إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
ہر بیماری کا علاج ممکن
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا ﴿٨٢﴾
(17-الإسراء:82)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور ہم قرآن میں سے تھوڑا تھوڑا نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے سراسر شفا اور رحمت ہے، اور وہ ظالموں کو خسارے کے سوا کسی چیز میں زیادہ نہیں کرتا۔“
حدیث 1
عن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ما أنزل الله داء إلا أنزل له شفاء
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5678
حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا نہ اتاری ہو۔“
تین چیزوں میں شفا ہے
حدیث 2
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: الشفاء فى ثلاث: شربة عسل وشرطة محجم وكية نار وأنهى أمتي عن الكي رفع الحديث
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5680
اور حضرت ابن عباس رضي اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے مرفوعاً بیان کیا کہ آپ نے فرمایا: ”شفا تین چیزوں میں ہے: شہد پینے میں، سینگی لگوانے میں اور آگ سے داغنے میں، لیکن میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں۔“
شہد سے علاج
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٦٩﴾
(16-النحل:69)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”پھر ہر قسم کے پھلوں سے کھا، پھر اپنے رب کے راستوں پر چل جو مسخر کیے ہوئے ہیں۔ اس کے پیٹ سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے جس کے رنگ مختلف ہیں، اس میں لوگوں کے لیے ایک قسم کی شفا ہے۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً ایک نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں۔“
حدیث 3
وعن أبى سعيد رضي الله عنه: أن رجلا أتى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: أخي يشتكي بطنه فقال: اسقه عسلا ثم أتاه الثانية فقال: اسقه عسلا ثم أتاه الثانية فقال: اسقه عسلا ثم أتاه الثالثة فقال: اسقه عسلا ثم أتاه فقال: فعلت فقال: صدق الله وكذب بطن أخيك اسقه عسلا فسقاه فبرأ
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5684
اور حضرت ابو سعید خدری رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے بھائی کا پیٹ خراب ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے شہد پلاؤ۔“ پھر وہ دوبارہ آیا، آپ نے فرمایا: ”اسے شہد پلاؤ۔“ پھر وہ تیسری مرتبہ آیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے شہد پلاؤ۔“ وہ پھر آیا اور کہا کہ میں نے تو اسے شہد پلایا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ نے سچ فرمایا ہے، البتہ تیرے بھائی کا پیٹ خطا کار ہے، اسے پھر شہد پلاؤ۔“ چنانچہ اس نے شہد پلایا تو وہ تندرست ہو گیا۔
کلونجی سے علاج
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى:وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ
(6-الأنعام:17)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں۔“
حدیث 4
وعن خالد بن سعد رضى الله عنه قال: خرجنا ومعنا غالب بن أبجر رضى الله عنه فمرض فى الطريق فقدمنا المدينة وهو مريض فعاده ابن أبى عتيق رضى الله عنه فقال لنا: عليكم بهذه الحبيبة السوداء فخذوا منها خمسا أو سبعا فاسحقوها ثم اقفروها فى أنفه بقطرات زيت فى هذا الجانب وفي هذا الجانب فإن عائشة رضي الله عنها حدثتني أنها سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: إن هذه الحبة السوداء شفاء من كل داء إلا من السام قلت: وما السام؟ قال: الموت
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5687
اور حضرت خالد بن سعد رضي اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں نکلے۔ ہمارے ساتھ حضرت غالب بن ابجر رضي اللہ عنہ بھی تھے، وہ راستے میں بیمار ہو گئے۔ ہم مدینہ طیبہ پہنچے تو اس وقت بھی وہ بیمار ہی تھے۔ حضرت ابن ابی عتیق رضي اللہ عنہ ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو انہوں نے کہا کہ انہیں کلونجی استعمال کراؤ۔ اس کے پانچ یا سات دانے پیس لو، پھر زیتون کے تیل میں ملا کر چند قطرے ناک کی اس جانب اور چند قطرے ناک کی دوسری جانب ٹپکاؤ۔ میں نے حضرت عائشہ رضي اللہ عنها سے سنا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتی تھیں کہ آپ نے فرمایا: ”بلاشبہ کلونجی میں سام کے علاوہ ہر مرض کی شفا ہے۔“ میں نے پوچھا کہ سام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”موت۔“
عود ہندی سے بیماری کا علاج
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ﴿٥٧﴾
(10-يونس:57)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے عظیم نصیحت اور اس کے لیے سراسر شفا جو سینوں میں ہے اور ایمان والوں کے لیے سراسر ہدایت اور رحمت آئی ہے۔“
حدیث 5
وعن أم قيس بنت محصن رضي الله عنها قالت: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: عليكم بهذا العود الهندي فإن فيه سبعة أشفية يستعط به من العذرة ويلد به من ذات الجنب
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5692
اور حضرت ام قیس بنت محصن رضي اللہ عنها سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: ”عود ہندی استعمال کیا کرو، بلاشبہ اس میں سات بیماریوں کا علاج ہے، حلق کے درد میں اسے ناک میں ڈالا جاتا ہے، اور سینے کے درد کے لیے اسے چبایا جاتا ہے۔“
پچھنے لگوانے سے علاج
حدیث 6
وعن أنس رضي الله عنه: أنه سئل عن أجر الحجام فقال: احتجم رسول الله صلى الله عليه وسلم حجمه أبو طيبة رضى الله عنه وأعطاه صاعين من طعام وكلم مواليه فخففوا عنه وقال: إن أمثل ما تداويتم به الحجامة والقسط البحري وقال: لا تعذبوا صبيانكم بالغمز من العذرة وعليكم بالقسط
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5696
اور حضرت انس رضي اللہ عنہ سے روایت ہے، ان سے سینگی لگوانے والے کی مزدوری کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگوائی تھی۔ آپ کو ابو طیبہ رضي اللہ عنہ نے سینگی لگائی تھی اور آپ نے اسے دو صاع غلہ دیا تھا، نیز آپ نے ابو طیبہ کے آقاؤں سے اس کے بارے میں گفتگو کی تو انہوں نے اس میں تخفیف کر دی تھی۔ آپ نے فرمایا: ”بہترین علاج جو تم کرتے ہو وہ پچھنے لگوانا اور قسط بحری استعمال کرنا ہے۔“ آپ نے مزید فرمایا: ”تم اپنے بچوں کو حلق کی بیماری کی وجہ سے ان کا تالو دبا کر تکلیف نہ دیا کرو بلکہ قسط استعمال کیا کرو۔“
حجامہ کے ذریعے آدھے سر کے درد کا علاج
حدیث 7
وعن ابن عباس رضي اللہ عنہما: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم احتجم وهو محرم في رأسه من شقيقة كانت به
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5701
اور حضرت ابن عباس رضي اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام کی حالت میں آدھے سر کا درد ہوا تھا لہذا آپ نے سینگی لگوائی۔
کھمبی کے پانی سے آنکھوں کا علاج
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى:وَأَنزَلْنَا عَلَيْهِمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ۖ كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ
(7-الأعراف:160)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور ہم نے ان پر من اور سلویٰ نازل کیا اور کہا: جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں دی ہیں، ان میں سے کھاؤ۔“
حدیث 8
وعن سعيد بن زيد رضى الله عنه قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: الكمأة من المن وماؤها شفاء للعين
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5708
اور حضرت سعید بن زید رضي اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”کھمبی من سے ہے، اور اس کا پانی آنکھوں کے لیے شفا ہے۔“
پانی کے ذریعہ علاج
حدیث 9
وعن عائشة رضي الله عنها زوج النبى صلى الله عليه وسلم قالت: لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم واشتد وجعه استأذن أزواجه فى أن يمرض فى بيتي فأذن له فخرج بين رجلين تخط رجلاه فى الأرض بين عباس رضى الله عنه وآخر فأخبرت ابن عباس رضي الله عنهما فقال: هل تدري من الرجل الآخر الذى لم تسم عائشة قلت: لا فقال: هو على رضى الله عنه قالت عائشة رضي الله عنها: فقال النبى صلى الله عليه وسلم بعد ما دخل بينها واشتد به وجعه: هريقوا على من سبع قرب لم تحلل أوكيتها لعلي أعهد إلى الناس قالت: فأجلسناه فى مخضب لحفصة رضي الله عنها زوج النبى ثم طفقنا نصب عليه من تلك القرب حتى جعل يشير إلينا أن قد فعلتن قالت: وخرج إلى الناس فصلى لهم وخطبهم
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5714
اور ام المومنین حضرت عائشہ رضي اللہ عنها نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور تکلیف زیادہ ہو گئی تو آپ نے بیماری کے دن میرے گھر گزارنے کے لیے اپنی دوسری ازواج مطہرات سے اجازت طلب کی۔ انہوں نے آپ کو اجازت دے دی تو آپ دو اشخاص حضرت عباس رضي اللہ عنہ اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان سہارا لے کر باہر تشریف لائے۔ اس وقت آپ کے قدم مبارک زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ میں نے حضرت ابن عباس رضي اللہ عنہما سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ دوسرے صاحب کون تھے جن کا حضرت عائشہ رضي اللہ عنها نے نام نہیں لیا؟ میں نے کہا کہ نہیں، مجھے تو معلوم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ حضرت علی رضي اللہ عنہ تھے۔ حضرت عائشہ رضي اللہ عنها نے کہا کہ میرے حجرے میں داخل ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب آپ کی بیماری بڑھ گئی تھی: ”مجھ پر سات مشکیزوں سے پانی ڈالو جو پانی سے لبریز ہوں، شاید میں لوگوں کو کچھ نصیحت کروں۔“ پھر ہم نے آپ کو ایک بڑے لگن میں بٹھایا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت حفصہ رضي اللہ عنها کا تھا۔ پھر ہم نے ان مشکیزوں سے آپ پر پانی بہانا شروع کر دیا حتیٰ کہ آپ نے ہماری طرف اشارہ کیا کہ تم نے تعمیل حکم کر دی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضي اللہ عنها نے بیان کیا کہ اس کے بعد آپ صحابہ کرام کے پاس تشریف لے گئے، انہیں نماز پڑھائی، پھر خطاب کیا۔
طاعون کی وبا کا حل
حدیث 10
وعن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما: أن عمر بن الخطاب رضى الله عنه خرج إلى الشام حتى إذا كان بسرغ لقيه أمراء الأجناد أبو عبيدة بن الجراح رضى الله عنه وأصحابه فأخبروه أن الوباء قد وقع بأرض الشام قال ابن عباس رضي الله عنهما: فقال عمر رضي الله عنه: ادع لي المهاجرين الأولين فدعاهم فاستشارهم وأخبروه أن الوباء قد وقع بالشام فاختلفوا فقال بعضهم: قد خرجنا لأمر ولا نرى أن ترجع عنه وقال بعضهم: معك بقية الناس وأصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا نرى أن تقدمهم على هذا الوباء فقال: ارتفعوا عني ثم قال: ادعوا لي الأنصار فدعوتهم فاستشارهم فسلكوا سبيل المهاجرين واختلفوا كاختلافهم فقال: ارتفعوا عني ثم قال: ادع لي من كان هاهنا من مشيخة قريش من مهاجرة الفتح فدعوتهم فلم يختلف منهم عليه رجلان فقالوا: نرى أن ترجع بالناس ولا تقدمهم على هذا الوباء فنادى عمر رضى الله عنه فى الناس: إني مصبح على ظهر فأصبحوا عليه قال أبو عبيدة بن الجراح رضي الله عنه: أفرارا من قدر الله فقال عمر رضي الله عنه: لو غيرك قاله يا أبا عبيدة نعم نفر من قدر الله إلى قدر الله أرأيت لو كان لك إبل هبطت واديا له عدواتان إحداهما خصبة والأخرى جدبة أليس إن رعيت الخصبة رعيتها بقدر الله وإن رعيت الجدبة رعيتها بقدر الله قال: فجاء عبد الرحمن بن عوف رضى الله عنه وكان متغيبا فى بعض حاجته فقال: إن عندي فى هذا علما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إذا سمعتم به بأرض فلا تقدموا عليه وإذا وقع بأرض وأنتم بها فلا تخرجوا فرارا منه قال: فحمد الله عمر رضى الله عنه ثم انصرف
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5729
اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضي اللہ عنہ شام تشریف لے جا رہے تھے جب آپ مقام سرغ پر پہنچے تو آپ کی ملاقات فوجوں کے امراء حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضي اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں سے ہوئی۔ ان لوگوں نے امیر المومنین کو بتایا کہ طاعون کی وبا شام میں پھوٹ پڑی ہے۔ حضرت ابن عباس رضي اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس پر حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے کہا کہ میرے پاس مہاجرین اولین کو بلا لاؤ۔ انہیں بلا لایا گیا تو حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے ان سے مشورہ کیا اور انہیں بتایا کہ شام میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے۔ مہاجرین کی رائیں مختلف ہو گئیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ ہم ایک کام کے لیے نکلے ہیں اور واپس نہیں لوٹنا چاہیے۔ اور بعض نے کہا کہ آپ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور باقی لوگ ہیں، انہیں اس وبا میں نہیں لے جانا چاہیے۔ حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے فرمایا کہ اچھا، اب آپ لوگ تشریف لے جائیں۔ پھر فرمایا کہ انصار کو بلاؤ۔ انصار کو بلا کر لایا گیا، آپ نے ان سے بھی مشورہ کیا اور انہوں نے بھی مہاجرین کی طرح اختلاف کیا۔ حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب آپ لوگ بھی تشریف لے جائیں۔ پھر فرمایا کہ یہاں پر جو قریش کے بڑے بوڑھے ہیں جو فتح مکہ کے وقت ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے، انہیں بلا لاؤ۔ انہیں بلا کر لایا گیا۔ ان میں سے دو آدمیوں نے بھی اختلاف نہ کیا اور کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو ساتھ لے کر واپس لوٹ جائیں اور وبائی ملک میں نہ لے جائیں۔ یہ سنتے ہی حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کرا دیا کہ میں صبح کو اونٹ پر سوار ہو کر واپس مدینہ منورہ لوٹ جاؤں گا، تم لوگ بھی واپس چلو۔ صبح کو ایسا ہی ہوا، حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضي اللہ عنہ نے کہا کہ کیا اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کیا جائے گا؟ حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے کہا کہ کاش یہ بات کسی اور نے کہی ہوتی، ہاں! ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ ہی کی تقدیر کی طرف فرار اختیار کر رہے ہیں۔ کیا تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم انہیں لے کر کسی ایسی وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں، ایک سرسبز و شاداب اور دوسرا خشک۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ اگر تم سرسبز کنارے پر چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہی ہو گا، اور خشک کنارے پر چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہی ہو گا؟ پھر حضرت عبد الرحمن بن عوف رضي اللہ عنہ آ گئے جو اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس وقت موجود نہیں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے پاس اس مسئلے سے متعلق علم ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: ”جب تم کسی سرزمین میں وبا کے متعلق سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب ایسی جگہ وبا آ جائے جہاں تم خود موجود ہو تو وہاں سے فرار نہ کرو۔“ راوی نے بیان کیا کہ اس پر حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور پھر واپس ہو گئے۔
طاعون کی بیماری سے مرنے والے کی فضیلت
حدیث 11
وعن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: المبطون شهيد والمطعون شهيد
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5733
اور حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”پیٹ کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے، اور طاعون کی بیماری سے مرنے والا بھی شہید ہے۔“
سورہ الفاتحہ سے دم کرنا
حدیث 12
وعن أبى سعيد الخدري رضي الله عنه: أن ناسا من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم أتوا على حي من أحياء العرب فلم يقروهم فبينما هم كذلك إذ لدغ سيد أولئك فقالوا: هل معكم من دواء أو راق؟ فقالوا: إنكم لم تقرونا ولا نفعل حتى تجعلوا لنا جعلا فجعلوا لهم قطيعا من الشاء فجعل يقرأ بأم القرآن ويجمع بزاقه ويتفل فبرأ فأتوا بالشاء فقالوا: لا نأخذه حتى نسأل النبى صلى الله عليه وسلم فسألوه فضحك وقال: وما أدراك أنها رقية خذوها واضربوا لي بسهم
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5736
اور حضرت ابو سعید خدری رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ کرام عرب کے قبائل میں سے کسی قبیلے کے پاس سے گزرے تو انہوں نے ان کی ضیافت نہ کی۔ اس دوران اس قبیلے کے سردار کو کسی زہریلے جانور نے کاٹ لیا۔ قبیلے والوں نے صحابہ کرام سے کہا کہ تمہارے پاس اس کی کوئی دوا یا دم کرنے والا ہے؟ صحابہ کرام نے کہا کہ تم لوگوں نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی، لہذا ہم اس وقت تک دم نہیں کریں گے جب تک تم ہماری مزدوری طے نہ کرو۔ چنانچہ انہوں نے کچھ بکریاں دینا طے کر دیں۔ پھر ان میں سے ایک شخص نے سورہ فاتحہ پڑھنا شروع کر دی، دم کرتے وقت منہ میں تھوک جمع کرتا رہا اور متاثرہ جگہ پر لگاتا رہا، ایسا کرنے سے وہ سردار تندرست ہو گیا۔ قبیلے والے بکریاں لے کر آئے تو صحابہ کرام نے کہا کہ جب تک ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھ نہ لیں ہم یہ بکریاں نہیں لے سکتے۔ چنانچہ انہوں نے آپ سے پوچھا تو آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا: ”تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورہ فاتحہ سے بھی دم کیا جا سکتا ہے؟ بکریاں لے لو اور ان میں میرا بھی حصہ رکھو۔“
فائدہ
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾
(1-الفاتحة)
”سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔ بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔ بدلے کے دن کا مالک ہے۔ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں۔“
نظر بد کا دم
حدیث 13
وعن أم سلمة رضي الله عنها: أن النبى صلى الله عليه وسلم رأى فى بيتها جارية فى وجهها سفعة فقال: استرقوا لها فإن بها النظرة
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5739
اور حضرت ام سلمہ رضي اللہ عنها سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں ایک لڑکی دیکھی جس کے چہرے پر سیاہ دھبے تھے تو آپ نے فرمایا: ”اسے دم کراؤ کیونکہ اسے نظر بد لگ گئی ہے۔“
نظر بد برحق ہے
حدیث 14
وعن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: العين حق ونهى عن الوشم
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5740
اور حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”نظر لگ جانا برحق ہے۔“ اور آپ نے جسم میں سرمہ بھرنے سے بھی منع فرمایا۔
حدیث 15
وعن أبى أمامة بن سهل بن حنيف رضى الله عنه قال: رأى عامر بن ربيعة رضى الله عنه سهل بن حنيف رضى الله عنه يغتسل فقال: والله ما رأيت كاليوم ولا جلد مخباة قال: فلبط سهل فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال له: يا رسول الله هل لك فى سهل بن حنيف والله ما يرفع رأسه فقال: هل تتهمون له أحدا فقالوا: نتهم عامر بن ربيعة قال: فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عامرا فتغلظ عليه وقال: علام يقتل أحدكم أخاه ألا بركت اغتسل له فغسل له عامر وجهه ويديه ومرفقيه وركبتيه وأطراف رجليه وداخلة إزاره فى قدح ثم صب عليه فراح مع الناس ليس به بأس
شرح السنة : 164/12، رقم : 3245 ، مؤطا امام مالك : 939/2 ، ح : 1811، سنن ابن ماجه ، باب العين ، رقم : 3509۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت ابو امامہ بن سهل بن حنیف رضي اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عامر بن ربیعہ رضي اللہ عنہ نے حضرت سهل بن حنیف رضي اللہ عنہ کو غسل کرتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نے جس قدر سفید و ملائم جلد آج دیکھی ہے ایسی کبھی نہیں دیکھی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اسی بات پر حضرت سهل رضي اللہ عنہ بےہوش ہو کر گر گئے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور آپ سے عرض کیا گیا کہ اللہ کے رسول! کیا آپ کو حضرت سهل بن حنیف رضي اللہ عنہ کے بارے میں کچھ خبر ہے؟ اللہ کی قسم! وہ تو اپنا سر بھی نہیں اٹھاتے۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم اس کے متعلق کسی کے بارے میں گمان کرتے ہو؟“ انہوں نے عرض کیا کہ ہم حضرت عامر بن ربیعہ رضي اللہ عنہ کے بارے میں گمان کرتے ہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عامر رضي اللہ عنہ کو بلایا اور اس سے سخت لہجے میں بات کی اور فرمایا: ”تم اپنے بھائی کو قتل کرتے ہو، تم نے اس کے لیے برکت کی دعا کیوں نہ کی، اس کے لیے غسل کرو۔“ حضرت عامر رضي اللہ عنہ نے اس کے لیے ایک برتن میں اپنا چہرہ، اپنے ہاتھ، اپنی کہنیاں، اپنے گھٹنے، پاؤں کے اطراف اور ازار کے ساتھ کے اعضاء دھوئے، پھر وہ پانی اس پر ڈالا گیا تو وہ اٹھ کر لوگوں کے ساتھ چل پڑا اور اسے کوئی تکلیف نہیں تھی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دم
حدیث 16
وعن عبد العزيز قال: دخلت أنا وثابت على أنس بن مالك رضى الله عنه فقال ثابت: يا أبا حمزة اشتكيت فقال أنس رضي الله عنه: ألا أرقيك برقية رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: بلى قال: اللهم رب الناس مذهب الباس اشف أنت الشافي لا شافي إلا أنت شفاء لا يغادر سقما
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5742
اور حضرت عبد العزيز سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں اور حضرت ثابت حضرت انس بن مالک رضي اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ثابت نے کہا کہ اے ابو حمزہ! میری طبیعت ناساز ہے۔ حضرت انس رضي اللہ عنہ نے فرمایا: ”کیا میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دم نہ کروں؟“ ثابت نے عرض کیا کہ کیوں نہیں۔ حضرت انس رضي اللہ عنہ نے یہ دعا پڑھ کر دم کیا: ”اے اللہ، لوگوں کے رب! اے تکلیف دور کرنے والے! تو شفا عطا فرما۔ بے شک تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے سوا اور کوئی شفا دینے والا نہیں۔ تو ایسی شفا عطا فرما کہ بیماری بالکل نہ رہے۔“
اہل خانہ کو دم کرنا
حدیث 17
وعن عائشة رضي الله عنها أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يعوذ بعض أهله يمسح بيده اليمنى ويقول: اللهم رب الناس أذهب الباس اشفه وأنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما قال سفيان: حدثت به منصورا فحدثني عن إبراهيم عن مسروق عن عائشة رضي الله عنها نحوه
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5743
اور حضرت عائشہ رضي اللہ عنها سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعض اہل خانہ کو یہ دعا پڑھ کر دم کرتے اور اس پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے تھے: ”اے اللہ، لوگوں کے رب! تکلیف دور کر دے۔ اسے شفا عطا فرما اور تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں۔ تو ایسی شفا دے کہ کسی قسم کی بیماری باقی نہ رہے۔“ سفیان نے کہا کہ میں نے یہ حدیث منصور کے سامنے پیش کی، انہوں نے اسے ابراہیم نخعی سے بیان کیا، انہوں نے مسروق سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضي اللہ عنها سے اسی طرح بیان کیا۔
شفا اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ ﴿٨٠﴾
(26-الشعراء:80)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور جب بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔“
حدیث 18
وعن عائشة رضي الله عنها: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرقي يقول: امسح الباس رب الناس بيدك الشفاء لا كاشف له إلا أنت
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5744
اور حضرت عائشہ رضي اللہ عنها سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھ کر دم کرتے تھے: ”اے لوگوں کے رب! تکلیف کو دور کر دے۔ تیرے ہاتھ ہی میں شفا ہے۔ تیرے سوا کوئی بھی تکلیف دور کرنے والا نہیں۔“
معوذتین سے دم کرنا اور پھونک مارنا
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى:قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ﴿١﴾ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ﴿٢﴾ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ﴿٣﴾ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ﴿٤﴾ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ﴿٥﴾
(113-الفلق)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”آپ کہہ دیجیے کہ میں مخلوق کے رب کی پناہ مانگتا ہوں۔ اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی۔ اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھا جائے۔ اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے۔ اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔“
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ﴿١﴾ مَلِكِ النَّاسِ ﴿٢﴾ إِلَٰهِ النَّاسِ ﴿٣﴾ مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ﴿٤﴾ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ﴿٥﴾ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ﴿٦﴾
(114-الناس)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”آپ کہہ دیجیے کہ میں لوگوں کے رب کی پناہ مانگتا ہوں۔ لوگوں کے بادشاہ کی۔ لوگوں کے معبود کی۔ وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے، جو ہٹ ہٹ کر آنے والا ہے۔ وہ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے۔“
حدیث 19
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أوى إلى فراشه نفث فى كفيه بقل هو الله أحد وبالمعوذتين جميعا ثم يمسح بهما وجهه وما بلغت يداه من جسده قالت عائشة رضي الله عنها: فلما اشتكى كان يأمرني أن أفعل ذلك به
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5748
اور حضرت عائشہ رضي اللہ عنها سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں پر ”قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ“ اور معوذتین پڑھ کر پھونکتے، پھر دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرے اور جسم کے جس حصے تک ہاتھ جاتا وہاں تک پھیرتے۔ حضرت عائشہ رضي اللہ عنها نے فرمایا کہ جب آپ بیمار ہوئے تو مجھے اس طرح کرنے کا حکم دیا۔
شرک اور جادو انتہائی ہلاکت خیز ہیں
حدیث 20
وعن أبي هريرة رضي اللہ عنہ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اجتنبوا الموبقات الشرك بالله والسحر
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5767
اور حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تباہ کر دینے والی چیزوں سے اجتناب کرو: اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور جادو کرنا۔“
جادو برحق ہے
حدیث 21
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: سحر رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إنه ليخيل إليه أنه يفعل الشيء وما فعله حتى إذا كان ذات يوم وهو عندي دعا الله ودعاه ثم قال: أشعرت يا عائشة أن الله قد أفتاني فيما استفتيته فيه؟ قلت: وما ذاك يا رسول الله؟ قال: جاءني رجلان فجلس أحدهما عند رأسي والآخر عند رجلي ثم قال أحدهما لصاحبه: ما وجع الرجل؟ قال: مطبوب قال: ومن طبه؟ قال: لبيد بن الأعصم اليهودي من بني زريق قال: فيما ذا؟ قال: فى مشط ومشاطة وجف طلعة ذكر قال: فأين هو؟ قال: فى بئر ذي أروان قال: فذهب النبى صلى الله عليه وسلم فى أناس من أصحابه إلى البئر فنظر إليها وعليها نخل ثم رجع إلى عائشة رضي الله عنها فقال: والله لكأن ماءها نقاعة الحناء ولكأن نخلها رؤوس الشياطين قلت: يا رسول الله أفأخرجته؟ قال: لا أما أنا فقد عافاني الله وشفاني وخشيت أن أثور على الناس منه شرا وأمر بها فدفنت
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5766
اور حضرت عائشہ رضي اللہ عنها سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ آپ اپنے خیال کے مطابق ایک کام کر چکے ہوتے لیکن وہ نہیں کیا ہوتا تھا۔ آخر کار ایک دن آپ میرے پاس تشریف فرما تھے تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، پھر دعا مانگی، اس کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا: ”اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے جو بات پوچھی تھی، اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے مجھے دے دیا ہے؟“ میں نے عرض کی کہ اللہ کے رسول! وہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا: ”میرے پاس دو آدمی آئے، ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ پھر ایک نے دوسرے ساتھی سے کہا کہ اس صاحب کو کیا تکلیف ہے؟ دوسرے نے کہا کہ اس پر جادو کیا گیا ہے۔ اس نے کہا کہ کس نے جادو کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ لبید بن اعصم یہودی نے جو قبیلہ بنو زریق سے تعلق رکھتا ہے۔ پہلے نے کہا کہ کس چیز میں جادو کیا ہے؟ دوسرے نے کہا کہ کنگھی اور اس سے جھرنے والے بالوں میں جو نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں رکھا ہوا ہے۔ اس نے پوچھا کہ وہ کہاں رکھا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ذی اروان نامی کنویں میں رکھا ہے۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ کو ساتھ لے کر اس کنویں پر تشریف لے گئے، اسے دیکھا کہ وہاں کھجور کے درخت تھے، پھر آپ حضرت عائشہ رضي اللہ عنها کے پاس واپس تشریف لائے اور فرمایا: ”اللہ کی قسم! اس کنویں کا پانی مہندی کے نچوڑ جیسا سرخ ہے اور وہاں کی کھجور میں گویا شیطانوں کے سر ہیں۔“ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! کیا آپ نے اسے نکالا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، بہرحال اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دے دی ہے، اب مجھے اندیشہ ہے کہ مبادا لوگوں میں کوئی شر پیدا ہو۔“ پھر آپ نے اسے دفن کر دینے کا حکم دیا۔
تقاریر کا جادو اثر ہونا
حدیث 22
وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما أنه قدم رجلان من المشرق فخطبا فعجب الناس لبيانهما فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن من البيان لسحرا أو إن بعض البيان لسحر
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5767
اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنہما سے روایت ہے کہ دو آدمی مشرق کی طرف سے آئے اور انہوں نے لوگوں کو خطاب کیا جس سے لوگ بہت متاثر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ بعض تقریریں جادو اثر ہوتی ہیں۔“
عجوہ کھجور سے جادو کا علاج
حدیث 23
وعن سعد بن وقاص رضى الله عنه قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم: من اصطبح كل يوم تمرات عجوة لم يضره سم ولا سحر ذلك اليوم إلى الليل وقال غيره: سبع تمرات
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5768
اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضي اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص صبح کے وقت عجوہ کھجور کھائے اس کو رات تک زہر اور جادو سے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔“ علی بن مدینی کے علاوہ دوسرے راوی نے بیان کیا کہ جو شخص سات کھجوریں کھائے۔
نیک فال پسندیدہ عمل
حدیث 24
وعن أنس بن مالك رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: لا عدوى ولا طيرة ويعجبني الفأل قالوا: وما الفأل؟ قال: كلمة طيبة
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5776
اور حضرت انس بن مالک رضي اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”چھوت لگنا کوئی چیز نہیں، اور بدشگونی کی بھی کوئی حیثیت نہیں، البتہ نیک فال مجھے پسند ہے۔“ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ نیک فال کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”کسی سے اچھی بات کہنا یا سننا۔“
مکھی گر جائے تو؟
حدیث 25
وعن أبى هريرة رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا وقع الذباب فى إناء أحدكم فليغمسه كله ثم ليطرحه فإن فى أحد جناحيه شفاء وفي الآخر داء
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5782
اور حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم میں سے کسی کے برتن میں مکھی گر جائے تو وہ پوری مکھی کو اس میں ڈبودے، پھر اسے نکال کر پھینک دے کیونکہ اس کے ایک پر میں شفا ہے اور دوسرے میں بیماری ہے۔“
بیماری میں دوائی استعمال کرنا
حدیث 26
وعن جابر رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لكل داء دواء فإذا أصيب دواء الداء برأ بإذن الله
صحیح مسلم، کتاب السلام، رقم: 5741
اور حضرت جابر رضي اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بیماری کے لیے دوائی ہے، جب دوائی بیماری کے موافق ہو جاتی ہے تو مریض اللہ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے۔“
بچھو کے ڈسنے پر دم کرنا
حدیث 27
وعن جابر رضى الله عنه قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرقى فجاء آل عمرو بن حزم فقالوا: يا رسول الله إنه كانت عندنا رقية نرقي بها من العقرب وأنت نهيت عن الرقى فعرضوها عليه فقال: ما أرى بها بأسا من استطاع منكم أن ينفع أخاه فلينفعه
صحیح مسلم، کتاب السلام، رقم: 5731
اور حضرت جابر رضي اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دم سے منع فرما دیا تو آل عمرو بن حزم آئے اور انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہمارے پاس دم تھا جو ہم بچھو کے ڈسنے پر کیا کرتے تھے اور آپ نے اس سے منع فرما دیا ہے۔ انہوں نے وہ دم آپ کو سنایا تو آپ نے فرمایا: ”میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا، تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے تو وہ اسے فائدہ پہنچائے۔“
شرکیہ دم سے اجتناب کرنا
حدیث 28
وعن عوف بن مالك الأشجعي رضى الله عنه قال: كنا نرقي فى الجاهلية فقلنا: يا رسول الله كيف ترى فى ذلك؟ فقال: اعرضوا على رقاكم لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك
صحیح مسلم، کتاب السلام، رقم: 5732
اور حضرت عوف بن مالک اشجعی رضي اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم دور جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے، ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”اپنے دم مجھے سناؤ، ایسا دم جس میں شرک نہ ہو اس میں کوئی حرج نہیں۔“
حرام چیز سے علاج کرنے کی ممانعت
حدیث 29
وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الدواء الخبيث
سنن ابو داؤد، کتاب الطب، رقم: 3870
اور حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام چیز کو بطور دوا استعمال کرنے سے منع فرمایا۔
پاگل پن کا علاج
حدیث 30
وعن خارجة بن الصلت التميمي عن عمه قال: أقبلنا من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتينا على حي من العرب فقالوا: إنا أنبئنا أنكم قد جئتم من عند هذا الرجل بخير فهل عندكم من دواء أو رقية فإن عندنا معتوها فى القيود قال: فقلنا: نعم قال: فجاءوا بمعتووه فى القيود قال: فقرأت عليه فاتحة الكتاب ثلاثة أيام غدوة وعشية كلما ختمتها أجمع بزاقي ثم أنفل فكأنما نشط من عقال قال: فأعطوني جعلا فقلت: لا حتى أسأل النبى صلى الله عليه وسلم فقال: كل فلعمري من أكل برقية باطل لقد أكلت برقية حق
مسند احمد، جلد 2، صفحہ 305
اور خارجہ بن صلت تمیمی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے لوٹ کر آئے اور ایک عرب خاندان کے پاس گئے۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تم اس شخص کے پاس سے ہو کر آئے ہو جس کے پاس بھلائی ہے۔ کیا تمہارے پاس کوئی دوائی یا دم ہے؟ ہمارے پاس زنجیروں میں باندھا ہوا ایک دیوانہ شخص ہے۔ ہم نے کہا کہ ہاں! تو انہوں نے زنجیروں میں باندھا ہوا دیوانہ شخص حاضر کیا۔ تو تین دن تک میں نے صبح و شام اس پر سورہ فاتحہ پڑھ کر پھونکی۔ میرے منہ میں جو تھوک جمع ہوتا وہ میں اس پر تھوک دیتا تھا، تو وہ گویا ایسے ہو گیا جیسے رسیوں سے باندھا ہوا شخص آزاد کر دیا گیا ہو۔ ان لوگوں نے مجھے اجرت دی تو میں نے کہا کہ نہیں، یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوں۔ پس آپ نے فرمایا: ”قسم ہے میری عمر کی! لوگ باطل دم کے ذریعے سے کھاتے ہیں، اور تو نے حق دم کے ساتھ کھایا ہے۔“
سیدہ فاطمہ رضي اللہ عنها کا طریقہ علاج
حدیث 31
وعن سهل بن سعد رضى الله عنه يسأل عن جرح رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم أحد فقال: جرح وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم وكسرت رباعيته وهشمت البيضة على رأسه فكانت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم تغسل الدم وكان على بن أبى طالب رضى الله عنه يسكب عليها بالمجن فلما رأت فاطمة رضي الله عنها أن الماء لا يزيد الدم إلا كثرة أخذت قطعة حصير فأحرقتها حتى صارت رمادا ثم ألصقتها بالجرح فاستمسك الدم
صحیح بخاری، کتاب الجهاد، رقم: 5248
اور حضرت سہل بن سعد رضي اللہ عنہ سے احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ زخمی ہو گیا، آپ کے سامنے کے دانت بھی شہید ہو گئے، اور آپ کے سر پر جو لوہے کی خود تھی وہ بھی ٹوٹ کر سر میں پیوست ہو گئی۔ پس سیدہ فاطمہ رضي اللہ عنها آپ کا خون دھوتی تھیں، اور حضرت علی رضي اللہ عنہ ڈھال میں پانی لا کر ڈالتے تھے۔ جب حضرت فاطمہ رضي اللہ عنها نے دیکھا کہ پانی ڈالنے سے خون بہنے میں اضافہ ہی ہو رہا ہے تو انہوں نے چٹائی کا ٹکڑا جلا کر راکھ تیار کی اور زخم پر لگائی تو خون رک گیا۔
کھانے میں پرہیز کرنے سے علاج
حدیث 32
وعن أم المنذر بنت قيس الأنصارية رضي الله عنها قالت: دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه على رضى الله عنه وعلي ناقه ولنا دوالي معلقة فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم يأكل منها وقام على رضى الله عنه ليأكل فطفق رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لعلي: مه إنك ناقه حتى كف على رضى الله عنه قالت: وصنعت شعيرا وسلقا فجئت به فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا على أصب من هذا فهو أنفع لك
سنن ابو داؤد، کتاب الطب، رقم: 3856
اور سیدہ ام منذر بنت قیس انصاریہ رضي اللہ عنها کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور آپ کے ساتھ حضرت علی رضي اللہ عنہ بھی تھے۔ حضرت علی رضي اللہ عنہ بیماری سے اٹھے تھے اور کمزور تھے۔ ہمارے گھر میں کھجور کے گچھے لٹک رہے تھے۔ پس آپ اٹھے اور ان میں سے کھانے لگے۔ حضرت علی رضي اللہ عنہ بھی کھانے کو اٹھے تو آپ ان سے فرمانے لگے: ”بھر جا، تو بیماری سے اٹھا ہے۔“ یہاں تک کہ حضرت علی رضي اللہ عنہ رک گئے۔ میں نے جو اور چقندر ملا کر تیار کیا اور کھانے کے لیے پیش کیا تو آپ نے حضرت علی رضي اللہ عنہ سے فرمایا: ”اس سے کھاؤ، یہ تیرے لیے مفید ہے۔“
بڑھاپا لا علاج بیماری
حدیث 33
وعن أسامة بن شريك رضى الله عنه رفعه: تداووا فإن الله عز وجل لم يضع داء إلا وضع له دواء غير داء واحد: الهرم
سنن ابو داؤد، کتاب الطب، رقم: 3855
اور حضرت اسامہ بن شریک رضي اللہ عنہ سے مرفوع روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ”تم دوائی کرو، اللہ نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر اس کی دوا بھی اتاری ہے، سوائے ایک بیماری کے اور وہ بڑھاپا ہے۔“
کاہن کے پاس جانے کی مذمت
حدیث 34
وعن حفصة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أتى عرافا فسأله عن شيء لم تقبل له صلاة أربعين ليلة
صحیح مسلم، کتاب السلام، رقم: 5821
اور حضرت حفصہ رضي اللہ عنها بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی کاہن کے پاس جا کر اس سے کسی گم شدہ چیز کے بارے میں دریافت کرے تو اس شخص کی چالیس روز تک نماز قبول نہیں ہوتی۔“
نجومی کے پاس جانے کی مذمت
حدیث 35
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من اقتبس علما من النجوم اقتبس شعبة من السحر زاد ما زاد
سنن ابو داؤد، كتاب الطب، رقم: 3905
اور حضرت ابن عباس رضي اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے علم نجوم حاصل کیا تو اس نے جادو کا ایک حصہ حاصل کیا، وہ جتنا بڑھتا گیا اسی قدر وہ بڑھتا گیا۔“
سر کی تکلیف کا علاج
حدیث 36
وعن سلمى خادم رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت: ما كان أحد يشتكي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وجعا فى رأسه إلا قال: احتجم ولا وجعا فى رجليه إلا قال: اخضبهما
سنن ابو داؤد، کتاب الطب، رقم: 3858
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خادمہ سلمى کہتی ہیں کہ جو کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سر کی تکلیف کی شکایت کرتا تو آپ یہی فرماتے کہ ”سینگی لگواؤ“ اور جو شخص دونوں پاؤں میں تکلیف کی شکایت کرتا تو آپ یہی فرماتے کہ ”ان دونوں کو مہندی سے رنگیں کرو۔“
شراب ایک بیماری
حدیث 37
وعن طارق بن سويد الجعفي سأل النبى صلى الله عليه وسلم عن الخمر فناه أو كره أن يصنعها فقال: إنما أصنعها للدواء فقال: إنه ليس بدواء ولكنه داء
صحیح مسلم، کتاب الأشربة، رقم: 5141
اور حضرت طارق بن سوید جعفی سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کے بارے میں پوچھا تو آپ نے اس سے منع کر دیا یا ناپسند کیا۔ سائل نے کہا کہ میں دوا کے لیے تیار کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ دوائی نہیں بلکہ بیماری ہے۔“
تعویذات لٹکانے کی مذمت
حدیث 38
وعن عيسى بن عبد الرحمن أبى ليلى قال: دخلت على عبد الله بن عكيم أبى معبد الجهني أعوده وبه حمرة فقلنا: ألا تعلق شيئا قال: أعوذ بالله من ذلك قال النبى صلى الله عليه وسلم: من تعلق شيئا وكل إليه
مسند احمد، رقم: 2707
اور عیسیٰ بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ میں عبد اللہ بن عکیم بن معبد جہنی کے پاس ان کی عیادت کے لیے آیا۔ انہیں خسرہ نما کوئی بیماری تھی۔ میں نے کہا کہ آپ تعویذ نہیں باندھ لیتے؟ انہوں نے کہا کہ میں اللہ سے اس کی پناہ مانگتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی چیز لٹکائے گا وہ اس کے سپرد کیا جائے گا۔“
جبریل علیہ السلام کا دم
حدیث 39
وعن أبى سعيد رضى الله عنه أن جبريل أتى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: يا محمد اشتكيت؟ قال: نعم قال: باسم الله أرقيك من كل شيء يؤذيك من شر كل نفس وعين حاسدة باسم الله أرقيك والله يشفيك
سنن ترمذی، ابواب الطب، رقم: 2072
اور حضرت ابو سعید رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ یا محمد! آپ بیمار ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، میں بیمار ہوں۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: ”میں اللہ کے نام سے دم کرتا ہوں ہر بیماری سے جو آپ کو ایذا پہنچائے اور ہر نفس اور ہر حاسد آنکھ کے شر سے بچائے، میں آپ کو اللہ کے نام سے دم کرتا ہوں اور اللہ ہی آپ کو شفا دے گا۔“
پرندوں سے فال لینے کی مذمت
حدیث 40
وعن معاوية بن الحكم قال: قلت: يا رسول الله أمورا كنا نصنعها فى الجاهلية كنا نأتي الكهان قال: فلا تأتوا الكهان قال: قلت: كنا نتطير قال: ذلك شيء يجده أحدكم فى نفسه فلا يصدنكم قال: قلت: ومنا رجال يخطون قال: كان نبي من الأنبياء يخط فمن وافق خطه فذاك
صحیح مسلم، کتاب المساجد، رقم: 1199
اور معاویہ بن حکم بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کچھ ایسے امور و معاملات ہیں جو ہم دور جاہلیت میں کیا کرتے تھے، ہم کاہنوں کے پاس جایا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”تم کاہنوں کے پاس نہ جایا کرو۔“ میں نے عرض کیا کہ ہم پرندوں کے ذریعے فال لیا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”یہ ایسی چیز ہے جسے تم میں سے کوئی اپنے دل میں پاتا ہے، وہ تمہیں کام کرنے سے نہ روکے۔“ میں نے عرض کیا کہ ہم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو لکیریں کھینچا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”ایک نبی بھی لکیریں کھینچا کرتے تھے، جس کا خط ان کے خط کے موافق ہو گیا تو ٹھیک ہے۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين