ترجمہ و تفسیر — سورۃ التوبة (9) — آیت 5
فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡہُرُ الۡحُرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ وَ خُذُوۡہُمۡ وَ احۡصُرُوۡہُمۡ وَ اقۡعُدُوۡا لَہُمۡ کُلَّ مَرۡصَدٍ ۚ فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوۡا سَبِیۡلَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
پس جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پائو قتل کرو اور انھیں پکڑو اور انھیں گھیرو اور ان کے لیے ہر گھات کی جگہ بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
جب عزت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو اور پکڑلو اور گھیرلو اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھے رہو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
پھر حرمت والے مہینوں کے گزرتے ہی مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو انہیں گرفتار کرو، ان کا محاصره کرلو اور ان کی تاک میں ہر گھاٹی میں جا بیٹھو، ہاں اگر وه توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوٰة ادا کرنے لگیں توتم ان کی راہیں چھوڑ دو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 5) ➊ {فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ …:} ان چار مہینوں سے مراد ۱۰ ذوالحجہ سے ۱۰ ربیع الثانی تک کے ایام ہیں۔ بعض لوگوں نے اس سے معروف حرمت والے مہینے مراد لیے ہیں، یعنی رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ ۱۰ ذوالحجہ کو اعلان براء ت ہو تو محرم ختم ہونے تک کل پچاس دن بنتے ہیں، اس لیے حافظ ابن کثیر اور دوسرے مفسرین نے ۱۰ ذوالحجہ سے ۱۰ ربیع الثانی تک ہی چار ماہ مراد لیے ہیں اور انھیں { الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ } اس لیے کہا گیا کہ اس مہلت میں مشرکین کا قتل حرام کر دیا گیا، یہی تفسیر درست ہے۔
➋ { كُلَّ مَرْصَدٍ:} گھات کی جگہ سے مراد وہ راستہ یا جگہ ہے جہاں سے دشمن کے گزرنے کی توقع ہو اور جہاں سے اس پر حملہ کر کے اس کا کام تمام کرنا ممکن ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان مشرکین سے صرف میدان جنگ میں لڑنا ہی کافی نہیں، بلکہ جس طریقے سے بھی تم ان پر قابو پا کر انھیں قتل کر سکتے ہو ضرور کرو۔
➌ {فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ …:} شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جن سے وعدہ ٹھہر گیا تھا اور دغا ان سے نہ دیکھی ان کی صلح قائم رہی اور جن سے کچھ وعدہ نہ تھا ان کو فرصت ملی چار مہینے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دل کی خبر اللہ کو ہے، ظاہر میں جو مسلمان ہو وہ سب کے برابر امان میں ہے اور ظاہر مسلمانی کی حد ٹھہرائی ایمان لانا، کفر سے توبہ کرنا اور نماز اور زکوٰۃ۔ اس واسطے جب کوئی شخص نماز چھوڑ دے تو اس سے امان اٹھ گئی۔ (موضح) یہی وہ حکم ہے جس کی بنا پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زکوٰۃ کے منکرین سے جنگ کی اور فرمایا کہ میں اس شخص سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑائی کروں، یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کی گواہی دیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، پھر جب وہ یہ (تین) کام کر لیں تو انھوں نے اپنے خون اور اپنے مال مجھ سے محفوظ کر لیے، مگر اسلام کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ [بخاری، الإیمان، باب: «‏‏‏‏فإن تابوا و أقاموا الصلاۃ…» : ۲۵]
یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت میں آپ کے تمام احکام کی فرماں برداری کا اقرار آ جاتا ہے، اگر ان میں سے کسی حکم کا انکار کرے، جو عام سب کو معلوم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے تو مرتد ٹھہرے گا اور اگر کسی حکم کا انکار تو نہ کرے مگر عمل نہ کر سکے تو گناہ گار مسلمان ہو گا، کافر نہیں ہو گا۔ البتہ مسلمان ہونے کی ظاہری نشانیاں وہ ہیں جو اوپر ذکر ہوئیں، ان کا صرف اقرار کرنا یا دل میں ماننا کافی نہیں، بلکہ ان پر عمل کرنا خون اور مال کی حفاظت کا ضامن ٹھہرایا گیا ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

