اگر تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو انھیں بری لگتی ہے اور اگر تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو کہتے ہیں ہم نے تو پہلے ہی اپنا معاملہ سنبھال لیا تھا اور اس حال میں پھرتے ہیں کہ وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
(اے پیغمبر) اگر تم کو آسائش حاصل ہوتی ہے تو ان کو بری لگتی ہے۔ اور کوئی مشکل پڑتی ہے تو کہتے کہ ہم نے اپنا کام پہلے ہیں (درست) کر لیا تھا اور خوشیاں مناتے لوٹ جاتے ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
آپ کو اگر کوئی بھلائی مل جائے تو انہیں برا لگتا ہے اور کوئی برائی پہنچ جائے تو یہ کہتے ہیں ہم نے تو اپنا معاملہ پہلے سے ہی درست کر لیا تھا، پھر تو بڑے ہی اتراتے ہوئے لوٹتے ہیں
(آیت50){اِنْتُصِبْكَحَسَنَةٌتَسُؤْهُمْ …:} یہاں {”حَسَنَةٌ“} سے مراد کامیابی، فتح، غنیمت اور سلامتی ہے اور {”مُصِيْبَةٌ“} سے مراد فتح حاصل کرنے میں وقتی ناکامی یا مسلمانوں کا زخمی اور شہید ہونا ہے۔ یہ بھی ان کے خبث باطن اور مکر و فریب کی ایک دلیل ہے کہ انھیں مسلمانوں کو کوئی فائدہ حاصل ہونا ناگوار ہوتا ہے اور اگر وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہوں تو خوش ہوتے ہیں اور انھیں اپنی ہوش مندی اور سیاست دانی کا پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو پہلے ہی بچاؤ کر لیا تھا، جیسے جنگ احد کے بعد عبد اللہ بن ابی منافق نے کہا تھا کہ ہم تو اسی وجہ سے پہلے پلٹ آئے تھے کہ ہمیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کو شکست ہو گی اور وہ مارے جائیں گے۔ ایسے ہی وہ منافق جو غزوۂ تبوک کے موقع پر مدینہ میں رہ گئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے متعلق مشہور کرتے رہے کہ یہ لوگ رومیوں سے بچ کر نہیں آ سکیں گے، لیکن جب انھیں اطلاع ملی کہ مسلمان صحیح و سالم فتح حاصل کرکے واپس آ رہے ہیں تو انھیں انتہائی غم ہوا۔ (ابن کثیر) ان کی اس بدخصلت کے مزید تذکرے کے لیے دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۵۶) اور نساء (۷۲)۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
50۔ 1 سیاق کلام کے اعتبار سے حسنَۃ،ُ سے یہاں کامیابی اور غنیمت اور سَیَئَۃ سے ناکامی، شکست اور اسی قسم کے نقصانات جو جنگ میں متوقع ہوتے ہیں مراد ہیں۔ اس میں ان کے خبث باطنی کا اظہار ہے جو منافقین کے دلوں میں تھا اس لئے کہ مصیبت پر خوش ہونا اور بھلائی حاصل ہونے پر رنج اور تکلیف محسوس کرنا، غایت عداوت کی دلیل ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
50۔ اگر آپ کو کوئی بھلائی [54] ملے تو انہیں بری لگتی ہے۔ اور اگر کوئی مصیبت آ پڑے تو کہتے ہیں۔ ”ہم نے تو اپنا معاملہ پہلے ہی درست رکھا تھا“ پھر وہ خوش خوش واپس چلے جاتے ہیں [54] یعنی اگر فتح نصیب ہو تو یہ جل بھن جاتے ہیں اور اگر خدانخواستہ شکست سے دو چار ہونا پڑے تو کہتے ہیں کہ ہم نے از راہ دور اندیشی پہلے ہی اپنے بچاؤ کا انتظام کر لیا تھا ہم سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کا یہی حشر ہونے والا ہے لہٰذا ان کے ساتھ گئے ہی نہیں۔ پھر وہ خوشی خوشی ڈھیں گیں مارتے اور بغلیں بجاتے اپنی مجلسوں سے اپنے گھروں کو واپس جاتے ہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
بدفطرت لوگوں کا دوغلا پن ٭٭
ان بدظن لوگوں کی اندرونی خباثت کا بیان ہورہا ہے کہ مسلمانوں کی فتح و نصرت سے، ان کی بھلائی اور ترقی سے ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے اور اگر اچانک یہاں اس کے خلاف ہوا تو الاپ الاپ کر اپنی چالاکی کے افسانے گائے جاتے ہیں کہ میاں اسی وجہ سے ہم تو ان سے بچتے رہے مارے خوشی کے بغلیں بجانے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو جواب دے کہ رنج و راحت اور ہم خود اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اس کی منشاء کے ماتحت ہیں وہ ہمارا مولیٰ ہے وہ ہمارا آقا ہے وہ ہماری پناہ ہے ہم مومن ہیں اور مومنوں کا بھروسہ اسی پر ہوتا ہے وہ ہمیں کافی ہے بس ہے وہ ہمارا کار ساز ہے اور بہترین کار ساز ہے۔