وَ اِنۡ اَحَدٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ اسۡتَجَارَکَ فَاَجِرۡہُ حَتّٰی یَسۡمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبۡلِغۡہُ مَاۡمَنَہٗ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ ٪﴿۶﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دے، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے، پھر اسے اس کی امن کی جگہ پر پہنچا دے۔ یہ اس لیے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو علم نہیں رکھتے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ کلام خدا سننے لگے پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچادو۔ اس لیے کہ یہ بےخبر لوگ ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناه طلب کرے تو تو اسے پناه دے دے یہاں تک کہ وه کلام اللہ سن لے پھر اسے اپنی جائے امن تک پہنچا دے۔ یہ اس لئے کہ یہ لوگ بے علم ہیں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 6) ➊ {وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ …:} یعنی امن کی مدت گزرنے کے بعد اگر کوئی مشرک، جس سے تمھارا کوئی عہد نہیں، تم سے درخواست کرے کہ مجھے اپنے ہاں پناہ دو تو اسے پناہ دے دو، تاکہ وہ اللہ کا کلام سنے اور اگر آیا ہی اسلام کو سمجھنے یا اپنے شبہات دور کرنے کے لیے ہے تو اسے بدرجۂ اولیٰ پناہ دینی چاہیے۔ اب اگر وہ اسلام لانے کے لیے آمادہ نہ ہو اور اپنے ٹھکانے پر واپس جانا چاہے تو تم اسے اس کے ٹھکانے پر پہنچا دو، کیونکہ ان لوگوں کو اسلام کی حقیقت معلوم نہیں، ممکن ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کی باتیں سن کر، ان کا معاشرہ اور اخلاق و کردار دیکھ کر مسلمان ہو جائیں، پھر جب وہ اپنے ٹھکانے پر پہنچ جائے تو دوسرے مشرکین کی طرح اسے مارنا اور قتل کرنا جائز ہے، اس سے پہلے جائز نہیں۔ یہ حکم ہمیشہ کے لیے ہے اور کوئی بھی مسلمان ہو وہ کافر کو پناہ دے سکتا ہے، خواہ مسلمانوں میں اس کی حیثیت معمولی ہو اور تمام مسلمانوں پر یہ پناہ پوری کرنا لازم ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر ام ہانی رضی اللہ عنہا نے ایک مشرک کو پناہ دی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ”ہم نے اسے پناہ دی جسے تم نے پناہ دی، ہم نے اسے امان دی جسے تم نے امان دی۔“ [أبو داوٗد، الجہاد، باب فی أمان المرأ ۃ: ۲۷۶۳۔ بخاری: ۳۵۷]
➋ { حَتّٰى يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ:} اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کو پناہ دینے سے اصل مقصود دعوت دین، قرآن سنانا اور اسلام کا تعارف کروانا ہے، پھر اگر وہ مسلمان نہ ہوں تو انھیں جلدی رخصت کر دینا چاہیے، یہ نہیں کہ وہ اپنے اڈے بنا کر جاسوسی کریں اور مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں۔
➋ { حَتّٰى يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ:} اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کو پناہ دینے سے اصل مقصود دعوت دین، قرآن سنانا اور اسلام کا تعارف کروانا ہے، پھر اگر وہ مسلمان نہ ہوں تو انھیں جلدی رخصت کر دینا چاہیے، یہ نہیں کہ وہ اپنے اڈے بنا کر جاسوسی کریں اور مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
6۔ 1 اس آیت میں مذکورہ حربی کافروں کے بارے میں ایک رخصت دی گئی ہے کہ اگر کوئی کافر پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو، یعنی اسے اپنی حفظ وامان میں رکھو تاکہ کوئی مسلمان اسے قتل نہ کرسکے اور تاکہ اسے اللہ کی باتیں سننے اور اسلام کے سمجھنے کا موقعہ ملے، ممکن ہے اس طرح اسے توبہ اور قبول اسلام کی توفیق مل جائے۔ لیکن اگر وہ کلام اللہ سننے کے باوجود مسلمان نہیں ہوتا تو اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دو، مطلب یہ ہے کہ اپنی امان کی پاسداری آخر تک کرنی ہے، جب تک وہ اپنے مستقر تک بخیریت واپس نہیں پہنچ جاتا، اس کی جان کی حفاظت تمہاری ذمہ داری ہے۔ 6۔ 2 یعنی پناہ کے طلبگاروں کو پناہ کی رخصت اس لئے دی گئی ہے کہ یہ بےعلم لوگ ہیں، ممکن ہے اللہ اور رسول کی باتیں ان کے علم میں آئیں اور مسلمانوں کا اخلاق و کردار وہ دیکھیں تو اسلام کی حقانیت و صداقت کے وہ قائل ہوجائیں۔ اور اسلام قبول کر کے آخرت کے عذاب سے بچ جائیں۔ جس طرح صلح حدیبیہ کے بعد بہت سے کافر امان طلب کر کے مدینہ آتے جاتے رہے تو انہیں مسلمانوں کے اخلاق و کردار کے مشاہدے سے اسلام کے سمجھنے میں بڑی مدد ملی اور بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
6۔ اور اگر ان مشرکوں میں سے کوئی آپ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دیجئے تا آنکہ وہ (اطمینان سے) اللہ کا کلام سن لے۔ [6] پھر اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دو۔ یہ اس لیے (کرنا چاہئے) کہ وہ لوگ علم نہیں رکھتے
[6] مشرک کو امان مانگنے پر امان دینا اور اسلام سمجھانا چاہئے:۔
یعنی اگر کوئی مشرک اس چار ماہ کی معینہ مدت کے اندر یا بعد میں پکڑ دھکڑ کے دوران یہ درخواست کرے کہ مجھے اسلام کی تعلیم پوری طرح سمجھا دو۔ تو اس کی اس درخواست کو رد نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے اپنے ہاں پناہ دو تاکہ دوسرا کوئی مسلمان بھی اس سے تعرض نہ کرے۔ پھر اسے اسلام کے اصول و ارکان اور اس کے حقائق پوری طرح سمجھا دو۔ پھر بھی اگر وہ اسلام نہیں لاتا اور معاندانہ روش اختیار کرتا ہے تو وہیں اسے قتل نہ کر دو بلکہ اسے اس کی حفاظت کے مقام پر پہنچا دو۔ پھر اس کے بعد تم اس سے وہی سلوک کر سکتے ہو جو دوسرے مشرکوں سے کرنا چاہیے۔ یہ رعایت اس لیے دی گئی کہ کسی مشرک کے لیے اتمام حجت کا عذر باقی نہ رہے۔ پناہ یا امان بھی در اصل ایفائے عہد ہی کی ایک قسم ہے جس میں پناہ لینے والے کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ پناہ دینے والا اس کی جان و مال کی دشمنوں سے حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے۔ اور وہ خود بھی اسے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائے گا۔ مسلمانوں کا اس قسم کا ایفائے عہد یا امان کی پاسداری اس قدر زبان زد تھی کہ دشمن نے بعض دفعہ مسلمانوں کی کسی واقعہ سے لاعلمی سے فائدہ اٹھا کر امان حاصل کی اور عظیم فائدے حاصل کیے اور مسلمان جو پناہ دے چکے تھے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ یہ امان مکر و فریب سے حاصل کی گئی ہے اپنا نقصان اٹھا کر بھی اس عہد کو پورا کیا۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر صرف ایک مسلمان خواہ وہ آزاد ہو یا غلام یا عورت ہو کسی کو پناہ دے دے تو وہ تمام مسلمانوں کی طرف سے امان سمجھی جائے گی۔ چنانچہ خوزستان (ایران) کی فتوحات کے سلسلہ میں ایک مقام شابور کا مسلمانوں نے محاصرہ کیا ہوا تھا۔ ایک دن شہر والوں نے خود شہر پناہ کے دروازے کھول دیئے اور نہایت اطمینان سے اپنے کام کاج میں لگ گئے۔ مسلمانوں کو اس بات پر بڑی حیرت ہوئی۔ سبب پوچھا تو شہر والوں نے کہا کہ تم ہم کو جزیہ کی شرط پر ایمان دے چکے ہو۔ اب کیا جھگڑا رہا (واضح رہے کہ جزیہ کی شرط پر امان کا اصل وقت جنگ شروع ہونے سے پہلے ہے۔ دوران جنگ یا فتح کے بعد نہیں) سب کو حیرت تھی کہ امان کس نے دی۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایک غلام نے لوگوں سے چھپا کر امن کا رقعہ لکھ دیا ہے۔ ابو موسیٰ اسلامی سپہ سالار نے کہا کہ ایک غلام کی امان حجت نہیں ہو سکتی۔ شہر والے کہتے تھے کہ ہم آزاد غلام نہیں جانتے۔ آخر حضرت عمرؓ کو خط لکھا گیا۔ آپ نے جواب میں لکھا کہ ”مسلمانوں کا غلام بھی مسلمان ہے اور جس کو اس نے امان دی تمام مسلمان امان دے چکے۔“ [الفاروق ص 231]
اور عورت کی امان کے سلسلہ میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے: فتح مکہ کے موقعہ پر ام ہانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پس پردہ غسل فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”کون ہے؟“ ام ہانی کہنے لگیں ”میں ام ہانی ہوں“ پھر ام ہانی نے عرض کیا ”اے اللہ کے رسول! میری ماں کے لڑکے (علیؓ) یہ کہتے ہیں کہ وہ ہبیرہ (ام ہانی کے خاوند کا نام) کے لڑکے کو قتل کر دیں گے جبکہ میں اسے پناہ دے چکی ہوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ام ہانی! جس کو تم نے پناہ دی ہم نے بھی اس کو پناہ دی۔“ [بخاري كتاب الغسل۔ باب التستر فى الغسل]
مسلمانوں کی اس راستبازی اور ایفائے عہد کی بنا پر دشمن دھوکا دے کر بھی امان حاصل کر لیتے تھے۔ چنانچہ عراق و ایران کی جنگوں میں خارق کے مقام پر سیدنا ابو عبیدہ ابن الجراح اور ایرانیوں کے سپہ سالار جاپان کی افواج کا مقابلہ ہوا۔ جاپان شکست کھا کر گرفتار ہو گیا۔ مگر جس مجاہد نے اسے گرفتار کیا تھا وہ اسے پہچانتا نہیں تھا۔ جاپان نے اس کی لاعلمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے عوض دو نوجوان غلام دینے کا وعدہ کر کے امان لے لی۔ اتنے میں کسی دوسرے نے اسے پہچان لیا اور پکڑ کر ابو عبیدہ کے پاس لے گئے۔ سیدنا ابو عبیدہ نے یہ صورت حال دیکھ کر فرمایا: اگرچہ ایسے دشمن کو چھوڑ دینا ہمارے حق میں بہت مضر ثابت ہو گا مگر ایک مسلمان اسے پناہ دے چکا ہے اس لیے بد عہدی جائز نہیں چنانچہ اس امان کی بنا پر اسے چھوڑ دیا گیا۔ [تاريخ اسلام۔ حميد الدين ص 132]
اب اس کے مقابلہ میں عیسائی دنیا کی صلیبی جنگوں میں امان، کا قصہ بھی سن لیجئے۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد طرابلس کے مسلمان بادشاہ نے کاؤنٹ بوہیمانڈ کو پیغام بھیجا کہ وہ معاہدہ کرنے کو تیار ہے اور ساتھ ہی دس گھوڑے اور سونا بھی خیر سگالی کے طور پر بھیجا اور یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا جب کاؤنٹ امان دے چکنے کے بعد پورے شہر کے زن و مرد کو موت کی گھاٹ اتار رہا تھا۔ بوہیمانڈ نے ترجمان کے ذریعہ مسلمان امیروں کو بتایا کہ اگر وہ صدر دروازے کے اوپر والے محل میں پناہ لے لیں تو ان کو، ان کی بیویوں اور ان کے بچوں کو پناہ دے دی جائے گی اور ان کا مال واپس کر دیا جائے گا۔ شہر کا ایک کونا بھی مسلمانوں کی لاشوں سے خالی نہ تھا اور چلنا پھرنا دشوار ہو گیا تھا بوہیمانڈ نے جن کو پناہ دی تھی ان کا سونا چاندی اور زیورات ان سے لے لیے اور ان میں سے بعض کو تو مروا دیا اور باقی ماندہ کو انطاکیہ میں غلام بنا کر بیچ ڈالا گیا۔ [پهلي صليبي جنگ ص 45 بحواله جهاد از بريگيڈيئر گلزار احمد ص 267]
اور عورت کی امان کے سلسلہ میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے: فتح مکہ کے موقعہ پر ام ہانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پس پردہ غسل فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”کون ہے؟“ ام ہانی کہنے لگیں ”میں ام ہانی ہوں“ پھر ام ہانی نے عرض کیا ”اے اللہ کے رسول! میری ماں کے لڑکے (علیؓ) یہ کہتے ہیں کہ وہ ہبیرہ (ام ہانی کے خاوند کا نام) کے لڑکے کو قتل کر دیں گے جبکہ میں اسے پناہ دے چکی ہوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ام ہانی! جس کو تم نے پناہ دی ہم نے بھی اس کو پناہ دی۔“ [بخاري كتاب الغسل۔ باب التستر فى الغسل]
