اہلسنت والجماعت کے 29 عقائد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی زبانی

اصولُ السُّنّۃ
(امامِ اہلِ سُنّت والجماعت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ)

مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

اس جامع تحریر میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے بیان کردہ اُن اصولِ سنّت (اہلِ سنت والجماعت کے بنیادی عقائد و نظریات) کو پیش کیا گیا ہے جو عبدوس بن مالک العطار رحمہ اللہ نے روایت کیے ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ نے نہایت اختصار کے ساتھ سنت کے ان لازمی اصولوں کو ذکر فرمایا ہے جن کی پاسداری اہلسنّت والجماعت کے لیے ضروری ہے۔ ذیل میں انہیں عنوانات کے تحت، جامع انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔ ساتھ ہی حوالہ جات بھی درج ہیں۔


1) صحابۂ کرامؓ کے طریقے کو مضبوطی سے تھامنا

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک اصول السنہ (سنت کے اصول) یہ ہیں کہ جس چیز پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے، اس سے تمسک اختیار کیا جائے، اور ان کی اقتداء کی جائے۔

حوالہ: [امام اللالکائی، اصول اعتقاد اہل سنت والجماعت، 1/156]


2) بدعات سے اجتناب

بدعات کو ترک کرنا ہی سنت کا اصل تقاضا ہے، کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ اسی لیے امام احمد رحمہ اللہ نے سختی کے ساتھ بدعات کو چھوڑ دینے، اور ان کے حاملین سے دور رہنے کی تاکید فرمائی:

  • بدعتی لوگوں سے بحث مباحثہ بھی ترک کیا جائے۔
  • ان کے ساتھ نشست و برخاست (میل جول) بھی ترک کردی جائے۔
  • دین میں جھگڑے، جدال اور بےجا مناظروں کو چھوڑ دیا جائے۔

3) آثارِ رسولؐ کی پیروی اور ان کا مقام

امام احمد رحمہ اللہ نے سنّت کو “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار” قرار دیا ہے جو قرآن کریم کی تفسیر ہیں۔ اس لیے قرآن کی اصل مراد سمجھنے میں سنت ہی رہنمائی کرتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ سنت میں قیاس نہیں چلتا، نہ اس کی مثالیں بیان کی جاتی ہیں، نہ یہ خواہشات یا محض عقل سے سمجھی جا سکتی ہے۔ اصل کام اتباع کرنا اور خواہشِ نفس کو ترک کرنا ہے۔


4) عقائدِ اہلِ سنت میں سے کسی خصلت کا انکار نہ کرنا

امام احمد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ان اصولِ سنت میں سے جو بھی ایک وصف یا خصلت کوئی اس طور پر چھوڑ دے کہ نہ اس کو قبول کرے اور نہ اس پر ایمان رکھے، تو وہ ان (اہل سنت والجماعت) میں سے نہیں رہتا۔


5) اچھی اور بری تقدیر پر ایمان

اچھی اور بری تقدیر دونوں پر ایمان لانا اور اس بارے میں وارد تمام احادیث کی تصدیق کرنا واجب ہے۔ ان احادیث میں غور و فکر اور ’’کیوں؟‘‘ اور ’’کیسے؟‘‘ کہہ کر سوالات کرنا درست نہیں۔ صِرف ان کی تصدیق کرنا اور ان پر ایمان لانا کافی ہے، جیسا کہ “حدیثِ صادق مصدوق” (حدیثِ ابن مسعودؓ) اور اسی قبیل کی دیگر احادیث ہیں۔

حوالہ: بخاری و مسلم میں وارد حدیثِ ابن مسعودؓ (مشہور بحوالہ صادق المصدوق)۔


6) تقدیر، رویتِ باری تعالیٰ اور قرآن سے متعلق بحث سے منع

تقدیر، بروز قیامت اللہ تعالیٰ کے دیدار اور اسی طرح کے دیگر باریک اور حسّاس موضوعات پر بےجا بحث کرنا، یا ان پر کلام اور جدال مناظرہ کرنا مکروہ اور ممنوع ہے۔ سنت کا طریقہ یہ ہے کہ ان متوارث روایات و آثار کو من و عن مان لیا جائے۔


