام حديث 1-270حسن]

طلحہ بن عبداللہ بن عوف فرماتے ہیں :
صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ قَالَ: لِيَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ
میں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی اقتداء میں نماز جنازہ ادا کی تو انہوں نے سورہ فاتحہ پڑھی اور فرمایا :
(فاتحہ اونچی آواز میں اس لیے پڑھی ہے ) تاکہ لوگ جان لیں کہ یہ سنت ہے۔
[صحيح بخاري: حديث نمبر-1335 ،سنن ابو داؤد حديث نمبر-3198]

أُمُّ شَرِيكٍ الْأَنْصَارِيَّةُ ، قَالَتْ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَقْرَأَ عَلَى الْجِنَازَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ .
ام شریک انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھیں۔
[سنن ابن ماجه حديث: 1496]

ابن المنذر نے حضرت عبداللہ بن مسعود، حسن بن علی، ابن زبیر اور مسور بن مخرمہ سے نمازِ جنازہ میں فاتحہ کی مشروعیت نقل کی ہے۔
[الاوسط الابن منذر]
تنبیہ
نماز جنازہ ہو یا کوئی اور نماز, سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے, اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ
جس نے فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں۔
[صحيح البخاري : 756]
یہ حدیث ہر طرح کی نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے پر دلیل ہے،تبھی تو امام بخاری نے اس حدیث پر باب قائم کیا ہے کہ
باب وجوب القراءة للإمام والمأموم فى الصلوٰة كلها
(امام اور مقتدی پر ہر نماز میں قراءت کرنا واجب ہے) کا عنوان قائم کیا ہے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرأْ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، فَهِيَ خِدَاجٌ يَقُولُهَا ثَلَاثًا
جس نے کوئی بھی نماز پڑھی اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز نامکمل ہے۔ یہ بات آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمائی۔
[ صحيح مسلم: حديث نمبر 395 ، سنن ابو داؤد حديث نمبر-821]

بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
اَ لْحَـمْدُ لِلّـٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ (1)
سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے۔
اَلرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ (2)
بڑا مہربان نہایت رحم والا۔
مَالِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ (3)
جزا کے دن کا مالک۔
اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (4)
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِـيْـمَ (5)
ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔
صِرَاطَ الَّـذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْـهِـمْۙ غَيْـرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْـهِـمْ وَلَا الضَّآلِّيْنَ (6)
ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا، نہ کہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ وہ جو گمراہ ہوئے۔
[منتقي لابن جارود حديث 589 صحيح]

پھر آمین کہیں ۔

جب امام ولا الضالین کہے تو امام کو بھی اور مقتدیوں کو بلند اواز کےساتھ آمین کہنی چاہئے۔
جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ جب قرأت فاتحہ سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے آمین کہتے۔‘‘
[سنن دار قطني حديث 1274-صحيح ابن حبان 1806]
عن أبى هريرة أن رسول اللّٰه صلّى اللّٰه عليه وسلّم قال:إذا قال الإمام: غير المغضوب عليهم ولا الضّالين، فقولوا:آمين
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب امام {غير المغضوب عليهم ولا الضالين} کہے تو تم آمین کہو۔
[صحيح بخاري حديث 156]
تنبیہ :
آمین کا آغاز پہلے امام کرے گا اس کی اواز سنتے ہی تمام مقتدی حضرات بھی آمین کہیں گے۔
ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ھے کےرسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو بلند آواز سے صحیح [بخاري حديث 780صحيح مسلم 410]
پھر دوسری تکبیر اللہ اکبر کہتے ہوۓ رفع الیدین کریں یعنی اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھائیں۔
جیسا کے عبداللہ بن عمر ؓکا بیان ہے۔
اَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا صَلّٰي عَلَي الجَنَازَةِ، رَفَعَ يَدَيهِ فِي كُلِّ تَكبِيرَةٍ
ترجمہ :
یعنی ’’نبیﷺ جب نمازِ جنازہ پڑھاتے تو ہر تکبیر میں رفع یدین کرتے۔‘‘
[معرفة السنن والآثار، بَابُ التَّكْبِيرِ عَلَي الْجَنَائِزِ وَغَيْرِ ذَلِكَ،رقم:۷۶۱۳حسن]

امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
وقد سئل الدارقطني فى العلل : عَن حَديث نافع، عَن ابن عُمر؛ أَن النَّبي صَلى الله عَليه وسَلمَ كان إِذا صلى على جِنازة رفع يديه فى كل تكبيرة، وإِذا انصرف
"سیدنا ابن عمر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے روایت ہے۔کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز جنازہ پڑھتے تو ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرتے اور جب پھرتے(نماز ختم کرتے)تو سلام کہتے تھے ۔
[كتاب العلل للدارقطني 13ص22ح2908]
اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے۔ امام دارقطنی اور یحییٰ بن سعید الانصاری دونوں تدلیس کے الزام سے بری ہیں۔دیکھئے [الفتح المبين فى تحقيق طبقات المدلسين ص26،32]
عمر بن شبہ صدوق حسن الحدیث ہیں۔ احمد بن محمد بن الجراح اور محمد بن مخلددونوں ثقہ ہیں۔
دیکھئے : [تاريخ بغداد 4/409ت2312 ،3/310 ،311ت 1406]

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز جنازہ کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرتے تھے۔
[جزء رفع اليدين للبخاري تحقيق شيخنا ابي محمد بديع الدين الراشدي السندهي ص184ح 109،111]
اس کی سند صحیح ہے اور اسے ابن ابی شیبہ (3/296) اور بیہقی (4/44) وغیرہما نے بھی روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی سند کوصحیح کہا ہے۔ [التلخيص الجير ج2ص146ح807]
شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے”بسند صحیح "کہا ہے ۔
تنبیہ :
کسی صحابی سے جنازے کی تکبیرات پر ترک رفع الیدین ثابت نہیں ہے۔
لہٰذا راجح یہی ہے کہ نماز جنازہ کی ہر تکبیر پر رفع الیدین کرنا چاہیے۔

پھر درود ابراھیمی پڑھیں

حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے،
نماز میں سنت طریقہ یہ ہےکہ تکبیر کہہ کر سورت فاتحہ پڑھے، پھر (تکبیر کہہ کر) آنحضرتﷺ پر درود بھیجے،
پھر (تکبیر کہہ کر) میت کے لیے خلوص دل سے دعاء کرے ، قراءت صرف پہلی تکبیر میں کرے، پھر دائیں جانب آہستہ سے سلام کہے۔
[مصنف عبدالرزاق ج3 ص489، حديث نمبر 6428]
[المنتقيٰ لابن الجارود ص١٨٩ /حديث 540 اسناده صحيح]
[السنن الكبريٰ للبيهقي ج4 ص39،/ ح6959]

دوسری تکبیر کے بعد یہ درود پڑھیں*

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
ترجمہ:
اے اللہ! اپنی رحمت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جیسا کہ تو نے اپنی رحمت نازل فرمائی ابراہیم پر اور آل ابراہیم علیہ السلام پر۔ بیشک تو بڑی خوبیوں والا اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! برکت نازل فرما محمد پر اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر۔ بیشک تو بڑی خوبیوں والا اور بڑی عظمت والا ہے۔
[صحيح بخاري حديث نمبر-3370]
نوٹ :
اللَّهُمَّ صل على مُحَمَّد وعَلى آل مُحَمَّد وَبَارك وَسلم كَمَا صليت وسلمت وباركت ورحمت وترحمت على إِبْرَاهِيم وعَلى آل إِبْرَاهِيم رَبنَا إِنَّك حميد مجيد
واضح رہے کہ نمازِ جنازہ میں پڑھا جانے والا مذکورہ درود شریف جس میں و سلمت و باركت و رحمت و ترحمت کا اضافہ بھی مذکور ہے ، یہ درود شریف، حدیث کی کتابوں میں سے کسی معتبر اور مستند کتاب میں نہیں ملا، تاہم ایک روایت میں ترحمت کے الفاظ مذکور ہیں ، مگر اس میں بھی ایک راوی مجہول ہے ، اس لیے اس روایت سے بھی ترحمت کے الفاظ کے ثبوت پر استدلال نہیں کیا جا سکتا۔
تیسری تکبیر کے لئے اللہ اکبر کہتے ھوئے رفع الیدین کریں یعنی اپنے دونوں ھاتھوں کو کندھوں تک اٹھائیں.