مسلمانوں کی اس راستبازی اور ایفائے عہد کی بنا پر دشمن دھوکا دے کر بھی امان حاصل کر لیتے تھے۔ چنانچہ عراق و ایران کی جنگوں میں خارق کے مقام پر سیدنا ابو عبیدہ ابن الجراح اور ایرانیوں کے سپہ سالار جاپان کی افواج کا مقابلہ ہوا۔ جاپان شکست کھا کر گرفتار ہو گیا۔ مگر جس مجاہد نے اسے گرفتار کیا تھا وہ اسے پہچانتا نہیں تھا۔ جاپان نے اس کی لاعلمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے عوض دو نوجوان غلام دینے کا وعدہ کر کے امان لے لی۔ اتنے میں کسی دوسرے نے اسے پہچان لیا اور پکڑ کر ابو عبیدہ کے پاس لے گئے۔ سیدنا ابو عبیدہ نے یہ صورت حال دیکھ کر فرمایا: اگرچہ ایسے دشمن کو چھوڑ دینا ہمارے حق میں بہت مضر ثابت ہو گا مگر ایک مسلمان اسے پناہ دے چکا ہے اس لیے بد عہدی جائز نہیں چنانچہ اس امان کی بنا پر اسے چھوڑ دیا گیا۔ [تاريخ اسلام۔ حميد الدين ص 132]
اب اس کے مقابلہ میں عیسائی دنیا کی صلیبی جنگوں میں امان، کا قصہ بھی سن لیجئے۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد طرابلس کے مسلمان بادشاہ نے کاؤنٹ بوہیمانڈ کو پیغام بھیجا کہ وہ معاہدہ کرنے کو تیار ہے اور ساتھ ہی دس گھوڑے اور سونا بھی خیر سگالی کے طور پر بھیجا اور یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا جب کاؤنٹ امان دے چکنے کے بعد پورے شہر کے زن و مرد کو موت کی گھاٹ اتار رہا تھا۔ بوہیمانڈ نے ترجمان کے ذریعہ مسلمان امیروں کو بتایا کہ اگر وہ صدر دروازے کے اوپر والے محل میں پناہ لے لیں تو ان کو، ان کی بیویوں اور ان کے بچوں کو پناہ دے دی جائے گی اور ان کا مال واپس کر دیا جائے گا۔ شہر کا ایک کونا بھی مسلمانوں کی لاشوں سے خالی نہ تھا اور چلنا پھرنا دشوار ہو گیا تھا بوہیمانڈ نے جن کو پناہ دی تھی ان کا سونا چاندی اور زیورات ان سے لے لیے اور ان میں سے بعض کو تو مروا دیا اور باقی ماندہ کو انطاکیہ میں غلام بنا کر بیچ ڈالا گیا۔ [پهلي صليبي جنگ ص 45 بحواله جهاد از بريگيڈيئر گلزار احمد ص 267]
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
امن مانگنے والوں کو امن دو منافقوں کی گردن مار دو ٭٭
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ جن کافروں سے آپ کو جہاد کا حکم دیا گیا ہے ان میں سے اگر کوئی آپ سے امن طلب کرے تو آپ اس کی خواہش پوری کر دیں اسے امن دیں یہاں تک کہ وہ قرآن کریم سن لے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سن لے دین کی تعلیم معلوم کر لے حجت الہٰی پوری ہو جائے پھر اپنے امن میں ہی اسے اس کے وطن پہنچا دو بے خوفی کے ساتھ یہ اپنے امن کی جگہ پہنچ جائے ممکن ہے کہ سوچ سمجھ کر حق کو قبول کر لے۔
یہ اس لیے کہ یہ بےعلم لوگ ہیں انہیں دینی معلومات بہم پہنچاؤ اللہ کی دعوت اس کے بندوں کے کانوں تک پہنچا دو۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو تیرے پاس دینی باتیں سننے کے لیے آئے خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو وہ امن میں ہے یہاں تک کہ کلام اللہ سنے پھر جہاں سے آیا ہے وہاں باامن پہنچ جائے۔
اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے جو دین سمجھنے کے لیے آۓ اور اسے جو پیغام لے کر آۓ امن دے دیا کرتے تھے حدیبیہ والے سال بھی یہی ہوا قریش کے جتنے قاصد آئے یہاں انہیں کوئی خطرہ نہ تھا۔ عروہ بن مسعود، مکرزبن حفص، سہیل بن عمرو وغیرہ یکے بعد دیگرے آتے رہے۔
