صدقات و زکوۃ سے متعلق چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:

بَابُ صَدَقَةِ التَطَوُّعِ

نفلی صدقہ کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنفُسِكُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ‎. لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ . الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ۔﴾
[البقرة: 272 تا 274]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ” (اے نبی ! ) لوگوں کو ہدایت دینا آپ کی ذمہ داری نہیں، لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، اور تم اپنے مال میں سے جو خرچ کرو، وہ تمھارے اپنے فائدے کے لیے ہے، اور تم جو کچھ خرچ کرتے ہو وہ اللہ کی رضا حاصل کرنے ہی کے لیے کرتے ہو، اور تم اپنے مال میں سے جو خرچ کرو گے اس کا تمھیں پورا پورا صلہ دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (صدقات تو) ان ضرورت مندوں کے لیے ہیں جو اللہ کے کاموں میں ایسے مشغول ہوں کہ (اپنے روزگار کے لیے ) زمین میں دوڑ دھوپ نہ کر سکتے ہوں، نا واقف شخص ان کے سوال نہ کرنے کی وجہ سے انھیں مال دار خیال کرے، تم انھیں ان کے چہروں سے پہچان لو گے، وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے اور تم اپنے مال میں سے جو کچھ خرچ کرتے ہو، بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔ جو لوگ اپنے مال خرچ کرتے ہیں رات اور دن میں، چھپا کر اور ظاہر، ان کے رب کے ہاں ان کے لیے اجر ہے، نہ انھیں کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔“
وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ‎. أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ.﴾
[الأنفال: 3، 4]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے انھیں جو رزق دیا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لیے اپنے رب کے ہاں درجے ہیں اور بخشش ہے اور باعزت رزق ہے۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۔﴾
[التوبة: 103]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ” (اے نبی!) ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجیے (تاکہ) آپ اس کے ذریعے سے انھیں پاک کریں اور ان کا تزکیہ کریں اور ان کے لیے دعا کریں، بے شک آپ کی دعا ان کے لیے سکون (کا باعث ) ہے، اور اللہ خوب سننے والا ، خوب جاننے والا ہے۔ “

دکھاوے کی زکاۃ، نماز اور روزہ سب شرک ہے

حدیث: 1

«عن شداد بن أوس رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من صلى يرائي فقد أشرك ، ومن صام يرائي فقد أشرك ، ومن تصدق يراني فقد أشرك»
الترغيب والترهيب للشيخ محى الدين الديب، رقم الحديث: 43
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جس نے دکھاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا، جس نے دکھاوے کا روزہ رکھا اس نے شرک کیا، جس نے دکھاوے کا صدقہ کیا، اس نے شرک کیا۔ “

حرام مال سے دی گئی زکاۃ یا صدقہ اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا

حدیث 2:

«وعن أسامة بن عمير بن عامر رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله عز وجل لا يقبل صلاة بغير طهور ولا صدقة من غلول»
صحيح سنن النسائى ، للالبانی، رقم الحدیث: 2364، صحيح الجامع الصغير، رقم: 1855
”حضرت اسامہ بن عمیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ وضو کے بغیر نماز اور حرام مال سے صدقہ قبول نہیں فرماتا۔ “

حلال کمائی سے کیے گئے معمولی صدقہ کا اجر و ثواب اللہ تعالی کئی گنا بڑھا کر دیتے ہیں

حدیث 3:

«وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من تصدق بعدل تمرة من كسب طيب ، ولا يقبل الله إلا الطيب، وإن الله يتقبلها بيمينه ثم يربيها لصاحبه كما يربي أحدكم فلوه حتى تكون مثل الجبل»
صحیح بخاری، کتاب الزكاة، باب الصدقة من كسب طيب، رقم: 1410
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو کوئی ایک کھجور کے برابر بھی حلال کمائی سے صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ حلال کمائی سے ہی صدقہ قبول کرتا ہے۔ (حلال کمائی سے کیا گیا صدقہ ) اللہ تعالی دائیں ہاتھ میں لیتا ہے پھر اس کے مالک کے لیے اسے پالتا (بڑھاتا ) رہتا ہے، جس طرح کوئی تم میں سے اپنا بچھیرا پالتا ہے یہاں تک کہ وہ (صدقہ ) پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔ “

صدقہ اللہ تعالی کے خصوصی فضل و کرم کا باعث بنتا ہے

حدیث 4:

«وعنه رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: بينا رجل بفلاة من الأرض فسمع صوتا فى سحابة، اسق حديقة فلان، فتنحى ذلك السحاب فافرغ مائه فى حرة فإذا شرجة من تلك الشراج قد استوعبت ذلك الماء كله فتتبع الماء فإذا رجل قائم فى حديقته يحول الماء بمسحاته ، فقال له: يا عبد الله! ما اسمك؟ قال: فلان للاسم الذى سمع فى السحابة فقال له يا عبد الله! لم تسألني عن اسمي؟ فقال: إني سمعت صوتا فى السحاب الذى هذا ماؤه يقول: اسق حديقة فلان لاسمك ، فما تصنع فيها ، قال: أما إذ قلت هذا فإني أنظر إلى ما يخرج منها ، فأتصدق بثلثه ، وآكل أنا وعيالى ثلثا ، وارد فيها ثلثه»
مختصر صحيح مسلم للالبانی، رقم الحديث: 354
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک شخص جنگل میں کھڑا تھا اس نے بادل سے آواز سنی (کسی نے آواز دی) کہ فلاں آدمی کے باغ کو پانی پلاؤ، چنانچہ بادل ایک طرف چلا اور اپنا پانی ایک سنگلاخ زمین پر انڈیل دیا، اچانک نالیوں میں سے ایک نالے نے سارا پانی جمع کر لیا وہ آدمی پانی کے پیچھے چلا۔ دیکھا کہ ایک شخص اپنے باغ میں کھڑا ہے اور اپنے بیلچے سے پانی ادھر ادھر تقسیم کر رہا ہے۔ اس آدمی نے کہا: اللہ کے بندے تمہارا کیا نام ہے؟ اس نے کہا: فلاں۔ وہی نام جو اس نے بادل سے سنا تھا۔ پھر اس نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے بندے! تو میرا نام کیوں پوچھتا ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے اس بادل سے، جس کا یہ پانی ہے آواز سنی تھی کہ فلاں کے باغ کو پانی پلاؤ، اور تیرا نام لیا (میں جاننا چاہتا ہوں) تو اپنے باغ میں کیا کرتا ہے؟ اس نے کہا: جب تو نے پوچھا ہے تو میں بتا دیتا ہوں کہ جو کچھ میرے باغ میں پیدا ہوتا ہے، اس کا تہائی حصہ صدقہ کر دیتا ہوں، اور ایک تہائی سے میں اور میرا عیال کھاتا ہے اور ایک تہائی اس باغ میں لگا دیتا ہوں۔ “

صدقہ اللہ تعالیٰ کے غصہ کو دور کرتا ہے

حدیث 5:

«و عن أبى سعيد رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صدقة السر تطفئى عضب الرب، وصلة الرحم تزيد فى العمر وفعل المعروف يقي مصارع السوء»
صحيح الجامع الصغير، رقم الحديث: 3660 ، سلسلة الصحيحة، رقم: 1908
اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”پوشیدہ صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے صلہ رحمی عمر میں اضافہ کرتی ہے نیک عمل آدمی کو برائی کے گڑھے میں گرنے سے بچاتی ہے۔ “

صدقہ جہنم کی آگ سے بچاتا ہے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ‎.‏ أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ.﴾
[البقرة: 265، 266]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور ان لوگوں کی مثال جو اللہ کی رضا جوئی اور پوری دلجمعی سے اپنے مال خرچ کرتے ہیں، اس باغ کی سی ہے جو کسی اونچی سطح پر ہو، اس پر زور کی بارش ہو تو وہ دو گنا پھل لائے ، پھر اگر اس پر زور کی بارش نہ بھی ہو تو پھوار ہی (کافی ہے ) اور تم جو کچھ کرتے ہو، اللہ اسے خوب دیکھنے والا ہے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو، اس کے نیچے نہریں بہتی ہوں، اس باغ میں اس کے لیے ہر قسم کے پھل ہوں اور اسے بڑھاپا آجائے جبکہ اس کی اولا د کمزور ہو، پھر (اچانک ) اس باغ پر ایسا بگولا آ پڑے جس میں آگ ہو اور وہ اسے جلا کر رکھ دے؟ اس طرح اللہ تمھارے لیے آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم غور وفکر کرو۔ “

