إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
دنیا کا دھوکہ
قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ ﴿٥﴾
(35-فاطر:5)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اے لوگو! یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے تو کہیں دنیا کی زندگی تمھیں دھوکے میں نہ ڈال دے، اور کہیں وہ دھو کے باز تمھیں اللہ کے بارے میں دھوکا نہ دے جائے۔ “
حدیث : 1
عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اقتربت الساعة ، ولا يزداد الناس على الدنيا إلا حرصا، ولا يزدادون من الله إلا بعدا
مستدرك حاكم : 461/5، رقم : 7987 ، سلسله احاديث الصحيحة، رقم : 1510 ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت قریب آچکی ہے اور لوگ دنیا ہی کے لالچی بن کر اللہ تعالیٰ سے دور جا رہے ہیں۔
دنیا کے بجائے آخرت کی فکر
قَالَ اللهُ تَعَالَى: رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ﴿١٠١﴾
(12-يوسف:101)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے میرے رب! بے شک تو نے مجھے حکومت سے حصہ دیا اور باتوں کی اصل حقیقت میں سے کچھ سکھایا، آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے! دنیا اور آخرت میں تو ہی میرا یار و مددگار ہے، مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔“
حدیث :2
وعن زيد بن ثابت صلى الله عليه وسلم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من كانت الدنيا همه ، فرق الله عليه أمره، وجعل فقره بين عينيه، ولم يأته من الدنيا إلا ما كتب له، ومن كانت الآخرة نيته ، جمع الله له أمره، وجعل غناه فى قلبه ، وأتته الدنيا وهى راغمة
سنن ترمذى كتاب صفة القيامة والرقائق والورع ، رقم : 2465، سلسله احادیث الصحيحة، رقم الحديث : 949، 950 .
”اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کو صرف دنیا کی فکر ہوگی اللہ اس کا کاروبار پریشان کر دے گا، اور ہر وقت اُسے فقر کا اندیشہ رہے گا اور دنیا میں سے بھی اُسے صرف وہی ملے گا جو اُس کے نصیب میں ہوگا۔ جس کا مقصد آخرت ہوگا۔ اللہ اُس کا کاروبار ٹھیک کر دے گا اور اُس کے دل میں بے نیازی پیدا کر دے گا اور دنیا بھی چارونا چار اُس کو ملے گی ۔ “
دنیا لھو ولعب ہے
قالَ اللهُ تَعَالَى: وَمَا هَٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ ۚ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿٦٤﴾
(29-العنكبوت:64)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور دنیا کی یہ زندگی نہیں ہے مگر ایک دل لگی اور کھیل اور بے شک آخری گھر ، یقیناً وہی اصل زندگی ہے، اگر وہ جانتے ہوتے ۔“
حدیث :3
وعن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : صوتان ملعونان فى الدنيا والآخرة، مزمارا عند نعمة، ورنة عند مصيبة
صحيح الترغيب والترهيب، رقم : 3527.
” اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو آوازیں دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی ہیں، خوشی کے وقت گانا اور موسیقی اور مصیبت کے وقت چیخنا چلانا۔“
دنیا ملعون ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ ﴿١٤﴾
(3-آل عمران:14)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”لوگوں کے لیے نفسانی خواہشوں کی محبت مزین کی گئی ہے، جو عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان لگائے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی ہیں۔ یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور اللہ ہی ہے جس کے پاس اچھا ٹھکانا ہے۔“
حدیث :4
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ألا إن الدنيا ملعونة، ملعون ما فيها إلا ذكر الله وما والاه أو عالما أو متعلما
سنن ابن ماجه کتاب الزهد باب مثل الدنيا ، رقم : 4412، جامع ترمذی، کتاب الذهد، باب 14، رقم الحديث : 2322۔ محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرما رہے تھے: خبردار بے شک دنیا لعنت کی گئی ہے۔ اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے۔ سوائے اللہ کے ذکر کے اور سوائے اُس کے جس کو اللہ تعالیٰ دوست رکھے اور سوائے عالم کے اور (دین) سیکھنے والے کے “
دنیا کی زیب و زینت
قَالَ اللهُ تَعَالَى:الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا ﴿٤٦﴾
(18-الكهف:46)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے ہاں ثواب میں بہتر اور امید کی رو سے زیادہ اچھی ہیں۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ ۚ وَمَا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ ﴿٢٤﴾
(45-الجاثية:24)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور انھوں نے کہا ہماری اس دنیا کی زندگی کے سوا کوئی ( زندگی ) نہیں، ہم (یہیں) جیتے اور مرتے ہیں اور ہمیں زمانے کے سوا کوئی ہلاک نہیں کرتا ، حالانکہ انھیں اس کے بارے میں کچھ علم نہیں، وہ محض گمان کر رہے ہیں۔“
حدیث : 5
وعن أبى سعيد الخدري رضى الله عنه يحدث: أن النبى صلى الله عليه وسلم جلس ذات يوم على المنبر ، وجلسنا حوله فقال: إن مما أخاف عليكم من بعدى ما يفتح عليكم من زهرة الدنيا وزينتها
صحیح بخاری، کتاب الزكاة، رقم الحديث : 1465.
”اور سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے اور ہم آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے آپ نے ارشاد فرمایا: میں اپنے بعد تمہارے بارے میں جس چیز سے زیادہ ڈرتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم پر دنیا کی فروانی اُس کی زیب و زینت کھول دی جائے گی۔ “
حدیث : 6
وعن عون بن أبى جحيفة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إنها ستفتح عليكم الدنيا حتى ننجدوا بيوتكم كما ننجدا الكعبة، قلنا: ونحن على ديننا اليوم؟ قال: وأنتم على دينكم اليوم ، قلنا: فنحن يومئذ خير ، أم ذلك اليوم؟ قال: بل أنتم اليوم خير
سلسلة الصحيحة، رقم : 2486 ، البزار كشف الأستار، رقم: 3671، والبحر الذخار ، رقم : 4227 ، معجم کبیر طبرانی : 108/22 .
