سیاہ خضاب کی شرعی حیثیت
تحریر: ابن الحسن محمدی

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سر یا ڈاڑھی کے سفید بالوں کو رنگ دینے کا حکم فرمایا ہے۔ یہ حکم استحباب پر محمول ہے۔ حدیث میں اس استحبابی عمل کو سیاہ خضاب سے سرانجام دینے کی ممانعت آئی ہے۔ اس ممانعت کا کیاحکم ہے ؟ سیاہ خضاب حرام ہے یا خلاف ِ اولیٰ ؟ یہ مضمون اسی بارے میں مفصل تحقیق پر مبنی ہے۔ قارئین کرام اس مضمون سے کماحقہ استفادہ کرنے کے لیے بطور تمہید تین باتیں یاد رکھیں۔

ایک یہ کہ قرآن و سنت کا وہی فہم معتبر ہے جو سلف صالحین، یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ دین سے لیا جائے۔ سلف صالحین ساری امت سے بڑھ کر قرآن و سنت کو سمجھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے تھے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ قرآن و سنت کا کوئی حکم فرضیت کے لیے ہو اور سلف صالحین اسے مستحب سمجھتے رہے ہوں اور شریعت کی کوئی ممانعت حرمت کے لیے ہو اور سلف صالحین اسے خلاف اولیٰ ہی کا درجہ دیتے رہے ہوں۔ اسی طرح اس کے برعکس معاملہ ہے۔ اسی لیے بعد میں آنے والے لوگوں کا فہم دین اگر اسلاف امت کے خلاف ہو تو مردود ہو گا۔ زبانِ نبوی سے اسلافِ امت کو خیرالقرون کا جو لقب ملا ہے، اس کا یہی تقاضا ہے۔

دوسرے یہ کہ قرآن و سنت کا ہر حکم فرضیت کے لیے ہوتا ہے، الایہ کہ کسی قرینے سے اس کا استحباب پر محمول ہونا ثابت ہو جائے اور ہر ممانعت حرمت کے لیے ہوتی ہے، الایہ کہ کسی قرینے سے اس کا محض کراہت پر محمول ہونا ثابت ہو جائے۔

تیسرے یہ کہ دلیل صرف کتاب و سنت ہے، البتہ کتاب و سنت کو سمجھنے کے لیے جس طرح لغت اور دیگر علوم و فنون کی ضرورت ہے، اس سے کہیں زیادہ صحابہ و تابعین کے فہم کو مدنظر رکھنا لازمی ہے۔ کسی مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ نصوصِ شرعیہ کو سمجھنے کے لیے اہل لغت کی بات تو مانتا رہے، لیکن اسلاف ِ امت کے قول و فعل کو نظر انداز کرتا رہے۔ بعض لوگ لغت اور اصولِ فقہ جیسے علوم سے کتاب و سنت کے اوامر و نواہی کا درجہ متعین کرنے کو عین شریعت سمجھتے ہیں لیکن صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کے فہم و عمل کے ذریعے ایسا کرنے کو ناجائز اور حرام سمجھتے ہیں۔ یہ انصاف پر مبنی بات نہیں۔

اسی لیے اہل حدیث کا منہج یہ ہے کہ کتاب و سنت کے وہی معانی سمجھے جائیں جو اسلاف ِ امت نے سمجھے ہیں۔ جس حکم شرعی کو اسلاف فرض کا درجہ دیتے تھے، اس کو اہل حدیث فرض کا درجہ دیتے ہیں اور جس کو اسلاف مستحب سمجھتے تھے، اس کو اہل حدیث مستحب ہی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جس ممانعت کو اسلاف حرام کا سمجھتے تھے، اس کو اہل حدیث حرام ہی قرار دیتے ہیں اور جس کو اسلاف صرف خلاف اولیٰ سمجھتے تھے، اس پر اہل حدیث بھی خلاف ِ اولیٰ ہی کا حکم لگاتے ہیں۔ اہل حق نہ تو سلف سے ایک قدم آگے بڑھتے ہیں، نہ ایک قدم پیچھے رہتے ہیں۔ یہی مسلک اہل حدیث ہے۔

اس تمہیدکے بعد ہمارے لیے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ شریعت اسلامیہ میں سیاہ خضاب لگانے کی گنجائش موجود ہے۔ اس بارے میں ممانعت حرمت پر دلالت نہیں کرتی۔ اسلاف امت کا فہم و عمل یہی بتاتا ہے۔

اسلاف ِ امت کا عمل پیش کرنے سے پہلے قارئین کرام وہ احادیث بھی ملاحظہ فرما لیں جن سے سیاہ خضاب کی ممانعت و حرمت ثابت کی جاتی ہے :

