اِلَّا تَنۡصُرُوۡہُ فَقَدۡ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذۡ اَخۡرَجَہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثۡنَیۡنِ اِذۡ ہُمَا فِی الۡغَارِ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ۚ فَاَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلَیۡہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمۡ تَرَوۡہَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا السُّفۡلٰی ؕ وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الۡعُلۡیَا ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۴۰﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اگر تم اس کی مدد نہ کرو تو بلاشبہ اللہ نے اس کی مدد کی، جب اسے ان لوگوں نے نکال دیا جنھوں نے کفر کیا، جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا غم نہ کر، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تو اللہ نے اپنی سکینت اس پر اتار دی اور اسے ان لشکروں کے ساتھ قوت دی جو تم نے نہیں دیکھے اور ان لوگوں کی بات نیچی کر دی جنھوں نے کفر کیا اور اللہ کی بات ہی سب سے اونچی ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اگر تم پیغمبر کی مدد نہ کرو گے تو خدا اُن کا مددگار ہے (وہ وقت تم کو یاد ہوگا) جب ان کو کافروں نے گھر سے نکال دیا۔ (اس وقت) دو (ہی ایسے شخص تھے جن) میں (ایک ابوبکرؓ تھے) اور دوسرے (خود رسول الله) جب وہ دونوں غار (ثور) میں تھے اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو خدا ہمارے ساتھ ہے۔ تو خدا نے ان پر تسکین نازل فرمائی اور ان کو ایسے لشکروں سے مدد دی جو تم کو نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کی بات کو پست کر دیا۔ اور بات تو خدا ہی کی بلند ہے۔ اور خدا زبردست (اور) حکمت والا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اگر تم ان (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وه دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے، پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں، اس نے کافروں کی بات پست کر دی اور بلند وعزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے، اللہ غالب ہے حکمت واﻻ ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت40) ➊ {اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ …:} یعنی اگر تم تبوک کے لیے نہیں نکلو گے اور اس کی مدد نہیں کرو گے تو وہ خود اکیلا ہی اس کی مدد کے لیے کافی ہے، دیکھ لو جب مکہ کے مشرکوں نے اسے قتل کرنے کا فیصلہ کرکے اسے وطن سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا اور اس کے ساتھ صرف ایک ساتھی تھا، اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے تم میں سے کسی کی مدد کے بغیر خود اس کی مدد کی تھی۔ اب بھی اسے تم میں سے کسی کی ضرورت نہیں، ہاں تمھاری بہتری اسی میں ہے کہ دشمنانِ اسلام کے مقابلے کے لیے نکلو، یہ تمھارے لیے بہتر ہے۔
➋ { ثَانِيَ اثْنَيْنِ:} دو میں سے دوسرا سے مراد پہلا ہے۔ { ثَانِيَ اثْنَيْنِ } میں پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ اسی طرح { ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ} یا {رَابِعُ اَرْبَعَةٍ} میں ثالث یا رابع وہ ہو گا جو پہلا ہو گا، باقی بعد میں ہوں گے، ہاں { رَابِعُ ثَلَاثَةٍ} یا { خَامِسُ اَرْبَعَةٍ } میں رابع یا خامس وہ ہو گا جو بعد میں ملے گا اور اس کا نمبر چوتھا یا پانچواں ہو گا۔ [الوسیط للطنطاوی] تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوسرے ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور اکثر دینی منصبوں اور عہدوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرے نمبر پر وہی فائز رہے۔ سب سے پہلے مسلمان ہوئے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دی، جس پر بہت سے جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم مسلمان ہوئے، جنگوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ نہیں ہوئے۔ مرض الموت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت تاکیدی حکم کے ساتھ اور کسی بھی دوسرے کی امامت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کے بعد آپ کے قائم مقام کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلے پر کھڑے ہوئے، پھر آپ کے پہلو میں دفن ہوئے، اس طرح اول و آخر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو دوسرا ہونے کا شرف حاصل رہا۔
➌ { اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ:} یہاں صاحب (ساتھی) ہونے کا شرف بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے۔ صاحب کا لفظ اصل میں اکثر اوقات ساتھ رہنے والے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے بیوی کو { صَاحِبَةٌ } کہتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ» [الأنعام: ۱۰۱] اس کی اولاد کیسے ہو گی جبکہ اس کی کوئی بیوی ہی نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صاحبِ رسول یعنی آپ کے خاص ساتھی اور یار غار ہونے کا منکر ہے وہ درحقیقت قرآن کا منکر ہے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: رفیق غار ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے، صرف یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، دوسرے اصحاب بعض پہلے نکل گئے تھے بعض بعد میں آئے۔ (موضح)
➍ { اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ:} اس غار سے مراد ثور پہاڑ کی چوٹی کے قریب واقع غار ہے، جو مکہ سے جنوب کی طرف تقریباً پانچ میل کے فاصلے پر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین تھا کہ آپ کا تعاقب کیا جائے گا، اس لیے آپ نے مدینے کا راستہ جو شمال کی طرف ہے، چھوڑ کر جنوب کی سمت اختیار کی اور غار ثور میں چھپ گئے، تاکہ تلاش کرنے والے آپ کو آسانی سے پا نہ سکیں۔ تفسیر ماجدی میں ہے: اس غار کا دہانہ اب تک اتنا تنگ ہے کہ اندر صرف لیٹ کر ہی جانا ممکن ہے۔ شیخ رشید رضا مصری نے تفسیر المنار میں ایک مصری امیر الحج ابراہیم رفعت پاشا (سنِ حج 1318ھ) کے حوالے سے غار کی پیمائش وغیرہ دی ہے اور اس کی تنگی کا ذکر صراحت کے ساتھ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تین دن چھپے رہے، پھر مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے، آپ کی گرفتاری پر انعام مقرر ہو چکا تھا، اس لیے دشمنوں نے آپ کی تلاش کے لیے ہر ممکن کوشش کی، حتیٰ کہ بعض قدموں کے نشان پہچاننے والے غار کے سرے پر پہنچ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے قدم نظر آنے لگے، ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فکر لاحق ہوئی اور وہ سخت غم زدہ ہو گئے۔
➎ {لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا:} انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا، جب کہ میں اس غار میں تھا: اگر ان میں سے کوئی شخص اپنے قدموں کے نیچے نظر ڈالے تو ہمیں ضرور دیکھ لے گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! ان دو کے متعلق تمھارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہے۔ [بخاری، فضائل أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، باب مناقب المہاجرین وفضلھم…: ۳۶۵۳] { اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا } (بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے) اس ساتھ سے مراد خاص ساتھ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی خاص مدد اور نصرت، ورنہ عام معیت (ساتھ) تو ہر شخص کو حاصل ہے، فرمایا: «وَ هُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ» ‏‏‏‏ [الحدید: ۴] اور وہ تمھارے ساتھ ہے تم جہاں کہیں بھی ہو۔ اس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ظاہر ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے سمندر کے کنارے پہنچنے پر اور فرعون کی فوج کو دیکھنے پر ان کی قوم نے اپنے پکڑے جانے کا خطرہ پیش کیا تو موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: «‏‏‏‏كَلَّا اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ» [الشعراء: ۶۲] ہر گز نہیں، بے شک میرے ساتھ میرا رب ہے۔ چنانچہ انھوں نے { مَعِيَ } یعنی اللہ تعالیٰ کی معیت میں اپنے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «‏‏‏‏اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا» بے شک اللہ ہم دونوں کے ساتھ ہے۔
➏ { فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلَيْهِ:} یعنی اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی سکینت نازل فرمائی۔ بعض مفسرین نے مراد ابوبکر رضی اللہ عنہ لیے ہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو اللہ تعالیٰ کی سکینت پہلے ہی نازل تھی، مگر اس سے {عَلَيْهِ} کی ضمیر کی بعد میں آنے والی ضمیر { وَ اَيَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا } کے ساتھ مطابقت نہیں رہتی اور کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر پہلی سکینت کے علاوہ خاص سکینت نازل فرمائی ہو۔ جس سے آپ کے اطمینان میں مزید اضافہ ہوا ہو، اس لیے یہی راجح معلوم ہوتا ہے کہ { عَلَيْهِ } سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
➐ {وَ اَيَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا:} یعنی فرشتوں کے لشکروں کے ساتھ جنھیں تم نے نہیں دیکھا کہ انھوں نے تعاقب کرنے والوں کی نگاہیں آپ پر پڑنے ہی نہیں دیں۔ جیسا کہ حنین میں مدد فرمائی (دیکھیے توبہ: ۲۶) اور بدر میں (دیکھیے انفال: ۹۔ آل عمران: ۱۲۴، ۱۲۵)۔
➑ بعض لوگ بیان کرتے ہیں کہ عنکبوت (مکڑی) نے جالا بن دیا تھا اور کبوتری نے گھونسلا بنا کر انڈے دے دیے تھے، مگر یہ بات ثابت نہیں، الشیخ علامہ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے سلسلہ ضعیفہ میں عنکبوت کے قصے کو ضعیف قرار دیا ہے۔
➒ {وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى …:} یعنی ہجرت، بدر، احد، خندق، حدیبیہ، فتح مکہ، حنین، تبوک، ہر جگہ کفر کو نیچا دکھایا۔ { وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِيَ الْعُلْيَا } اور اللہ تعالیٰ کا بول ہی سب سے بالا اور اس کی بات ہی سب سے اونچی ہے، اگر کہیں مسلمان نیچے رہے تو اللہ کی بات کے نیچا ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے ایمان و عمل کی کسی کمی کی وجہ سے، فرمایا: «وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ» ‏‏‏‏ [آل عمران: ۱۳۹]اور تم ہی غالب ہو، اگر تم مومن ہو۔ اور دیکھیے سورۂ محمد(۳۵)۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