حدیث 6:

«وعن عدي بن حاتم رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: اتقوا النار ولو بشق تمرة»
صحیح بخاری، کتاب الزكاة، باب اتقوا النار ولو بشق تمرة، رقم: 1417
اور حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ”جہنم کی آگ سے بچو، خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی دے کر بچو۔“

افضل صدقہ پانی پلانا ہے

حدیث 7:

«وعن سعد بن عبادة رضي الله عنه أنه قال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم ! إن أم سعد ماتت ف أى الصدقة أفضل؟ قال: الماء قال: فحفر بترا، وقال: هذه لأم سعد»
صحیح سنن ابو داود للالبانی، رقم الحديث: 1474
”اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! سعد کی ماں فوت ہوگئی پس کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پانی پلانا۔ انہوں نے ایک کنواں کھودا اور کہا کہ یہ سعد کی ماں کے (ثواب کے) لیے ہے۔“

صدقہ کے لیے سفارش کرنے والے کو بھی ثواب ملتا ہے

حدیث 8:

«وعن أبى بردة بن أبى موسى عن أبيه رضى الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا جائه السائل أو طلبت إليه حاجة قال: اشفعوا توجروا ويقضى الله على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم ما شاء»
صحيح بخاری، کتاب الزكاة، باب التحريص على الصدقة والشفاعة فيها، رقم: 1432
”اور حضرت ابو بردہ بی رضی اللہ عنہ اپنے باپ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی سائل آتا یا کوئی آدمی اپنی حاجت بیان کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (لوگوں سے ) ارشاد فرماتے: تم سفارش کر دو تمہیں بھی ثواب ملے گا، اور اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی زبان سے جو چاہے گا دلائے گا۔“

صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ .﴾
[الروم: 39]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور تم سود پر جو (قرض) دیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے مالوں میں (شامل ہو کر) بڑھے، تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا، اور تم اللہ کا چہرہ چاہتے ہوئے جو کچھ بطور زکاۃ دیتے ہو، تو ایسے لوگ ہی (اپنا مال) کئی گنا بڑھانے والے ہیں۔ “

حدیث 9:

«وعن أبى هريرة رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما نقصت صدقة من مال ، وما زاد الله عبدا بعفو إلا عزا، وما تواضع احد لله إلا رفعه الله»
مختصر صحیح مسلم، رقم 1790 ، سلسلة الصحيحة، رقم: 2328
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا ، معاف کرنے سے اللہ عزت بڑھاتا ہے اور عاجزی اختیار کرنے پر اللہ بلند مرتبہ عطا فرماتا ہے۔ “

صدقہ دینے میں جلدی کرنا چاہیے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ .﴾
[المنافقون: 10]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمھیں دیا ہے، اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے ، پھر وہ کہے اے میرے رب! تو نے مجھے قریب مدت تک مہلت کیوں نہ دی کہ میں صدقہ کرتا اور نیک لوگوں میں سے ہو جاتا۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾ .
[البقرة: 254]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ہم نے تمھیں جو کچھ دیا اس میں سے خرچ کرو، اس سے پہلے کہ وہ دن آ جائے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ کوئی دوستی اور نہ کوئی سفارش ہی کام آئے گی اور کفر کرنے والے ہی ظالم ہیں۔ “

حدیث 10:

«وعنه قال: جاء رجل إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: يارسول الله أى الصدقة أعظم أجرا؟ قال: أن تصدق وأنت صحيح شحيح، تخشى الفقر وتأمل الغنى ، ولا تمهل حتى إذا بلغت الحلقوم قلت لفلان كذا، ولفلان كذا، وقد كان لفلان»
صحیح بخاری، کتاب الزكاة، باب فضل الصدقة الشحيح الصحيح، رقم: 1419
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کون سا صدقہ اجر میں افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ صدقہ جو تو تندرستی کی حالت میں کرے، تجھے غربت کا خوف بھی ہو اور دولت کی خواہش بھی ، اور (یاد رکھو) صدقہ کرنے میں دیر نہ کرنا کہیں جان حلق میں آجائے اور پھر تو کہے کہ فلاں کے لیے اتنا صدقہ، اور فلاں کے لیے اتنا صدقہ ، حالانکہ اس وقت تو تیرا مال غیروں کا ہو ہی چکا۔“

مسلمان کے کھیت سے پرندے جو کھا جائیں وہ بھی صدقہ ہے

حدیث 11:

«وعن أنس بن مالك رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما من مسلم يغرس غرسا ، أو يزرع زرعا، فيأكل منه طير ، أو إنسان ، أو بهيمة ، إلا كان له به صدقة»
مختصر صحیح مسلم، رقم: 978، سلسلة الصحيحة، رقم: 8
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی مسلمان جو درخت لگائے ، یا کھیتی سینچے، پھر اس سے انسان یا پرندے یا چار پائے کھائیں تو وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔ “

عورت اپنے گھر کے خرچہ سے صدقہ دے سکتی ہے

حدیث 12:

«وعن عائشة رضي الله عنها ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا أنفقت المرأة من طعام بيتها غير مفسدة ، كان لها أجرها بما أنفقت ، ولزوجها أجره بما كسب، وللخازن مثل ذلك لا ينقص بعضهم أجر بعض شيئا»
صحیح بخاری، کتاب الزكاة، باب من أمر خادمه بالصدقة ولم يناول بنفسه، رقم: 1425
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب عورت گھر کے کھانے سے صدقہ دے بشرطیکہ (شوہر کے ساتھ ) بگاڑ کی نیت نہ ہو تو اسے اس کا اجر ملے گا، اور اس کے خاوند کو کمائی کرنے کا اجر ملے گا اور خزانچی کو بھی اتنا ہی اور کسی کا ثواب دوسرے کے ثواب کو کم نہیں کرے گا۔ “

صدقہ دے کر واپس لینا قبیح حرکت

حدیث 13:

«وعن عمر بن الخطاب رضي الله عنه يقول: حملت على فرس فى سبيل الله، فأضاعه الذى كان عنده، فأردت أن أشتريه، وظننت أنه يبيعه برخص ، فسألت النبى صلى الله عليه وسلم فقال: لا تشتر ، ولا تعد فى صدقتك ، وإن أعطاكه بدرهم فإن العائد فى صدقته كالعائد فى قييه»
صحیح بخاری، کتاب الزكاة، باب هل يشترى الرجل صدقته ، رقم: 1490
”اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک گھوڑا سواری کے لیے اللہ کی راہ میں دیا۔ جس کو دیا تھا اس نے اسے ضائع کر دیا (پوری خدمت نہ کی ) تو میں نے اس کو خریدنا چاہا، اور خیال کیا کہ وہ سستا بیچ دے گا۔ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسے مت خریدو، اور اپنے صدقہ کو واپس نہ لو، خواہ وہ تم کو ایک درہم میں دے، کیونکہ صدقہ دے کر واپس لینے والا ایسا ہے جیسا قے کر کے چاٹنے والا ۔“

میت کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے

حدیث 14:

«وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن رجلا قال: يا رسول الله! إن أمي توفيت أفينفعها إن تصدقت عنها؟ قال: نعم قال: فإن لي مخرفا فأشهدك أني قد تصدقت به عنها»
سنن الترمذی، ابواب الزكاة، رقم الحديث: 538 ، مسند أحمد: 333/1 و 370۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول ! میری والدہ فوت ہوگئی ہے، اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے فائدہ ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں۔ اس نے کہا: میرا ایک باغ ہے میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس کی طرف سے صدقہ کر دیا۔ “

ہر نیکی کا کام صدقہ ہے

حدیث 15:

«وعن حذيفة رضى الله عنه قال: قال نبيكم صلى الله عليه وسلم كل معروف صدقة»
صحيح مسلم، کتاب الزكاء، باب بيان ان اسم الصدقة يقع على كل نوع من المعروف، رقم: 2328
اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”ہر نیکی کا کام صدقہ ہے۔ “

اپنے عزیز واقارب اور رشتہ داروں کو صدقہ و زکاۃ دینا افضل ہے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا﴾
[الإسراء: 26]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور قرابت دار کو اس کا حق دے اور مسکین اور مسافر کو بھی، اور فضول خرچی سے مال نہ اڑا۔ “

حدیث 16:

«وعن سلمان بن عامر ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن الصدقة على المسكين صدقة، وعلى ذى الرحيم ثنتان صدقة، وصلة»
صحيح سنن النسائى للالبانی، رقم الحديث: 242
اور حضرت سلمان ابن عامر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بے شک مسکین پر صدقہ کرنا صدقہ ہے اور اقاریب پر صدقہ کرنا صدقہ اور صلہ رحمی کہلاتا ہے۔ “

غلطی سے زکاۃ صدقہ غیر مستحق کو دے دیا جائے تب بھی اس کا پورا ثواب مل جاتا ہے

حدیث 17:

«وعن أبى هريرة رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: قال رجل: لأتصدقن الليلة بصدقة ، فخرج بصدقته ، فوضعها فى يد زانية، فأصبحوا يتحدثون تصدق الليلة على زانية ، قال: اللهم لك الحمد على زانية لا تصدقن بصدقة فخرج بصدقته فوضعها فى يد غني فأصبحوا يتحدثون تصدق على غني ، قال: اللهم لك الحمد على غني لا تصدقن بصدقة فخرج بصدقتة فوضعها فى يد سارق فأصبحوا يتحدثون تصدق على سارق، فقال: اللهم لك الحمد على زانية ، وعلى غني وعلى سارق فأتي فقيل له أما صدقتك فقد قبلت ، أما الزانية فلعلها تستعف بها عن زناها ، ولعل الغنى يعتبر ، فينفق مما أعطاه الله، ولعل السارق يستعف بها عن سرقته»
صحیح مسلم، کتاب الزكاة، باب ثبوت اجر المتصدق وان وقعت الصدقة في يد فاسق، رقم: 2362
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک آدمی نے کہا: میں آج کی رات صدقہ دوں گا۔ وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور ایک زانیہ عورت کے ہاتھ میں دے دیا۔ صبح کو لوگ چرچا کرنے لگے کہ رات ایک زانیہ کو صدقہ دیا گیا ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ ! تعریف تیرے ہی لیے ہے میرا صدقہ زانیہ کومل گیا۔ اس نے کہا: کہ میں آج رات پھر صدقہ کروں گا۔ وہ صدقہ لے کر نکلا اور ایک مال دار کو دے دیا۔ لوگو نے باتیں کیں کہ آج کوئی مال دار کو صدقہ دے گیا۔ اس نے کہا: اے اللہ ! تعریف تیرے ہی لیے ہے میرا صدقہ مال دار کے ہاتھ لگ گیا ہے، میں آج پھر صدقہ دوں گا۔ وہ صدقہ لے کر نکلا اور ایک چور کے ہاتھ میں دے دیا۔ صبح لوگوں نے کہنا شروع کر دیا: رات کسی نے چور کے ہاتھ میں صدقہ دے دیا۔ اس نے کہا کہ اے اللہ ! تعریف تیرے ہی لیے ہے۔ میرا صدقہ زانیہ، غنی اور چور کے ہاتھ لگ گیا۔ پس اسے (خواب میں) کہا گیا: تیرے سب صدقے قبول ہو گئے ، زانیہ کو اس لیے کہ شاید وہ زنا سے بچ جائے، غنی کو اس لیے کہ شاید اسے شرم آئے اور عبرت ہو اور چور کو اس لیے کہ شاید وہ چوری سے باز آجائے۔ “

زکاۃ کی فرضیت کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾
[البقرة: 277]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور نماز قائم کی اور زکاۃ ادا کرتے رہے، ان کے لیے ان کے رب کے پاس اجر ہے، اور نہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ “
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ﴾
[الروم: 39]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور تم سود پر جو (قرض) دیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے مالوں میں (شامل ہو کر ) بڑھے، تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا، اور تم اللہ کا چہرہ چاہتے ہوئے جو کچھ بطور زکاۃ دیتے ہو، تو ایسے لوگ ہی (اپنا مال) کئی گنا بڑھانے والے ہیں۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ ۗ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ.‏ الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ.﴾
[فصلت: 6، 7]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”کہہ دے میں تو تمھارے جیسا ایک بشر ہی ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمھارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے، سو اس کی طرف سیدھے ہو جاؤ اور اس سے بخشش مانگو اور مشرکوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے۔ وہ جو ز کوۃ نہیں دیتے اور آخرت کا انکار کرنے والے بھی وہی ہیں۔ “

حدیث 18:

«و عن ابن عمر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بنى الإسلام على خمس: شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله ، وإقام الصلاة ، وإيتاء الزكاة ، والحج، وصوم رمضان»
صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب بنى الاسلام على خمس ، رقم: 8
”اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: ➊ اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ ➋ نماز قائم کرنا۔ ➌ زکاۃ ادا کرنا ➎ حج اور ➎ رمضان کے روزے رکھنا۔ “

حدیث 19:

«وعن جرير بن عبد الله رضى الله عنه قال: بايعت النبى صلى الله عليه وسلم على إقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والنصح لكل مسلم»
صحیح بخاری، کتاب الزكاة، باب البيعة على ايتاء الزكاة، رقم: 1401
”اور حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے ، زکاۃ دینے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔ “

حدیث 20:

«وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان أبو بكر رضي الله عنه وكفر من كفر من العرب ، فقال عمر رضي الله عنه: كيف تقاتل الناس؟ وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله ، فمن قالها فقد عصم مني ماله، ونفسه ، إلا بحقه وحسابه على الله . فقال: والله الأقاتلن من فرق بين الصلاة، والزكاة ، فإن الزكاة حق المال ، والله لو منعوني عناقا كانوا يؤدونها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم لقاتلتهم على منعها ، قال عمر رضي الله عنه: فوالله! ما هو إلا أن قد شرح الله صدر أبى بكر رضي الله عنه فعرفت أنه الحق»
صحیح بخاری، کتاب الزكاة، باب وجوب الزكاة، رقم: 1399 و 140
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو عرب کے کچھ لوگ کافر ہو گئے (اور زکاۃ بیت المال میں جمع کرانے سے انکار کر دیا ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ آپ لوگوں سے کیوں کر جہاد کریں گے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے جب تک وہ «لا اله الا الله» نہ کہیں ۔ جب یہ کہنے لگیں تو انہوں نے اپنے مال اور اپنی جانیں مجھ سے بچا لیں ۔ مگر حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوگا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو اس سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا۔ کیونکہ زکاۃ کا مال حق ہے۔ واللہ ! اگر یہ لوگ ایک بکری کا بچہ بھی، جو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے۔ مجھے نہ دیں گے تو ان سے ضرور لڑائی کروں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: واللہ! اللہ تعالیٰ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کا سینہ کھول دیا تھا، اور میں جان گیا کہ حق یہی ہے۔ “

زکاۃ کی فضیلت کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۗ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ‎.‏ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ.﴾
[التوبة: 34، 35]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اے ایمان والو! بے شک اکثر علماء اور درویش لوگوں کا مال ناحق ہی کھاتے ہیں اور وہ (لوگوں کو ) اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ، تو آپ انھیں درد ناک عذاب کی خبر سنا دیں۔ جس دن وہ مال دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان کے ماتھوں ، ان کے پہلوؤں اور ان کی پیٹھوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا: ) یہ وہ (مال) ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کر کے رکھا تھا، لہذا (اب اس کا مزہ ) چکھو جو تم جمع کرتے رہے تھے۔ “

حدیث 21:

