بدعت کی حقیقت
سوال: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:
واياكم ومحدثات الأمور
”تم دین میں نئی ایجاد کی ہوئی چیزوں سے بچو“ کا کیا مطلب و مفہوم ہے؟
جواب: مُحدثات سے مراد وہ نئے کام ہیں جن کی نسبت شریعت مطہرہ کی طرف کی جاتی ہے ، حالانکہ وہ شریعتِ اسلامیہ سے نہیں ہوتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی کامل کر دیا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي . . .﴾ [المائدة: 3]
”آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی ۔ ۔ ۔ “
سو اب دینِ اسلام کے کامل ہونے کے بعد اس میں اضافہ و زیادتی کی کوئی حاجت نہیں ۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث کے آخر میں فرمایا:
فان كل بدعة ضلالة [سنن ابي داؤد كتاب السنة ، باب فى لزوم السنة ، ح 4607 ۔ سنن ابن ماجة المقدمة باب اتباع سنة الخلفاء ح 42]
”بے شک ہر بدعت گمراہی ہے ۔“
سو اب اس دین میں ہر نیا کام بدعت ہے ، اس کی کوئی بنیاد نہیں ۔ اسی لیے کسی کام کو عبادت سمجھ کر کرنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ اس کی کوئی دلیل اور اصل شریعت میں نہ ہو ۔ ہاں اگر اس کام کی کوئی دلیل و سند شریعت اسلامیہ میں موجود ہو تو وہ بدعت شمار نہ ہوگا خواہ اس پر لغوی اعتبار سے لفظ ”بدعت“ کا اطلاق صحیح ہو ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باجماعت نماز تراویح کو بدعتِ حسنہ سے تعبیر کیا تھا ، یعنی لغوی اعتبار سے بدعت ہے ، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس پر کئی بار عمل کیا جا چکا تھا ، لیکن آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس کو مسلسل ادا کرنے سے منع کر دیا تھا کہ کہیں فرض نہ ہو جائے ۔ مثال کے طور پر جمعہ کی پہلی اذان کو لیجیے تو نماز کی اذان اصلاً شریعت میں ثابت ہے ، اور یہ اذان اللہ پاک کے اس قول میں داخل ہے ۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ . .﴾ [المائدة: 58]
”اور جب تم نماز کے لیے پکارتے ہو ۔ ۔ ۔“
قرآن کو ایک مصحف میں جمع کرنا بدعت میں شمار نہیں ہوگا اس لیے کہ قرآن حکیم کی کتابت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے ہی مشہور تھی اور پھر جب نزول وحی کا سلسلہ مکمل ہو گیا تو اب قرآن کی آیتوں کا ایک مصحف میں جمع کرنا ضروری تھا تاکہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سچا ثابت ہو:
﴿فِي صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ﴾ [عبس: 13]
”یہ تو پر عظمت صحیفوں میں ہے ۔ “
اس کے علاوہ جو دوسری بدعات ہیں تو وہ سب حرام ہیں ، خواہ ان بدعتوں کا تعلق اعتقاد سے ہو جیسے خوارج ، معتزلہ ، قدریہ ، مرجئہ ، رافضہ اور ان سے ملتے جلتے دوسرے فرقوں کی بدعتیں ہیں ، یا ان بدعتوں کا تعلق قول و فعل سے ہو جیسے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانا ، معراج کی رات جاگنا ، چودھویں یا پندرھویں شعبان کو جاگنا ، یا صلوۃ رغائب ، نیز ان سے ملتی جلتی دوسری بدعات ۔
ان بدعتوں کے بارے میں علماء کرام نے سیر حاصل بحث کی ہے ۔ ملاحظہ ہو کتاب ”الباعث على انکار البدع والحوادث“ اور کتاب ”البدع والنہی“ بدعات و خرافات کے متعلق سب سے زیادہ سیر حاصل بحث کتاب ”الاعتصام للشاطبی“ میں ہے ۔ لہذا اتمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ سنت رسول کو مضبوطی سے پکڑیں ، اگرچہ اکثریت اس پر ناک بھوں چڑھائے اور وہ بدعات و خرافات کو ترک کر دیں ، خواہ اہل بدعت کی تعداد کتنی زیادہ ہی کیوں نہ ہو ۔ واللہ اعلم !