7) کلام اللہ (قرآن کریم) مخلوق نہیں

اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہی ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، یہ مخلوق نہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس مسئلے میں رک جانے والا (توقف کرنے والا) بھی بدعتی ہے جس طرح کہ قائلِ خلق قرآن بدعتی ہے۔ لہٰذا اہلِ حق کا واضح موقف یہی ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، مخلوق نہیں۔


8) بروزِ قیامت رویتِ باری تعالیٰ

اہل سنّت کا عقیدہ ہے کہ بروزِ قیامت مومنین کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا، جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ اسی لیے امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس عقیدے پر ایمان رکھنا چاہیے۔


9) معراجِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں بارگاہِ الٰہی کا دیدار

امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا دیدار فرمایا تھا، اور یہ بات روایت میں صحیح طور پر ثابت ہے۔ ہم اس روایت پر اس کے ظاہری معنی ہی کے مطابق ایمان رکھتے ہیں، اس میں بحث کو بدعت قرار دیتے ہیں۔


10) یومِ قیامت میزان اور حساب کتاب

یومِ قیامت اعمال کا وزن کیا جانا اور بندوں کا بھی تولا جانا، یہ سب صحیح احادیث سے ثابت شدہ ہے۔ ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں اور اس کا انکار کرنے والوں سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔ ان کے ساتھ اس مسئلے پر جھگڑتے یا مناظرہ نہیں کرتے۔

حوالہ: بخاری (4729)؛ مسلم (2785)


11) حوضِ کوثر پر ایمان

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ قیامت ایک حوض ہوگا جس پر آپؐ کی امت حاضر ہوگی۔ اس کی وسعت کی بابت متعدد صحیح احادیث وارد ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ یہ سب کچھ جیسا ذکر کیا گیا ہے، لازماً وقوع میں آئے گا۔


12) عذابِ قبر اور منکر نکیر

عذابِ قبر پر ایمان لانا، اور یہ کہ اس امت کی آزمائش ان کی قبروں میں ہوگی۔ فرشتے ان سے ایمان، اسلام، رب اور نبی کے متعلق سوال کریں گے۔ اس پر دل سے ایمان لانا ضروری ہے۔


13) شفاعتِ رسولؐ اور جہنم سے نجات یافتہ لوگ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ ایک گروہ ہوگا جو آگ میں جل کر کوئلہ ہوجائے گا، انہیں پھر نکالا جائے گا اور جنت کے دروازے پر موجود ایک نہر میں نہانے کا حکم دیا جائے گا، جس کے بعد وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ تمام باتیں احادیث سے ثابت ہیں۔


14) دجال کا خروج اور عیسیٰ علیہ السلام کا نزول

مسیحِ دجال کے ظاہر ہونے اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لفظ ’’کافر‘‘ لکھا ہونے پر ایمان رکھنا چاہیے، جیسا کہ صحیح احادیث وارد ہیں۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور دجال کو بابِ لد کے مقام پر قتل کرنا بھی احادیث سے ثابت ہے۔


15) ایمان قول و عمل کا نام ہے

ایمان محض زبان سے اقرار کا نہیں بلکہ یہ قول اور عمل دونوں کا مجموعہ ہے، جو بڑھتا اور گھٹتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

“إيمان کے اعتبار سے کامل ترین مومن وہ ہے جس کے اخلاق بہترین ہیں۔”
(سنن ابی داؤد، حدیث 4682؛ سنن ترمذی، حدیث 1162)


16) نماز کا ترک کرنا کفر ہے

امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک ترکِ نماز، کفر ہے۔ اعمال میں سے کوئی اور عمل ایسا نہیں جس کے ترک سے کفر لازم آئے، سوائے نماز کے۔ جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کردی تو وہ کافر ہے اور اس کا قتل حلال ہے۔


17) خلافت و افضلیتِ صحابہؓ

  • اس امت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابوبکر صدیقؓ ہیں، پھر عمر فاروقؓ، پھر عثمان غنیؓ۔ یہی ترتیب ہم بھی اختیار کرتے ہیں۔
  • اس کے بعد پانچ اصحابِ شوریٰ ہیں: علی بن ابی طالب، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم۔
  • امام احمد رحمہ اللہ نے ابنِ عمرؓ کی روایت کا حوالہ دیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں کہا کرتے تھے: سب سے افضل ابوبکر، پھر عمر، پھر عثمان، پھر ہم خاموش ہوجاتے تھے۔
  • ان کے بعد اہلِ بدر مہاجرین، پھر اہلِ بدر انصار اور پھر جو دین میں سبقت رکھنے والے ہیں، وہ فضیلت رکھتے ہیں۔
  • کسی صحابیؓ نے اگر ایک لمحہ کے لیے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا اور آپ کی صحبت پائی تو وہ بعد والوں سے افضل ہے، اگرچہ بعد والے تمام اعمالِ خیر کرلیں۔

حوالہ: [مسند احمد، حدیث 4626؛ بخاری، کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 3655]


18) امامِ وقت کی اطاعت

جو شخص خلافت پر غالب آجائے اور لوگوں کی اکثریت اسے خلیفہ یا امیرالمومنین مان لے (چاہے وہ تلوار کے زور پر کیوں نہ آیا ہو)، اس کی اطاعت واجب ہے۔ خواہ وہ حکمران نیک ہو یا بد۔


19) جہاد اور جمعہ حکام کے ساتھ ہی جاری رہے گا

  • امیر یا حکمران چاہے نیک ہو یا بد، اس کے ساتھ مل کر قیامت تک جہاد جاری رہے گا۔
  • مالِ فے کی تقسیم اور حدود کا قیام بھی انہی حکمرانوں کے ساتھ ممکن ہے، ان سے تنازع کرنا یا خروج کرنا جائز نہیں۔
  • انہیں زکوٰۃ ادا کرنا نافذ رہے گا۔

20) جمعہ اور دیگر نمازیں

نیک و بد، ہر قسم کے امام کے پیچھے جمعہ قائم ہوگا، اور پوری دو رکعتیں ادا ہوں گی۔ اگر کوئی ان کی اقتدا میں نماز پڑھنے کے بعد اپنی نماز لوٹاتا ہے، تو وہ بدعتی ہے اور سنت کا مخالف۔


21) خروج اور بغاوت کی ممانعت

امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک مسلمانوں کے حکمرانوں کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں۔ اس لیے کہ یہ مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح احادیث کی مخالفت کرنے کے مترادف ہے۔ جو اس حال میں مرے کہ وہ حکمران کی اطاعت سے باہر ہو، اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔


22) چوروں اور خوارج سے قتال

چوروں اور خوارج سے اس وقت قتال جائز ہے جب وہ جان و مال پر حملہ کریں۔ لیکن اگر وہ پیچھے ہٹ جائیں تو عام آدمی ان کا تعاقب نہ کرے، یہ کام صرف حکمرانوں کا ہے۔ اگر اپنے دفاع میں مقابلہ کرتے ہوئے حملہ آور مارا جائے تو اللہ نے اسے ہلاک کیا۔ اور اگر دفاع کرنے والا مارا جائے تو وہ شہید ہے، ان شاءاللہ۔


23) گناہ پر اصرار یا توبہ

امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہلِ قبلہ میں سے کسی کے عمل کی بنا پر ہم اسے قطعاً جنتی یا جہنمی قرار نہیں دیتے۔ نیکوکار کے لیے جنت کی اُمید رکھتے ہیں اور بدکار کے لیے جہنم کا اندیشہ رکھتے ہیں، لیکن ساتھ ہی اللہ کی رحمت کی امید بھی۔

  • اگر کوئی گناہ کرنے کے بعد حد قائم ہونے یا خالص توبہ کرنے کی حالت میں فوت ہوا تو یہ اس کا کفارہ ہوجائے گا۔
  • اگر کوئی توبہ کیے بغیر مرگیا تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، اللہ چاہے تو معاف فرمائے اور چاہے تو عذاب دے۔
  • البتہ جو کفر پر مرا اللہ اسے معاف نہیں فرمائے گا۔

24) رجم (سنگسار) کا ثبوت

شادی شدہ زانی کو رجم کرنا حق ہے، جب وہ خود اقرار کرے یا اس پر گواہی قائم ہوجائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے بھی رجم فرمایا۔


25) صحابہؓ کی شان میں گستاخی

جو کوئی صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی ایک پر بھی زبانِ طعن دراز کرے، یا کسی واقعے کی بنا پر بغض رکھے، اور ان کی برائی کا ذکر کرے، وہ بدعتی ہے تاآنکہ وہ تمام صحابہؓ کے لیے دل سے رحم نہ کرنے لگے اور ان کے حق میں اپنا دل صاف نہ کرلے۔


26) نفاقِ اکبر اور نفاقِ اصغر

نفاقِ اکبر یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کا انکار کرکے غیراللہ کی عبادت کرے لیکن ظاہر میں اسلام کا اظہار کرے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بعض منافقین تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات میں کہ “جن میں تین خصلتیں پائی جائیں وہ منافق ہے” وغیرہ، اس سے مراد سختی اور تادیب ہے، ہم انہیں من و عن قبول کرتے ہیں، خواہ ان کی پوری تفصیل نہ بھی جانتے ہوں۔


27) بعض احادیث کا ظاہری معنی ہی معتبر ہے

امام احمد رحمہ اللہ اس قسم کی احادیث (مثلاً “تم میرے بعد دوبارہ کفر پر نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو”، یا “دو مسلمان تلوار سونت کر آمنے سامنے آجائیں تو قاتل اور مقتول دونوں آگ میں ہیں” وغیرہ) کو بغیر کسی تاویل وتفسیر کے، جوں کا توں قبول کرنے کو کہتے ہیں۔ کسی قسم کا جدال و مباحثہ اس سلسلے میں ممنوع ہے۔

حوالہ جات:

  • بخاری، کتاب الایمان، حدیث 31
  • مسلم، کتاب الفتن، حدیث 2888
  • بخاری، کتاب الادب، حدیث 6103
  • مسلم، کتاب الایمان، حدیث 60

28) جنت و جہنم کا وجود

جنت اور جہنم دونوں مخلوق اور موجود ہیں۔ ان کے بارے میں جو احادیث “میں جنت میں داخل ہوا تو ایک محل دیکھا”، “میں نے کوثر کو دیکھا”، یا “میں جنت پر مطلع ہوا” اور “میں جہنم پر مطلع ہوا” جیسی روایات ہیں، ان پر ایمان لایا جائے۔ جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ جنت و جہنم ابھی تک پیدا نہیں کی گئیں، وہ قرآن و سنت کا انکار کرتا ہے۔

حوالہ: بخاری (3242)، مسلم (2394)


29) اہل قبلہ کا جنازہ

اہلِ قبلہ میں سے جو شخص توحید پر فوت ہو، اس پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کے لیے مغفرت کی دعا کی جائے گی، چاہے اس سے کبیرہ یا صغیرہ گناہ سرزد ہوئے ہوں۔ اس عمل کو ترک نہیں کیا جائے گا۔ اس کا حتمی معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔


اختتامی کلمات

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ان تمام اصولوں کو بیان کرنے کے بعد اللہ وحدہٗ کے لیے حمد و ثناء کے الفاظ ارشاد فرمائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر درود و سلام بھیجا۔ یہ اصولِ سنّت اہلِ سنّت والجماعت کا بنیادی عقیدہ و منہج ہیں۔

حوالہ جات کا خلاصہ

  • امام اللالکائی، اصول اعتقاد اہل سنت والجماعت بتحقیق احمد بن حمدان، (1/156)
  • محمد بن ابی یعلی، طبقات الحنابلہ بتحقیق عبدالرحمن العثیمین، (2/166)
  • صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، مسند احمد وغیرہ میں مذکور احادیث
  • نیز علامہ ابن تیمیہ، شیخ البانی اور دیگر ائمہ کے حوالہ جات

اللہ تعالیٰ ہمیں اہلِ سنت والجماعت کے اس منہجِ مستقیم پر ثابت قدم رکھے اور دنیا و آخرت میں کامیابی عطا فرمائے۔ آمین۔

و الحمد للہ وحدہ، وصلواتہ علی محمدٍ وآلہ وسلم تسلیماً

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1