عہد جاہلیت کے علماء کی عادت یہ تھی کہ وہ اپنی دینی کتابوں میں تحریف کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ ٭ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَـذَا مِنْ عِنْدِ اللَّـهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [2-البقرة:78]
”اور بعض ان میں سے ان پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات باطل کے سوا اللہ کی کتاب سے واقف ہی نہیں اور وہ صرف ظن سے کام لیتے ہیں تو ان لوگوں پر افسوس جو اپنے ہاتھ سے تو کتاب لکھتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آئی ہے تاکہ اس کے عوض تھوڑی سی قیمت حاصل کر لیں۔ ان پر افسوس ہے اس لیے کہ (بے اصل باتیں) اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں، ان پر افسوس ہے کہ ایسے کام کرتے ہیں۔“
اور لوگ اس زمانے کے قاضیوں پر نظر ڈالیں گے اور احکامات الہیٰ کے ساتھ ان کا مذاق اور دلائل و آیات کا اپنی مرضی کے مطابق ڈال لینا اور رشوت لے کر حق کو بدل دینا، حق کو ناحق بنا دینا وغیرہ جیسے ان کے اعمال پر غور کریں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ بدعنوانیوں کا ایک بحر بیکراں ہے جس کے ساحل کا پتہ نہیں اور یہی حال بدعتیوں اور غالی قبر پرستوں کا بھی ہے جن کے حالات دوسرے مقامات پر بھی بیان ہوئے ہیں۔