پھر میت کے لئے خلوص سے دعائیں کریں۔

واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کے نماز جنازہ پڑھائی، تو میں آپ کو یہ دعا پڑھتے ہوئے سن رہا تھا:
اللَّهمَّ إنَّ (فلانَ بنَ فلانٍ )في ذمَّتِكَ وحبلِ جوارِك فقه من فتنةَ القبرِ وعذابِ النَّارِ وأنتَ أهلُ الوفاءِ والحقِ اللَّهمَّ فاغفر لهُ وارحمهُ إنَّكَ أنتَ الغفورُ الرَّحيمُ
اے اللہ! فلاں بن فلاں، تیرے ذمہ میں ہے، اور تیری پناہ کی حد میں ہے، تو اسے قبر کے فتنے اور جہنم کے عذاب سے بچا لے، تو عہد اور حق پورا کرنے والا ہے، تو اسے بخش دے، اور اس پر رحم کر، اے اللہ بیشک تو غفور (بہت بخشنے والا) اور رحیم (رحم کرنے والا) ہے۔
[ ‏‏‏‏سنن ابي داود3202، تحفة الأشراف: 17753، الاوسط لابن منذر 3173، سنن ابن ماجه 1499، صحيح ‏‏‏‏]
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ً روایت ہے:کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ میں یہ دعا پڑھی تھی ۔
اللهمَّ أنتَ رَبُّها، وأنتَ خَلَقْتَها، وأنتَ هديْتَها للإسلامِ، وأنتَ قبضْتَ رُوحَها، وأنتَ أعلَمُ بسِرِّها وعَلانيتِها، جِئْناك شُفعاءَ له فاغْفِرْ له
ترجمہ :
اے اللہ! تو ہی اس کا رب ہے، تو ہی نے اسے پیدا کیا، تو ہی نے اسے اسلام کی ہدایت دی اور تو ہی نے اس کی روح قبض کی، اور تو ہی اس کے پوشیدہ اور ظاہر کو سب سے زیادہ جانتا ہے۔ ہم تیرے پاس اس کے سفارشی بن کر آئے ہیں، پس تو اسے بخش دے۔
[أخرجه أبو داود 3200، والنسائي فى السنن الكبرى 10917، وأحمد 8751 ]
عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پر نماز پڑھی اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں سے یہ لفظ یاد رکھے۔
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ ، وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ ، وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ ، وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ ، وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ ، وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ ، وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ ، وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ
ترجمہ :
یا اللہ! بخش اس کو اور رحم کر اور تندرستی دے اس کو، اور معاف کر اس کو، اور اپنی عنایت سے میزبانی کر اس کی، اس کا گھر (قبر) کشادہ کر، اور اس کو پانی اور برف اور اولوں سے دھو دے، اور اس کو گناہوں سے صاف کر دے، جیسے سفید کپڑا میل سے صاف ہو جاتا ہے اور اس کو اس گھر کے بدلے اس سے بہتر گھر دے، اور اس کے لوگوں سے بہتر لوگ دے اور اس کی بیوی سے بہتر بیوی دے، اور جنت میں لے جا اور عذاب قبر سے بچا۔“ یہاں تک کہ میں نے آرزو کی کہ یہ مردہ میں ہوتا۔
[صحيح مسلم حديث 2232—7563]

