سوال :
کیا عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے بیٹوں میں سے کسی ایک کو کا استقبال کرنے اور مرحبا کہنے میں دوسروں سے خاص کرے ، جبکہ وہ سب اس عورت (اپنی ماں) سے برابر حسن سلوک کرتے ہوں ، اور ایسے ہی اپنے پوتوں میں سے کسی کو خاص کرنا کہ وہ سب اس سے یکساں حسن سلوک اور سلام کلام کرتے ہیں ؟
جواب :
باپ (اور ماں) پر لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرے اور عطیہ ، تخفہ ، ہدیہ اور دیگر عنایات کے دینے میں وہ بعض کو بعض پر فضیلت نہ دے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
اتقو الله واعدلوا بين أولادكم [صحيح البخاري ، رقم الحديث 2447 ]
”اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرو ۔“
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
أتحب أن يكونوا فى البر سواء فسو بينهم [ صحيح ۔ صحيح ابن حبان 505/11 ]
”کیا تو پسند کرتا ہے کہ وہ سب تیرے ساتھ حسن سلوک کریں ، تو تم بھی ان کے ساتھ برابری اور انصاف کرو“
اکا بر علماء کرام رحمہ اللہ تو بچوں کے درمیان بوسہ دینے ، خندہ پیشانی سے ملنے اور ان کو خش آمدید کہنے میں بھی برابری اور انصاف کو پسند کرتے تھے ، کیونکہ اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرنے کا واضح حکم ہے ۔ لیکن بعض اوقات ان میں سے بعض چیزوں میں برابری نہ کرنے میں رعایت اور گنجائش موجود ہے ، مثلاًً بلاشبہ باپ بعض اوقات چھوٹے بچے اور مریض و بیکار بچے کی بطور شفقت کے دوسروں پر فضیلت دے ۔ البتہ اس مسئلہ میں اصل میں ہے کہ تمام معاملات میں بچوں کے درمیان عدل و انصاف کیا جائے ، خاص طور پر جب وہ حسن سلوک ، صلہ رحمی اور اطاعت وغیرہ کرنے میں اس کے ساتھ برابری کے حصہ دار ہوں ۔
( عبداللہ بن عبد اللرحمن الجبرین حفظہ اللہ )