یہ اس لیے کہ یہ بےعلم لوگ ہیں انہیں دینی معلومات بہم پہنچاؤ اللہ کی دعوت اس کے بندوں کے کانوں تک پہنچا دو۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو تیرے پاس دینی باتیں سننے کے لیے آئے خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو وہ امن میں ہے یہاں تک کہ کلام اللہ سنے پھر جہاں سے آیا ہے وہاں باامن پہنچ جائے۔
اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے جو دین سمجھنے کے لیے آۓ اور اسے جو پیغام لے کر آۓ امن دے دیا کرتے تھے حدیبیہ والے سال بھی یہی ہوا قریش کے جتنے قاصد آئے یہاں انہیں کوئی خطرہ نہ تھا۔ عروہ بن مسعود، مکرزبن حفص، سہیل بن عمرو وغیرہ یکے بعد دیگرے آتے رہے۔
یہاں آ کر انہیں وہ شان نظر آئی جو قیصر و کسریٰ کے دربار میں بھی نہ تھی یہی انہوں نے اپنی قوم سے کہا پس یہ چیز بھی بہت سے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن گئ۔ مسیلمہ کذاب مدعی نبوت کا قاصد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ ”کیا تم مسلیمہ کی رسالت کے قائل ہو؟“ اس نے کہا: ”ہاں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر قاصدوں کا قتل میرے نزدیک ناجائز نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا۔“ ۱؎ [مسند احمد:383/1:صحیح]
آخر یہ شخص سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہا کی کوفہ میں امارت کے زمانے میں قتل کر دیا گیا۔ اسے ابن النواحہ کہا جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا کہ یہ مسیلمہ کا ماننے والا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلوایا اور فرمایا: ”اب تو قاصد نہیں ہے اب تیری گردن مارنے سے کوئی امر مانع نہیں، اسے قتل کر دیا گیا۔ اللہ کی لعنت اس پر ہو۔
الغرض دارالحرب سے جو قاصد آئے یا تاجر آئے یا صلح کا طالب آئے یا آپس میں اصلاح کے ارادے سے آئے یا جزیہ لے کر حاضر ہو امام یا نائب امام نے اسے امن وامان دے دیا ہو تو جب تک وہ دارالاسلام میں رہے یا اپنے وطن نہ پہنچ جائے اسے قتل کرنا حرام ہے۔ علماء کہتے ہیں ایسے شخص کو دارالاسلام میں سال بھر تک نہ رہنے دیا جائے، زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک وہ یہاں ٹھہر سکتا ہے۔ پھر چار ماہ سے زیادہ اور سال بھر کے اندر کے دو قول امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ وغیرہ علماء کے ہیں۔
آخر یہ شخص سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہا کی کوفہ میں امارت کے زمانے میں قتل کر دیا گیا۔ اسے ابن النواحہ کہا جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا کہ یہ مسیلمہ کا ماننے والا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلوایا اور فرمایا: ”اب تو قاصد نہیں ہے اب تیری گردن مارنے سے کوئی امر مانع نہیں، اسے قتل کر دیا گیا۔ اللہ کی لعنت اس پر ہو۔
الغرض دارالحرب سے جو قاصد آئے یا تاجر آئے یا صلح کا طالب آئے یا آپس میں اصلاح کے ارادے سے آئے یا جزیہ لے کر حاضر ہو امام یا نائب امام نے اسے امن وامان دے دیا ہو تو جب تک وہ دارالاسلام میں رہے یا اپنے وطن نہ پہنچ جائے اسے قتل کرنا حرام ہے۔ علماء کہتے ہیں ایسے شخص کو دارالاسلام میں سال بھر تک نہ رہنے دیا جائے، زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک وہ یہاں ٹھہر سکتا ہے۔ پھر چار ماہ سے زیادہ اور سال بھر کے اندر کے دو قول امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ وغیرہ علماء کے ہیں۔