”اور عون بن ابی حجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم پر دنیا کھول دی جائے گی، یہاں تک کہ تم اپنے گھروں کو کعبہ کی طرح فرنیچر اور پردوں وغیرہ سے آراستہ و پیراستہ کرو گے، ہم نے کہا: اس وقت ہم آج کے دین پر ہوں گئے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا: اس وقت اپنے دین پر ہو گے۔ ہم نے کہا: ہم اُن دنوں بہتر ہوں گے یا آج کے دن بہتر ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلکہ تم آج کے دن بہتر ہو۔ “
آخرت کو یا د رکھتے ہوئے دنیا میں کام آنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَمَا هَٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ ۚ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿٦٤﴾
(29-العنكبوت:64)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور دنیا کی یہ زندگی نہیں ہے مگر ایک دل لگی اور کھیل، اور بے شک آخری گھر ، یقیناً وہی اصل زندگی ہے، اگر وہ جانتے ہوتے۔“
حدیث : 7
وعن أبى هريرة رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من نفس عن مؤمن كربة من كرب الدنيا نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة ، ومن يسرعلى معسريسر الله عليه فى الدنيا والآخرة، ومن ستر مسلما ستره الله فى الدنيا والآخرة، والله فى عون العبد ما كان العبد فى عون أخيه ، ومن سلك طريقا يلتمس فيه علما سهل الله له به طريقا إلى الجنة، وما اجتمع قوم فى بيت من بيوت الله، يتلون كتاب الله ويتدارسونه بينهم ، إلا نزلت عليهم السكينة، وغشيتهم الرحمة ، وحفتهم الملائكة ، وذكرهم الله فيمن عنده، ومن بطابه علمه لم يسرع به نسبه
صحیح مسلم ، كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار، رقم الحديث : 2699.
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مومن کی دنیا میں تکلیف رفع کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی تکلیفوں میں سے تکلیف رفع فرمائے گا۔ جو شخص کسی تنگدست پر آسانی کرے اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا و آخرت میں آسانی فرمائے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کی عیب پوشی کرے اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی عیب پوشی فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔ جو شخص طلب علم کی خاطر کوئی راہ چلے اس کے عوض اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرمائے گا۔ جب کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے کسی گھر میں کتاب اللہ کی تلاوت اور تعلیم کے لیے جمع ہوتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر اپنے ہاں موجود مخلوق میں کرتا ہے اور جسے خود اس کا عمل ہی پیچھے چھوڑ دے اس کا نسب اسے آگے نہیں لا سکتا۔ “
طلب دنیا کے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَا قَوْمِ إِنَّمَا هَٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ ﴿٣٩﴾
(40-غافر:39)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے میری قوم! یہ دنیا کی زندگی تو معمولی فائدے کے سوا کچھ نہیں اور یقیناً آخرت، وہی رہنے کا گھر ہے۔“
حدیث : 8
وعن أبى موسى رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من أحب دنياه أضر بآخرته ، ومن أحب آخرته أضر بدنياه، فآثروا ما يبقى على ما يفنى
مسند أحمد : 412/4- مستدرك حاكم : 308/4 – صحيح ابن حبان (الإحسان) : 47/2۔ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر دنیا سے محبت کی اس نے اپنی آخرت کو خراب کرلیا، اور جس نے آخرت کے ساتھ محبت کی اس نے اپنی دنیا کو نقصان پہنچایا پس تم باقی رہنے والی چیزوں کو فنا ہونے والی چیزوں پر ترجیح دو “
دنیا سے تعلق کی مثال
حدیث : 11
وعن عبد الله رضي الله عنه قال: اضطجع النبى صلى الله عليه وسلم على حصير ، فأثر فى جلده ، فقلت: بأبي وأمي يا رسول الله لو كنت آذنتنا ففرشنا لك عليه شيئا يقيك منه ، فقال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : ما أنا والدنيا؟ إنما أنا والدنيا كراكب استظل تحت شجرة ، ثم راح وتركها
سنن ابن ماجه ، كتاب الذهد ، رقم الحديث : 4109، سلسلة الصحيحة، رقم :439۔
” اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے اور چٹائی کے نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدن مبارک پر نظر آ رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ہمیں حکم فرماتے تو آپ کے لیے بستر بچھاتے جس پر آپ آرام فرماتے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرا دنیا سے کیا واسطہ؟ میرا دنیا سے بس اتنا ہی تعلق ہے جتنا کوئی مسافر کسی درخت کے سائے تلے چند لمحے آرام کرتا ہے پھر اسے چھوڑ کر آگے روانہ ہو جاتا ہے۔ “
مومن کو اس کی نیکیوں کا دنیا اور آخرت میں بدلہ ملے گا
حدیث : 12
وعن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله لا يظلم مؤمنا حسنة، يعطى بها فى الدنيا ويجزى بها فى الآخرة، وأما الكافر فيطعم بحسنات ما عمل بها لله فى الدنيا، حتى إذا أفضى إلى الآخرة ، لم تكن له حسنة يجزى بها
صحیح مسلم صفات المنافقين رقم الحديث : 7089.
” اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ مومن کی کسی نیکی پر ظلم نہیں کرے گا، دنیا میں اسے (رزق وغیر کی) عطا کی صورت میں اس کا بدلہ ملتا ہے جب کہ آخرت میں جزا و ثواب کی صورت میں اسے بدلہ ملے گا۔ البتہ کافرکو اپنی کی ہوئی نیکی کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے حتی کہ روز قیامت اس کے پاس کوئی نیکی نہیں ہوگی کہ جس کا اسے بدلہ دیا جائے۔ “
دنیا ولی مصائب کی آسانی کے لیے دعا
حدیث :13
وعن ابن عمر، قال: قلما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوم من مجلس حتى يدعو بهؤلاء الدعوات لأصحابه: اللهم اقسم لنا من خشيتك ما يحول بيننا وبين معاصيك ، ومن طاعتك ما تبلغنا به جنتك ، ومن اليقين ما تهون به علينا مصيبات الدنيا، ومتعنا بأسماعنا وأبصارنا وقوتنا ما أحييتنا، واجعله الوارث منا واجعل ثأرنا على من ظلمنا، وانصرنا على من عادانا ، ولا تجعل مصيبتنا فى ديننا ، ولا تجعل الدنيا أكبر همنا ولا مبلغ علمنا، ولا تسلط علينا من لا يرحمنا
سنن ترمذی، کتاب الدعوات، باب دعاء اللهم اقسم لنا الخ، رقم : 3502۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر مجلس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ کلمات لکھاتے : اے اللہ ! ہمیں اپنا ڈر نصیب فرما جو ہمارے اور تیری نافرمانی کے کاموں میں رکاوٹ بن جائے، اور اپنی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرما جو ہمیں تیری جنت میں پہنچادے، اور ایسا یقین نصیب فرما جو ہم پر دنیا کی مصیبتیں آسان کر دے۔ (اے اللہ ! ) جب تک تو ہمیں زندہ رکھے ہمیں ہماری سماعت، بصارت اور طاقت سے فائدہ عطا فرما، اور اسی (بہرہ مندی) کو ہمارا وارث بنا۔ جو کوئی ہم پر ظلم کرے اس سے ہمارا انتقام لے، جو کوئی ہم سے دشمنی رکھے اس پر ہماری مدد فرما، اور دین میں مصیبتیں نہ ڈالنا، اور نہ ہی دنیا کو ہمارا مقصود اور نہ (دنیا کو ) ہمارے علم کی انتہا بنا اور ہم پر کسی ایسے شخص کو مسلط نہ کرنا جو ہم پر رحم نہ کرے۔“
دنیا میں کسی کی پردہ پوشی ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ ﴿١﴾
(21-الأنبياء:1)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا ہے، جبکہ وہ غفلت میں پڑے اعراض کر رہے ہیں۔ “
حدیث :14
وعن أبى هريرة رضی اللہ عنہ ، أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: لا يستر عبد عبدا ه فى الدنيا، إلا ستره الله يوم القيامة
مسند احمد، رقم : 9237۔ احمد شاکر نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے۔
” اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو بندہ بھی دنیا میں کسی بندے کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔“
صحت وسکون ہزار نعمت ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى:إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ ﴿٧﴾ أُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٨﴾
(10-يونس:8، 7)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بے شک وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے اور وہ دنیاوی زندگی پر راضی اور اسی پر مطمئن ہیں اور وہ لوگ جو ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔ وہی ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے ان ( عملوں) کی وجہ سے جو وہ کماتے تھے۔“
حدیث : 15
وعن عبيد الله بن المحصن الخطمي، وكانت له صحبة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من أصبح منكم آمنا فى سربه معافى فى جسده، عنده قوت يومه ، فكأنما حيزت له الدنيا
سنن الترمذى، كتاب الزهد، رقم : 2346۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے حسن کہا ہے۔
” اور حضرت عبید اللہ بن محصن الخطمی صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ وہ بنفسہ پر امن اور تندرست ہو اور اس کے پاس ایک دن کی غذا موجود ہوتو گویا اس کے لیے پوری دنیا کو جمع کر دیا گیا۔ “
دنیا سے محبت اور موت سے نفرت
قَالَ اللهُ تَعَالَى : اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ﴿٢٠﴾
(57-الحديد:20)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”جان لو کہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل ہے اور دل لگی ہے اور بناؤ سنگار ہے اور تمھارا آپس میں ایک دوسرے پر بڑائی جتانا ہے اور اموال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے، اس بارش کی طرح جس سے اگنے والی کھیتی نے کاشت کاروں کو خوش کر دیا، پھر وہ پک جاتی ہے، پھر تو اسے دیکھتا ہے کہ زرد ہے، پھر وہ چورا بن جاتی ہے اور آخرت میں بہت سخت عذاب ہے اور اللہ کی طرف سے بڑی بخشش اور خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی دھو کے کے سامان کے سوا کچھ نہیں ۔“
حدیث : 16
وعن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يوشك الأمم أن تداعى عليكم كما تداعى الأكلة إلى قصعتها فقال قائل: ومن قلة نحن يومئذ؟ قال: بل أنتم يومئذ كثير ، ولكنكم غثاء كغثاء السيل، ولينزعن الله من صدور عدوكم المهابة منكم ، وليقذفن الله فى قلوبكم الوهن فقال قائل: يا رسول الله وما الوهن؟ قال: حب الدنيا وكراهية الموت
سنن ابوداؤد ، کتاب الملاحم، باب في تداعى الرحم على الاسلام، رقم : 4297، السلسلة الصحيحة، رقم : 956.