مرفوع احادیث اور ان کا صحیح معنی و مفہوم

حدیث نمبر :
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ والے دن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والدِ گرامی سیدنا ابوقحافہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت، میں لائے گئے۔ ان کے سر اور ڈاڑھی کے بال بالکل سفید تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
غيروا هذا بشىء، واجتنبوا السواد
’’ اس سفیدی کو کوئی بھی رنگ دے دو، البتہ سیاہ رنگ سے اجتناب کرو۔“ [صحيح مسلم 199/2، ح : : 2102]
↰ اس حدیث میں دو باتوں کا حکم موجود ہے، ایک بالوں کو رنگنے کا اور دوسرے سیاہ خضاب سے بچنے کا۔ جس طرح بہت سے اسلاف بالوں کو نہیں رنگتے تھے اور ان کے فہم و عمل کی بنا پر بالوں کو رنگنا فرض نہیں، اسی طرح بہت سے اسلاف سیاہ خضاب لگاتے تھے اور اس کی اجازت بھی دیتے تھے، لہٰذا سلف کے فہم و عمل کی بنا پر سیاہ خضاب بھی حرام نہیں۔ اس حدیث ِ پاک میں موجود یہ دونوں حکم استحباب ہی پرمحمول ہیں۔

حدیث نمبر :
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يكون قوم يخضبون فى آخر الزمان بالسواد، كحواصل الحمام، لا يريحون رائحة الجنة
’’ آخری زمانے میں ایک قوم ایسی ہو گی جو کبوتر کے پوٹے کی طرح سیاہ خضاب لگائے گی۔ یہ لوگ جنت کی خوشبو نہیں پائیں گے۔“ [سنن أبى داؤد : 4213، سنن النسائي : 138/8، ح : 5078، مسند الإمام أحمد : 273/1، المعجم الكبير للطبراني : 413/12، التاريخ الكبير لابن أبى خيثمة : 909، المختارة للضياء المقدسي : 233/10، ح : 244، شرح السنة للبغوي: 3180، و سندهٔ صحيح]
اس حدیث کے بارے میں :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هذا حديث حسن غريب
’’ یہ حدیث حسن غریب ہے۔“ [سير أعلام النبلاء : 4 /339]
◈ حافظ عراقی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’ جید“ کہا ہے۔ [تخريج احياء علوم الدين :143/1]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’ قوی“ قرار دیا ہے۔
↰ اس کے راوی عبدالکریم جزری کو حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے عبدالکریم بن ابوالمخارق سمجھ کر اس پر جرح کی ہے۔ [الموضوعات : 55/3]
حالانکہ اس حدیث کی بعض ’’ صحیح“ سندوں میں عبدالکریم کے جزری ہونے کی صراحت موجود ہے۔

فائدہ : مسند اسحاق بن راہویہ كما فى ”النكت الظراف على الاطراف لابن حجر : 424/4“ میں یہ الفاظ ہیں :
يخضبون لحاهم بالسواد. ’’ وہ اپنی ڈاڑھیوں کو سیاہ خضاب لگائیں گے۔“
بعض لوگ اس حدیث پاک سے سیاہ خضاب کی ممانعت و حرمت پر دلیل لیتے ہیں، لیکن ان کا یہ استدلال کمزور ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلاف امت اور محدثین کرام میں سے کوئی بھی سیاہ خضاب کی ممانعت و حرمت کا قائل نہیں۔ دوسری یہ کہ اہل علم نے اس حدیث کا یہ معنی و مفہوم بیان نہیں کیا، بلکہ بعض اہل علم نے اس سے سیاہ خضاب کی حرمت و کراہت کے استدلال کا ردّ کیا ہے۔

اہل علم کی تصریحات

اہل علم کی تصریحات ملاحظہ فرمائیں :
◈ مشہور محدث، امام ابوبکر ابن ابوعاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فإنه لا دلالة فيه على كراهة الخضاب بالسواد، فيه الإخبار عن قوم هذا صفتهم
’’ اس حدیث میں سیاہ خضاب کی کراہت پر کوئی دلیل نہیں۔ اس
میں تو ایک قوم کے بارے میں خبر دی گئی ہے، جن کی نشانی یہ ہو گی۔“ [فتح الباري فى شرح صحيح البخاري لابن حجر : 354/10]

◈ امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فعقلنا بذلك أن الكراهة إنما كانت لذلك، لأنه أفعال قوم مذمومين، لا لأنه فى نفسه مذموم، وقد خضب ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بالسواد، منهم عقبة بن عامر.
’’ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ کراہت اس لیے ہے کہ حدیث میں سیاہ خضاب قابل مذمت لوگوں کا فعل ہے۔ اس لیے نہیں کہ سیاہ خضاب لگانا فی نفسہٖ مذموم ہے۔“ [شرح مشكل الاثار: 313/9، ح 3699]

