اِنۡفِرُوۡا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاہِدُوۡا بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۴۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
نکلو ہلکے اور بوجھل اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرو، یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
تم سبکبار ہو یا گراں بار (یعنی مال و اسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت، گھروں سے) نکل آؤ۔ اور خدا کے رستے میں مال اور جان سے لڑو۔ یہی تمہارے حق میں اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو
ترجمہ محمد جوناگڑھی
نکل کھڑے ہو جاؤ ہلکے پھلکے ہو تو بھی اور بھاری بھر کم ہو تو بھی، اور راه رب میں اپنی مال وجان سے جہاد کرو، یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم میں علم ہو

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت41) ➊ {اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا …:} اللہ تعالیٰ نے تبوک کے لیے نہ نکلنے کی صورت میں دنیا و آخرت میں عذاب الیم کی وعید سنا کر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے سوا کسی کی مدد کا محتاج نہ ہونے کا ذکر فرما کر اب تاکید کے ساتھ تمام مسلمانوں کو جنگ کے لیے نکلنے کا حکم دیا، اسے نفیر عام کہا جاتا ہے۔ اس حکم کے بعد ہر مسلمان پر نکلنا فرض ہو جاتا ہے، ماں باپ یا کسی کے اذن (اجازت) کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ہلکے اور بوجھل الفاظ عام ہیں، اس لیے اس میں سب شامل ہیں، یعنی طبیعت چاہتی ہے یا نہیں، خوش حال ہو یا تنگ دست، مجرد ہو یا عیال دار، جوان ہو یا بوڑھے، ہتھیار بند ہو یا بے ہتھیار، ہر حال میں جہاد کے لیے نکلو۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی: «اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا» ‏‏‏‏ تو کہنے لگے: میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم بوڑھوں اور جوانوں سب کو نکلنے کے لیے کہا ہے۔ ان کی اولاد نے کہا: اباجان! آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جنگیں لڑیں، حتیٰ کہ وہ فوت ہو گئے اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ بھی تو ہم آپ کی جگہ جنگ کریں گے، مگر وہ نہ مانے، چنانچہ انھوں نے سمندر کا سفر اختیار کیا، یہاں تک کہ فوت ہو گئے۔ تو سات دن تک انھیں دفن کرنے کے لیے کوئی جزیرہ نہ ملا اور اس دوران میں ان کے جسم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ [مستدرک حاکم: 353/3، ح: ۵۵۰۸، صححہ الحاکم و سکت عنہ الذھبی] اسی طرح مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ بڑھاپے اور بھاری جسم کے باوجود نکلے، ایک آدمی نے ان سے کہا، کاش! آپ اس سال جنگ کے لیے نہ جائیں تو انھوں نے کہا: سورۂ بحوث (توبہ) ہمیں بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «‏‏‏‏اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا» نکلو، ہلکے ہو یا بھاری اور میں اپنے آپ کو ہلکا ہی پاتا ہوں۔ [السنن الکبرٰی للبیہقی: 21/9، ح: ۱۸۲۵۶]
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر میں شریک ہوئے، پھر ایک سال کے سوا کبھی مسلمانوں کی کسی جنگ سے پیچھے نہیں رہے۔ تاریخ کی کتابوں کے مطابق نوے سال کی عمر میں قسطنطنیہ جانے والے لشکر میں آپ شریک ہوئے، ان کے امیر یزید بن معاویہ تھے، بیمار ہوئے تو یزید ان کی بیمار پرسی کے لیے آئے۔ پوچھا: کوئی خواہش ہو تو بتائیں؟ فرمایا: میری خواہش یہ ہے کہ جب میں فوت ہو جاؤں تو سوار ہو کر دشمن کی سرزمین میں جہاں تک آگے جا سکو جاؤ، جب اس سے آگے بڑھنے کی گنجائش نہ رہے تو مجھے وہاں دفن کر دو، پھر واپس آجاؤ۔ ابوایوب رضی اللہ عنہ یہ آیت پڑھا کرتے: «‏‏‏‏اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا» ‏‏‏‏ اور فرماتے: تو میں یا تو ہلکا ہوں گا یا بوجھل۔ یعنی ہر حال میں نکلنے کا حکم ہے۔ [مستدرک حاکم: 458/3، ح: ۵۹۳۰، سکت عنہ الذھبی]
➋ جہاد کے لیے نکلنا کسی شخص پر کب ہر حال میں فرض ہوتا ہے اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۲۱۶) کے حواشی۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

41۔ 1 اس کے مختلف مفہوم بیان کئے گئے ہیں مثلًا انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر خوشی سے یا ناخوشی سے غریب ہو یا امیر جوان ہو یا بوڑھا پیادہ ہو یا سوار عیال دار ہو یا اہل و عیال کے بغیر۔ وہ پیش قدمی کرنے والوں میں سے ہو یا پیچھے لشکر میں شامل۔ امام شوکانی فرماتے ہیں آیت کا حمل تمام معافی پر ہوسکتا ہے، اس لئے کہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ ' تم کوچ کرو، چاہے نقل و حرکت تم پر بھاری ہو یا ہلکی '۔ اور اس مفہوم میں مذکورہ تمام مفاہیم آجاتے ہیں۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

41۔ ہلکے بھی نکلو [45] اور بوجھل بھی اور اپنے اموال اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو یہی بات تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہوتے [45] اس جملہ کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں یعنی خواہ برضا و رغبت نکلو یا بکراہت اور بوجھل دل سے نکلو، یا بے سر و سامانی کی حالت میں نکلو یا ساز و سامان کے ساتھ اور خواہ تم پیدل ہو یا سوار یا مجرد ہو یا عیالدار، مفلس ہو یا نادار جو بھی صورت ہو تمہیں اللہ کی راہ میں نکلنا ضرور چاہیے۔ اور اپنے اموال اور جانوں سے جہاد کرنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب تک کوئی اسلامی حکومت جہاد کا عام اعلان نہ کرے اس وقت تک تو جہاد فرض کفایہ ہوتا ہے لیکن جب ایسا اعلان کر دے تو جہاد مسلمانوں پر فرض عین بن جاتا ہے۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے ٭٭
کہتے ہیں کہ سورۃ براۃ میں یہی آیت پہلے اتری ہے اس میں ہے کہ غزوہ تبوک کے لیے تمام مسلمانوں کو ہمراہ ہادی امم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکل کھڑے ہونا چاہیئے اہل کتاب رومیوں سے جہاد کے لیے تمام مومنوں کو چلنا چاہیئے خواہ جی مانے یا نہ مانے خواہ آسانی نظر آئے یا بھاری پڑے۔
ذکر ہو رہا تھا کہ کوئی بڑھاپے کا کوئی بیمار کا عذر کر دے گا تو یہ آیت اتری۔ بوڑھے جوان سب کو پیغمبر کا ساتھ دینے کا عام الحکم ہوا کسی کا کوئی عذر نہ چلا۔ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی یہی تفسیر کی اور اس حکم کی تعمیل میں سر زمین شام میں چلے گئے۔ اور نصرانیوں سے جہاد کرتے ہی رہے یہاں تک کہ جان بخش کو جان سونپی۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ۔
اور روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے اس آیت پر آئے تو فرمانے لگے ہمارے رب نے تو میرے خیال سے بوڑھے جوان سب کو جہاد کے لیے چلنے کی دعوت دی ہے میرے پیارے بچو میرا سامان تیار کرو۔ میں ملک شام کے جہاد میں شرکت کے لیے ضرور جاؤں گا۔ بچوں نے کہا: ابا جی! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات تک آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ماتحتی میں جہاد کیا۔ خلافت صدیقی میں آپ مجاہدین کے ساتھ رہے، خلافت فاروقی کے آپ مجاہد مشہور ہیں اب آپ کی عمر جہاد کی نہیں رہی آپ گھر پر آرام کیجئے ہم لوگ آپ کی طرف سے میدان جہاد میں نکلتے ہیں اور اپنی تلوار کے جوہر دکھاتے ہیں
لیکن آپ نہ مانے اور اسی وقت گھر سے روانہ ہو گئے سمندر پار جانے کے لیے کشتی لی اور چلے ہنوز منزل مقصود سے کئی دن کی راہ پر تھے جو بیچ سمندر میں روح پروردگار کو سونپ دی، نو دن تک کشتی چلتی رہی لیکن کوئی جزیرہ یا ٹاپو نظر نہ آیا کہ وہاں آپ کو دفنایا جاتا۔ نو دن کے بعد خشکی پر اترے اور آپ کو سپرد لحد کیا اب تک نعش مبارک جوں کی توں تھی رضی اللہ عنہا وارضاہ اور بھی بہت سے بزرگوں سے خفافاً و ثقالاً کی تفسیر جوان اور بوڑھے مروی ہے۔
الغرض جوان ہوں، بوڑھے ہوں، امیر ہوں، فقیر ہوں، فارغ ہوں، مشغول ہوں، خوش حال ہوں یا تنگ دل ہوں، بھاری ہوں یا ہلکے ہوں، حاجت مند ہوں، کاریگر ہوں، آسانی والے ہوں، سختی والے ہوں، پیشہ ور ہوں یا تجارتی ہوں، قوی ہوں یا کمزور، جس حالت میں بھی ہوں بلاعذر کھڑے ہو جائیں اور راہ الہٰی کے جہاد کے لیے چل پڑیں۔
اس مسئلے کی تفصیل کے طور پر ابوعمرو اوزاعی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ جب اندرون روم پر حملہ ہوا ہو تو مسلمان ہلکے پھلکے اور سوار چلیں۔ اور جب ان بندرگاہوں کے کناروں پر حملہ ہو تو ہلکے، بوجھل، سوار، پیدل ہر طرح نکل کھڑے ہو جائیں۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ آیت «فَلَوْلَا نَفَرَ» ۱؎ [9-التوبہ:122]‏‏‏‏ سے یہ حکم منسوخ ہے۔ اس پر ہم پوری روشنی ڈالیں گے ان شاءاللہ تعالیٰ۔
مروی ہے کہ ایک بھاری بدن کے بڑے شخص نے آپ سے اپنا حال ظاہر کر کے اجازت چاہی لیکن آپ نے انکار کر دیا اور یہ آیت اتری، لیکن یہ حکم صحابہ رضی اللہ عنہم پر سخت گزرا۔ پھر جناب باری تعالیٰ نے اسے آیت «لَيْسَ عَلَي الضُّعَفَاۗءِ» ۱؎ [9-التوبہ:91]‏‏‏‏ سے منسوخ کر دیا، یعنی ضعیفوں، بیماروں، تنگ دست فقیروں پر جبکہ ان کے پاس خرچ تک نہ ہو اگر وہ دین ربانی اور شرع مصطفیٰ کے حامی اور طرف دار اور خیرخواہ ہوں تو میدان جنگ میں نہ جانے پر کوئی حرج نہیں۔
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اول غزوے سے لے کر پوری عمر تک سوائے ایک سال کے ہر غزوے میں موجود رہے اور فرماتے رہے کہ خفیف وثقیل دونوں کو نکلنے کا حکم ہے اور انسان کی حالت ان دو حالتوں سے سوا نہیں ہوتی۔‏‏‏‏
ابو راشد حبرانی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں نے سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سوار سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو حمص میں دیکھا کہ ہڈی اتر گئی ہے پھر بھی ہودج میں سوار ہو کر جہاد کو جا رہے ہیں تو میں نے کہا: اب تو شریعت آپ کو معذور سمجھتی ہے پھر آپ یہ تکلیف کیوں اٹھا رہے ہیں؟
آپ نے فرمایا: سنو! سورۃ الجوث یعنی سورۃ برات ہمارے سامنے اتری ہے جس میں حکم ہے کہ ہلکے بھاری سب جہاد کو جاؤ۔‏‏‏‏
حیان بن زید شرعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم صفوان بن عمرو والی حمص کے ساتھ جراجمہ کی جانب جہاد کے لیے چلے میں نے دمشق کے ایک عمر رسیدہ بزرگ کو دیکھا کہ حملہ کرنے والوں کے ساتھ اپنے اونٹ پر سوار وہ بھی آ رہے ہیں ان کی بھوئیں ان کی آنکھوں پر پڑ رہی ہیں شیخ فانی ہو چکے ہیں۔ میں نے پاس جا کر کہا: چچا صاحب! آپ تو اب اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی معذور ہیں۔‏‏‏‏ یہ سن کر آپ نے اپنی آنکھوں پر سے بھوئیں ہٹائیں اور فرمایا: بھتیجے سنو! اللہ تعالیٰ نے ہلکے اور بھاری ہونے کی دونوں صورتوں میں ہم سے جہاد میں نکلنے کی طلب کی ہے، سنو جس سے اللہ تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے اس کی آزمائش بھی ہوتی ہے پھر اس پر بعد از ثابت قدمی اللہ تعالیٰ کی رحمت برستی ہے، سنو اللہ کی آزمائش شکر و صبر و ذکر اللہ اور توحید خالص سے ہوتی ہے۔ جہاد کے حکم کے بعد مالک زمین و زماں اپنی راہ میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی میں مال و جان کے خرچ کا حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ دنیا آخرت کی بھلائی اسی میں ہے۔ دنیوی نفع تو یہ ہے کہ یونہی سا خرچ ہو گا اور بہت سی غنیمت ملے گی آخرت کے نفع سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں۔‏‏‏‏
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذمے دو باتوں میں سے ایک ضروری ہے وہ مجاہد کو یا تو شہید کر کے جنت کا مالک بنا دیتا ہے یا اسے سلامتی اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹاتا ہے۔‏‏‏‏ ۱؎ [صحیح بخاری:3123]‏‏‏‏
خود اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے کہ تم پر جہاد فرض کر دیا گیا ہے باوجود یہ کہ تم اس سے کنی کھا رہے ہو، لیکن بہت ممکن ہے کہ تمہاری نہ چاہی ہوئی چیز ہی دراصل تمہارے لیے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ تمہاری چاہت کی چیز فی الواقع تمہارے حق میں بےحد مضر ہو سنو تم تو بالکل نادان ہو اور اللہ تعالیٰ پورا پورا دانا بینا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: مسلمان ہو جا۔‏‏‏‏ اس نے کہا: جی تو چاہتا نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گو نہ چاہے۔‏‏‏‏ ۱؎ [مسند احمد:109،181/3:صحیح]‏‏‏‏