”اور سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عنقریب (کافر) امتیں تمہارے اوپر چڑھ دوڑنے کے لیے ایک دوسرے کو اس طرح بلائیں گی جس طرح کھانے والے ایک دوسرے کو دستر خوان کی طرف بلاتے ہیں۔ ایک آدمی نے عرض کیا: شاید اس وقت ہم تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: نہیں ! بلکہ تم کثرت میں ہو گے، لیکن تمہاری حیثیت پانی کے اوپر بہنے والے جھاگ کی مانند ہوگی، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے دلوں سے تمہارا رعب ختم کر دے گا اور تمہارے دلوں میں وہن پیدا فرما دے گا۔ ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! وہن کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت ۔ “
دنیا کی حیثیت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ وَذَكِّرْ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا ۖ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ ﴿٧٠﴾
(6-الأنعام:70)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور (اے نبی !) ان لوگوں کو چھوڑ دیجیے جنھوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا ہے اور دنیا کی زندگی نے انھیں دھوکے میں ڈال دیا ہے، اور آپ اس ( قرآن ) کے ذریعے سے نصیحت کرتے رہے، تا کہ کوئی شخص اپنے کرتوتوں کے وبال سے ہلاک نہ کیا جائے۔ اللہ کے سوا کوئی اس کا دوست اور سفارشی نہ ہوگا۔ اور اگر وہ بدلے میں ہر طرح کا فدیہ دے تو وہ بھی اس سے نہیں لیا جائے گا، یہی وہ لوگ ہیں جو کچھ انھوں نے کمایا، اس کی وجہ سے انھیں ہلاک کر دیا گیا۔ اور جو وہ کفر کرتے رہے ہیں اس کی وجہ سے انھیں دوزخ میں تیز گرم پانی پینے کو ملے گا، اور درد ناک عذاب ہوگا۔“
حدیث : 17
وعن سهل بن سعد رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لو كانت الدنيا تعدل عند الله جناح بعوضة ما سقى كافرا منها شربة ماء
سنن الترمذى، كتاب الزهد، رقم الحديث : 2320 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 940 ۔
”اور حضرت سہل بن سعد رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر اس دنیا کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی کا فر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پلاتا ۔ “
حدیث :18
وعن المستورد بن شداد، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: والله ما الدنيا فى الآخرة إلا مثل ما يجعل أحدكم إصبعه فى اليم، فلينظر بم يرجع
صحیح مسلم، رقم : 2858/55 ، سنن ترمذی، رقم : 2323.
”اور حضرت مستور رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ جیسے کوئی سمندر میں انگلی ڈبو کر نکال لے اور موازنہ کرے کہ اس کی انگلی کو جس قدر پانی لگا اسے سمندر سے کیا نسبت ہے؟ “
حدیث : 19
وعن أبى هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : الدنيا سجن المومن وجنة الكافر
صحیح مسلم کتاب ،الذهد باب الدنيا سجن المؤمن وجنة الكافر، رقم : 2956.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔ “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا سے تعلق
قَالَ اللهُ تَعَالَى: زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا ۘ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴿٢١٢﴾
(2-البقرة:212)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”جن لوگوں نے کفر کیا، ان کے لیے دنیا کی زندگی سجا دی گئی ہے اور وہ ان لوگوں سے مذاق کرتے ہیں جو ایمان لائے ہیں اور جولوگ متقی ہیں وہ قیامت کے دن ان سے بلند مرتبہ ہوں گے اور اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔“
حدیث : 20
وعن أبى هريرة رضی اللہ عنہ ، قال: ما شبع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأهله ثلاثا تباعا من خبز البر حتى فارق الدنيا
سنن ترمذی، رقم : 2359۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل خانہ نے تین دن تک مسلسل گندم کی روٹی سیر ہو کر نہیں کھائی، حتی کہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔ “
دنیا مومن کے لیے بندی خانہ اور کافر کے لیے مثل جنت
قَالَ الله تَعَالَى: زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ ﴿١٤﴾
(3-آل عمران:14)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”لوگوں کے لیے نفسانی خواہشوں کی محبت مزین کی گئی ہے، جو عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان لگائے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی ہیں۔ یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور اللہ ہی ہے جس کے پاس اچھا ٹھکانا ہے۔“
حدیث : 21
وعن جابر بن عبد الله ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بجدي أسك ميت قال: أيكم يحب ان هذا له بدرهم ، فقالوا: ما نحب أنه لنا بشيء، قال: فوالله للدنيا أهون على الله من هذا عليكم
صحیح مسلم، کتاب الزهد ، باب الدنيا سجن للمؤمن وجنة للكافر، رقم : 2957.
”اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکری کے کان کٹے ، مردہ بچے کے پاس سے گزرے اور ارشاد فرمایا: تم میں سے کون اسے ایک درہم میں لینا پسند کرے گا؟ صحابہ نے کہا ہم تو اسے بلا قیمت بھی لینا پسند نہیں کرتے۔ ( کیونکہ یہ بے وقعت اور بے حقیقت ہے۔) آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی قسم ! تمہارے نزدیک جس قدر یہ بے وقت اور بے حقیقت ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا اس سے بھی زیادہ بے حقیقت اور بے وقعت ہے۔ “
دنیا اللہ کو نا پسند ہے
قالَ اللهُ تَعَالَى: وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ﴿١٣١﴾
(20-طه:131)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور (اے نبی ! ) ان چیزوں کی طرف آپ اپنی نگاہیں نہ اٹھا ئیں جو چیزیں زندگانی دنیا کی آرائش کی ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہیں، تاکہ ہم انھیں ان کے ذریعے سے آزمائیں، اور آپ کے رب کا رزق بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔“
حدیث : 22
وعن قتادة بن النعمان أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا أحب الله عبدا حماه الدنيا كما يظل أحدكم يحمي سقيمه الماء
سنن الترمذى، كتاب الطب، باب ما جاء في الحمية، رقم : 2036۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور سید نا قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو اسے دنیا سے یوں محفوظ رکھتا ہے جیسے تم بیمار کو پانی سے بچاتے ہو۔“
اراده آخرت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُّؤَجَّلًا ۗ وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا ۚ وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ ﴿١٤٥﴾
(3-آل عمران:145)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور کوئی جاندار اللہ کے حکم کے بغیر مر نہیں سکتا، اس نے موت کا وقت لکھا ہوا ہے اور جو کوئی دنیا کا بدلہ چاہتا ہو تو ہم اسے دنیا ہی میں کچھ دے دیتے ہیں اور جو کوئی آخرت کا بدلہ چاہتا ہو تو ہم اسے اس میں سے کچھ دے دیتے ہیں اور ہم شکر ادا کرنے والوں کو اچھی جزا دیں گے۔“
حدیث : 23
وعن جابر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يود أهل العافية يوم القيامة حين يعطى أهل البلاء الثواب لو أن جلودهم كانت قرضت فى الدنيا بالمقاريض
سنن الترمذی، ابواب الزهد، رقم : 2402 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 2206.
”اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عافیت پانے والے قیامت کے دن مصائب و آلام کا ثواب دیکھ کر خواہش کریں گے؛ کاش! دنیا میں ان کی کھالیں قینچی سے کاٹ دی جاتیں۔ “
دنیا حقیر شے ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: أُولَٰئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ ﴿٢٠٢﴾
(2-البقرة:202)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”انھی لوگوں کے لیے ان کی کمائی کا حصہ ہے اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ “
حدیث : 24
وعن المستورد بن شداد، قال: كنت مع الركب الذين وقفوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على السخلة الميتة ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أترون هذه هانت على أهلها حين ألقوها . قالوا: من هوانها ألقوها يا رسول الله ، قال: فالدنيا أهون على الله من هذه على أهلها
سنن الترمذی، ابواب الزهد، رقم : 2321۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
”اور سیدنا مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں ان لوگوں کے ساتھ تھا جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مردہ بکری کے بچے پر کھڑے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم اس مردہ بکری کے بچے کو دیکھ رہے ہو کہ یہ اپنے مالک کے نزدیک کس قدر حقیر ہوگا، جب اس نے اس کو پھینکا ہوگا۔ انہوں نے کہا: اس نے اس کو حقیر سمجھ کر ہی پھینکا ہے اے اللہ کے رسول! نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس مردہ بکری کے بچے سے بھی زیادہ حقیر ہے۔
موت کی سکرات کو یاد کرنا ہے
حدیث : 25
وعن أبى قتادة بن ربعي الأنصاري أنه كان يحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر عليه بجنازة. قال: مستريح ومستراح منه . قالوا يا رسول الله ما المستريح والمستراح منه؟ قال: العبد المؤمن يستريح من نصب الدنيا وأذاها إلى رحمة الله والعبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد والشجر والدواب
صحیح بخاری ، کتاب الرقاق، باب سكرات الموت، رقم : 6512.
” اور حضرت ابو قتادہ بن ربعی انصاری رضی اللہ عنہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آرام پانے والا ہے یا آرام دینے والا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: آرام پانے والے اور آرام دینے والے سے کیا مراد ہے؟ آپصلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن آدمی مرنے کے بعد دنیا کے مصائب و آلام سے نجات پاکر اللہ کی رحمت میں آرام پاتا ہے اور فاجر آدمی کے مرنے سے لوگ ، شہر، درخت اور چوپائے سب آرام پاتے ہیں۔ “
بالآخر موت آنی ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ﴿١٨٥﴾
(3-آل عمران:185)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”ہر کوئی موت کا ذائقہ چکھنے والا ہے، بے شک قیامت کے دن تمھیں پورے پورے اجر دیے جائیں گے۔ پھر جسے آگ سے دور کھا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا تو وہ یقیناً کامیاب ہو گیا، اور دنیا کی زندگی تو دھو کے ہی کا سامان ہے۔“
حدیث : 26
وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنه قال: أخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بمنكبي فقال: كن فى الدنيا كأنك غريب أو عابر سبيل . وكان ابن عمر يقول: إذا أمسيت فلا تنتظر الصباح – وإذا أصبحت فلا تنتظر المساء . وخذ من صحتك لمرضك ومن حياتك لموتك
صحیح بخاری، باب قول النبي كن في الدنيا، رقم : 6414.
”اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھے کو پکڑ کر فرمایا: (اے ابن عمر!) دنیا میں ایک اجنبی یا راہ چلتے مسافر کی طرح رہو اور ابن عمر کہا کرتے تھے: جب تو شام کرے تو صبح کا انتظار نہ کر اور جب صبح کرے تو شام کا منتظر نہ ہو اور اپنی تندرستی کے وقت اپنی بیماری کا کچھ سامان کر اور اپنی زندگی میں اپنی موت کی تیاری کر ۔ “
حدیث : 27
وعن أبى سعيد الخدري رضي الله عنه قال: خطب النبى صلى الله عليه وسلم فقال: إن الله سبحانه خير عبدا بين الدنيا وبين ما عنده ، فاختار ما عند الله فبكى أبو بكر الصديق رضي الله عنه ، فقلت فى نفسى ما يبكي هذا الشيخ؟ إن يكن الله خير عبدا بين الدنيا وبين ما عنده ، فاختار ما عند الله، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم هو العبد، وكان أبو بكر أعلمنا! فقال يا أبا بكر ، لا تبك ، إن أمن الناس على فى صحبته وماله أبو بكر ، ولو كنت متخذا خليلا من أمتي لاتخذت أبا بكر ، ولكن أخوة الإسلام ومودته ، لا يبقين فى المسجد باب إلا سد إلا باب أبى بكر
صحیح بخاری ، کتاب الصلاة، رقم : 466.
” اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو دنیا اور آخرت کے بارے میں اختیار دیا ہے ( کہ ان دونوں میں سے جسے چاہتا ہے پسند کر لے ) لیکن اس نے اللہ کے پاس جانے کو پسند کیا ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بات سن کر رونے لگے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تعجب کیا اور کہنے لگے : اس بوڑھے ابوبکر کو کیا ہو گیا؟ اللہ کے پیغمبر نے تو ایک آدمی کی بات کی ہے اور یہ بوڑھا ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگ گیا ہے؟ تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ آدمی اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جن کو اللہ نے یہ اختیار دیا، تو تب آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اے ابوبکر! تم کیوں روتے ہو؟ بے شک لوگوں میں سے سب سے زیادہ مجھ پر آپ کے احسان ہیں، اگر میں کسی کو اپنا خلیل (اللہ کے بعد ) بناتا تو تجھے بناتا، لیکن اسلامی اخوت ومحبت ہے۔ مسجد نبوی میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام دروازے (صحابہ کے گھروں کے ) بند کر دیے جائیں آپ کے دروازے کے علاوہ ۔ “
مومن اور کافر کی روحیں آخرت کی راہوں پر
حدیث : 28
وعن البراء بن عازب، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: وإن العبد الكافر إذا كان فيل انقطاع من الدنيا واقبال من الآخرة نزل إليه من السماء ملائكة سود الوجوه ، معهم المسوح ، فيجلسون منه مد البصر ، ثم يجيء ملك الموت حتى يجلس عند رأسه فيقول: آيتها النفس الخبيثة ، أخرجى إلى سخط من الله وغضب. قال: فتفرق فى جسده، فيتزعها كما ينتزع السفود من الصفوف المبلول، فيأخذها ، فإذا أخذها لم يدعوها فى يده طرفة عين حتى يجعلوها فى ثلاث المسوح ، ويخرج منها كانتن ريح جيفة وجدت على وجه الأرض ، فيصعدون بها ، فلا يمرون بها على ملأ من الملئكة إلا قالوا: ما هذا الروح الخبيت؟ فيقولون فلان بن فلان ، بأقبح أسمائه التى كان يسمى بها فى الدنيا، حتى ينتهى به إلى السماء الدنيا فيستفتح له ، فلا يفتح له. ثم قرأ رسول الله : ﴿لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ﴾ (7-الأعراف:40) فيقول الله عز وجل: اكتبو كتابه فى سجين فى الأرض السفلى فتطرح روحه طرحا . ثم قرأ ﴿وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ ﴾ (22-الحج:31)
مسند أحمد : 278/4 ، مسند أبوداؤد طیالسی، رقم : 753 ، مصنف ابن أبي شيبة: 380/3، مستدرك حاكم : 37/1، 401۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا: کا فر آدمی جب دنیا سے کوچ کرنے لگتا ہے، اور آخرت کی طرف روانہ ہوتا ہے تو اس کی طرف سیاہ چہرے والے فرشتے نازل ہوتے ہیں، ان کے پاس ٹاٹ (کے کفن) ہوتے ہیں، اور وہ اس سے حد نگاہ کے فاصلہ پر بیٹھ جاتے ہیں ، پھر ملک الموت آتا ہے اور اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے، اور کہتا ہے: اے خبیث روح! نکل (اور چل) اللہ کے غصے اور غضب کی طرف۔ روح جسم کے اندر جاتی ہے اور فرشتے اسے باہر کھینچتے ہیں، جیسے کانٹے دار لوہے کی سیخ گیلی اون سے باہر نکالی جاتی ہے۔ فرشتہ اس کی روح نکال لیتا ہے تو دوسرے فرشتے لمحہ بھر کے لیے اسے ملک الموت کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے ، بلکہ اسے ٹاٹ (کے کفن )میں لپیٹ لیتے ہیں۔ روئے زمین پر کسی مردار سے اُٹھنے والی بدترین سڑاند جیسی بد بو اس روح سے آ رہی ہوتی ہے۔ فرشتے اسے لے کر اوپر (آسمان کی طرف) لے جاتے ہیں (راستے میں ) جہاں کہیں ان کا گزر مقرب فرشتوں پر ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں یہ کسی خبیث (روح) کی بدبو ہے۔ جواب میں فرشتے کہتے ہیں : کہ یہ فلاں ابن فلاں کی روح ہے؟ بدترین نام جو دنیا میں لیا جاتا تھا، یہاں تک کہ فرشتے اسے لے کر آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں۔ فرشتے آسمان کا دروازہ کھولنے کی درخواست کرتے ہیں لیکن دروازہ نہیں کھولا جاتا۔ پھر رسول اکرم علی علیم نے یہ آیت پڑھی: ”( کافروں کے لیے ) آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے ، نہ ہی وہ جنت میں داخل ہوں گے، حتی کہ سوئی کے ناکے سے اونٹ گزر جائے ۔“ (الاعراف: 40) پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوتا ہے،سب سے نچلی زمین میں موجود تھین میں اس کا اندراج کرلو اور کافر کی روح بری طرح زمین پر شیخ دی جاتی ہے۔ اس کے بعد رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی: ”جس نے اللہ سے شرک کیا وہ آسمان سے گر پڑا۔ اب اسے پرندے اچک لیں، یا ہوا اسے کسی دور دراز مقام پر پھینک دے۔“ (الحج: 31)
کفار کے لیے دنیا کی نعمتیں
حدیث : 29
وعن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع على حصير وتحت رأشه وسادة من أدم حشوها ليف فجلست فأدنى عليه إزاره وليس عليه غيره وإذا الحصير قد أثر فى جنبه فنظرت ببصرى فى خزانة رسول الله فإذا أنا بقبضة من شعير نحو الصاع ومثلها قرضا فى ناحية الغرفة وإذا أفيق معلق قال: فابتدرت عيناي قال ما يبكيك يا ابن الخطاب قلت: يا نبي صلى الله عليه وسلم وما لي لا أبكي وهذا الحصير قد أثر فى جنبك وهذه خزانتك لا أرى فيها إلا ما ارى وذاك قيصر وكسرى فى الثمار والأنهار وأنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وصفوته وهذه خزانتك فقال يا ابن الخطاب ألا ترضى أن تكون لنا الآخرة ولهم الدنيا؟ قلت : بلى
صحیح مسلم، کتاب الطلاق ، رقم : 3691 .
” اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، میں بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تہبند اوپر کر لیا، تہبند کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی دوسرا کپڑا نہیں تھا۔ چٹائی پر لیٹنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر نشان پڑ گئے تھے۔ میں نے کاشانہ نبوت میں نظر دوڑائی تو چند مٹھی جو، ایک صاع ( پونے تین کلو) کے قریب تھے، کچھ پتے اور ایک کچے چھڑے کا ٹکڑا لٹکا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابن خطاب ! کیوں روتے ہو؟ میں نے عرض کیا کیوں نہ روؤں یہ ایک چٹائی ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر نشان ڈال دیئے ہیں اور آپ کے گھر کا سارا اثاثہ یہی ہے جو میں دیکھ رہا ہوں جبکہ قیصر و کسری مال و دولت میں عیش کر رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اور برگزیدہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف یہ چند چیزیں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اے ابن خطاب! کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ ہمارے لیے آخرت کی نعمتیں ہوں اور ان (کافروں) کے لیے دنیا کی نعمتیں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، میں راضی ہوں۔“
دنیا سے بے رغبتی
حدیث : 30
وعن ابن مسعود، قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : لا تتخذوا الضيعة فترغبوا فى الدنيا
سنن ترمذی، ابواب الزهد، رقم : 2328 ، مسند أحمد : 377/1، مسند حمیدی ، رقم : 122 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 12 .
”اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے محسن اعظم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم دنیا کو اس طرح حاصل نہ کرو، کہ اس میں منہمک ہو جاؤ “
آخرت میں دنیا کی مثال
حدیث :31
وعن سهل قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: موضع سوط فى الجنة خير من الدنيا وما فيها ، ولغدوة فى سبيل الله أو روحة خير من الدنيا وما فيها
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم الحديث : 6415.
” اور حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ جنت میں ایک کوڑے جتنی جگہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے سب سے بہتر ہے . اور اللہ کے راستے میں صبح کو یا شام کو تھوڑا سا چلنا بھی دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔“
لمبی امیدوں کا بیان
حدیث :32
وعن عبد الله رضي الله عنه قال: خط النبى صلى الله عليه وسلم خطا مربعا، وخط خطا فى الوسط خارجا منه ، وخط خططا صغارا إلى هذا الذى فى الوسط من جانبه الذى فى الوسط، وقال: هذا الإنسان وهذا أجله محيط به أو قد أحاط به ، وهذا الذى هو خارج أمله وهذه الخطط الصغار الأعراض، فإن أخطأه هذا نهشه، هذا وإن أخطأه هذا نهشه هذا
صحیح بخاری کتاب الرقاق، رقم الحديث : 6417.
”اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چوکھٹا خط کھینچا۔ پھر اس کے درمیان ایک خط کھینچا جو چوکھٹے خط سے نکلا ہوا تھا۔ اس کے بعد درمیان والے خط کے اس حصے میں جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا چھوٹے چھوٹے بہت سے خطوط کھینچے اور پھر ارشاد فرمایا کہ یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور یہ جو ( بیچ کا) خط باہر نکلا ہوا ہے وہ اس کی امید ہے اور چھوٹے چھوٹے خطوط اس کی دنیاوی مشکلات ہیں۔ پس انسان جب ایک (مشکل) سے بچ کر نکلتا ہے تو دوسری میں پھنس جاتا ہے اور دوسری سے نکلتا ہے تو تیسری میں پھنس جاتا ہے۔ “
بڑھاپے میں بھی دل جوان
حدیث :33
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : لا يزال قلب الكبير شابا فى اثنتين: فى حب الدنيا، وطول الأمل . قال الليث: حدثني يونس، عن ابن شهاب قال: أخبرني سعيد وأبو سلمة
صحیح بخاری کتاب الرقاق، رقم الحديث : 6420.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بوڑھے انسان کا دل دو چیزوں کے بارے میں ہمیشہ جوان رہتا ہے، دنیا کی محبت اور زندگی کی لمبی امید۔ لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا اور یونس نے ابن شہاب سے بیان کیا کہ مجھے سعید اور ابو سلمہ نے خبر دی۔ “
حدیث : 34
وعن قيس قال: سمعت خبابا وقد اكتوى يومئذ سبعا فى بطنه وقال: لولا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا أن ندعو بالموت لدعوت بالموت ، إن أصحاب محمد مضوا ولم تنقصهم الدنيا بشيء، وإنا أصبنا من الدنيا ما لا نجد له موضعا إلا التراب
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم : 6430.