◈ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (508- 597 ہ) فرماتے ہیں :
واعلم أنه قد خضب جماعة من الصحابة بالسواد، منهم الحسن والحسين وسعد ابن أبى وقاص، وخلق كثير من التابعين، وإنما كرهه قوم لما فيه من التدليس، فأما أن يرتقي إلى درجة التحريم، إذ لم يدلس، فيجب فيه هذا الوعيد، فلم يقل بذلك أحد، ثم نقول على تقدير الصحة : يحتمل أن يكون المغنى : لا يريحون رائحة الجنة، لفعل يصدر منهم، أو اعتقاد، لا لعلة الخضاب، ويكون الخضاب سيماهم، فعرفهم بالسيما، كما قال فى الخوارج : سيماهم التحليق، وإن كان تحليق الشعر ليس بحرام.
’’ آپ کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے سیاہ خضاب استعمال کیا ہے۔ ان میں سیدنا حسن و حسین سیدنا سعد بن ابووقاص رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ بہت سے تابعین کرام بھی ایسا کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے اسے اس لیے مکروہ سمجھا ہے کہ اس میں ایک قسم کا دھوکا ہے۔ رہی یہ بات کہ سیاہ خضاب کے ذریعے دھوکے کا ارادہ نہ بھی ہو تو اس کا استعمال حرمت کے درجے تک پہنچ جائے اور اس کے استعمال کنندہ پر جنت کی خوشبو سے بھی محرومی کی وعید صادق آ جائے، تو یہ بات آج تک کسی اہل علم نے نہیں کہی۔ اگر یہ حدیث صحیح ہو تو اس معنی کا احتمال ہے کہ وہ اپنے کسی غلط عقیدے یا عمل کی بنا پر جنت کی خوشبو سے محروم رہیں گے، سیاہ خضاب کی بنا پر نہیں۔ یہ خضاب تو ان کی ایک نشانی ہے جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پہچان کے لیے بتلائی ہے، جس طرح خارجیوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی نشانی سر کے بالوں کو منڈانا ہے۔ اس کے باوجود سر کے بالوں کو منڈانا حرام نہیں۔“ [الموضوعات : 55/3]
↰ ثابت ہوا کہ مذکورہ حدیث میں موجود وعید سیاہ خضاب کی وجہ سے نہیں، ورنہ ’’ آخری زمانے“ کی قید کا کیا معنی ؟ سیاہ خضاب کا استعمال کرنے والے تو صحابہ کرام سے لے کر ہر دور میں موجود رہے ہیں ! ! !

◈ شارحِ ترمذی، علامہ محمدعبدالرحمٰن، مبارک پوری رحمہ اللہ (1353ھ) فرماتے ہیں :
فالاستدلال بهذا الحديث على كراهة الخضب بالسواد ليس بصحيح
’’ اس حدیث سے سیاہ خضاب کے مکروہ ہونے کی دلیل لینا صحیح نہیں۔“ [تحفة الأحوذي : 55/3]

حدیث نمبر :
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن أحسن ما غير به هذا الشيب الحناء والكتم
’’ بڑھاپے کے سفید بالوں کو رنگنے کے لیے بہترین چیز مہندی اور کتم کا آمیزہ ہے۔“ [سنن أبى داؤد : 4205، مسند الإمام أحمد : 147/5، 150، وسنده صحيح]
↰ اس حدیث کے راوی سعید بن ایاس جریری آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے،
البتہ معمر اور عبدالوارث نے ان سے اختلاط سے پہلے احادیث سنی ہیں، لہٰذا یہ حدیث صحیح ہے۔
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ [1753] نے ’’ حسن صحیح“ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ [5474] نے ’’ صحیح“ قرار دیا ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) ’’ کتم“ کے بارے میں فرماتے ہیں :
والكتم نبات باليمن، يخرج الصبغ أسود، يميل إلى الحمرة، وصبغ الحناء أحمر، فالصبغ بهما معا يخرج بين السواد والحمرة.
”کتم یمن کے علاقے کی ایک بوٹی ہے جو سرخی مائل سیاہ رنگ دیتی ہے۔ مہندی کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔ یوں کتم اور مہندی مل کر سیاہی اور سرخی کا درمیانی رنگ دیتے ہیں۔“ [فتح الباري : 355/10]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاہی اور سرخی کا درمیانی رنگ سفید بالوں کو دینے کے لیے بہتر اور احسن رنگ ہے۔ اس سے کالے خضاب کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
ان صحیح احادیث اور ان کے بارے میں اہل علم کی رائے کے بعد سیاہ خضاب کے بارے میں سلف صالحین کا عمل اور فہم ملاحظہ فرمائیں۔

سیاہ خضاب اور سلف صالحین

صحابہ كرام اور سياه خضاب :
➊ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
اتی عبيد الله ابن زياد برأس الحسين عليه السلام، فجعل فى طست، فجعل ينكت، وقال فى خسنه شيئا، فقال أنس : كان أشبههم برسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان مخضوبا بالوسمة .
’’ عبیداللہ بن زیاد کے پاس سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک لایا گیا۔ اسے ایک پلیٹ میں رکھ دیا گیا۔ عبیداللہ زمین کریدنے لگا اور اس نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے حسن کی تعریف کی۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سب صحابہ کرام سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے سر کو سیاہ خضاب لگا ہوا تھا۔“ [صحيح البخاري:530/1، ح : 3748]

➋ امام ابوجعفر باقر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
إن الحسن بن على كان يخضب بالسواد.
’’ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما سیاہ خضاب سے اپنے بالوں کو رنگ دیتے تھے۔“ [المعجم الكبير للطبراني : 22/3، ح : 2535، معرفة الصحابة لأبي نعيم الاصبهاني: 1750، وسندهٔ صحيح]

➌ حی بن یومن، ابوعشانہ معافری بیان کرتے ہیں :
رأيت عقبة بن عامر الجهني، يصبغ بالسواد.
’’ میں نے سیدنا عقبہ بن عامر حہنی رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے، آپ سیاہ خضاب استعمال کرتے تھے۔“ [مصنف ابن أبى شيبة : 437/8، التاريخ الكبير لابن أبى خيثمة : 1391، الطبقات الكبرى لا بن سعد:345/7، الثقات لابن حبان : 280/3، المعجم الكبير للطبراني: 268/17، وسندهٔ صحيح متصل]

ایک روایت میں ہے :
انهٔ كان يصبغ شعر راسه بشجرة يقال لها :، كاشد السواد
’’ آپ اپنے سر کے بالوں کو ایک۔۔۔ نامی درخت سے رنگ دیتے تھے۔ یہ سخت سیاہ رنگ ہوتا تھا۔“ [مصنف ابن ابي شيبة: 437/8، و سندهٔ صحيح]

تابعين عظام اور سياه خضاب :
درج ذیل تابعین کرام بھی سیاہ خضاب لگاتے تھے :
➍ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف، قرشی (م:104/94ھ) [الطبقات الكبري لابن سعد : 119/5، و سندهٔ صحيح]
➎ محمد بن اسحاق بن یسار، مدنی (م:150ھ) [المعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان الفسوي :137/1، وسنده صحيح]
➏ علی بن عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب، قرشی، ہاشمی (118ھ) [الطبقات الكبري لابن سعد : 240/5، و سندهٔ صحيح]
➐ ابوقلابہ، عبداللہ بن زید بن عمرو، جرمی، بصری (م:104 ھ) [الطبقات الكبري لابن سعد :138/7، و سندهٔ صحيح]
➑ ابوعبداللہ، بکر بن عبداللہ، مزنی، بصری (م:106ھ) [الطبقات الكبري لابن سعد :158/7، و سندهٔ صحيح]
➒ قاضی، محارب بن دثار، سدوسی، کوفی (م:116ھ) [مسند على بن الجعد: 725، و سندهٔ حسن]
➓ ابوبکر، محمد بن مسلم بن عبیداللہ بن عبداللہ بن شہاب، زہری، مدنی (م:125ھ) [جامع معمر بن راشد :155/11، و سندهٔ صحيح]
⓫ موسیٰ بن طلحہ بن عبیداللہ، قرشی (م:103ھ) [مصنف ابن ابي شيبة: 436/8، الطبقات الكبري لابن سعد : 124/5، و سندهٔ حسن]
⓬ نافع بن جبیر بن مطعم بن عدی، قرشی، نوفلی (م:99ھ) [مصنف ابن ابي شيبة: 430/8، الطبقات الكبري لابن سعد : 158/5، و سندهٔ حسن]
⓭ امام شعبہ بن حجاج کے استاذ عمر بن ابوسلمہ ( ؟ ) [تهذيب الاثار للطبري : 895، و سندهٔ صحيح، الجزء المفقود]
⓮ ابوخطاب، امام قتادہ بن دعامہ بن قتادہ، سدوسی، بصری (م: بعد 110ھ) نے فرمایا :
رخص فى صباغ الشعر بالسواد للنساء.
”عورتوں کے لیے بالوں کو سیاہ خضاب دینے میں رخصت ہے۔“ [جامع معمر بن راشد : 20182، وسندهٔ صحيح]

⓯ عبداللہ بن عون بیان کرتے ہیں :
كانوا يسالون محمدا عن الخضاب بالسواد، فيقول : لا أعلم به بأسا.
”لوگ محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ (م : 110ھ) سے سیاہ خضاب کے بارے میں سوال کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں اس میں کوئی حرج نہیں جانتا۔“
[مصنف ابن أبى شيبة : 436/8، وسنده صحيح]

تابعین کے کچھ متعارض اقوال :
سابق تصریحات قارئین ملاحظہ فرما چکے ہیں، اس کے برعکس :
◈ امام عطاء بن ابورباح رحمہ اللہ (27-115ھ) سے سیاہ خضاب استعمال کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :
هو مما أحدث الناس، قد رأيت نفرا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما رأيت أحدا منهم يختضب بالوسمة، ما كانوا يخضبون إلا بالحناء والكتم وهذه الصفرة.
”یہ تو لوگوں نے نیا طریقہ بنایا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی ایک جماعت کو دیکھا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی سیاہ خضاب نہیں لگاتا تھا۔ صحابہ کرام مہندی اور کتم (سیاہ رنگ دینے والا درخت) ملا کر اور اس زرد رنگ کے ساتھ بالوں کو رنگ دیتے تھے۔“ [مصنف ابن أبى شيبة : 438/8، وسنده صحيح]

امام عطاء رحمہ اللہ نے اپنے علم کے مطابق یہ بیان دیا ہے۔ ہم صحابہ کرام کی ایک جماعت سے سیاہ خضاب کا استعمال ثابت کر چکے ہیں۔ امام عطاء رحمہ اللہ نے ان صحابہ کرام کو نہیں دیکھا ہو گا جو سیاہ خضاب استعمال کر تے تھے۔

◈ امام سعید بن جبیر تابعی رحمہ اللہ (م : 95 ھ ) سے سیاہ خضاب کے بارے میں پوچھا: گیا تو انہوں نے فرمایا :
يكسو الله العبد فى وجهه النور، ثم يطفئهٔ بالسواد.
”اللہ تعالیٰ بندے کے چہرے کو منور کرتا ہے، پھر بندہ سیاہ خضاب کے ساتھ اس نور کو بجھا دیتا ہے۔“ [مصنف ابن أبى شيبة : 439/8، وسندۂ صحيح]

خضاب بالوں کو لگایا جاتا ہے، چہرے کو نہیں۔ مہندی اور کتم ملا کر خضاب لگایا جائے تو زرد سا رنگ نکلتا ہے اور یہ سنت سے بھی ثابت ہے۔ کیا کہا جا سکتا ہے کہ بند ے نے نورانی چہرے کو زرد کر لیا ؟ جو صحابہ کرام سیاہ خضاب استعمال کرتے تھے، ان کے چہروں سے نور ختم نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا یہ قول ناقابل التفات ہے۔

◈ امام مکحول تابعی رحمہ اللہ (م : بعد 110ھ) نے سیاہ خضاب کو مکروہ قرار دیا۔ [مصنف ابن ابي شيبة : 438/8، وسندهٔ صحيح]
اس سے کراہت تنزیہی، یعنی خلاف اولیٰ ہونا مراد ہے۔ حدیث رسول میں موجود ممانعت سے یہی مراد ہے۔ اسلاف امت میں سے کسی نے سیاہ خضاب کو ناجائز، ممنوع اور حرام قرار نہیں دیا۔

أئمہ دین اور سیاہ خضاب :
◈ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (م : 294 ھ) سے پوچھا گیا کہ عورت سیاہ خضاب استعمال کر سکتی ہے تو انہوں نے فرمایا :
لا بأس بذلك للزوج أن تتزين له .
”عورت اپنے خاوند کے لیے مزین ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔“ [الوقوف والترجل من الجامع لمسائل الإمام أحمد لأبي بكر الخلال : 142، وسنده صحيح]

◈ امام مالک رحمہ اللہ (93-179ھ) سیاہ خضاب کے بارے میں فرماتے ہیں :
لم أسمع فى ذلك شيئا معلوما، وغير ذلك من الصبغ أحب إلي وترك الصبغ كله واسع، إن شاء الله، ليس على الناس فيه ضيق.
”میں نے اس بارے میں کوئی متعین بات نہیں سنی۔ سیاہ کے مقابلے میں دوسرے رنگ مجھے زیادہ پسند ہیں۔ بالوں کو بالکل نہ رنگنے کی بھی گنجائش ہے۔ ان شاء اللہ ! بالوں کو خضاب لگانے کے بارے میں لوگوں پر کوئی تنگی نہیں رکھی گئی۔“ [المؤطا للامام مالک برواية يحيي : 3497]

سیاہ خضاب کے بارے میں ضعیف روایات
اب بطور فائدہ اس بارے میں ”ضعیف“ روایات ملاحظہ فرمائیں :
روایت نمبر :

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يكون فى آخر الزمان قوم، يسودون أشعارهم، لا ينظر الله إليهم يؤم القيامة .
”آخری زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو اپنے بالوں کو سیاہ کیا کریں گے۔ روز قیامت اللہ تعالیٰ ان کی طرف (نظر رحمت سے ) نہیں دیکھے گا۔“ [المعجم الأوسط للطبراني : 136/4، ح : 3803، الوقوف والترجل من الجامع لمسائل الإمام أحمد لأبي بكر الخلال : 160]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
➊ اس کا راوی عبدالکریم بن ابوالمخارق ”ضعیف“ ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقد ضعفہ الجمهور.
”اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [اتخاف المهرة : 719/11]
◈ علامہ عینی حنفی کہتے ہیں :
وإن كان الجمهور على تضعيفه.
”جمہور محدثین اس کو ضعیف ہی قرار دیتے ہیں۔“ [النهاية فى شرح الهداية : 582/11]
➋ عبدالوہاب بن عطاء خفاف راوی ”مدلس“ ہے۔ سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔
➌ امام طبرانی کے استاذ علی بن سعید رازی متكلم فيه ہیں۔ حافظ ہیثمی نے انہیں ”ضعیف ”قرار دیا ہے۔ [مجمع الزوائد : 124/3، 357/9، 110/10]
لہٰذا علامہ ہیثمی کا اسی کتاب [مجمع الزوائد : 161/5] میں اس کی سند کو جيد کہنا صحیح نہیں۔

روایت نمبر :

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
كنا يوما عند النبى صلى الله عليه وسلم، فدخلت عليه اليهود، فرآهم بيض اللحى، فقال : ما لكم لا تغيرون ؟ فقيل : أنهم يكرهون، فقال النبى صلى الله عليه وسلم ! لكنكم غيروا، وإياي والسواد .
”ایک روز ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے کہ یہود کے کچھ لوگ آپ کے پاس آئے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان کی ڈاڑھیاں سفید دیکھیں تو فرمایا : ”تمہیں کیا ہے کہ انہیں رنگ نہیں دیتے ؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہود بال رنگنے کو پسند نہیں کرتے۔ اس پر آپ نے فرمایا : تم بالوں کو رنگو اور سیاہ رنگ سے بچو۔“ [المعجم الأوسط للطبراني : 51/1، ح : 142]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ”ہے۔
اس میں ابن لہیعہ راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“، ’’ مدلس“ اور ”مختلط“ ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هو ضعيف بالاتفاق، لاختلال ضبطه.
”یہ راوی حافظے کی خرابی کی بنا پر بااتفاق ضعیف ہے۔“ [خلاصة الأحكام : 625/2]
◈ حافظ ہیشمی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
وابن لهيعة ضعفهٔ الجمهور.
”ابن لہیعہ کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [مجمع الزوائد : 375/10]
◈ حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ضعفهٔ الجمهور. ”اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔“ [فتح المغیث : 221]
◈ حافظ ابناسی لکھتے ہیں :
ضعفهٔ الجمهور. ”اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [الشذا الفياح من علوم ابن الصلاح : 201/1]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعيف الحديث. ”اس کی حدیث ضعیف ہوتی ہے۔“ [تغليق التعليق : 239/3]

روایت نمبر :

سیدنا عمرو بن عبسہ سلمی سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
من شاب شيبة فى الإسلام – أو قال : فى سبيل الله – كانت له نورا يؤم القيامة، ما لم يخضبها أو ينتفها، قلث لشهر : إنهم يصفرون ويخضبون بالحناء ؟ قال : أجل، قال : كأنه يعني السواد.
’’ جس شخص کے بال اسلام میں یا اللہ کی راہ میں سفید ہو جاتے ہیں، اس کے بال قیامت کے دن اس کے لیے روشنی بن جائیں گے بشرطیکہ وہ ان کو نہ رنگے اور نہ اکھیڑے۔ (راوی حدیث عبد الجلیل بن عطیہ کہتے ہیں : ) میں نے (اپنے استاذ) شہر (بن حوشب) سے پوچھا: مسلمان سفید بالوں کو زرد اور مہندی رنگ دیتے تھے ؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ شاید آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی مراد سیاہ خضاب ہو۔“ [مسندالطيالسي : 1248،مسند أبى يعلي كما فى جامع المسانيد والسنن لابن كثير : 587/6، ح : 8352، شعب الإيمان للبيهقي : 386/6، ح : 5972]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
➊ عبدالجلیل بن عطیہ راوی ”مدلس“ ہے۔ اس نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
➋ شہر بن حوشب (موثق، حسن الحدیث) کا سیدنا عمرو بن عبسہ سے سماع و لقاء نہیں۔ امام ابوحاتم رازی اور امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کا یہی فیصلہ ہے۔ [کتاب المراسیل لابن أبی حاتم : 89]
یوں یہ روایت ”منقطع“ ہونے کی بنا پر ”ضعیف“ ہے۔

روایت نمبر :

سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
غيروا الشيب، ولا تقربوه السواد، ولا تشبهوا باعدائكم من المشركين، وخير ما غيرتم به الشيب الحناء والكتم).
”سفید بالوں کو رنگ دیا کرو لیکن سیاہ رنگ کو بالوں کے قریب نہ لے جاؤ اور اپنے دشمن مشرکین کی مشابہت نہ کرو۔ بالوں کو رنگنے کے لیے سب سے بہتر رنگ مہندی اور کتم کو ملا کر بنتا ہے۔“ [المعجم الاوسط للطبراني : 227/5، ح : 5160]

تبصرہ :
یہ سند باطل ہے۔ اس کا راوی سلم بن سالم بلخی باتفاق محدثین ضعیف ہے۔

روایت نمبر :

سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من خضب بالسواد، سود الله وجهه يؤم القيامة
”جس نے سیاہ خضاب استعمال کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا چہرہ سیاہ کر دے گا۔“ [مسند الشامیین للطبرانی : 652، الکامل لابن عدی : 222/3، الناسخ والمنسوخ لابن شاہین، ص : 462، ح : 614، الأمالى للشجری : 249/2-250]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔ اس کی سند میں زہیر بن محمد خراسانی جمہور کے نزدیک ”ثقہ“ ہے، لیکن اس سے اہل شام کی روایت ”ضعیف“ ہوتی ہے، جیسا کہ :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رواية أهل الشام عنه غير مستقيمة.
”اہل شام کی اس سے بیان کردہ روایت صحیح نہیں ہوتی۔“ [تقريب التهذيب : 2049]
یہ روایت بھی اہل شام کی ہے، لہٰذا یہ جرح مفسر ہے اور روایت ”ضعیف“ ہے۔
◈ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ (195- 277 ھ) اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں :
هو حديث موضوع . ”یہ من گھڑت حدیث ہے۔“ [علل الحديث لابن أبى حاتم : 299/2]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وسنده لين . ”اس کی سند کمزور ہے۔“ [فتح الباري : 355/10]

روایت نمبر :

عامر شعبی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں :
إن الله لا ينظر إلى من يخضب بالشواد، يؤم القيامة
”جو شخص سیاہ خضاب لگاتا ہے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے ( نظر رحمت سے ) نہیں دیکھے گا۔“ [الطبقات الكبري لابن سعد : 340/1]

تبصرہ :
یہ سخت ”ضعیف“ روایت ہے، کیونکہ :
➊ اسے بیان کرنے والے عامر شعبی رحمہ اللہ صحابی نہیں، تابعی ہیں اور وہ بلاواسطہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں۔ یوں یہ روایت ”مرسل“ ہے۔
➋ لیث بن ابوسلیم راوی جمہور محدثین کرام کے نزدی ”ضعیف“ اور ”مختلط“ ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ حافظ عراقی رحمہ اللہ نے فرماتے ہیں :
ضعفه الجمهور. ”یہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔“ [تخريج أحاديث الإحياء : 170/2]
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
وصعفه الأكثر. ”اسے اکثر محدثین سے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [مجمع الزوائل : 1 / 90-91]
◈ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ کہتے ہیں :
ضعيف عند الجمهور. ”یہ جمہور کے ہاں ضعیف راوی ہے۔ “ [البدر المنير : 104/2]
◈ حافظ بوصیری رحمہ اللہ کہتے ہیں :
ضعفہ الجمهور. ”اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [زوائد ابن ماجه : 63/1، ح : 54]
➌ عبدالرحمن بن محمد محاربی راوی ”مدلس“ ہے اور اس نے سماع کی تصریح نہیں کی۔ یوں یہ روایت کئی وجوہ سے ”ضعیف“ ہے۔

روایت نمبر :

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فإذا خطب أحدكم امرأة، وقد خضب بالسواد،فليعلمها، لا يغرنها.
”تم میں سے کوئی جب کسی عورت کو نکاح کا پیغام دے، اگر اس نے سیاہ خضاب لگا رکھا ہو تو اسے بتا دے۔ اسے دھوکہ ہرگز نہ دے۔“ [السنن الكبري للبيهقي : 290/7]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ اس کا راوی عیسیٰ بن میمون مدنی ”ضعیف“ ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں :
عيسي بن ميمون ضعيف ”عیسیٰ بن میمون مدنی ضعیف راوی ہے۔“

روایت نمبر :

سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من صبغ بالسواد، لم ينظر الله إليه يوم القيامة ”جو شخص سیاہ خضاب لگائے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔ ؟“ [مسند الشاميين للطبراني : 306/2، ح : 1393، تاريخ دمشق لابن عساكر : 114/34]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ اس کا راوی تھی مثنیٰ بن صباح جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف“ اور ”مختلط“ ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف عند الجمهور. ”یہ جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔“ [فيضں القدير للمناوي : 69/1]
◈ علامہ ہیثمی نے اسے ”متروک“ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے :
والجمهور على ضعفه ”جمہور محدثین اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔“ [مجمع الزوائل : 70/5]

روایت نمبر :

امام حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يكون أقوام يغيرون البياض بالسواد، (قال مرة) يغيرون بياض اللحية والرأس بالسواد، يسود الله وجوههم يؤم القيامة . ”کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو اپنے سر اور ڈاڑھی کے سفید بالوں کو سیاہ خضاب لگائیں گے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے چہرے سیاہ کر دے گا۔“ [الوقوف والترجل من الجامع لمسائل الإمام أحمد لأبي بكر الخلال : 143]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
➊ امام حسن بصری رحمہ اللہ تابعی ہیں اور ڈائریکٹ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کر رہے ہیں۔ اس طرح یہ روایت ”مرسل“ ہونے کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔
➋ زہیر بن محمد کا حسن بصری سے سماع مطلوب ہے۔

روایت نمبر :

صہیب رومی سے مروی سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان احسن ما اختضبتم به لهذا السواد، أرغب لنسائكم فيكم، وأهيب لكم فى صدور عدوكم . ”بالوں کو رنگنے کے لئے سب سے اچھا رنگ سیاہ ہے۔ یہ تمہیں بیویوں کے لئے زیادہ دلکش بناتا ہے اور تمہارے دشمنوں کے دلوں میں تمہارے زیادہ رعب کا باعث بنتا ہے۔“ [سنن ابن ماجه : 3625]

تبصرہ :
یہ روایت سخت ”ضعیف“ ہے۔ اس کا راوی دفاع بن دغفل جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [تقريب التهذيب : 1827]
اس کا دوسرا راوی عبدالحمید بن صفی ”لین الحدیث“ ہے۔ [تقريب التهذيب : 3765]
اس تیسرا راوی صفی بن صہیب ”مجہول الحال“ ہے۔ [تقريب التهذيب : 2961]
اس میں اور بھی علتیں موجود ہیں۔

روایت نمبر :

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے :
انهٔ عرضت عليه مولاة لهٔ أن يصبغ لحيته، فقال : ما أريد تطفي نوري، كما أطفا فلان نوره.
”ان کی لونڈی نے انہیں سیاہ خضاب لگانے کی اجازت چاہی تو انہوں نے فرمایا : میں نہیں چاہتا ہے کہ تو میرا نور اس طرح بجھا دے جس طرح فلاں شخص نے اپنا نور بجھا لیا ہے۔“ [معرفة الصحابة لأبي نعيم الأصبهاني : 182]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کونکہ اس میں بقیہ بن ولید (موثق، حسن الحدیث) کی ”تدلیس“ ہے۔ سماع کی صراحت نہیں مل سکی۔
بقیہ بن ولید کے بارے میں :
◈ حافظ ابن ناصر الدین دمشقی (777-842 ھ) فرماتے ہیں :
وثقه الجمهور عن الثقات، بلفظ يدل على السماع .
”اسے جمہور محدثین نے اس وقت قابل اعتبار سمجھا ہے، جب یہ ثقہ راویوں سے روایت کرے اور سمال کی صراحت کرے۔“ ؟ [توضيح المشتبه : 59/2]

◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرمائے ہیں :
وثقه الجمهور فيما سمعه من الثقات.
”اسے جمہور محدثین نے ان روایات میں ثقہ قرار دیا ہے جو اس نے ثقہ راویوں سے خود سن رکھی ہوں۔“ [الكاشف : 106-107]

◈ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ (723-804 ھ) فرماتے ہیں :
لكن بقية رمي بتدليس التسوية، فلا ينفعه بتصريحه بالحديث.
”بقیہ بن ولید پر تدلیس تسویہ کا الزام ہے، لہٰذا اس کا (صرف اپنے استاذ سے) سماع کی تصریح کر دینا مفید نہیں۔“ [البدر المنير : 509/4]

روایت نمبر :

ابوقبیل حئ بن ہانی تابعی کا بیان ہے :
دخل عمرو بن العاص على عمر بن الخطاب، وقد صبغ راسه ولحيته بسواد، فقال عمر: من انت؟ قال: أنا عمرو بن العاص، قال عمر : عهدي بك شيخا، وأنت اليوم شاب، عزمت عليك، إلا ما خرجت، فغسلت هذا.
”سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے اپنے سر اور ڈاڑھی کو سیاہ خضاب لگا رکھا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ کون ہیں؟ عرض کیا : میں عمرو بن عاص ہوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: میں نے تو آپ کو بڑھاپے کی حالت میں دیکھا تھا، لیکن اب آپ جوان نظر آتے ہیں۔ میں آپ پر یہ لازم کرتا ہوں کہ یہاں سے جائیں اور اس رنگ کو دھو ڈالیں۔‘‘ [فتوح مصر والمغرب لأبي القاسم عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الحكم، ص: 207]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔ اس میں ابن لہیعہ موجود ہے، جو جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف ‘‘ اور’’مدلس“ ہے۔ كما مر

روایت نمبر :

کعب احبار تابعی فرماتے ہیں:
و ليصبغن أقوام بالسواد، لا ينظر الله إليهم يؤم القيامة.
”لوگ ضرور سیاہ خضاب استعمال کریں گے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔ ‘‘ [حلية الأولياء لأبي نعيم الأصبهاني 377/5]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ:
➊ اس کا راوی عقیل بن مدرک سلمی ”مجہول الحال“ ہے۔
سوائے ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات: 294/7 ) کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ”مقبول‘‘ (مجہول الحال) ہی قرار دیا ہے۔ [تقريب التهذيب : 4663]
➋ عقیل بن مدرک کا استاذ ولید بن عامر یزنی بھی ”مجہول الحال“ ہے۔ اس کی توثیق بھی سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ [الثقات:552/7] کے کسی نے نہیں کی۔

فائده

امام جعفر صادق رحمہ اللہ (م :148 ھ) سے منقول ہے:
الخضاب مكبدّة للعدو، مرضاة للزوجة.
”خضاب دشمن کو پریشان کرنے اور بیوی کو راضی کرنے کا ذریعہ ہے۔“ [شعب الإيمان للبيهقي : 400/8، ح : 5995]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔ اس کے راوی علی بن محمد بن عقبہ شیبانی کی توثیق نہیں مل سکی۔

فائده

ضمرہ بن ربیعہ بیان کرتے ہیں:
سمعت عبدالعزيز بن أبى رواد يذكر، قال : الصفرة خضاب الإيمان، والحمرة خضاب الإسلام، والسواد خضاب الشيطان.
”میں نے عبدالعزیز بن ابو رواد (م:159ھ) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ زردی ایمان کا، سرخی اسلام کا اور سیاہی شیطان کا خضاب ہے۔“ [تاريخ ابن أبى خيثمة:383، وسندہ صحيح]

تبصرہ :
یہ شاذ قول ہے جس میں عبدالعزیز بن ابو رواد کا کوئی سلف نہیں۔
جس کام کو صحابہ کرام اور تابعین کی ایک جماعت نے کیا ہو، اسے شیطانی عمل قرار دینا مناسب نہیں۔ یوں یہ قول ناقابل التفات ہے۔

الحاصل :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیاہ خضاب کے استعمال کی ممانعت وارد ہے، لیکن اسلاف امت یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کی ایک جماعت سے سیاہ خضاب کے استعمال کا جواز ثابت ہے۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالوں کو رنگنے کا حکم ثابت ہے لیکن اسلاف امت کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکم استحباب پر محمول ہے، اسی طرح اسلاف امت کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاہ خضاب کی ممانعت بھی کراہت پر محمول ہے۔ اسے حرام کہنے سے سلف کی مخالفت لازم آتی ہے۔ اسلاف امت سے بڑھ کر دین متین کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ اس لئے سیاہ خضاب کو زیادہ سے زیادہ مکروہ کہا جا سکتا ہے۔

نوٹ: اس موضوع سے متعلق ایک اور علمی تحریر یہاں ملاحظہ کیجیئے۔ (ایڈمن توحید ڈاٹ کام)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!