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک نماز جنازہ پڑھایا تو اس میں یہ دعا پڑھی :
اَللّٰهُمَّ اِنَّهٗ عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ كَانَ يَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ أَنْتَ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُوْلُكَ وَاَنْتَ اَعْلَمُ بِهٖ اَللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِيْ اِحْسَانِهٖ وَاِنْ كَانَ مُسِيْئًا فَتَجَاوَزْ عَنْ سَيِّاٰتِهٖ ، اَللّٰهُمَّ لاَ تَحْرِمْنَا اَجْرَهٗ وَلاَ تَفْتِنَّا بَعْدَهٗ
’’ اے اللہ ! یہ تیرا غلام اور تیرے غلام کا بیٹا ہے۔ یہ اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی الله علیہ وسلم تیرے بندے اور رسول ہیں۔ اور تو مجھ سے زیادہ اس کو جانتا ہے، اگر وہ نیک تھا تو اس کی نیکی میں اضافہ کر دے اور اگر گنہگار ہو تو اس کے گناہوں کو معاف کر دے اور اس کے اجر سے ہم کو محروم نہ کرنا اور نہ تو اس کے بعد ہم کو فتنے میں ڈالنا۔
[موطأ مالك ، كِتَابٌ : الْجَنَائِزُ ، مَا يَقُولُ الْمُصَلِّي عَلَى الْجَنَازَةِ ، حديث نمبر-609]
[ابن حبان حديث نمبر-3073]
[مستدرك حاكم حديث نمبر-1328فضل الصلاة على النبى اسماعيل القاضي حديث 93حسن]

یزید بن المطلبؓ کا بیان ھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز جنازہ پڑھائی اس میں یہ دعا پڑھی تھی :
آاَللّٰهُمَّ عَبْدُكَ وَابْنُ اَمَتِكَ،اِحْتَاجَ اِلٰي رَحْمَتِكَ،وَاَنْتَ غَنِيٌّ عَنْ عَذَابِهٖ،اِنْ كَانَ مُحْسِناً فَزِدْ فِيْ حَسَنَاتِهٖ وَاِنْ كَانَ مُسِيْئاً فَتَجَاوَزْ عَنْهُ
ترجمہ : ’’اے اللہ! یہ تیرا بندہ ہے اور تیری بندی کا بیٹا ہے۔یہ تیری رحمت کا محتاج بن گیا ہے اور تو اسے عذاب دینے سے بے نیاز ہے۔یہ اگر نیک تھا تو اس کی نیکیوں میں اضافہ فرما اور اگر یہ خطاکار تھا تو اس سے درگزر فرما ( ثم يدعو ماشاءالله ان يدعوا )
[معجم الكبير للطبراني حديث 18104]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کا نماز جنازہ پڑھتاتے تو یہ دعا پڑھتےتھے :
اللهم اغفر لِحَيِّنَا ومَيِّتِنَا، وصغيرنا وكبيرنا، وذَكرنا وأُنثانا، وشَاهِدِنَا وغَائِبِنَا، اللهم مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ على الإسلامِ، ومَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفِّهِ على الإيمانِ، اللهم لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، ولا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ.
ترجمہ :
”اے اللہ! ہمارے زندوں کو، ہمارے مردوں کو، ہمارے حاضر لوگوں کو، ہمارے غائب لوگوں کو، ہمارے چھوٹوں کو، ہمارے بڑوں کو، ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو بخش دے، اے اللہ! تو ہم میں سے جس کو زندہ رکھے اس کو اسلام پر زندہ رکھ، اور جس کو وفات دے، تو ایمان پر وفات دے، اے اللہ! ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ کر، اور اس کے بعد ہمیں گمراہ نہ کر“۔
[ سنن ابن ماجه 1498، 8809. مسند أحمد 22554- 17545-8809]

چوتھی تکبیر کہتے ھوئے اللہ اکبر کہیں اور رفع الیدین کریں

یعنی اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھائیں

پھر صرف دائیں طرف ایک سلام پھیر دیں

حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے، نماز میں سنت طریقہ یہ ہےکہ تکبیر کہہ کر سورت فاتحہ پڑھے، پھر (تکبیر کہہ کر) آنحضرتﷺ پر درود بھیجے، پھر (تکبیر کہہ کر) میت کے لیے خلوص دل سے دعاء کرے ، قراءت صرف پہلی تکبیر میں کرے، پھر دائیں جانب آہستہ سے سلام کہے۔
[مصنف عبدالرزاق ج3 ص489، حديث نمبر 6428]
[المنتقيٰ لابن الجارود ص١٨٩ /حديث 540 اسناده صحيح]
[السنن الكبريٰ للبيهقي ج4 ص39،/ ح6959 مسند الشاميين ح 3000 حسن]

نافع رحمہ اللہ کا بیان ہے، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب نماز جنازہ پڑھتے تو رفع یدین کرتے، پھر تکبیر کہتے۔ جب (تکبیرات وغیرہ سے) فارغ ہوتے تو اپنی دائیں جانب ایک سلام پھیرتے تھے۔
[ مصنف ابن أبى شيبة ۳۰۷/۳ ح ۱۱۴۹۱ وسنده صحيح]

سیدناابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ فَكَبَّرَ عَلَيْهَا أَرْبَعًا وَسَلَّمَ تَسْلِيمَة(ً واحدة عن يمينه )
بیشک رسول اکرم ﷺ نے ایک میت پر نماز جنازہ پڑھی اس پر چار تکبیریں کہیں اور پھر ایک دائیں طرف ایک سلام پھیرا۔
[سنن الكبري للبيهقي ۴؍۷۰،رقم الحديث:۶۹۸۲،دار الكتب العلميه ،سنن الدار قطني ۲؍۸۹،رقم الحديث:۱۷۹۹، طبع نشر السنة ملتان، المستدرك على الصحيحين للحاكم ۱؍۵۱۳،دار الكتب العلميه وسنده صحيح]
[مصنف ابن ابي شيبه حديث 11620]
تنبیہ بلیغ:
اس کی سند میں ابو العنبس سے مراد سعید بن کثیر بن عبید التمیمی’’ثقۃ‘‘ہیں۔
[ تقريب التهذيب۲۶۲۵]
بعض کا اس سے مراد عبداللہ بن صھبان ’’ضعیف‘‘ (تقریب ۳۷۱۸) کو لینا غلط ہے۔
ابوالعنبس سے مراد سعید بن کثیر ہی ہیں فی الوقت اس کی دو دلیلیں پیش خدمت ہیں:
➊ امام ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ الحاکم النیشاپوری (المتوفی ۴۰۵)نے صراحت کردی ہےکہ ابوالعنبس سے مراد سعید بن کثیر ہیں جیسا کہ وہ اس سے پہلے والی روایت کےمتعلق فرماتے ہیں:
’’وشاهده حديث أبي العنبس سعيد بن كثير‘‘
یعنی ابوالعنبس سعیدبن کثیر کی (ایک طرف سلام والی) حدیث اس حدیث کی شاہد ہے۔
[المستدرك على الصحيحين ۱؍۵۱۳،دار الكتب العلميه]
اس تصریح کے بعد بھی ابوالعنبس سے مراد عبداللہ بن صھبان لینا اعجب العجب ہے۔

➋ اس سند میں ابوالعنبس سے روایت کرنے والےحفص بن غیاث ہیں،عبداللہ بن صھبان کے تلامذہ میں ان کا نام نہیں ملتا، جبکہ سعید بن کثیر کےتلامذہ میں ان کا نام مذکور ہے۔دیکھئے:
[تهذـيب الكمال ۳؍۱۹۲مؤسسة الرسالة]
اور اسی طرح عبداللہ بن صھبان کے اساتذہ میں ان کے والد(صھبان) شمار نہیں ہوتے جبکہ سعید بن کثیر کے اساتذہ میں ان کے والد (کثیر بن عبید) کا نام موجود ہے ۔
عمرو بن مہاجر الدمشقی فرماتے ہیں :
میں نے واثلہ بن اثقع کی اقتداء میں ساٹھ جنازے پڑھے آپ چار تکبیریں کہتے اور ایک سلام پھیرتے۔
[مصنف ابن ابي شيبه ۳؍۱۹۱دار الفكر وسنده صحيح]
علی بن ابی طالب ؓ عمربن خطاب ؓ عبداللہ بن عباسؓ جابر بن عبداللہؓ ابو ھریرہؓ ابن ابی اوفیؓ عثمان بن عفان ؓ انس بن مالکؓ یہ تمام صحابہ کرام نماز جنازہ میں صرف دائیں طرف ایک سلام پھیرتے تھے ۔
[مستدرك حاكم حديث 1332 زادالمعاد فى هدي خيرالعباد غنيه الطالبين ]
نوٹ :
امام عبداللہ بن مبارک (المتوفی ۱۸۱)یہاں تک فرماتے ہیں:
من سلم على الجنازة بتسلمتين فهو جاهل جاهل.
جس نے نماز جنازہ میں دو سلام پھیرے وہ جاہل ہے، جاہل ہے۔
[مسائل احمد بن حنبل لابي داؤد ،ص:۲۵۴،صحیح ]

دونوں طرف سلام پھیرنے کے دلائل کاجائزہ

نماز جنازہ میں دونوں جانب سلام پھیرنے کے قائلین کی طرف سے اپنے مؤقف کے حق میں جو بھی روایات پیش کی جاتی ہیں وہ بلحاظ سند پایہ صحت کو نہیں پہنچتیں اس لئے ان سے حجت پکڑنا درست نہیں۔

آنے والی سطور میں ان دلائل کا مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے:

دلیل :(۱)

قال البيهقي وَأَخْبَرَنَا أَبُو حَامِدٍ أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الرَّازِيُّ الْحَافِظُ، أنبأ زَاهِرُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ زِيَادٍ النَّيْسَابُورِيُّ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ سَعْدٍ الزُّهْرِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ حَفْصٍ، ثنا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، وَالْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: ” ثَلَاثُ خِلَالٍ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُنَّ، تَرَكَهُنَّ النَّاسُ,إِحْدَاهُنَّ: التَّسْلِيمُ عَلَى الْجِنَازَةِ مِثْلُ التَّسْلِيمِ فِي الصَّلَاةِ
سیدناعبداللہ بن مسعود فرماتےہیں تین کام ایسے ہیں جن کو اللہ کے رسول اللہ ﷺ کیاکرتے تھے ان میں سے ایک جنازے میں عام نمازوں کی طرح سلام پھیرنا ہے۔
[سنن الكبري للبيهقي ۱؍۷۱،دار الكتب العلميه]
جائزہ: اس کی سند تین علل کی بناء پر ضعیف(ناقابل عمل) ہے۔

علت:(۱)
حماد بن ابی سلیمان الکوفی کا آخری عمر میں حافظہ خراب ہو گیا تھا۔
[سوالات ابي داؤد عن احمد بن حنبل ،ص:۳۳۸ الطبقات الكبري ۶؍۳۳،دار صادر]
امام نور الدین علی بن ابی بکر الھیثمی (المتوفی ۸۰۷) ایک ضعیف روایت (طلب العلم فريضه على كل مسلم) پر جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لايقل من حديث حماد الا مارويٰ عنه القدماء شعبه وسفيان الثوري والدستوائي ومن عدا هؤلاء رووا عنه بعد الاختلاط.
یعنی حماد کی صرف وہی روایات مقبول ہوں گی جو ان سے قدماء (اختلاط سے پہلے سننے والے رواۃ) شعبہ ، سفیان ثوری(ہشام بن ابی عبداللہ) الدستوائی نے روایت کی ہوں ان رواۃ کے علاوہ نے حماد سے اختلاط کے بعد سنا ہے۔
[مجمع الزوائد ۱؍۱۹،۲۰، دار الكتب العربي ونسخة اخري ۱؍۱۲۴،۱۲۵،مؤسسة المعارف]
زید بن ابی انیسہ کاشمار ان رواۃ میں نہیں ہوتا جنہوں نے حماد سے قبل از اختلاط سنا ہے۔

علت:(۲)
حماد بن ابی سلیمان مختلط ہونے کے ساتھ ساتھ مدلس بھی ہیں۔
تفصیل کیلئےدیکھئے :
ذہبی عصرحقا حافظ زبیر علی زئی کی کتاب ’’الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین ،ص:۶۱
اور اس روایت میں سماع کی تصریح نہیں کررہے جبکہ مسلمہ اصول ہے کہ مدلس کی غیرمصرح بالسماع روایت ضعیف ہوتی ہے۔
دیکھئے:
الرسالۃ للشافعی ،ص:۳۶۳بتحقیق احمدشاکر طبع دار الارشاد۔الاحسان فی ترتیب ابن حبان ۱؍۱۶۱مؤسسۃ الرسالۃ ونسخۃ اخری ،ص:۳۶بیت الافکار والدولۃ-الکفایۃ فی اصول الروایۃ ۲؍۳۸۶،دار الھدی ۔مقدمہ ابن الصلاح مع التقیید والایضاح، ص:۹۸،مؤسسۃ الکتاب الثقافیہ

مخالفین حق کے نزدیک بھی محدثین کرام کا مذکور اصول برحق ہے تسلی کےلئے تین شہادتیں پیش خدمت ہیں۔
➊ دیوبندیوں کے امام اورشیخ الحدیث سرفراز صفدر صاحب لکھتے ہیں:
’’مدلس راوی عن سے روایت کرے توحجت نہیں الایہ کہ وہ تحدیث کرے یا اس کا کوئی ثقہ متابع ہو۔“
[خزائن السنن ۱؍۱مكتبه صفدريه گوجرانواله]
➋ بریلوی مناظر غلام مصطفے نوری ۔سعید بن ابی عروبہ(مدلس طبقہ ثانیہ عندابن حجر) کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’لیکن‘‘ اس کی سند میں ایک تو سعید بن ابی عروبہ ہیں جو کہ ثقہ ہیں لیکن مدلس ہیں اور یہ روایت بھی انہوں نے قتاد ہ سے لفظ عن کے ساتھ کی ہے اور جب مدلس عن کے ساتھ روایت کرے تو وہ حجت نہیں ہوتی۔
[ترك رفع اليدين ،ص:۴۲۵،مكتبه رضويه فيصل آباد]
➌ ماسٹر امین اوکاڑوی لکھتے ہیں :
مدلس جو روایت عن سے کرے وہ منقطع ہوتی ہے۔
[تجليات صفدر ۲؍۱۷۹،مكتبه امداديه ملتان]

علت:(۳)
ابراھیم بن یزید النخعی مدلس (الفتح المبین ۵۱) کا عنعنہ ہے جبکہ مدلس کی معنعنہ روایت ضعیف ہوتی ہے کماتقدم التفصیل)
معلوم ہوا کہ یہ روایت ان تین علل کی وجہ سے ضعیف ہے ۔
محدث العصر علامہ علامہ ناصر الدین البانی کا احکام الجنائز، ص:۱۲۷میں اس کو حسن کہنا تعجب خیز ہے۔

دلیل :(۲)

ابراھیم بن مسلم الھجری کہتےہیں کہ سیدناعبداللہ بن ابی اوفی نے ایک جنازے میں دائیں بائیں سلام پھیرا اور فرمایا: رأيت رسول الله ﷺ يصنع هكذا میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
[سنن الكبري للبيهقي ۱؍۷۱،دار الكتب العلميه]
جائزہ:
اس کی سند بھی ضعیف ہے، ضعف الروایۃ کی دو علل ہیں۔
علت:(۱)
ابراھیم بن مسلم الھجری پر متعدد محدثین نے جرح کر رکھی ہے۔
امام ابوحاتم محمد بن ادریس الرازی(المتوفی ۲۷۷) فرماتے ہیں:
’’ليس بقوي لين الحديث‘‘
[ الجرح والتعديل ۳؍۱۰۸،دار الكتب العلميه]
امام محمدبن سعد (المتوفی ۲۳۰) فرماتے ہیں:
’’وكان ضعيفا فى الحديث‘‘
[ الطبقات الكبري ۶؍۳۴۱]
امام ابواسحٰق ابراھیم بن یعقوب الجوزجانی (المتوفی۲۵۹ھ) فرماتے ہیں:
يضعف حديثه.
[ احوال الرجال ،ص:۹۱موسسة الرسالة]
امام محمد بن احمد بن عثمان الذھبی(المتوفی ۷۴۸) کسی روایت پر جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’لكن ابراهيم بن مسلم ضعيف’‘
ابراھیم بن مسلم ضعیف ہے۔ [ تلخيص المستدرك ۱؍۷۴۱،دار الكتب العلميه،مزيد ديكهئے،ص:۵۱۲]
حافظ احمد بن علی بن حجرالعسقلانی(المتوفی ۸۵۲) فرماتے ہیں:
’’لين الحديث رفع موقوفات‘‘
[تقريب التهذيب ۲؍۵۸،دار المعرفة]
علت:(۲)
شریک بن عبداللہ القاضی(ثقہ قبل الاختلاط) مدلس (الفتح المبین۷۵) کا عنعنہ ہے جبکہ مدلس کی معنعنہ روایت ضعیف ہوتی ہے،کماسبق

دلیل:(۳)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ قَالَ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّهِ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ نَافِعٍ الْأَشْعَرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَنَازَةٍ، فَسَلَّمَ، عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ
ہم نے رسول اللہ ﷺ کےساتھ ایک میت پر نماز جنازہ پڑھی آپﷺ نے اپنے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرا۔
[المعجم الاوسط للطبراني ۳؍۴۰۰،رقم:۴۳۳۷،دار الفكر]
جائزہ:
یہ روایت خالد بن نافع الاشعری کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے۔
امام ابوزرعہ عبداللہ بن عبدالکریم بن یزید الرازی(المتوفی ۲۶۴) فرماتے ہیں:
’’ضعيف الحديث‘‘
[الجرح والتعديل لابن ابي حاتم ۳؍۳۵۰،دار الكتب العلميه]
امام ابوحاتم محمد بن ادریس الرازی(المتوفی ۲۷۷) فرماتے ہیں:
’’شيخ، ليس بقوي يكتب حديثه‘‘ [ الجرح والتعديل ۳؍۱۰۸،لابن ابي حاتم ۳؍۳۵۰،دارالكتب العلميه]
شیخ ہے، قوی نہیں ہے اس کی حدیث(متابعات میں) لکھی جائے گی۔
امام ابوعبدالرحمٰن احمد بن شعیب النسائی (المتوفی ۳۰۳) فرماتے ہیں:
’’ضعيف‘‘
[كتاب الضعفاء والمتروكين ،ص:۹۵ ت ۱۷۵ مؤسسة الكتب الثقافيه]
امام ابو احمد عبداللہ بن عدی الجرجانی(المتوفی ۳۶۵) نے ان کو اپنی کتاب ’’الکامل‘‘ میں ذکر کرکے امام نسائی کی جرح نقل کی گویا اسے ضعیف قرار دیاہے۔دیکھئے۔
[الكامل ۳؍۴۵۶ ت۵۸۸،دار الكتب العلميه]
فائدہ:
کوئی بھی مصنف بطور تائید کسی کی بات نقل کرے اور اس سے اختلاف نہ کرے تومصنف کابھی وہی موقف تصورکیاجائے گا۔
الا یہ کہ اس مصنف سے دوسرے کسی مقام پراس کی تردید ثابت ہو جائے۔
مشہور دیوبندی عالم سرفراز خان صفدر حیاتی لکھتے ہیں:
’’سوم: جب کوئی مصنف کسی کاحوالہ اپنی تائید میں پیش کرتا ہے اور اس کے کسی حصہ سے اختلاف نہیں کرتا تو وہی مصنف کا نظریہ ہوتا ہے۔
[تفريح الخواطر،ص:۲۹،مكتبه صفدريه گوجرانواله]
امام ابو الفرج عبدالرحمن بن علی بن محمد ابن الجوزی (المتوفی ۵۹۷) نے ان کو ضعیف ومتروک راویوں میں ذکر کیا ہے، دیکھئے:
[الضعفاءوالمتروكون ۱؍۲۵۱،دارالباز]
امام ابومحمد بن احمد بن عثمان الذھبی(المتوفی ۷۴۸) نے ان کو ضعفاء میں ذکر کیا ہے۔
[المغني فى ضعفاء الرجال ۱؍۲۰۷بتحقيق نور الدين عتر طبع قديم]

خلاصۃ التحقیق:

نبی اکرمﷺ وصحابہ کرام سے نماز جنازہ میں صرف ایک جانب سلام پھیرنا ثابت ہے، دونوں طرف والی تمام روایات اصول محدثین کی رو سے ضعیف ہونے کی بناء پر ناقابل عمل ہیں۔
لہذا عاملین بالحدیث کو چاہئے کہ وہ صحیح حدیث پر عمل کرتے ہوئے ایک ہی جانب سلام پر اکتفاء کریں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!