”اور قیس بن حازم نے بیان کیا کہ میں نے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے سنا، اس دن ان کے پیٹ میں سات داغ لگائے گئے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں اپنے لیے موت کی دعا کرتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ گزر گئے اور دنیا نے ان کے (اعمال خیر میں سے ) کچھ نہیں گھٹایا اور ہم نے دنیا سے اتنا کچھ حاصل کیا کہ مٹی کے سوا اس کی کوئی جگہ نہیں ۔ “
حدیث : 35
وعن مرداس الأسلمي قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم : يذهب الصالحون الأول فالاول ، ويبقى حفالة كحفالة الشعير أو التمر لا يباليهم الله بالة . قال أبو عبد الله : يقال: حفالة وحثالة
صحیح بخاری کتاب الرقاق رقم الحديث : 6434.
”اور حضرت مرد اس اسلمی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: نیک لوگ یکے بعد دیگرے گزر جائیں گے اس کے بعد جو کے بھوسے یا کھجور کے کچرے کی طرح کچھ لوگ دنیا میں رہ جائیں گے جن کی اللہ پاک کو کچھ ذرا بھی پروانہ ہوگی۔ امام بخاری نے کہا حفالہ اور حثالہ دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔ “
حدیث : 37
وعن مطرف عن أبيه قال: أتيت النبى صلى الله عليه وسلم وهو يقرا: ﴿الهكم التكاثر﴾ قال يقول: ابن آدم مالي مالي قال وهل لك يا ابن آدم من مالك إلا ما أكلت فأفنيت أو لبست فابليت أو تصدقت فامضيت
صحیح مسلم، کتاب الزهد، رقم : 7420 .
”اور مطرف رحمہ اللہ اپنے باپ (حضرت عبد اللہ بن شخیر رحمہ اللہ ) سے بیان کرتے ہیں، میں نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جبکہ آپ سورۃ (الهكم التكاثر ) ( تمہیں کثرت کی چاہت و رغبت نے مشغول کر دیا) پڑھ رہے تھے، آپ نے ارشاد فرمایا، آدم کا بیٹا کہتا ہے، میرا مال، میر امال، (فرمایا ) اور کیا تیرے لیے، اے آدم کے بیٹے ! تیرے مال سے اس کا سوا کچھ حصہ ہے، جو تو نے کھا کر ختم کر دیا ، یا تو نے پہن لیا، سو پرانا کر ڈالا یا تو نے صدقہ کر کے آگے بھیج دیا۔ “
حدیث : 38
وعن خولة بنت قيس امرأة حمزة بن عبد المطلب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل على حمزة فتذاكرا الدنيا، فقال رسول الله : إن الدنيا خضرة حلوة، فمن أخذها بحقها بورك له فيها ، ورب متخوض فى مال الله ومال رسوله (ليس) له [إلا] النار يوم يلقى الله
سلسلة الصحيحة، رقم : 1592 ، سنن ترمذی، رقم : 2374، مسند احمد: 378، 364/6 .
” اور حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی بیوی خولہ بنت قیس سے روایت ہے، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم حمزہ کے پاس آئے ، اور انہوں نے آپس میں دنیا کا ذکر کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ دنیا سرسبز و شاداب میٹھی ہے، جس نے دنیا سے بقدر ضرورت اپنا حصہ لیا اُس میں اس کے لیے برکت ڈال دی جائے گی۔ اور کتنے ہی اللہ اور اس کے رسول کے مال کو ہڑپ کرنے والے جس دن اللہ سے ملاقات کریں گے، اُن کے لیے آگ ہی ہوگی۔ “
طلب دنیا میں جمال
قَالَ اللهُ تَعَالَى:فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ﴿٢٠٠﴾ وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿٢٠١﴾ أُولَٰئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ ﴿٢٠٢﴾
(2-البقرة:200تا202)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” چنانچہ کچھ لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں دنیا ہی میں (سب کچھ) دے دے، ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جو کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ انھی لوگوں کے لیے ان کی کمائی کا حصہ ہے اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔“
حدیث : 39
وعن أبى حميد الساعدي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أجملوا فى طلب الدنيا ، فإن كلا ميسر لما خلق له
سلسلة الصحيحة، رقم : 898 سنن ابن ماجه رقم : 2142، السنة لابن ابى عاصم، رقم : 418 ، مستدرك حاكم : 3/2 ، سن الكبرى بيهقى : 264/5.
” اور حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دنیا کی تلاش میں میانہ روی سے کام لو، ہر کوئی جس چیز کے لیے پیدا ہوا ہے وہ اُس کے لیے آسان کر دی جاتی ہے۔ “
دنیا سے بے رغبتی محبت الہی
حدیث : 40
وعن سهل بن سعد الساعدي قال: أتى النبى رجل ، فقال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم ! دلني على عمل إذا أنا عملته أحبني الله ، وأحبني الناس ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إزهد فى الدنيا يحبك الله ، وازهد فيما عند الناس يحبك الناس
سلسلة الصحيحة رقم : 944، سنن ابن ماجه رقم : 4102، مستدرك حاكم : 313/4، الحلية لأبي نعيم : 252/3 253 ، اخبار اصبهان لأبي نعيم : 244/2، 245 .
”اور سہل بن ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، اور اُس نے کہا اے اللہ کے رسول مجھے ایسا عمل بتائیں کہ جب میں وہ عمل کروں، اللہ بھی مجھ سے محبت کرے اور لوگ بھی مجھ سے محبت کریں۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : دنیا کا لالچ نہ کر، اللہ تجھ سے محبت کرے گا اور جو لوگوں کے پاس ہے، اُس کا بھی لالچ نہ کر لوگ بھی تجھ سے محبت کریں گے۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين