کیا مبتدعین دیوبندیہ کی طرح اہل سنت حیات النبی صلى الله عليه وسلم کے قائل ہیں ؟
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل سنت حیاۃ النبی ﷺ کے قائل ہیں جبکہ غیر مقلد اس کے قائل نہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 54)
الجواب:- اولا:-
پہلے مبتد عین دیا بنہ کا حیاۃ النبی ﷺ کے سلسلہ میں مؤقف سمجھ لینا ضروری ہے تاکہ بات کو سمجھنے میں آسانی رہے۔ دیو بند کے شیخ الحدیث مولانا حسین احمد مدنی فرماتے ہیں کہ آپ کی حیات نہ صرف روحانی ہے جو کہ عام شہداء کو حاصل ہے بلکہ جسمانی بھی ہے اور از قبیل حیات دنیوی بلکہ بہت وجوہ سے اس سے قوی تر۔
(مکتوبات شیخ الاسلام ص 130 ج 1 ‘و تسکین الصدور ص 275 و خیر الفتاویٰ ص 113 ج 1)
مولانا قاسم علی نانو توی فرماتے ہیں کہ
انبیاء علیھم السلام کو ابدان دنیا کے حساب سے زندہ سمجھیں گے۔
(لطائف قاسمیہ ص 4 و تسکین الصدور 275 و خیر الفتاوی‘ ص 114 ج 1)
قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث صحیح مرفوع متصل اور صحابہ کرامؓ میں سے ایسی حیات کا عقیدہ قطعاً ثابت نہیں‘ یہ مبتدعین دیوبند کا بریلوی مسلک سے تاثر کی وجہ سے عقیدہ ہے ور نہ اس کی کوئی معتبر دلیل ثابت نہیں۔
ثانیا:-
آپ کے استاد محترم مولانا سرفراز خاں صاحب صفدر نے تسکین الصدور ص 264 میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ علمائے اہل حدیث حیات النبی صلى الله عليه وسلم کے قائل ہیں۔ جھنگوی صاحب اس کی صراحت کریں کہ صفدر صاحب کا ذب ہیں یا آپ ؟
حیات انبیاء کا عقیدہ اور قرآن
موت کے بارہ میں عام اصول کے تحت انبیاء بھی اسی طرح شامل ہیں جیسا کہ عام انسان ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالی نے سوائے اپنی ذات کے کسی اور کو اس اصول سے متشنیٰ قرار نہیں دیا۔
(كل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والاكرام ) (سورۃ رحمٰن آیت 26 ‘ 27)
جو بھی اس پر ہے فانی ہے۔ اور تیرے رب بزرگی عزت والے کا چہرہ باقی رہے گا۔
حياة جاوداں صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے باقی تمام کو فنا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک عام قاعدے کے تحت تمام انبیاء کی موت کا اعلان کیا ہے۔
عام اعلان:
(ما المسيح ابن مريم الا رسول قد خلت من قبله الرسل ) (المائده : 75)
یعنی مسیح تو صرف اللہ کے رسول تھے ان سے قبل رسول فوت ہو گئے۔
(وما محمد الارسول قد خلت من قبله الرسل ) (آل عمران : 144)
محمد (صلى الله عليه وسلم) صرف اللہ کے رسول ہیں ان سے پہلے رسول گزر چکے ہیں۔
ان دونوں آیات سے واضح ہوا کہ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم سے پہلے جتنے بھی رسول آئے تھے وہ اپنی طبعی عمر گزار کر عدم کے مسافر ہوئے اور تمام نے موت کا پیالہ پی لیا۔ ہاں البتہ مسیح آسمان کی طرف زندہ اٹھائے گئے تھے۔ قرب قیامت کے وقت ان کا اس دنیا میں نزول ہو گا اور باقی ماندہ زندگی جب بسر کرلیں گے تو موت ان کو بھی آئے گی اور وہ بھی فوت ہو جائیں گے۔ (مشکوٰۃ باب نزول عیسیٰ بن مریم فصل سوم )
بعض انبیاء کی موت کا تذکرہ:۔
اس عام اعلان کے علاوہ اللہ تعالی نے انبیاء علیھم السلام کی موت کا بالخصوص ذکر کیا ہے جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ میں فرمایا
(ام كنتم شهداء اذ حضر يعقوب الموت ) (البقره : 133)
کیا تم اس وقت موجود تھے جب حضرت یعقوب کو موت آئی ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے بارہ میں فرمایا
(حتى اذاهلك) (المؤمن: 34)
یعنی جب یوسف علیہ السلام فوت ہو گئے۔ حضرت سلیمان علیہ اسلام کے بارہ میں فرمایا
(فلما قضينا عليه الموت مادلهم على موته الادابة الارض ) (سورۃ السبا: 14)
جب ہم نے اس پر موت وارد کر دی تو جنوں کو اس کی موت کی خبر نہ ہوئی مگر زمین کے کیڑوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ
(والسلام على يوم ولدت ويوم اموت )
(مریم : 23)
مجھ پر سلامتی ہے جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا
(وان من اهل الكتاب الاليومنن به قبل موته )
(النساء: 159)
مسیح کی موت سے پہلے ہر ایک اہل کتاب ان پر ایمان لائے گا‘
حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ
(والذى يميني ثم يحيين)
(الشعراء:81)
وہی اللہ ہے جو مجھے موت دے گا پھر زندہ کرے گا۔
خاتم النبیین سید المرسلین محمد صلى الله عليه وسلم کی وفات:-
اللہ تعالی نے عام انبیاء علیہ السلام کی وفات کے تذکرہ کے ساتھ رسول اکرمﷺ کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ بھی وفات پا جانے والے ہیں۔
(وما جعل البشر من قبلك الخلد الفاتن من فهم الخلدون كل نفس ذائقة الموت ) (الانبياء: 34)
اور ہم نے آپ سے پہلے کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں بنائی۔ پس اگر آپ مر جائیں تو یہ ہمیشہ رہیں گے ہر نفس نے موت کو چکھنا ہے۔
اس آیت میں آپ علیہ السلام اور تمام انسانوں کی موت کا تذکرہ یکجا کیا ہے کہ جیسے عام انسانوں کو موت آتی ہے آپ کو بھی موت آجانی ہے۔ جس کی ضروری تفصیل ان الفاظ میں بیان فرمادی کہ
( افائن مات او قتل انقلبتهم على اعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا ) (آل عمران : 144)
کیا پس اگر آپ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم (مسلمانوں ) اپنی ایڑھیوں کے بل پھر جاؤ گے اور جو شخص بھی اپنی ایڑھیوں کے بل پھر جائے وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔
(انك ميت وانهم ميتون ) (الزمر : 30)
بلا شبہ آپ (صلى الله عليه وسلم) بھی فوت ہونے والے ہیں اور یہ بھی فوت ہونے والے ہیں۔ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی زبان اقدس سے یہ اعلان کروایا کہ
(قل ان صلاتی و نسکی و محياي ومماتي لله رب العلمين ) (الانعام : 163)
کہہ دو بلاشبہ میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میرا مرنا اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
ان آیات نے رسول اللہ ﷺ کے بارہ میں واضح کر دیا کہ آپ ﷺ کو بھی موت آنے والی ہے اور آپ ﷺ اس بارہ میں دوسرے انسانوں سے مستشنیٰ نہیں ہیں۔
موت آگئی
پھر وہ وقت آگیا جب ان ارشاد ربانیہ کے عین مطابق آپ صلى الله عليه وسلم پر بھی موت کا وقت آپہنچا۔ جس سے کسی بھی ذی روح کو مفر نہیں ۔ آپ علیہ السلام کو حجتہ الوداع سے واپس آئے ہوئے چند دن ہی گزرے تھے کہ طبیعت خراب رہنے لگی۔ علاج معالجہ کیا مگر مرض بڑھتا گیا۔ غشی پر غشی طاری ہونے لگی اور بالآ خر حیات مستعار کی آخری گھڑی آ پہنچی جس کی تفصیل ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میری گود میں سر ٹپکائے ہوئے تھے قریب ہی پانی کا ایک پیالہ پڑا ہوا تھا آپ ﷺ پانی میں ہاتھ ڈالتے اور پھر اس ہاتھ کو چہرے پر پھیرتے اور فرماتے جارہے تھے۔
(لا اله الا الله ان للموت سكرات )
بلاشبہ موت میں سختیاں ہیں۔ اسی حالت میں کہ آپ ﷺ کے ہاتھ کو اوپر اٹھایا ہوا تھا فرمار ہے تھے۔
((في الرفيق الأعلى ))
اسی ثناء میں آپ ﷺ کی روح مبارک قبض ہو گئی اور ہاتھ نیچے کو جھک گیا۔
( بخاری ص 640 ج 2)
چند لمحوں میں آپ صلى الله عليه وسلم کی موت کی خبر پورے مدینہ میں پھیل گئی۔ جس سے شہر میں کہرام مچ گیا ایسے معلوم ہو تا تھا کہ پورے مدینہ کو تاریکی نے گھیرے میں لے لیا ہے ۔ حضرت انسؓ اس منظر کی نقشہ کشی کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ کہ مدینہ شہر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی آمد کے دن روشن تھا مگر جس دن آپ صلى الله عليه وسلم کی وفات ہوئی مدینہ کی ہر چیز تاریک تھی۔
( ترمذی ص 203 ج 2)
سید نا ابو بکر صدیقؓ کا خطبہ اور صحابہ کا اجماع :-
یہ سب صدمے کی کیفیت تھی۔ عقیدت‘ محبت اور جذبات کے غلبے کا یہ عالم تھا کہ حضرت عمر فاروقؓ جیسے قوی و بہادر آدمی بھی کہنے لگے کہ جو شخص کہے گا کہ رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے ہیں میں اس کی گردن اڑادوں گا۔ (اللہ اکبر)
اس اثناء میں حضرت ابو بکر صدیقؓ آپ صلى الله عليه وسلم کی میت مبارک کے پاس پہنچے چہرہ انور سے چادر کو ہٹایا آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش جاری ہے۔ چہرہ انور کی طرف جھکتے ہیں اور اسے بوسہ
دیتے ہیں۔ دردُ فراق کا یہ عالم ہے اور فرماتے ہیں کہ
(لا يجمع الله عليك موتتين ابدا اما الموة التي كتب الله عليك فقدمتها )
اللہ تعالی آپ ﷺ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گاوہ موت اللہ نے جو آپ صلى الله عليه وسلم پر لکھی تھی تو آپ ملے فوت ہو چکے ہیں۔
پھر حضرت عمر فاروقؓ ابھی صحابہ کرام سے باتیں کر رہے تھے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا عمر بیٹھ جائیے مگر حضرت عمر فاروقؓ نے بیٹھنے سے انکار کر دیا‘ تو حضرت ابو بکر صدیقؓ نے خطبہ دینا شروع کر دیا۔
صحابہ کرام حضرت عمر فاروقؓ کو چھوڑ کر حضرت ابو بکر صدیقؓ کی طرف آگئے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا
(من كان منكم يعبد محمدافان محمد اقدمات ومن كان يعبد الله عزوجل فان الله حي لا يموت قال الله عز و جل )
(وما محمد الرسول قد خلت من قبله الرسل الى الشاكرين )
جو تم میں سے محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی عبادت کرتا ہے تو محمد ﷺ بلاشبہ فوت ہو چکے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے۔ کبھی نہیں مرے گا پھر آپ نے یہ آیت پڑھی کہ نہیں محمد مگر اللہ کے رسول ان سے پہلے تمام رسول فوت ہو چکے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اس خطبہ کے بعد سب کو یقین ہو گیا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم فوت ہو چکے ہیں۔ اور ہر ایک کی زبان پر
(وما محمد الارسول قد خلت من قبله الرسل )
آیت تھی۔
(ملخصاً بخاری ص 166 ج 1)
کسی ایک صحابی نے بھی آپ صلى الله عليه وسلم کی موت کا انکار نہیں کیا بلکہ تمام نے تسلیم کیا بلاشبہ تمام اکا بر و اصاغر صحابہ کرامؓ کار سول اللہ صلى الله عليه وسلم کی وفات پر اجماع تھا۔ منقول از عقیدہ اہل حدیث‘ از حضرت استاذی المکرم
شان صدیق اکبر رضی اللہ عنہ:-
حضرت ابو بکرؓ کا جگر کہاں سے لاؤں جنہوں نے آنحضرت ﷺ سے انتہائی عقیدت و محبت کے باوجود تمام صحابہ کرام کے سامنے بغیر کسی مصلحت اور وقت کی نزاکت کے حقیقت کا اظہار کیا اور اپنی قوت ایمانی اور علوم نبویہ میں مہارت کی وجہ سے صحابہ کرام کا آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی وفات پر اجماع کرا دیا ۔ بلاشبہ صدیق اکبرؓ نے جذبات و محبت اور فرط عقیدت کو قرآن و سنت کے تابع رکھا۔
حضرت صدیق اکبرؓ نے اللہ کی توفیق سے اس وقت امت مرحومہ کا حوصلہ بڑھایا جب صحابہ کرام اس دکھ کے پہاڑ کو سہنے سے عاجز آگئے۔
حضرت صدیق اکبرؓ نے اس وقت امت مرحومہ کی راہنمائی فرمائی جب ان جیسے نڈر‘ بے باک اور قرآن و سنت سے لبریز سینہ کی اشد ضرورت تھی۔ صدیق اکبرؓ نے عقیدہ حیاۃ النبی کو پاش پاش کر کے رکھ دیا‘ حضرت صدیق اکبرؓ نے وفات النبی اللہ کے عقیدہ کو قرآن و سنت کی آہنی سلاخوں سے مضبوط و مستحکم کیا کہ تمام صحابہ کرام نے ان کی فراست ایمانی اور علوم نبوی کے امین ہونے کی گواہی دی اور آنے والے مبتدعین ان کے بیان کردہ دلائل کو توڑنہ سکے‘ صدیق اکبر نے اپنے مطاع ﷺ کے دین کی خوب آبیاری کی کہ کوئی کفروشرک اور بدعت کی آندھی اس پودے کو اس کی جڑ سے اکھیڑ نہ سکی‘ وہ اپنے آقا ﷺ کے ساتھ جنت میں اسی طرح رہیں گے‘ جیسے وہ دنیا میں اپنے آقا ﷺ کے ساتھ تھے ۔ اس سے بڑ کر ان کے لیے اور کوئی خوشی نہیں۔
حقیقت بدلنے کی کوشش:-
قارئین کرام ان واضح نصوص اور اجماع صحابہ کرام کو جھنگوی ٹولہ سدی جیسے کذاب و دجال راویوں کی من گھڑت روایات کے بل بوتے پر رد کرنے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ دعویٰ پوچھو تو اہل سنت ہے شرم ہے نہ حیا‘
(انا للہ وانا الیہ راجعون)
دیو بند کا حیاتی ٹولہ خود کو حنفی باور کراتا ہے۔
مولانا اسماعیل سلفی مرحوم نے ایک بارا نہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ
ایسے اوہام کو عقیدہ کہنا بھی صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ کتب عقائد (شرح عقائد نسفی‘ عقیدہ طحاویہ‘ شرح العقیدہ الاصفہانیہ‘ عقیده صابونیہ وغیرہ) میں اس کا کوئی ذکر نہیں حالانکہ کتب عقائد کے سارے مشمولات کے مستقل عقیدہ کی حیثیت بھی محل نظر ہے۔ عقیدہ کے لیے حسب تصریح متکلمین اور اشاعرہ و ماتریدیہ قطعی دلائل کی ضرورت ہے۔ حیات انبیاء کی احادیث استاد کے لحاظ سے اخبار احاد صحیح سے بھی فروتر ہیں۔
(تحریک آزادی فکر ص 389 طبع مکتبہ نذیریہ لاہور)