40۔ 1 جہاد سے پیچھے رہنے یا اس سے جان چھڑانے والوں سے کہا جا رہا ہے کہ اگر تم مدد نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی مدد اس وقت بھی کی جب اس نے غار میں پناہ لی تھی اور اپنے ساتھی (یعنی حضرت ابوبکر صدیق سے کہا تھا ' غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے ' اس کی تفصیل حدیث میں آئی ہے۔ ابوبکر صدیق ؓ فرماتے ہیں کہ جب ہم غار میں تھے تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اگر ان مشرکین نے (جو ہمارے تعاقب میں ہیں) ہمارے قدموں پر نظر ڈالی تو یقینا ہمیں دیکھ لیں گے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یا ابابکر! ما ظنک باثنین اللہ ثالثھما (صحیح بخاری) اے ابوبکر! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ کی مدد اور اس کی نصرت جن کو شامل حال ہے۔ 40۔ 2 یہ مدد کی وہ دو صورتیں بیان فرمائی ہیں جن سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی گئی۔ ایک سکینت، دوسری فرشتوں کی تائید۔ 40۔ 3 کافروں کے کلمے سے شرک اور کلمۃ اللہ سے توحید مراد ہے۔ جس طرح ایک حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا۔ ایک شخص بہادری کے جوہر دکھانے کے لئے لڑتا ہے، ایک قبائلی عصبیت و حمیت میں لڑتا ہے، ایک اور ریاکاری کے لئے لڑتا ہے۔ ان میں سے فی سبیل اللہ لڑنے والا کون ہے، آپ نے فرمایا ' جو اس لئے لڑتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے، وہ فی سبیل اللہ ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

40۔ اگر تم اس (نبی) کی مدد نہ کرو گے تو (اس سے پہلے) اللہ نے اس کی مدد کی جب کافروں [43] نے اسے (مکہ سے) نکال دیا تھا۔ جبکہ وہ دونوں غار میں تھے اور وہ دو میں سے دوسرا تھا اور اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا: ”غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے“ پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل کیا اور ایسے لشکروں [44] سے اس کی مدد کی جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کے بول کو سرنگوں کر دیا اور بول تو اللہ ہی کا بالا ہے اور اللہ ہر چیز پر غالب اور حکمت والا ہے
[43] آپﷺ کو ہجرت کی اجازت:۔
ہم یہاں پہلے بخاری سے ہجرت کے کچھ چیدہ چیدہ واقعات بیان کریں گے۔ پھر اس آیت کے نکات پیش کریں گے۔ سیدۃ عائشہؓ فرماتی ہیں ایک دن ٹھیک دوپہر کو ہم اپنے گھر بیٹھے تھے۔ کسی نے کہا۔ دیکھو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا منہ چھپائے ہمارے ہاں آرہے ہیں۔ ابو بکر صدیقؓ کہنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو اس وقت تشریف لائے ہیں ضرور کوئی اہم معاملہ ہے اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم آپہنچے۔ اندر آنے کی اجازت چاہی۔ اجازت دی گئی وہ اندر داخل ہوئے تو ابو بکر صدیقؓ سے کہا ”دوسروں کو یہاں سے نکال دو۔“ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے کہا۔ ”یا رسول اللہ! یہاں آپ کے گھر کے لوگ ہی تو ہیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی۔“ ابو بکر صدیقؓ کہنے لگے ”مجھے بھی ساتھ لے جائیں گے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں“ ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا ”ان دو اونٹنیوں میں سے ایک آپ لے لیجئے۔ “آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیمتاً لوں گا“ چنانچہ میں نے جلدی سے ان دونوں کا سامان تیار کیا۔ توشہ ایک چمڑے کے تھیلے میں رکھا۔ اسماء بنت ابی بکرؓ نے اپنا کمر بند پھاڑ کر تھیلے کا منہ باندھ دیا۔ اس دن سے ان کا نام ذو النطاق یا ذالنطاقین پڑ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیقؓ ثور پہاڑ کی غار میں چلے گئے اور تین راتیں وہیں چھپے رہے۔ عبد اللہ بن ابو بکر جو ایک ہوشیار اور نوجوان آدمی تھے رات ان کے ہاں گزارتے اور منہ اندھیرے مکہ قریش کے ہاں آجاتے جیسے رات مکہ میں گزاری ہو۔ اور دن بھر قریش کی ان دونوں کو نقصان پہچانے والی باتیں سنتے اور رات کے اندھیرے میں وہاں جا کر انہیں بتلا دیتے۔ اور عامر بن فہیرہ جو ابو بکر صدیقؓ کے غلام تھے گلہ سے ایک دودھ دینے والی بکری روک کے رکھتے۔ جب رات کی ایک گھڑی گزر جاتی تو وہ اس بکری کو غار میں لے آتے تو دونوں صاحب تازہ اور گرم دودھ پی کر رات بسر کرتے اور منہ اندھیرے ہی بکریوں کو آواز دینا شروع کر دیتے۔ وہ تین راتیں ایسا ہی کرتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیقؓ نے قبیلہ بنی وائل کے ایک شخص (عبد اللہ بن اریقط) کو اجرت پر راستہ بتلانے والا خریت مقرر کیا تھا۔ اگرچہ یہ کافر ہی تھا تاہم دونوں صاحبوں نے اس پر اعتماد کیا اور مکہ سے نکلتے وقت اپنی اونٹنیاں اس کے حوالہ کر کے کہا تھا کہ تین رات کے بعد وہ اونٹنیاں لے کر غار ثور پر آجائے۔ چنانچہ وہ تین راتیں گزارنے کے بعد صبح اونٹنیاں لے کر آگیا۔ عامر بن فہیرہ بھی ساتھ ہی روانہ ہوئے اور راہ بتانے والے نے ساحل کا راستہ اختیار کیا۔
سراقہ بن مالک کا تعاقب:۔
سراقہ بن مالک بن جعشم کو اپنے بھتیجے عبد الرحمن بن مالک سے خبر ملی کہ قریش نے ان دونوں صاحبوں میں سے ہر ایک کے قتل یا گرفتار کرنے پر سو اونٹ (انعام) کا وعدہ کیا ہے۔ ایک دن میری ہی قوم (بنی مدلج) کے ایک آدمی نے مجھے کہا ”سراقہ! میں نے ابھی چند آدمی دیکھے جو ساحل کے رستہ سے جا رہے تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھی ہیں۔“ سراقہ کہتے ہیں میں سمجھ تو گیا مگر بظاہر یہی کہا کہ وہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھی نہیں بلکہ فلاں فلاں ہوں گے جو اپنی کسی گم شدہ چیز کی تلاش میں گئے ہیں۔ یہ کہہ کر میں نے چوری چھپے اپنا برچھا سنبھالا اور اپنا گھوڑا ان کے تعاقب میں سر پٹ دوڑایا۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا تو گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور میں گر پڑا۔ میں نے تیروں سے فال نکالی جو میرے ارادہ کے خلاف نکلی مگر انعام کے لالچ میں پھر گھوڑے پر سوار ہو کر دوڑایا تو میرے گھوڑے کے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے اور میں گر پڑا۔ میں نے پھر فال نکالی وہ بھی میرے ارادہ کے خلاف نکلی۔ آخر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امان کے لیے آواز دی کیونکہ میں سمجھ گیا تھا کہ عنقریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بول بالا ہو گا۔ پھر میں نے انہیں قریش کی سب خبریں بتلا دیں اور دیت والی خبر بھی بیان کی اور توشہ یا سامان کی پیشکش کی جو انہوں نے قبول نہ کی۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اتنا کہا کہ ہمارے حالات کسی کو نہ بتلانا۔ پھر میں نے امان کی تحریر کا مطالبہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن فہیرہ کو تحریر لکھنے کو کہا تو اس نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر مجھے تحریر لکھ دی اور آگے روانہ ہو گئے۔
یہودی کا چلانا اور مسجد قبا کی بنیاد:۔
سیدنا زبیرؓ اور دوسرے کئی تاجر مسلمان جو شام سے اسی ساحلی راستہ پر واپس آ رہے تھے۔ ان لوگوں کی آپ کے قافلہ سے ملاقات ہوئی۔ سیدنا زبیر رضی اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ابو بکر صدیقؓ کو سفید کپڑے پہنائے۔ مدینہ والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے روانہ ہونے کی خبر مل چکی تھی۔ وہ ہر روز صبح حرّہ تک آتے اور انتظار کرتے رہتے۔ پھر جب دوپہر کی گرمی شروع ہو جاتی تو واپس چلے جاتے۔ ایک دن ایک یہودی اپنے محل پر چڑھا تو اس نے آپ کو سفید کپڑوں میں ملبوس مدینہ کی طرف آتے دیکھ لیا۔ وہ بے اختیار چلا اٹھا کہ جس سردار کی تمہیں انتظار تھی وہ آگئے۔ یہ سنتے ہی مسلمانوں نے ہتھیار سنبھالے اور حرہ جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ آپ بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں جا کر اترے یہ پیر کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تھا۔ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی (مسجد قبا) کی بنیاد رکھی۔ اور نمازیں ادا کرتے رہے پھر (جمعہ کے دن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کو روانہ ہوئے۔
مسجد نبوی کی تعمیر:۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی وہاں جا کر بیٹھ گئی جہاں مسجد نبوی ہے۔ ان دنوں وہاں چند مسلمان نماز پڑھا کرتے تھے۔ یہ جگہ دو یتیم لڑکوں سہل اور سہیل کی تھی جو اسعد بن زرارہ کی پرورش میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا کر اس زمین کی قیمت پوچھی اور فرمایا کہ ہم یہاں مسجد بنائیں گے۔ انہوں نے کہا ”یا رسول اللہ! ہم یہ زمین آپ کو مفت دیتے ہیں۔“ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مفت لینے سے انکار کر دیا۔ آخر انہیں قیمت ادا کر کے مسجد بنانا شروع کر دی۔ مسجد بنتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ اینٹیں ڈھو رہے تھے۔ [بخاري۔ كتاب المناقب۔ باب هجرة النبي]
غار ثور میں آپ کا ابو بکر صدیقؓ کو تسلی دینا:۔
سیدنا ابو بکرؓ فرماتے ہیں کہ میں ہجرت کے وقت غار (ثور) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ میں نے غار (کے اندر سے) کافروں کے پاؤں دیکھے (جو ہماری تلاش میں غار تک پہنچ گئے تھے) میں نے عرض کیا ”یا رسول اللہ! اگر ان میں سے کوئی اپنے پاؤں اٹھا کر دیکھے تو ہمیں دیکھ لے گا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ان دو آدمیوں کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہو۔ “ [بخاري۔ كتاب التفسير۔ كتاب المناقب۔ باب هجرة النبي]
اللہ نے کن کن مشکل اوقات میں اپنے رسول کی مدد کی؟
یعنی اللہ اکیلے نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت بھی مدد کی جب مکہ کے تمام قریشی قبائل نے مل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی سازش تیار کی تھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ بھی کر لیا تھا۔ اس وقت بھی اللہ اپنے نبی کو ان کے چنگل سے نکال لایا تھا پھر اس وقت بھی مدد کی تھی جب تعاقب کرنے والے غار ثور کے منہ پر کھڑے تھے۔ پھر اس وقت بھی مدد کی تھی جب سراقہ بن مالک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقب کر کے آپ کو جا لیا تھا۔ اور دوران ہجرت بھی مدد کی تھی کہ اسے بخیر و عافیت مدینہ پہنچا دیا تھا۔ اگر اللہ اس وقت اپنے نبی کی مدد کر سکتا ہے تو وہ اکیلا اس غزوہ تبوک میں بھی مدد کر سکتا ہے لہٰذا تم اس موقع کو غنیمت سمجھو کہ تمہارے ہاتھوں اسلام کا بول بالا ہو، تمہیں دنیا میں بھی عزت اور سرخ روئی حاصل ہو اور آخرت میں اجر ملے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہجرت کے لیے نبی نہایت خفیہ طور پر نکلے تو خود تھے۔ کفار تو انہیں نکالنے کی بجائے ان کا تعاقب کر کے واپس لانا چاہتے تھے مگر چونکہ ہجرت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے ظلم و ستم کی وجہ سے ہی مجبور ہو گئے تھے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے نکالنے کی نسبت کافروں کی طرف کی ہے۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکلے تو حسرت بھرے لہجہ میں مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”اگر میری قوم مجھے یہاں سے نکال نہ دیتی تو میں تیرے سوا کہیں رہنا گوارا نہ کرتا۔“ [ترمذي۔ ابواب المناقب۔ باب فضل المكة]
[44] اللہ کے غیر مرئی لشکر:۔
اللہ کے یہ لشکر فرشتوں کے علاوہ دوسری مخلوق کے بھی ہو سکتے ہیں مثلاً مکڑیوں کا وہ لشکر بھی اللہ ہی کا لشکر تھا جس نے آناً فاناً غار ثور کے منہ پر جالا تن دیا تھا۔ قریش جب اپنے قائف (کھوجی، سراغ رساں) کے ہمراہ اس غار پر پہنچے تو مکڑی کا تنا ہوا جالا دیکھ کر اپنے قائف کو جھوٹا اور غلط کہنے لگے کیونکہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہ جالا مدتوں پہلے بنا ہوا تھا یا وہ بھی اللہ کے فرشتوں کا لشکر ہی تھا جس نے مشرکوں کی نگاہوں کو غار کے اندر جھانکنے سے پھیر دیا تھا۔ اور وہ بھی اللہ ہی کے لشکر تھے جنہوں نے سراقہ کا گھوڑا زمین میں دھنسا دیا تھا اور وہ بھی اللہ ہی کے لشکر تھے جنہوں نے دوران سفر ہجرت آپ کو ہر خطرہ سے بچایا تھا۔ اس طرح کفار تو دانت پیستے رہ گئے اور اللہ جو اپنے نبی کو بخیریت مدینہ پہچانا چاہتا تھا وہ ہو کے رہا۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

آغاز ہجرت ٭٭
تم اگر میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد و تائید چھوڑ دو تو میں کسی کا محتاج نہیں ہوں، میں آپ اس کا ناصر موید کافی اور حافظ ہوں۔ یاد کر لو ہجرت والے سال جبکہ کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل یا قید یا دیس سے نکال دینے کی سازش کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سچے ساتھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ تن تنہا مکہ مکرمہ سے نکل بھاگے تھے تو کون اس کا مددگار تھا۔
تین دن مارے خوف کے اس ڈر سے غار میں گزارے تاکہ ڈھونڈھنے والے مایوس ہو کر واپس چلے جائیں تو یہاں سے نکل کر مدینہ منورہ کا راستہ لیں۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ لمحہ بہ لمحہ گھبرا رہے تھے کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے ایسا نہ ہو کہ وہ رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کو کوئی ایذاء پہنچائے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تسکین فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان دو کی نسبت تیرا کیا خیال ہے جن کا تیسرا خود اللہ تعالیٰ ہے۔‏‏‏‏ مسند احمد میں ہے کہ سیدنا ابوبکر بن ابوقحافہ رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے غار میں کہا کہ اگر ان کافروں میں سے کسی نے اپنے قدموں کو بھی دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔‏‏‏‏ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دو کو کیا سمجھتا ہے جن کا تیسرا خود اللہ تعالیٰ ہے۔‏‏‏‏ ۱؎ [صحیح بخاری:3922]‏‏‏‏
الغرض اس موقعہ پر جناب باری سبحانہ و تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی۔ بعض بزرگوں نے فرمایا کہ مراد اس سے یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کی تفسیر یہی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو مطمئن اور سکون و تسکین والے تھے ہی۔ لیکن اس خاص حال میں تسکین کا از سر نو بھیجنا کچھ اس کے خلاف نہیں۔
اسی لئے اسی کے ساتھ فرمایا کہ اپنے غائبانہ لشکر اتار کر اس کی مدد فرمائی یعنی بذریعہ فرشتوں کے۔ اللہ تعالیٰ نے کلمہ کفر دبا دیا اور اپنے کلمے کا بول بالا کیا شرک کو پست کیا اور توحید کو اونچا کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنی بہادری کے لیے، دوسرا حمیت قومی کے لیے، تیسرا لوگوں کو خوش کرنے کیلئے لڑ رہا ہے تو ان میں سے اللہ کی راہ کا مجاہد کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کلمہء اللہ کو بلند و بالا کرنے کی نیت سے لڑے وہ اللہ کی راہ کا مجاہد ہے۔‏‏‏‏ ۱؎ [صحیح بخاری:2810]‏‏‏‏
اللہ تعالیٰ انتقام لینے پر غالب ہے۔ جس کی مدد کرنا چاہے کرتا ہے نہ اس کے سامنے کوئی پڑ سکے نہ اس کے ارادے کو کوئی بدل سکے کون ہے جو اس کے سامنے لب ہلا سکے یا آنکھ ملا سکے؟ اس کے سب اقوال افعال، حکمت و مصلحت بھلائی اور خوبی سے پر ہیں۔ تعالیٰ شانہ وجد مجدہ۔