«وعن خالد بن أسلم قال: خرجنا مع عبد الله بن عمر رضي الله عنهما فقال: أعرابي: أخبرني عن قول الله: ﴿وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ﴾ قال ابن عمر رضي الله عنهما ، من كنزها فلم يؤد زكاتها فويل له ، إنما كان هذا قبل أن تنزل الزكاة ، فلما أنزلت جعلها الله طهرا للأموال»
صحيح بخاری، کتاب الزكاة، باب ما ادى زكاة فليس بكنز ، رقم: 1404
”اور حضرت خالد بن اسلم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ نکلے تو ایک اعرابی نے کہا مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول ﴿وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ﴾ کے مطلب سے آگاہ فرمائیے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جس آدمی نے سونا چاندی جمع کیا اور اس کی زکاۃ نہ دی تو اس کے لیے خرابی ہے، اور یہ آیت زکاۃ کا حکم اترنے سے پہلے کی ہے۔ جب زکاۃ فرض ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے مال زکاۃ کے ذریعے پاک کر دیا۔ “

زکاة کی اہمیت کا بیان

حدیث 22:

«وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما من صاحب ذهب ولا فضة لا يؤدى منها حقها إلا إذا كان يوم القيامة صفحت له صفائح من نار فأحمي عليها فى نار جهنم، فيكوى بها جنبه ، وجبينه، وظهره، كلما بردت أعيدت له فى يوم كان مقداره خمسين ألف سنة حتى يقضى بين العباد فيرى سبيله ، إما إلى الجنة، وإما إلى النار، قيل: يا رسول الله ! فالإبل قال: ولا صاحب إبل لا يؤدى منها حقها ، ومن حقها حلبها يوم وردها إلا إذا كان يوم القيامة بطح لها بقاع قرقر أوفر ما كانت لا يفقد منها فصيلا واحدا تطوه بأخفافها وتعضه بأفواهها، كلما مر عليه أولاها رد عليه أخراها فى يوم كان مقداره خمسين ألف سنة حتى يقضى بين العباد، فيرى سبيله إما إلى الجنة ، وإما إلى النار»
صحیح مسلم، كتاب الزكاة، باب اثم مانع الزكاة، رقم: 229
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص سونے اور چاندی کا مالک ہو لیکن اس کا حق (یعنی زکاۃ ) ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس (سونے اور چاندی) کی تختیاں بنائی جائیں گی۔ پھر ان کو جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا۔ پھر ان سے اس (منکر زکاۃ) کے پہلو، پیشانی اور پیٹھ پر داغ لگائے جائیں گے۔ جب کبھی (یہ تختیاں گرم کرنے کے لیے ) آگ میں واپسی لے جائی جائیں گی تو دوبارہ (عذاب دینے کے لیے) لوٹائی جائیں گی، (اس سے یہ سلوک) سارا دن ہوتا رہے گا جس کا عرصہ پچاس ہزار سال (کے برابر ) ہے۔ یہاں تک کہ انسانوں کے فیصلے ہو جائیں۔ پھر وہ اپنا راستہ جنت کی طرف دیکھے یا دوزخ کی طرف۔ عرض کیا گیا، یا رسول اللہ ! پھر اونٹوں کا کیا معاملہ ہوگا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اونٹوں کا مالک ہو اور وہ ان کا حق (زکاۃ ) ادا نہ کرے، اور اس کے حق سے یہ بھی ہے کہ پانی پلانے کے دن کا دودھ دوھے (اور عرب کے رواج کے مطابق یہ دودھ مساکین کو پلا دے) وہ قیامت کے دن ایک ہموار میدان میں اوندھے منہ لٹایا جائے گا اور وہ اونٹ بہت فربہ اور موٹے ہو کر آئیں گے ان میں سے ایک بچہ بھی کم نہ ہوگا (یعنی سب کے سب) اس (منکر زکاۃ) کو اپنے کھروں، پاؤں سے روندیں گے۔ اور اپنے منہ سے کاٹیں گے۔ جب پہلا اونٹ (یہ سلوک کر کے ) جائے گا تو دوسرا آجائے گا (اس سے یہ سلوک) سارا دن ہوتا رہے گا جس کا عرصہ پچاس ہزار سال (کے برابر ) ہے۔ حتی کہ لوگوں کا فیصلہ ہو جائے گا پھر وہ اپنا راستہ جنت کی طرف دیکھے گا یا جہنم کی طرف۔ عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول ! گائے اور بکری کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ ارشاد فرمایا: کوئی گائے اور بکری والا ایسا نہیں جو ان کا حق (زکاۃ ) ادا نہ کرے مگر جب قیامت کا دن ہوگا تو وہ اوندھا لٹایا جائے گا۔ ایک ہموار زمین پر، اور ان گائے اور بکریوں میں سے کوئی کم نہ ہوگی (سب کی سب آئیں گی) اور ان میں سے کوئی سینگ مڑی ہوئی نہ ہوگی ، نہ بغیر سینگوں کے، اور نہ ٹوٹے ہوئے سینگوں والی۔ وہ اس کو اپنے سینگوں سے ماریں گی۔ اور اپنے کھروں سے روندیں گی۔ جب پہلی گزر جائے گی تو پچھلی آجائے گی (یعنی لگاتار آتی رہیں گی ) دن بھر ایسا ہوتا رہے گا جس کی مدت پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔ یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا۔ پھر وہ اپنا راستہ جنت کی طرف دیکھے یا دوزخ کی طرف۔ “

حدیث 23:

«وعن الأحنف بن قيس رضى الله عنه قال: كنت فى نفر من قريش ، فمر أبو ذر رضي الله عنه وهو يقول: بشر الكائزين بكي فى ظهورهم ، يخرج من جنوبهم، وبكي من قبل أقفائهم يخرج من جباههم ، قال: ثم تنحى فقعد، قال: قلت: من هذا؟ قالوا: هذا أبوذر ، قال: فقمت إليه، فقلت: ما شيء سمعتك تقول قبيل، قال: ما قلت إلا شيئا قد سمعته من نبيهم صلى الله عليه وسلم»
صحيح مسلم ، كتاب الزكاة، باب فى الكنازين للاموال والتغليظ عليهم، رقم: 2307
”اور سیدنا احنف بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں قریش کے چند لوگوں میں بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے خزانہ جمع کرنے والوں کو بشارت دو ایسے داغ کی جو ان کی پیٹھ پر لگائے جائیں گے اور ان کے پہلوؤں سے آر پار ہو جائیں گے۔ ان کی گدیوں (گردن) میں لگائے جائیں گے تو ان کی پیشانیوں سے پار ہو جائیں گے۔ پھر ابوذر رضی اللہ عنہ ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے ۔ تو میں نے (لوگوں سے) پوچھا یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں۔ چنانچہ میں ان کی طرف گیا اور عرض کیا یہ کیا تھا جو میں نے ابھی ابھی آپ سے سنا جو آپ نے ارشاد فرمایا: حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے وہی کہا ہے جو میں نے ان (مسلمانوں) کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔ “

حدیث 24:

«وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من آتاه الله مالا فلم يؤد زكاته مثل له ماله يوم القيامة شجاعا أقرع له زبيبتان يطوقه يوم القيامة ، ثم يأخذ بلهزمتيه يعني بشدقيه ، ثم يقول: أنا مالك ، أنا كنزك ، ثم تلا ﴿لَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ﴾ الآية»
صحیح بخاری کتاب الزكاة، باب اثم مانع الزكاة، رقم: 1403
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کو اللہ نے مال دیا اور اس نے اس کی زکاۃ ادا نہ کی ، تو قیامت کے دن اس کا مال ایسے گنجے سانپ کی شکل بن کر ، جس کی آنکھوں پر دو نقطے (داغ) ہوں گے اس کے گلے کا طوق بن جائے گا۔ پھر اس کی دونوں باجھیں پکڑ کر کہے گا میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی (جس کا ترجمہ یہ ہے ) جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مال دیا ہے اور وہ بخیلی کرتے ہیں تو اپنے لیے یہ بخل بہتر نہ سمجھیں بلکہ ان کے حق میں برا ہے، عنقریب قیامت کے دن یہ بخیلی ان کے گلے کا طوق بنے والی ہے۔ “

حدیث 25:

«وعنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: ” إن ثلاثة فى بني إسرائيل ابرص واقرع واعمى بدا لله عز وجل ان يبتليهم فبعث إليهم ملكا فاتى الابرص، فقال: اي شيء احب إليك، قال: لون حسن وجلد حسن قد قذرني الناس، قال: فمسحه فذهب عنه فاعطي لونا حسنا وجلدا حسنا، فقال: اي المال احب إليك، قال: الإبل او، قال: البقر هو شك فى ذلك إن الابرص والاقرع، قال: احدهما الإبل، وقال: الآخر البقر فاعطي ناقة عشراء، فقال: يبارك لك فيها واتى الاقرع، فقال: اي شيء احب إليك، قال: شعر حسن ويذهب عني هذا قد قذرني الناس، قال: فمسحه فذهب واعطي شعرا حسنا، قال: فاي المال احب إليك، قال: البقر، قال: فاعطاه بقرة حاملا، وقال: يبارك لك فيها واتى الاعمى، فقال: اي شيء احب إليك، قال: يرد الله إلى بصري فابصر به الناس، قال: فمسحه فرد الله إليه بصره، قال: فاي المال احب إليك، قال: الغنم فاعطاه شاة والدا فانتج هذان وولد هذا فكان لهذا واد من إبل ولهذا واد من بقر ولهذا واد من غنم ثم إنه اتى الابرص فى صورته وهيئته، فقال: رجل مسكين تقطعت بي الحبال فى سفري فلا بلاغ اليوم إلا بالله، ثم بك اسالك بالذي اعطاك اللون الحسن والجلد الحسن والمال بعيرا اتبلغ عليه فى سفري، فقال له: إن الحقوق كثيرة، فقال له: كاني اعرفك الم تكن ابرص يقذرك الناس فقيرا فاعطاك الله، فقال: لقد ورثت لكابر عن كابر، فقال: إن كنت كاذبا فصيرك الله إلى ما كنت واتى الاقرع فى صورته وهيئته، فقال له: مثل ما، قال: لهذا فرد عليه مثل ما رد عليه هذا، فقال: إن كنت كاذبا فصيرك الله إلى ما كنت واتى الاعمى فى صورته، فقال: رجل مسكين وابن سبيل وتقطعت بي الحبال فى سفري فلا بلاغ اليوم إلا بالله ثم بك اسالك بالذي رد عليك بصرك شاة اتبلغ بها فى سفري، فقال: قد كنت اعمى فرد الله بصري وفقيرا فقد اغناني فخذ ما شئت فوالله لا اجهدك اليوم بشيء اخذته لله، فقال: امسك مالك فإنما ابتليتم فقد رضي الله عنك وسخط على صاحبيك»
صحیح بخاری ، کتاب احاديث الانبياء، باب حديث أبرص وأعمى وأقرع في بنى اسرائيل، رقم: 3464
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے تھے: بنی اسرائیل میں تین آدمی تھے ایک کوڑھی دوسرا گنجا اور تیسرا اندھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمانے کا ارادہ فرمایا ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا۔ وہ کوڑھی کے پاس آیا اور کہا: تجھے کون سی چیز بہت پیاری ہے؟ اس نے کہا: اچھا رنگ اور اچھا بدن اور وہ چیز مجھ سے دور ہو جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فرشتے نے اس (کے جسم) پر ہاتھ پھیرا، پس اس سے اس کی گندگی دور ہوگئی اور اچھا رنگ اور اجھا بدن دے دیا گیا۔ پھر فرشتے نے کوڑھی سے پوچھا: تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: اونٹ، یا کہا: گائے۔ راوی (اسحاق ) کو شک ہے ہاں کوڑھی اور گنجے میں سے ایک نے اونٹ کہا اور دوسرے نے گائے کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسے ایک حاملہ اونٹنی دے دی گئی، اور کہا اللہ تجھے اس میں برکت دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پھر وہ فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور کہا تجھے سب سے زیادہ کون سی چیز پسند ہے؟ اس نے کہا: خوب صورت بال اور وہ چیز مجھ سے دور ہو جائے جس سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا اس کا گنجا پن جاتا رہا اور خوبصورت بال اسے دے دیئے گئے ۔ فرشتے نے پوچھا: تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: گائے ، پس ایک حاملہ گائے اسے دے دی گئی اور فرشتے نے کہا: اللہ تجھے اس میں برکت دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پھر وہ فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور کہا تجھے سب سے زیادہ پیاری چیز کون سی ہے؟ اس نے کہا: اللہ مجھے بینائی دے دے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا، اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی واپس کر دی۔ فرشتے نے کہا: تجھے سب سے زیادہ مال کون سا پسند ہے؟ اس نے کہا: بکریاں۔ اسے ایک حاملہ بکری دے دی گئی۔ پس بچے لیے کوڑھی اور گنجے نے اونٹ اور گائے کے اور اندھے نے بکری کے۔ جس سے کوڑھی کے لیے ایک جنگل اونٹوں سے بھر گیا، گنجے کے لیے ایک جنگل گائیوں سے بھر گیا، اور اندھے کے لیے ایک جنگل بکریوں سے بھر گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پھر (کچھ عرصہ بعد ) فرشتہ کوڑھی کے پاس اس کی پہلی صورت اور شکل میں آیا۔ اور آ کر کہا: غریب آدمی ہوں سفر میں میرا مال و اسباب جاتا رہا، اب میرا آج کے دن (اپنی منزل پر ) پہنچنا اللہ کی مہربانی اور تیرے سبب سے ہے۔ میں تجھ سے اسی ذات کے واسطہ سے مانگتا ہوں، جس نے تجھے اچھا رنگ جسم اور مال دیا ہے ایک اونٹ چاہتا ہو، جس کے ذریعے اپنی منزل پر پہنچ سکوں ۔ اس نے کہا: حقدار بہت ہیں (یعنی خرچ زیادہ ہے مال کم ہے) فرشتے نے کہا: میں تجھے پہچانتا ہوں کیا تو کوڑھی نہ تھا کہ لوگ تجھ سے نفرت کرتے تھے اور تو غریب تھا اللہ تعالیٰ نے تجھے صحت اور مال دیا۔ اس نے کہا: مجھے تو یہ مال و دولت باپ دادا سے وراثت میں ملا ہے۔ فرشتے نے کہا: تو جھوٹا ہے، اللہ تجھے ویسا ہی کر دے جیسا تو تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پھر وہ فرشتہ اندھے کے پاس اس کی (سابقہ) صورت میں آیا اور کہا: غریب مسافر ہوں، سفر میں میرا مال واسباب جاتا رہا۔ آج میں (اپنی منزل پر ) نہیں پہنچ سکتا ہوں، مگر اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور تیرے سبب سے تجھ سے اس ذات کے واسطہ سے مانگتا ہوں جس نے تجھے بینائی دی۔ ایک بکری (چاہتا ہوں ) کہ اس کے باعث اپنی منزل پر پہنچ سکوں ۔ اندھے کہا: بے شک میں اندھا تھا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے بینائی دی، پس تو جو چاہے لے لے اور جو چاہے چھوڑ دے۔ اللہ کی قسم ! آج کے دن میں تیرا ہاتھ نہ پکڑوں گا۔ اس چیز سے جسے تو اللہ کے لیے لینا چاہے۔ فرشتے نے کہا: اپنا مال اپنے پاس رکھ ۔ حقیقت یہ ہے کہ تم (تینوں) کو آزمایا گیا۔ پس تجھ سے اللہ راضی ہوا تیرے دونوں ساتھیوں پر غصہ کیا گیا۔ “

حدیث 26:

«وعن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مانع الزكاة يوم القيامة فى النار»
صحيح الترغيب والترهيب للالبانی، رقم الحديث: 760
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: زکاۃ نہ دینے والا قیامت کے دن آگ میں ہوگا۔ “

حدیث 27:

«وعن بريدة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما منع قوم الزكاة إلا ابتلاهم الله بالسنين»
صحيح الترغيب والترهيب، رقم الحديث: 761
”اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: زکاۃ ادا نہ کرنے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ قحط سالی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ “

حدیث 28:

«وعن على رضي الله عنه قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا ، وموكله، وشاهده، وكاتبه، والواشمة والمستوشمة ومانع الصدقة والمحلل ، والمحلل له»
صحيح الترغيب والترهيب، رقم الحديث: 756
”اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے ، کھلانے ، گواہی دینے اور کتابت کرنے والے سب لوگوں پر لعنت فرمائی۔ نیز بال گوندھنے، گندوانے والی پر ، زکاۃ ادا نہ کرنے والے پر، حلالہ نکالنے اور نکلوانے والے پر بھی لعنت فرمائی ہے۔ “

زکاة کی شرائط

قَالَ الله تَعَالَى: ﴿فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ ۗ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ﴾
[التوبة: 11]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکاۃ دیں تو وہ دین میں تمھارے بھائی ہیں۔ اور ہم اپنی نشانیاں ان لوگوں کے لیے تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔ “

حدیث 29:

«وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن النبى صلى الله عليه وسلم بعث معاذا رضي الله عنه إلى اليمن ، فقال: ادعهم إلى شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فإن هم أطاعوا لذلك ، فأعلمهم أن الله قد افترض عليهم خمس صلوات فى كل يوم وليلة ، فإن هم أطاعوا لذلك ، فأعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة فى أموالهم ، تؤخذ من أغنيائهم ، وترد على فقرائهم»
صحيح البخاري، كتاب الزكاة، باب وجوب الزكاة وقول الله تعالى واقيمو الصلاة ، رقم: 1395
”اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا، تو ارشاد فرمایا: لوگوں کو پہلے اس بات کی دعوت دو کہ وہ گواہی دیں، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، اگر وہ یہ تسلیم کر لیں تو پھر انہیں بتاؤ کہ ہر دن اور رات میں اللہ تعالیٰ نے ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر یہ بھی مان لیں تو پھر انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے مالوں میں صدقہ (زکاۃ) فرض کیا ہے جو کہ ان کے اغنیاء سے لیا جائے گا اور ان کے فقراء کو دیا جائے گا۔ “

حدیث 30:

«وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من استفاد مالا فلا زكاة عليه حتى يحول عليه الحول عند ربه»
صحيح سنن الترمذى للالبانی، رقم الحديث 515
”اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جو مال حاصل ہونے کے بعد اپنے مالک کے پاس سال تک پڑا ر ہے، اس پر زکاۃ فرض ہے۔“

زکاۃ لینے اور دینے کے آداب کا بیان

حدیث 31:

«وعن أبى بن كعب رضي الله عنه قال: بعثني النبى صلى الله عليه وسلم مصدقا فمررت برجل فلما جمع لي ماله لم أجد عليه فيه إلا ابنة مخاض ، فقلت له: أد ابنة مخاض فإنها صدقتك ، فقال: ذاك ما لا لبن فيه ، ولا ظهر ولكن هذه ناقة فتية عظيمة سمينة فخذها ، فقلت له: ما أنا بآخذ ما لم أومر به ، وهذا رسول الله صلى الله عليه وسلم منك قريب ، فإن أحببت أن تأتيه فتعرض عليه ما عرضت على ، فافعل ، فإن قبله منك قبلته ، وإن رده عليك رددته، قال: فإني فاعل، فخرج معي وخرج بالناقة التى عرض على حتى قدمنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال له: يا نبي الله! أتاني رسولك ليأخذ منى صدقة مالي وايم الله ما قام فى مالى رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا رسوله قط قبله ، فجمعت له مالي فزعم أن ما على فيه ابنة مخاض وذلك ما لا لبن فيه ولا ظهر وقد عرضت عليه ناقة فتية عظيمة ليأخذها فأبى علي، وها هي ذه قد جئتك بها يا رسول الله ! خذها ، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ذاك الذى عليك فإن تطوعت بخير أجرك الله فيه وقبلناه منك، قال: فها هي ذه يا رسول الله قد جئتك بها فخذها ، قال: فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقبضها ودعا له فى ماله بالبركة»
صحیح سنن ابی داود، رقم الحديث: 140
”اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ میں ایک آدمی کے پاس پہنچا، اس نے میرے سامنے اپنا مال پیش کر دیا۔ اس کا مال بس اتنا ہی تھا کہ اس شخص کو ایک سال کی اونٹنی ادا کرنا تھی۔ میں نے اسے کہا: ایک سال کی بچی دے دو۔ اس نے کہا: وہ نہ دودھ دینے والی ہے اور نہ سواری کے قابل، لہذا یہ میری اونٹنی ہے، جوان اور موٹی تازی، یہ لے لیجیے۔ میں نے کہا: میں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بغیر اسے نہیں لے سکتا، ہاں البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے قریب ہی (مدینہ منورہ میں ) تشریف فرما ہیں، اگر آپ پسند کریں، تو ان کی خدمت میں اپنی اونٹنی پیش کر دو جو میرے سامنے پیش کی ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ سے قبول فرمالی تو میں بھی اسے قبول کرلوں گا، لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہ فرمائی تو میں بھی قبول نہیں کروں گا، لہذا وہ تیار ہو گیا اور میرے ساتھ روانہ ہوا اونٹنی بھی اپنے ہمراہ لے لی۔ ہم جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس نے عرض کیا: اے اللہ تعالیٰ کے نبی! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تحصیلدار میرے پاس صدقہ وصول کرنے آیا، اور اللہ کی قسم یہ پہلا موقعہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد میرے پاس صدقہ کے لیے آیا ہے۔ میں نے اپنا مال ان صاحب کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے کہا ایک سال کی بچی دے دو، حالانکہ وہ دودھ دے سکتی ہے نہ ہی سواری کے قابل ہے، (میں نے کہا) یہ اونٹنی جوان موٹی تازی ہے لے لیجیے، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ اب میں اسے (یعنی اونٹنی کو ) لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں کہ اسے قبول کر لیجیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم پر واجب تو اتنا ہی تھا لیکن اگر خوشی سے نیکی کرو گے تو اللہ تمہیں اس کا اجر دے گا، اور ہم اس کو قبول کر لیں گے۔ اس نے کہا: یہ اونٹنی موجود ہے، اسے قبول کیجیے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لینے کا حکم صادر فرمایا اور اس کے مال میں برکت کی دعا فرمائی ۔ “

حدیث 32:

«وعن عبادة بن صامت رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثه على الصدقة فقال: يا أبا الوليد اتق الله ، لا تاتي يوم القيامة ببعير تحمله له رغاء ، او بقرة لها خوار ، او شاة لها ثغاء. قال: يا رسول الله! إن ذلك لكذلك؟ قال: أى والذي نفسي بيده . قال: فوالذي بعثك بالحق لا أعمل لك على شيء أبدا»
صحيح الترغيب والترهيب، رقم الحديث: 778
”’’ اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں زکاۃ وصول کرنے کے لیے مقرر کیا اور ارشاد فرمایا: اے ابو ولید! (مال زکاۃ کے بارے میں) اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا قیامت کے روز اس حال میں نہ آنا کہ تم (اپنے کندھوں پر) اونٹ اٹھائے ہوئے آؤ جو بلبلا رہا ہو یا (اپنے کندھوں پر چوری کی ہوئی) گائے اٹھائی ہوئی ہو، جو ڈکار رہی ہو، یا بکری اٹھا رکھی ہو جو ممیا رہی ہو (اور مجھے سفارش کے لیے کہو ) ۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! کیا مال زکاۃ میں خرد برد کا یہ انجام ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے (یہی انجام ہوگا ) حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اس ذات کی قسم ! جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کبھی بھی عامل کا کام نہیں کروں گا ۔ “

ان اشیاء کا بیان جن پر زکاۃ واجب ہے

قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۗ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ‎. يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ.﴾
[التوبة: 34، 35]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اے ایمان والو! بے شک اکثر علماء اور درویش لوگوں کا مال ناحق ہی کھاتے ہیں اور وہ (لوگوں کو ) اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ، تو آپ انھیں درد ناک عذاب کی خبر سنا دیں۔ جس دن وہ مال دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان کے ماتھوں ، ان کے پہلوؤں اور ان کی پیٹھوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا: ) یہ وہ (مال) ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کر کے رکھا تھا، لہذا (اب اس کا مزہ) چکھو جو تم جمع کرتے رہے تھے۔ “

حدیث 33:

«وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنه أن امرأة أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ومعها ابنة لها، وفي يد ابنتها مسكتان غليظتان من ذهب ، فقال لها . أتعطين زكاة هذا؟ قالت: لا ، قال: أيسرك أن يسورك الله بهما يوم القيامة سوارين من نار . قال: فخلعتهما فألقتهما ، إلى النبى صلى الله عليه وسلم وقالت: هما لله عزوجل ولرسوله»
صحیح سنن ابی داود، رقم الحديث: 1382
”اور عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی، جس کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ارشاد فرمایا: کیا تم اس کی زکاۃ ادا کرتی ہو؟ اس نے کہا: نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تجھے یہ پسند ہے کہ اللہ تجھے ان کے بدلہ میں قیامت کے دن دو کنگن آگ سے پہنائے؟ اس نے (یہ سن کر ) دونوں کنگن اتار کر آپ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں پیش کر دیئے اور عرض کیا: یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہیں ۔ “

حدیث 34:

«وعن أنس رضى الله عنه ، ان ابا بكر رضى الله عنه كتب له هذا الكتاب لما وجهه إلى البحرين، ” بسم الله الرحمن الرحيم هذه فريضة الصدقة التى فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم على المسلمين والتي امر الله بها رسوله، فمن سئلها من المسلمين على وجهها فليعطها، ومن سئل فوقها فلا يعط فى اربع وعشرين من الإبل فما دونها من الغنم من كل خمس شاة إذا بلغت خمسا وعشرين إلى خمس وثلاثين ففيها بنت مخاض انثى فإذا بلغت ستا وثلاثين إلى خمس واربعين ففيها بنت لبون انثى، فإذا بلغت ستا واربعين إلى ستين ففيها حقة طروقة الجمل، فإذا بلغت واحدة وستين إلى خمس وسبعين ففيها جذعة، فإذا بلغت يعني ستا وسبعين إلى تسعين ففيها بنتا لبون، فإذا بلغت إحدى وتسعين إلى عشرين ومائة ففيها حقتان طروقتا الجمل، فإذا زادت على عشرين ومائة ففي كل اربعين بنت لبون وفي كل خمسين حقة، ومن لم يكن معه إلا اربع من الإبل فليس فيها صدقة إلا ان يشاء ربها، فإذا بلغت خمسا من الإبل ففيها شاة وفي صدقة الغنم فى سائمتها إذا كانت اربعين إلى عشرين ومائة شاة، فإذا زادت على عشرين ومائة إلى مائتين شاتان، فإذا زادت على مائتين إلى ثلاث مائة ففيها ثلاث شياه، فإذا زادت على ثلاث مائة ففي كل مائة شاة، فإذا كانت سائمة الرجل ناقصة من اربعين شاة واحدة فليس فيها صدقة إلا ان يشاء ربها وفي الرقة ربع العشر فإن لم تكن إلا تسعين ومائة فليس فيها شيء إلا ان يشاء ربها»
صحيح البخارى، كتاب الزكاة، باب زكاة الغنم ، رقم: 1454
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں بحرین کا حاکم مقرر کیا تو ان کو یہ احکامات لکھ کر دیئے (شروع اللہ کے نام سے جو بہت مہربان ہے رحم فرمانے والا ) یہ وہ زکاۃ ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر مقرر کی اور جس کا حکم اللہ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا پس اس حکم کے مطابق جس مسلمان سے زکاۃ مانگی جائے وہ ادا کرے اور جس سے زیادہ مانگی جائے وہ ہرگز نہ دے۔ چوبیسں اونٹوں میں یا ان میں سے کم میں ہر پانچ میں ایک بکری دینی ہوگی۔ پانچ سے کم میں کچھ نہیں جب پچیسں اونٹ ہو جائیں پینتیس اونٹوں تک تو ان میں ایک برس کی اونٹنی دینا ہوگی۔ جب چھتیس اونٹ ہو جائیں پینتالیس تک تو ان میں دو برس کی اونٹنی دینا ہوگی۔ جب چھیالیس اونٹ ہو جائیں ساٹھ اونٹوں تک تو ان میں تین برس کی اونٹنی جفتی کے لائق دینا ہوگی ۔ جب اکسٹھ اونٹ ہو جائیں پچھتر اونٹوں تک تو ان میں چار برس کی اونٹنی دینا ہوگی۔ جب چھہتر اونٹ ہو جائیں نوے اونٹوں تک ان میں دو دو برس کی دو اونٹنیاں دینا ہوں گی جب اکانوے اونٹ ہو جائیں ایک سو بیس اونٹوں تک تو ان میں تین تین برس کی دو اونٹنیاں جفتی کے قابل دینا ہوں گی۔ جب ایک سو بیسں اونٹوں سے زیادہ ہو جائیں تو ہر چالیس اونٹ میں دو برس کی اونٹنی اور ہر پچاس میں تین برس کی اونٹنی دینا ہوگی اور جس کے پاس چار ہی (یا چار سے بھی کم ) اونٹ ہوں تو ان پر زکاۃ نہیں ہے مگر جب مالک اپنی خوشی سے کچھ دے۔ جب پانچ اونٹ ہو جائیں۔ تو ایک بکری دینا ہوگی اور جب جنگل میں چرنے والی بکریاں چالیس ہو جائیں ایک سو بیسں بکریوں تک تو ایک بکری دینا ہوگی جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو جائیں دوسو تک تو دو بکریاں دینا ہوں گی جب دو سو سے زیادہ ہو جائیں تین سو تک تو تین بکریاں دینا ہوں گی جب تین سو سے زیادہ ہو جائیں تو ہر سینکڑے کے پیچھے ایک بکری دینا ہوگی ۔ جب کسی شخص کے چرنے والی بکریاں چالیس سے کم ہوں تو ان میں زکاۃ نہیں ہے مگر اپنی خوشی سے مالک کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اور چاندی میں چالیسواں حصہ زکاۃ میں دینا ہوگا (بشرطیکہ دوسو درہم یا اس سے زیادہ چاندی ہو ) لیکن اگر ایک سو نوے درہم (یا ایک سوننانوے ) برابر چاندی ہو تو زکاۃ نہ ہوگی لیکن اگر مالک اپنی خوشی سے دینا چاہے۔ (تو دے سکتا ہے)۔ “

مصارف زکاة کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ﴾
[التوبة: 60]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”زکاۃ تو صرف فقیروں اور مسکینوں اور ان اہلکاروں کے لیے ہے جو اس (کی وصولی ) پر مقرر ہیں اور ان کے لیے جن کی دلداری مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے اور قرضہ داروں (کے قرض اتارنے) کے لیے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں، (یہ) اللہ کی طرف سے فرض ہے اور اللہ خوب جاننے والا ، اور حکمت والا ہے۔ “

حدیث 35:

«وعن زياد بن الحارث الصدائي رضي الله عنه قال: أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فبايعته فذكر حديثا طويلا قال: فأتاه رجل فقال: أعطني من الصدقة فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله تعالى لم يرض بحكم نبي ولا غيره فى الصدقات حتى حكم فيها هو ، فجزأها ثمانية أجزاء ، فإن كنت من تلك الأجزاء أعطيتك حقك»
صحیح سنن ابی داود کتاب الزكاة، باب من يعطى من الصدقة، رقم: 1630
”اور حضرت زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی حضرت زیاد طویل حدیث بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور عرض کیا: مجھے صدقہ سے کچھ دیجیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ارشاد فرمایا: زکاۃ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نہ تو کسی نبی کے حکم پر راضی ہوا۔ اور نہ ہی کسی غیر کے حکم پر، یہاں تک کہ خود اللہ تعالیٰ نے زکاۃ میں حکم فرمایا اور زکاۃ کے آٹھ مصرف بیان کیے پس اگر تو ان آٹھ میں سے ہے تو میں تجھ کو تیرا حق دوں گا (ورنہ نہیں)۔ “

حدیث 36:

«وعن قبيصة بن مخارق الهلالي رضي الله عنه قال: تحملت حمالة ، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أسأله فيها ، فقال: أقم حتى تاتينا الصدقة ، فنامر لك بها ، قال: ثم قال: يا قبيصة! إن المستلة لا تحل إلا لاحد ثلاثة رجل: تحمل حمالة فحلت له المستلة حتى يصيبها ثم يمسك، ورجل أصابته جائحة اجتاحت ماله فحلت له المسئلة حتى يصيب قواما من عيش ، أو قال: سدادا من عيش ، ورجل أصابته فاقة حتى يقوم ثلاثة من ذوي الحجي من قومه لقد أصابت فلانا فاقة فحلت له المسئلة حتى يصيب قواما من عيش ، أو قال: سدادا من عيش ، فما سواهن من المسئلة، يا قبيصة سحت يأكلها صاحبها سحتا»
صحیح مسلم، کتاب الزكاة، باب من تحله له المسئلة ، رقم: 2404
”اور قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ضامن بنا (قرضدار ہو گیا) ، چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اور اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہمارے پاس ٹھہر جاؤ، یہاں تک کہ صدقہ آجائے ، ہم اس میں سے تم کو دلوا دیں گے، پھر ارشاد فرمایا: اے قبیصہ ! مانگنا حلال نہیں ہے، مگر تین آدمیوں کو ۔ ایک وہ جس نے ضمانت اٹھائی۔ پس اس کے لیے سوال کرنا درست ہے، یہاں تک کہ ضمانت ادا ہو جائے پھر وہ سوال کرنے سے رک جائے۔ دوسرا وہ آدمی جس کو کوئی آفت پہنچی اور اس کا مال واسباب ہلاک ہو گیا، تو اس کے لیے سوال کرنا درست ہے، یہاں تک کہ اسے اتنا مل جائے جس سے اس کی ضرورت پوری ہو جائے ، یا فرمایا جو اس کی حاجت مندی کو دور کر دے۔ اور تیسرا وہ شخص کہ اس کو سخت فاقہ پہنچے، یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین معقول آدمی اس بات کی گواہی دیں کہ فلاں شخص کو سخت فاقہ پہنچا ہے، پس اس کے لیے مانگنا درست ہے، یہاں تک کہ اسے اتنا مل جائے کہ اس کی ضرورت پوری ہو جائے یا فرمایا: حاجت مندی کو دور کرے، اے قبیصہ ! ان تین صورتوں کے علاوہ سوال کرنا حرام ہے، اور ایسا سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے۔“

حدیث 37:

«وعن أبى سعيد الخدري رضي الله عنه قال: أصيب رجل فى عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فى ثمار ابتاعها، فكثر دينه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تصدقوا عليه فتصدق الناس عليه ، فلم يبلغ ذلك وفاء دينه ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لغرمائه: خذوا ما وجدتم ، وليس لكم إلا ذلك»
صحيح مسلم، كتاب المساقاة، باب استحباب الوضع من الدين، رقم: 3981
”اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص کو ان باغات میں نقصان پہنچا جو اس نے خریدے تھے۔ پس وہ بہت زیادہ مقروض ہو گیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسے صدقہ دو۔ لوگوں نے اسے صدقہ دیا، لیکن صدقہ سے اس کا قرض پورا نہ ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا جو ملتا ہے لے لو، اس کے سوا تمہارے لیے کچھ نہیں۔ “

حدیث 38:

«وعنه رضي الله عنه قال: بعث على رضي الله عنه وهو باليمن بذهبة فى تربتها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقسمها رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أربعة نفر: الأقرع بن حابس الحنظلي ، وعيينة بن بدر الفزاري، وعلقمة بن علاثة العامري ثم أحد بني كلاب وزيد الخير الطائي ، ثم أحد بني نبهان قال: فغضبت قريس فقالوا: أتعطى صناديد نجد ، وتدعنا ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني إنما فعلت ذلك لا تألفهم»
صحیح مسلم، كتاب الزكاة، باب اعطاء المؤلفة، رقم: 2451
”’’اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے مٹی میں ملا ہوا کچھ سونا (یعنی کان سے نکلا ہوا) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم فرما دیا: ➊ اقرع بن حابس حنظلی ➋ عیینہ بن بدر فزاری ➌ علقمہ بن علاثہ عامری ➍ ایک آدمی بنی کلاب سے زید خیر الطائی یا پھر بنی نبہان سے، اس پر قریش بہت غضبناک ہوئے اور کہنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نجد کے سرداروں کو دیتے ہیں اور ہم کو نہیں دیتے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں ان کو اس لیے دیتا ہوں کہ ان کے دلوں میں اسلام کی محبت پیدا ہو۔ “

حدیث 39:

«وعن البراء رضي الله عنه قال: جاء رجل إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله دلني على عمل يقربني من الجنة، ويبعدني من النار ، فقال له: اعتق النسمة وفك الرقبة ، فقال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم ! أو ليسا بواحدة؟ قال: لا عتق النسمة أن تفرد بعتقها ، وفك الرقبة أن تعين بثمنها»
مسند احمد: 299/4، سنن دار قطنی: 135/2 – شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح الإسناد کہا ہے۔
”اور حضرت براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: مجھے ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت سے قریب کر دے، اور دوزخ سے دور ہٹا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جان کو آزاد کر اور غلام کو نجات دلا۔ اس نے کہا: یا رسول اللہ ! کیا یہ دونوں ایک ہی نہیں ہیں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں، جان آزاد کرنا یہ ہے کہ تو اکیلا آزاد کرے، غلام کو نجات دلانا یہ ہے کہ تو اس کی قیمت ادا کرنے میں مدد کرے۔ “

حدیث 40:

«وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: بينما نحن جلوس عند النبى صلى الله عليه وسلم إذ جاءه رجل، فقال: يا رسول الله! هلكت، قال: ما لك؟ قال وقعت على امرأتي ، وأنا صائم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هل تجد رقبة تعتقها؟ قال: لا ، قال فهل تستطيع أن تصوم شهرين متتابعين؟ قال: لا ، فقال: فهل تجد إطعام ستين مسكينا؟ قال: لا ، قال: فمكث النبى صلى الله عليه وسلم فبينا نحن على ذلك أتي النبى صلى الله عليه وسلم بعرق فيها تمر، والعرق المكتل، قال: أين السائل؟ فقال: أنا ، قال: خذها ، فتصدق به ، فقال الرجل: أعلى أفقر منى يا رسول الله! فوالله! ما بين لابتيها، يريد الحرتين ، أهل بيت أفقر من أهل بيتي ، فضحك النبى الله صلى الله عليه وسلم حتى بدت أنيابه، ثم قال: أطعمه أهلك»
صحيح البخارى، كتاب الصوم، باب المجامع في رمضان، رقم: 1937
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک صحابی آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہلاک ہو گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا: میں روزے کی حالت میں بیوی سے صحبت کر بیٹھا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تو ایک غلام آزاد کر سکتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دریافت فرمایا: کیا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا بیٹھ جاؤ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر رکے، ہم ابھی اسی حالت میں بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (زکاۃ) کی کھجوروں کا ایک عرق لایا گیا، عرق بڑے ٹوکرے کو کہا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ کھجوریں لے جا اور صدقہ کر دے۔ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا صدقہ اپنے سے زیادہ محتاج لوگوں کو دوں؟ واللہ ! مدینہ کی ساری آبادی میں کوئی گھر میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیں نظر آنے لگیں۔ پھر ارشاد فرمایا: اچھا جاؤ، اپنے گھر والوں کو ہی کھلا دو۔ “

سوال کرنے کی مذمت کا بیان

حدیث 41:

«وعن حكيم بن حزام رضي الله عنه ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: اليد العليا خير من اليد السفلى ، وابدأ بمن تعول، وخير الصدقة عن غنى ، ومن يستعفف يعفه الله، ومن يستغن يغنه الله»
صحیح بخارى، كتاب الزكاة، باب لا صدقة الا عن ظهر غنى ، رقم: 1427
”اور حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے، پہلے اپنے بال بچوں، عزیزوں کو دو، اور عمدہ خیرات وہی ہے جس کو دے کر آدمی مالدار رہے، اور جو کوئی سوال کرنے سے بچنا چاہے گا اللہ تعالیٰ اس کو بچائے گا، اور جو کوئی بے پرواہی کی دعا کرے، اللہ تعالیٰ اسے بے پرواہ کر دے گا۔ “
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے