قرآنِ کریم کی تلاوت کو تین دن یا اس سے زیادہ مدت میں مکمل کرنا مستحب اور افضل ہے
یہاں اس کے دلائل پیش کیے جاتے ہیں:
دلیل نمبر 1
حضرت عبداللہ بن عمرو صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکالمہ:
"صُمْ مِّنَ الشَّہْرِ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ، قَالَ : إِنِّي أُطِیقُ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ : فَمَا زَالَ حَتّٰی قَالَ : ’صُمْ یَوْمًا وَّأَفْطِرْ یَوْمًا‘، وَقَالَ : ’اقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي شَہْرٍ‘، فَقُلْتُ : إِنِّي أُطِیقُ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ، حَتّٰی قَالَ : ’اقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي ثَلَاثٍ‘ ۔”
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘مہینے میں تین دن روزے رکھا کرو۔’ انہوں نے عرض کیا کہ مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ انہوں نے یہ بات مسلسل کہی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘ایک دن روزہ رکھا کرو اور ایک دن چھوڑ دیا کرو۔’ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘قرآنِ کریم کو ایک مہینے میں ختم کیا کرو۔’ انہوں نے کہا کہ میں اس سے بھی زیادہ کر سکتا ہوں، اور یہی بات دہراتے رہے، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘تین دن میں ختم کر لیا کرو۔'” (صحیح البخاري : 1978)
دلیل نمبر 2
حضرت عبداللہ بن عمرو صلی اللہ علیہ وسلم روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لَمْ یَفْقَہْ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ” "جو تین دن سے پہلے قرآن کی تلاوت مکمل کرے، اس نے اس کو سمجھا نہیں۔” (سنن أبي داوٗد : 1394، سنن الترمذي : 2949، سنن ابن ماجہ : 1347، فضائل القرآن للنسائي : 92، وسندہٗ صحیحٌ)
امام ترمذی علیہ السلام اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
"هٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ” "یہ حدیث حسن صحیح ہے۔”
دلیل نمبر 3
حضرت عبداللہ بن عمرو صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قرآن کو چالیس (۴۰) دنوں میں مکمل کرنے کا حکم دیا، پھر فرمایا کہ ایک مہینے میں، پھر بیس (۲۰) دنوں میں، پھر پندرہ (۱۵) دنوں میں، پھر دس (۱۰) دنوں میں، اور آخر میں سات (۷) دنوں میں مکمل کرنے کا کہا اور اس پر رک گئے۔
(فضائل القرآن للنسائي : 94، مختصر قیام اللیل للمروزي، ص : 66، وسندہٗ صحیحٌ)
دلیل نمبر 4
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہیں کہ ان کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مکالمہ ہوا:
"اِقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي شَہْرٍ، قُلْتُ : إِنِّي أَجِدُ قُوَّۃً، حَتّٰی قَالَ : ’فَاقْرَأْہُ فِي سَبْعٍ، وَلاَ تَزِدْ عَلٰی ذٰلِکَ‘” "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘ایک مہینے میں قرآنِ مجید مکمل کیا کرو۔’ میں نے عرض کیا کہ میں اس سے کم مدت میں کر سکتا ہوں، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘پھر سات دنوں میں مکمل کر لیا کرو، اس سے کم میں نہ کرنا۔'” (صحیح البخاري : 5054، صحیح مسلم : 1159)
دلیل نمبر 5
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
"وَلَا أَعْلَمُ نَبِيَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ کُلَّہٗ فِي لَیْلَۃٍ” "میں نہیں جانتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایک رات میں مکمل قرآنِ کریم پڑھا ہو۔” (صحیح مسلم : 139/746)
دلیل نمبر 6
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"اِقْرَئُ وا الْقُرْآنَ فِي کُلِّ سَبْعٍ” "ہر ہفتے قرآنِ کریم کی تلاوت مکمل کیا کرو۔” (فضائل القرآن للفریابي : 131، وسندہٗ صحیحٌ)
دلیل نمبر 7
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت عبدالرحمن علیہ السلام سے روایت ہے کہ:
"إِنَّ أَبَاہُ کَانَ یَخْتِمُ فِي رَمَضَانَ فِي ثَلَاثٍ، وَفِي غَیْرِ رَمَضَانَ مِنَ الْجُمُعَۃِ لِلْجُمُعَۃِ” "میرے والد رمضان المبارک میں تین دنوں میں قرآنِ کریم مکمل کیا کرتے تھے اور دوسرے دنوں میں ایک جمعہ سے اگلے جمعہ تک قرآن مکمل کیا کرتے تھے۔” (فضائل القرآن للفریابي : 132، وسندہٗ صحیحٌ)
تین دن سے کم مدت میں قرآن کی تکمیل اور اسلافِ امت کا عمل
اگرچہ احادیث نبوی میں قرآن کو تین دن سے پہلے مکمل کرنے کی ممانعت نہیں کی گئی، اسلافِ امت کے عمل سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا جواز موجود ہے۔ اسلافِ امت کے عمل کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں:
① سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ
خلیفہ راشد سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ انہوں نے وتر کی ایک رکعت میں پورا قرآن کریم تلاوت کیا۔
(شرح معاني الآثار للطحاوي : 294/1، سنن الدارقطني : 34/2، ح : 1658، وسندہٗ حسنٌ)
② سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابو جمرہ تابعی علیہ السلام
ابو جمرہ نصر بن عمران بصری علیہ السلام، جو ایک ثقہ تابعی امام ہیں، بیان کرتے ہیں:
"إِنِّي رَجُلٌ سَرِیعُ الْقِرَاء َۃِ، وَرُبَّمَا قَرَأْتُ الْقُرْآنَ فِي لَیْلَۃٍ مَّرَّۃً أَوْ مَرَّتَیْنِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : لَـأَنْ أَقْرَأَ سُورَۃً وَّاحِدَۃً أَعْجَبُ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَفْعَلَ مِثْلَ الَّذِي تَفْعَلُ، فَإِنْ کُنْتَ فَاعِلًا لَّا بُدَّ؛ فَاقْرَأْہُ قِرَاء َۃً تُسْمِعُ أُذُنَیْکَ وَیَعِیہِ قَلْبُکَ” "میں تیز قراءت کرنے والا شخص ہوں، اور کبھی ایک رات میں ایک یا دو مرتبہ قرآن مکمل کر لیتا ہوں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر میں ایک سورت پڑھوں، تو یہ مجھے آپ کے عمل سے بہتر معلوم ہوتا ہے۔ تاہم، اگر آپ ایسا کرنا چاہیں تو ایسی قراءت کریں کہ آپ کے کان سنیں اور دل اس کو سمجھ سکے۔” (السنن الکبرٰی للبیہقي : 396/2، وسندہٗ حسنٌ)
③ امام سعید بن جبیر تابعی علیہ السلام
امام سعید بن جبیر علیہ السلام کے بارے میں مروی ہے:
"إِنَّہٗ کَانَ یَخْتِمُ الْقُرْآنَ فِي کُلِّ لَیْلَتَیْنِ” "آپ علیہ السلام دو راتوں میں قرآن کریم مکمل کر لیا کرتے تھے۔” (الطبقات الکبری لابن سعد : 270/2، سنن الدارمي : 3528، حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبہاني : 273/4، وسندہٗ صحیحٌ)
④ امام قتادہ بن دعامہ تابعی علیہ السلام
سلام بن ابو مطیع علیہ السلام، امام قتادہ بن دعامہ تابعی علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں:
"إِنَّہٗ کَانَ یَخْتِمُ الْقُرْآنَ فِي کُلِّ سَبْعِ لَیَالٍ مَرَّۃً، فَإِذَا جَائَ رَمَضَانُ؛ خَتَمَ فِي کُلِّ ثَلَاثِ لَیَالٍ مَّرَّۃً، فَإِذَا جَائَ الْعَشْرُ؛ خَتَمَ فِي کُلِّ لَیْلَۃٍ مَّرَّۃً” "آپ علیہ السلام سات راتوں میں قرآن مکمل کیا کرتے تھے۔ رمضان المبارک میں تین راتوں میں قرآن کی تکمیل کرتے، اور جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو ہر رات میں مکمل کرتے تھے۔” (حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء لأبي نعیم الأصبہاني : 339/2، وسندہٗ صحیحٌ)
⑤ علقمہ بن قیس تابعی علیہ السلام
امام ابراہیم نخعی علیہ السلام، علقمہ بن قیس نخعی تابعی علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں:
"إِنَّ عَلْقَمَۃَ کَانَ یَقْرَأُ فِي خَمْسٍ، قَالَ : وَقَرَأَہٗ فِي مَکَّۃَ فِي لَیْلَۃٍ” "علقمہ علیہ السلام پانچ دنوں میں قرآن پڑھا کرتے تھے، لیکن مکہ مکرمہ میں انہوں نے ایک رات میں قرآن کی تلاوت کی۔” (فضائل القرآن للفریابي : 139، وسندہٗ صحیحٌ، فضائل القرآن لأبي عبید، ص : 182، الثقات لابن حبّان : 208/5، وسندہٗ صحیحٌ)
⑥ اسود بن یزید تابعی علیہ السلام
امام ابراہیم نخعی علیہ السلام، اسود بن یزید تابعی علیہ السلام کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
"کَانَ الْـأَسْوَدُ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ فِي شَہْرِ رَمَضَانَ فِي لَیْلَتَیْنِ، وَیَخْتِمُہٗ فِي سِوٰی رَمَضَانَ فِي سِتٍّ” "اسود بن یزید علیہ السلام رمضان میں دو راتوں میں قرآن مکمل کر لیتے تھے، اور عام دنوں میں چھ دنوں میں قرآن مکمل کرتے تھے۔” (مصنّف ابن أبي شیبۃ : 500/2، الثقات لابن حبّان : 31/4، الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 136/6، وسندہٗ صحیحٌ)
⑦ امام علی ازدی تابعی علیہ السلام
امام مجاہد بن جبر تابعی علیہ السلام بیان کرتے ہیں کہ:
"کَانَ یَخْتِمُ الْقُرْآنَ فِي رَمَضَانَ کُلَّ لَیْلَۃٍ” "آپ رمضان میں ہر رات قرآن کریم مکمل کیا کرتے تھے۔” (مصنّف ابن أبي شیبۃ : 500/2، الثقات لابن حبّان : 164/5، 165، وسندہٗ حسنٌ)
⑧ سعد بن ابراہیم تابعی علیہ السلام
امام شعبہ بن حجاج قشیری علیہ السلام بیان کرتے ہیں:
"کَانَ سَعْدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ یَخْتِمُ الْقُرْآنَ فِي کُلِّ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ” "سعد بن ابراہیم بن عبدالرحمن تابعی علیہ السلام ہر دن رات میں ایک مرتبہ قرآن کریم مکمل کیا کرتے تھے۔” (الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 364/5، تاریخ دمشق لابن عساکر : 213/20، وسندہٗ صحیحٌ)
⑨ ابو ہارون خزاز رازی علیہ السلام
امام ابن ابوحاتم رازی علیہ السلام محمد بن خالد خزاز علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں:
"کَانَ یَخْتِمُ الْقُرْآنَ فِي یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ” "آپ علیہ السلام ایک دن اور رات میں قرآن مجید مکمل کیا کرتے تھے۔” (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 245/7)
⑩ امام عبد الرحمن بن مہدی علیہ السلام
امام علی بن مدینی علیہ السلام بیان کرتے ہیں:
"کَانَ عَبْدُ الرَّحْمٰنُ بْنُ مَہْدِيٍّ یَّخْتِمُ فِي کُلِّ لَیْلَتَیْنِ، کَانَ وِرْدُہٗ فِي کُلِّ لَیْلَۃٍ نِصْفُ الْقُرْآنَ” "امام عبد الرحمن بن مہدی علیہ السلام دو راتوں میں قرآن مکمل کیا کرتے تھے اور ہر رات میں نصف قرآن پڑھتے تھے۔” (تاریخ بغداد للخطیب : 247/10، وسندہٗ صحیحٌ)
⑪ امام محمد بن احمد بن ابو عون علیہ السلام
امام ابن حبان اپنے استاد امام محمد بن احمد بن ابو عون علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں:
"وَکَانَ یَخْتِمُ الْقُرْآنَ فِي کُلِّ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ مَّرَّتَیْنِ” "آپ ہر دن اور رات میں دو مرتبہ قرآن کریم مکمل کرتے تھے۔” (صحیح ابن حبّان : 4622)
⑫ حافظ یحییٰ بن شرف نووی علیہ السلام
حافظ نووی علیہ السلام فرماتے ہیں:
"وَالِاخْتِیَارُ أَنَّ ذٰلِکَ یَخْتَلِف بِالْـأَشْخَاصِ، فَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْل الْفَہْمِ وَتَدْقِیقِ الْفِکْرِ؛ اُسْتُحِبَّ لَہٗ أَنْ یَّقْتَصِرَ عَلَی الْقَدَرِ الَّذِي لَا یَخْتَلُّ بِہِ الْمَقْصُودُ مِنَ التَّدَبُّرِ وَاسْتِخْرَاجِ الْمَعَانِي” "تکمیل قرآن کی مدت مختلف لوگوں کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہے۔ جو شخص گہری سوچ و تدبر کا اہل ہے، اس کے لیے مستحب ہے کہ ایسی مقدار میں تلاوت کرے جس سے تدبر اور معانی کا استخراج متاثر نہ ہو۔ اسی طرح جو علمی یا دینی مصروفیات میں مشغول ہے، اس کے لیے مستحب ہے کہ اس قدر تلاوت کرے جس سے اس کے دیگر امور میں خلل نہ آئے۔ جو ان مصروفیات میں نہیں، اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تلاوت کرے، مگر اکتاہٹ اور تیز رفتاری سے بچتے ہوئے۔ واللہ اعلم!” (التبیان في آداب حملۃ القرآن، ص : 61، فتح الباري شرح صحیح البخاري لابن حجر : 97/9، تفسیر ابن کثیر : 81/1، 82، بتحقیق عبدالرزاق المہدي)
⑬ علامہ عبد الرحمن مبارکپوری علیہ السلام
شارح سنن ترمذی علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری علیہ السلام فرماتے ہیں:
"وَلَوْ تَتَبَّعْتَ تَرَاجِمَ أَئِمَّۃِ الْحَدِیثِ؛ لَوَجَدْتَّ کَثِیرًا مِّنْہُمْ أَنَّہُمْ کَانُوا یَقْرَئُ ونَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ” "اگر آپ ائمہ حدیث کی سیرت کا مطالعہ کریں گے، تو آپ کو ان میں بہت سے ایسے ائمہ ملیں گے جو تین دنوں سے پہلے قرآن کی تلاوت مکمل کیا کرتے تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کبار محدثین تین دن سے پہلے قرآن کی تکمیل کو تحریمی نہیں سمجھتے تھے۔” (تحفۃ الأحوذي : 63/4)
ترتیل کی فضیلت
آدابِ تلاوت کا لحاظ رکھتے ہوئے ترتیل سے پڑھنا زیادہ پسندیدہ ہے، جیسا کہ امام ترمذی علیہ السلام فرماتے ہیں:
"وَالتَّرْتِیلُ فِي الْقِرَاء َۃِ أَحَبُّ إِلَی أَہْلِ الْعِلْمِ” "تلاوت میں ترتیل اہلِ علم کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔” (سنن الترمذي، تحت الحدیث : 2946)
یہ روایات و آراء اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ تین دن سے پہلے قرآن کی تکمیل جائز ہے، بشرطیکہ آداب اور فہم کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