5۔ 1 ان حرمت والے مہینوں سے مراد کیا ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے اس سے مراد چار مہینے ہیں جو حرمت والے ہیں۔ رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور اعلان نجات 0 1 ذوالحجہ کو کیا گیا۔ اس اعتبار سے گویا یہ اعلان کے بعد پچاس دن کی مہلت انہیں دی گئی، لیکن امام ابن کثیر نے کہا کہ یہاں اَ شھَرُ حُرْم سے مراد حرمت والے مہینے نہیں بلکہ 10 ذوالحجہ سے لے کر 10 ربیع الثانی تک کے چار مہینے مراد ہیں۔ انہیں اشھر حرم اس لیے کہا گیا ہے کہ اعلان براءت کی رو سے ان چار مہینوں میں ان مشرکین سے لڑنے اور انکے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں تھی۔ اعلان برات کی رو سے یہ تاویل مناسب معلوم ہوتی ہے (واللہ اعلم)۔ 5۔ 2 بعض مفسرین نے اس حکم کو عام رکھا یعنی حل یا حرم میں، جہاں بھی پاؤ قتل کرو اور بعض مفسرین نے کہا مسجد حرام کے پاس مت لڑو! یہاں تک کہ وہ خود تم سے لڑیں، اگر وہ لڑیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔ 5۔ 3 یعنی انہیں قیدی بنا لویا قتل کردو۔ 5۔ 4 یعنی اس بات پر اکتفا کرو کہ وہ تمہیں کہیں ملیں تو تم کاروائی کرو، بلکہ جہان جہاں ان کے حصار، قلعے اور پناہ گاہیں ہیں وہاں وہاں ان کی گھات میں رہو، حتٰی کہ تمہاری اجازت کے بغیر ان کے لئے نقل و حرکت ممکن نہ رہے۔ 5۔ 5 یعنی کوئی کاروائی ان کے خلاف نہ کی جائے، کیونکہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں۔ گویا قبول اسلام کے بعد اقامت صلٰوۃ اور ادائے زکوٰۃ کا اہتمام ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک کا بھی ترک کرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں سمجھا جائے گا۔ جس طرح حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مانعین زکوٰۃ کے خلاف اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے جہاد کیا: اور فرمایا واللہ لأقتلن من فرق بین الصلوٰ ۃ وال زکوٰۃ (متفق علیہ) اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کریں گے۔ " یعنی نماز تو پڑھیں لیکن زکوٰۃ ادا کرنے سے گریز کریں۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

5۔ پھر جب یہ حرمت [4] والے (چار) مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو، انہیں پکڑو، ان کا محاصرہ کرو اور ان کی تاک میں ہر گھات کی جگہ بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے [5] لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ (کیونکہ) اللہ درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے [4] یہاں حرمت والے مہینوں سے مراد 10 ذی الحجہ 9 ہجری سے لے کر 10 ربیع الثانی 10 ہجری تک چار ماہ کی مدت ہے جو مشرکوں کو سوچ بچار کے لیے دی گئی تھی۔ یہاں حرمت والے مہینوں سے مراد ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب نہیں ہیں جو دور جاہلیت میں بھی حرمت والے سمجھے جاتے تھے اور اسلام نے بھی ان کی حرمت کو بحال رکھا ہے۔
[5] مشرکوں سے جنگ نہ کرنے کی شرائط:۔
درج ذیل حدیث اس کی مزید وضاحت کر رہی ہے۔ عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے جنگ کروں جب تک وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی نہ دیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ پھر جب وہ یہ کام کریں تو انہوں نے مجھ سے اپنی جانیں اور اپنے مال محفوظ کر لیے سوائے اسلام کے حق کے اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔“ [بخاري۔ كتاب الايمان۔ باب فان، تابوا۔۔ مسلم۔ كتاب الايمان۔ باب الامر بقتال الناس حتي۔۔]
یعنی ان مشرکوں کو محض اسلام لانے کا اعلان یا توبہ کرنا ہی کافی نہیں بلکہ انہیں اپنے دعویٰ کو درست ثابت کرنے کے لیے نماز کا قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ اور اگر کوئی مشرک ظاہری طور پر یہ تینوں شرائط پوری کر دے تو اس سے تعرض نہیں کیا جائے گا خواہ اس کی نیت میں فتور بدستور موجود ہو۔ اور اگر ایسی صورت ہو تو اللہ اس سے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ایسے لوگوں سے نمٹ لے گا۔ اس آیت سے یہ اصول مستنبط ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان خواہ وہ موروثی مسلمان ہو یا نو مسلم ہو اگر وہ نماز قائم کرتا اور زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو ایک اسلامی حکومت میں اسے حقوق شہریت مل سکتے ہیں اور اگر نہیں کرتا تو اسے مسلمانوں جیسے حقوق نہیں مل سکتے۔
مرتدین اور بالفعل زکوٰۃ نہ دینے والوں سے سیدنا ابو بکر صدیقؓ کا جہاد:۔
دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس اعلان کے بعد مشرکوں نے صرف تیسری راہ اختیار کی یعنی وہ اسلام لے آئے۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پھر ایسے مشرکوں نے سر اٹھایا۔ کچھ تو سرے سے اسلام سے ہی مرتد ہو گئے اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے ایسے لوگوں کے بارے میں جنگ کرنے سے متعلق مجلس شوریٰ طلب کی۔ اور ایسے نازک حالات میں ان مانعین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کرنے کے متعلق مشورہ کیا۔ اس مجلس میں اکثر صحابہ نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر ان سے فی الحال تعرض نہ کرنے کا مشورہ دیا اور بعض نے یہ کہا کہ آپ ایسے لوگوں سے کیسے جنگ کر سکتے ہیں جو کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام میں داخل ہو چکے ہیں تو سیدنا ابو بکرؓ نے اسی آیت سے استدلال کر کے شوریٰ پر ثابت کر دیا کہ اسلام کے دعویٰ کی صداقت کے لیے جیسے نماز کی ادائیگی شرط ہے ویسے ہی زکوٰۃ کی ادائیگی بھی شرط ہے چنانچہ شوریٰ کو اس بات کا قائل ہونا پڑا اور آپ نے ان مانعین زکوٰۃ سے کفار و مشرکین کی طرح جہاد کیا۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

جہاد اور حرمت والے مہینے ٭٭
حرمت والے مہینوں سے مراد یہاں وہ چار مہینے ہیں جن کا ذکر «‏‏‏‏مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ» ‏‏‏‏ ۱؎ [9- التوبہ: 36]‏‏‏‏ میں ہے پس ان کے حق میں آخری حرمت والا مہینہ محرم الحرام کا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ضحاک رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے لیکن اس میں ذرا تأمل ہے بلکہ مراد اس سے یہاں وہ چار مہینے ہیں جن میں مشرکین کو پناہ ملی تھی کہ ان کے بعد تم سے لڑائی ہے۔ چنانچہ خود اسی سورت میں اس کا بیان اور آیت میں آ رہا ہے۔
فرماتا ہے ان چار ماہ کے بعد مشرکوں سے جنگ کرو انہیں قتل کرو انہیں گرفتار کرو جہاں بھی پالو۔ پس یہ عام ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ خاص ہے حرم میں لڑائی نہیں ہو سکتی۔
جیسے فرمان ہے «‏‏‏‏وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ» ۱؎ [2- البقرة: 191]‏‏‏‏ مسجد الحرام کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک کہ وہ اپنی طرف سے لڑائی کی ابتداء نہ کریں۔ اگر یہ وہاں تم سے لڑیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑائی کرنے کی اجازت ہے چاہو قتل کرو چاہو قید کر لو ان کے قلعوں کا محاصرہ کرو ان کے لیے ہر گھاٹی میں بیٹھ کر تاک لگاؤ انہیں زد پر لا کر مارو۔ یعنی یہی نہیں کہ مل جائیں تو جھڑپ ہو جائے خود چڑھ کر جاؤ۔ ان کی راہیں بند کرو اور انہیں مجبور کر دو کہ یا تو اسلام لائیں یا لڑیں۔
اس لیے فرمایا کہ اگر وہ توبہ کر لیں، پابند نماز ہو جائیں، زکوٰۃ دینے لگیں تو بےشک ان کی راہیں کھول دو ان پر سے تنگیاں اٹھالو۔ زکوٰۃ کے مانعین سے جہاد کرنے کی اسی جیسی آیتوں سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دلیل لی تھی کہ لڑائی اس شرط پر حرام ہے کہ اسلام میں داخل ہو جائیں اور اسلام کے واجبات بجا لائیں۔
اس آیت میں ارکان اسلام کو ترتیب وار بیان فرمایا ہے اعلٰی پھر ادنٰی پس شہادت کے بعد سب سے بڑا رکن اسلام نماز ہے جو اللہ عزوجل کا حق ہے۔ نماز کے بعد زکوٰۃ ہے جس کا نفع فقیروں، مسکینوں، محتاجوں کو پہنچتا ہے اور مخلوق کا زبردست حق جو انسان کے ذمے ہے ادا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نماز کے ساتھ ہی زکوٰۃ کا ذکر اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے۔
بخاری و مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مجھے حکم کیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد جاری رکھوں۔ جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ کوئی معبود بجز اللہ کے نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور نمازوں کو قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ ۱؎ الخ [صحیح بخاری:25]‏‏‏‏
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ تمہیں نمازوں کے قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم کیا گیا ہے جو زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز بھی نہیں۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ ہرگز کسی کی نماز قبول نہیں فرماتا جب تک وہ زکوٰۃ ادا نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے آپ کی فقہ سب سے بڑھی ہوئی تھی جو آپ نے زکوٰۃ کے منکروں سے جہاد کیا۔
مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مجھے لوگوں سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔ جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ بجز اللہ تعالیٰ برحق کے اور کوئی لائق عبادت نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ جب وہ ان دونوں باتوں کا اقرار کر لیں ہمارے قبلے کی طرف منہ کر لیں، ہمارا ذبیحہ کھانے لگیں، ہم جیسی نمازیں پڑھنے لگیں تو ہم پر ان کے خون ان کے مال حرام ہیں مگر احکام اسلام حق کے ماتحت انہیں ہر وہ حق حاصل ہے جو اور مسلمانوں کا ہے اور ان کے ذمے ہر وہ چیز ہے جو اور مسلمانوں کے ذمے ہے۔ یہ روایت صحیح بخاری میں اور سنن میں بھی ہے سوائے ابن ماجہ کے۔ ۱؎ [صحیح بخاری:392]‏‏‏‏
ابن جریر میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جو دنیا سے اس حال میں جائے کہ اللہ تعالیٰ اکیلے کی خالص عبادت کرتا ہو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو تو وہ اس حال میں جائے گا کہ اللہ اس سے خوش ہو گا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یہی اللہ کا دین ہے اسی کو تمام پیغمبر علیہم السلام لائے تھے اور اپنے رب کی طرف سے اپنی اپنی امتوں کو پہنچایا تھا اس سے پہلے کہ باتیں پھیل جائیں اور خواہشیں ادھر ادھر لگ جائیں۔ اس کی سچائی کی شہادت اللہ تعالیٰ کی آخری وحی میں موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «‏‏‏‏فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ» ۱؎ [9-التوبہ: 5]‏‏‏‏ پس توبہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد برحق ہے پس توبہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد برحق کے سوا اوروں کی عبادت سے دست بردار ہو جائیں نماز اور زکوٰۃ کے پابند ہو جائیں۔
اور آیت میں ہے کہ ان تینوں کاموں کے بعد وہ تمہارے دینی برادر ہیں۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:13489:ضعیف]‏‏‏‏
ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ تلوار کی آیت ہے اس نے ان تمام عہد و پیمان کو چاک کر دیا جو مشرکوں سے تھے۔‏‏‏‏ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ برأت کے نازل ہونے پر چار مہینے گزر جانے کے بعد کوئی عہد و ذمہ باقی نہیں رہا، پہلی شرطیں برابری کے ساتھ توڑ دی گئیں اب اسلام اور جہاد باقی رہ گیا۔‏‏‏‏ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چار تلواروں کے ساتھ بھیجا ایک تو مشرکین عرب میں۔‏‏‏‏
فرماتا ہے «فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ» ‏‏‏‏ ۱؎ [9- التوبہ: 5]‏‏‏‏ مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو۔ یہ روایت اسی طرح مختصراً ہے۔
میرا خیال ہے کہ دوسری تلوار اہل کتاب میں، فرماتا ہے «‏‏‏‏قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ» ‏‏‏‏ ۱؎ [9- التوبہ: 29]‏‏‏‏ الخ اللہ تبارک و تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہ لانے والوں اور اللہ تعالیٰ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حرام کردہ کو حرام نہ ماننے والوں اور اللہ تعالیٰ کے سچے دین کو قبول کرنے والوں سے جو اہل کتاب ہیں جہاد کرو تاوقتیکہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دینا قبول نہ کر لیں۔
تیری تلوار منافقوں میں، فرمان ہے «‏‏‏‏يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ» ‏‏‏‏ ۱؎ [9- التوبہ: 73]‏‏‏‏ اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو۔
چوتھی تلوار باغیوں میں، ارشاد ہے «‏‏‏‏وَاِنْ طَاىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا» ‏‏‏‏ ۱؎ [49- الحجرات: 9]‏‏‏‏ اگر مسلمانوں کی دو جماعتوں میں لڑائی ہو جائے تو ان میں صلح کرا دو پھر بھی اگر کوئی جماعت دوسری کو دباتی چلی جائے تو ان باغیوں سے تم لڑو جب تک کہ وہ پلٹ کر اللہ کے حکم کی ماتحتی میں نہ آ جائیں۔
ضحاک رحمہ اللہ اور سدی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ آیت یہ تلوار آیت «فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً» ‏‏‏‏ ۱؎ [47-محمد: 4]‏‏‏‏ سے منسوخ ہے یعنی بطور احسان کے یا فدیہ لے کر کافر قیدیوں کو چھوڑ دو۔ قتادہ رحمہ اللہ اس کے برعکس کہتے ہیں کہ پچھلی آیت پہلی سے منسوخ ہے۔‏‏‏‏

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل