وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابۡنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ قَوۡلُہُمۡ بِاَفۡوَاہِہِمۡ ۚ یُضَاہِـُٔوۡنَ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۚ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۳۰﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور یہودیوں نے کہا عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ ان کا اپنے مونہوں کا کہنا ہے، وہ ان لوگوں کی بات کی مشابہت کر رہے ہیں جنھوں نے ان سے پہلے کفر کیا۔ اللہ انھیں مارے، کدھر بہکائے جا رہے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور یہود کہتے ہیں کہ عُزیر خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں پہلے کافر بھی اسی طرح کی باتیں کہا کرتے تھے یہ بھی انہیں کی ریس کرنے میں لگے ہیں۔ خدا ان کو ہلاک کرے۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
یہود کہتے ہیں عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ قول صرف ان کے منھ کی بات ہے۔ اگلے منکروں کی بات کی یہ بھی نقل کرنے لگے اللہ انہیں غارت کرے وه کیسے پلٹائے جاتے ہیں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت30) ➊ {وَ قَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُ اِبْنُ اللّٰهِ …:} پچھلی آیت میں اہل کتاب کے ساتھ قتال کی چار وجوہ بیان فرمائی تھیں، اب ان میں سے بعض کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ فرمایا کہ یہود نے عزیر علیہ السلام کو اور نصاریٰ نے مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیا، جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ (1) اَللّٰهُ الصَّمَدُ (2) لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُوْلَدْ (3) وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ» [الإخلاص] ”کہہ دے اللہ ایک ہے، اللہ ہی بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا اور نہ کبھی کوئی اس کے برابر کا ہے۔“ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کا بیٹا ماننے کی صورت میں اس کی بیوی بھی ماننا پڑے گی اور خاوند، بیوی، باپ، بیٹا ایک ہی جنس سے ہوتے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ ان سب چیزوں سے پاک ہے۔ الغرض ان سے قتال کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کے متعلق ان کا عقیدہ سراسر اللہ تعالیٰ کی توہین اور متعدد معبودوں کو ماننا ہے، تثلیث (تین خدا ماننا) ہو یا حلول (کسی انسان یا مخلوق میں اللہ کا اتر آنا) یا اتحاد کسی انسان کا خدا بن جانا، ان سب کو قرآن نے کفر قرار دیا۔ دیکھیے سورۂ مائدہ (۷۲، ۷۳) پھر جو شخص ہر چیز ہی کو اللہ تعالیٰ قرار دے، ” ہر میں ہر“ کا نعرہ لگائے، وحدت الوجود کو معرفت قرار دے اس کے کفر میں کیا شک ہے؟ اسی طرح اب اگر کوئی مسلمان بھی یہ عقیدہ رکھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اللہ تعالیٰ ہی تھے، یا اس کے نور کا ٹکڑا تھے، یا اولیاء میں اللہ تعالیٰ اتر آتا ہے، یا ترقی کر کے ولی بھی اللہ تعالیٰ بن جاتا ہے اور اس کے اختیارات کا مالک بن جاتا ہے، اس لیے وہ {” أَنَا الْحَقُّ “} (میں ہی حق یعنی اللہ ہوں) کا نعرہ لگاتا ہے اور {”سُبْحَانِيْ مَا اَعْظَمَ شَانِيْ“} (میں پاک ہوں، میری شان کتنی بڑی ہے) کہتا ہے، تو بے شک یہ مسلمان کہلاتا رہے حقیقت میں یہود و نصاریٰ میں اور اس میں کوئی فرق نہیں اور ہندوؤں کے کروڑوں خداؤں کے عقیدے اور اس کے عقیدے میں بھی کوئی فرق نہیں۔ اس خبیث عقیدے سے تو تمام دین، تمام انبیاء و رسل اور ان کے احکام ہی بے کار ٹھہرتے ہیں۔ ایسے عقیدے والا شخص اپنے آپ کو تصوف یا معرفت یا طریقت کے پردوں میں لاکھ چھپائے، حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کی تمام شریعتوں، رسولوں، کتابوں اور ان کے احکام کا منکر ہے، جس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے تقدس کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔
➋ { ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ:} یعنی نہ عقل سے اس کی کوئی دلیل پیش کی جا سکتی ہے نہ نقل سے، محض منہ کی بے کار بات ہے، جیسے خواہ مخواہ کوئی شخص مہمل اور بے معنی باتیں کرتا رہے۔
➌ { يُضَاهِـُٔوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ:} یعنی (یہ لوگ) اہل کتاب ہو کر بھی مشرکوں کی ریس کرنے لگے۔ (موضح) اور پہلی مشرک اور کافر قوموں کی طرح گمراہ ہو گئے۔ صاحب المنار فرماتے ہیں کہ شرق و غرب کے قدیم بت پرستوں کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن اللہ ہونے، حلول اور تثلیث (اور متعدد معبودوں) کا عقیدہ ہند کے برہمنوں میں معروف تھا (اور اب بھی ہے)، اسی طرح چین، جاپان، قدیم مصریوں اور قدیم ایرانیوں میں بھی یہ عقائد مشہور و معروف تھے۔ اہل کتاب بھی ان کفار کی ریس کرنے لگے اور اب بعض مسلمان بھی ان کے نقش قدم پر چل پڑے۔
➍ { قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ:} یعنی یہ لوگ اس کے حق دار ہیں کہ ان کے حق میں یہ بددعا کی جائے، ورنہ اللہ تعالیٰ کو دعا یا بددعا کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو خود جو چاہے کر سکتا ہے۔
➋ { ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ:} یعنی نہ عقل سے اس کی کوئی دلیل پیش کی جا سکتی ہے نہ نقل سے، محض منہ کی بے کار بات ہے، جیسے خواہ مخواہ کوئی شخص مہمل اور بے معنی باتیں کرتا رہے۔
➌ { يُضَاهِـُٔوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ:} یعنی (یہ لوگ) اہل کتاب ہو کر بھی مشرکوں کی ریس کرنے لگے۔ (موضح) اور پہلی مشرک اور کافر قوموں کی طرح گمراہ ہو گئے۔ صاحب المنار فرماتے ہیں کہ شرق و غرب کے قدیم بت پرستوں کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن اللہ ہونے، حلول اور تثلیث (اور متعدد معبودوں) کا عقیدہ ہند کے برہمنوں میں معروف تھا (اور اب بھی ہے)، اسی طرح چین، جاپان، قدیم مصریوں اور قدیم ایرانیوں میں بھی یہ عقائد مشہور و معروف تھے۔ اہل کتاب بھی ان کفار کی ریس کرنے لگے اور اب بعض مسلمان بھی ان کے نقش قدم پر چل پڑے۔
➍ { قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ:} یعنی یہ لوگ اس کے حق دار ہیں کہ ان کے حق میں یہ بددعا کی جائے، ورنہ اللہ تعالیٰ کو دعا یا بددعا کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو خود جو چاہے کر سکتا ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
30۔ یہودی کہتے ہیں کہ ”عزیر اللہ کا بیٹا [30] ہے“ اور عیسائی کہتے ہیں کہ ”مسیح اللہ کا بیٹا ہے“ یہ تو ان کے منہ کی باتیں ہیں۔ وہ ان کافروں کے قول کی ریس کر رہے ہیں جو ان سے پہلے تھے۔ اللہ انہیں غارت کرے یہ کہاں سے بہکائے جا رہے ہیں
[30] بخت نصر بابلی سے یہودیوں کی پٹائی:۔
سیدنا سلیمانؑ کی حکومت کے بعد پھر یہودیوں پر اللہ کی نافرمانیوں کی وجہ سے زوال آیا اور بخت نصر بابلی نے فلسطین پر پے در پے حملے کر کے اس کو تباہ و برباد کر دیا۔ تورات اور تمام مذہبی کتابوں کو جلا کر خاکستر کرایا اور بنی اسرائیل کی ایک کثیر تعداد کو قید کر کے اپنے ساتھ بابل لے گیا۔ انہیں قیدیوں میں عزیرؑ بھی تھے جو ابھی کمسن ہی تھے۔ کچھ مدت غالباً سات سال بعد اس نے ان قیدیوں کو رہا کیا۔ اس دوران یہ اسرائیل اپنی زبان تک بھول چکے تھے۔ عزیرؑ نے اپنے وطن واپسی کے دوران ایک اجڑی بستی کو دیکھا جو بخت نصر کے ہاتھوں ہی برباد ہوئی تھی۔ اس واقعہ کا ذکر سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 259 کے تحت تفصیل سے گزر چکا ہے۔ اس کے بعد آپ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔ آپ کو تورات پوری کی پوری زبانی یاد تھی۔ لہٰذا آپ نے از سر نو تورات لکھی اس طرح یہود کی الہامی کتاب دوبارہ ان کے ہاتھ آئی۔ (تورات میں آپ کا نام عزرا مذکور ہے) اسی وجہ سے یہودی آپ کی بہت تعظیم کرتے تھے۔ اور بعض نے اس تعظیم میں اس درجہ غلو کیا کہ انہیں اللہ کا بیٹا کہنے لگے۔
اللہ کی اولاد قرار دینے والے فرقے:۔
اور نصاریٰ نے مسیح کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا تھا جس کی وجہ ان کی معجزانہ پیدائش، آپ کو اللہ کے عطا کردہ معجزات اور آپ کا آسمان پر اٹھایا جانا تھا۔ جس کا ذکر قرآن میں جا بجا مذکور ہے۔ ان اہل کتاب نے در اصل سابقہ اقوام کے فلسفہ و اوہام سے متاثر ہو کر ایسے گمراہ کن عقائد اختیار کر لیے تھے۔ بعض نصاریٰ ایسے بھی تھے جو سیدنا عیسیٰؑ کو خدا یا تین خداؤں میں سے ایک خدا ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے اور کچھ انہیں خدا کا بیٹا قرار دیتے تھے اور اس آیت میں سابقہ اقوام سے مراد یونانی، ہندی اور مصری تہذیبیں ہیں۔ جنہوں نے اللہ کی بیوی، بیٹے بیٹیاں پھر اس سے آگے اس کی اولاد کی نسل چلا کر ایسے دیوی دیوتاؤں کی ایک پوری دیو مالا تیار کر دی تھی اور اس کے اثرات ملک عرب میں بھی پائے جاتے تھے۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
بزرگ بڑے نہیں اللہ جل شانہ سب سے بڑا ہے ٭٭
ان آیتوں میں بھی جناب باری عزوجل مومنوں کو مشرکوں، کافروں سے یہودیوں، نصرانیوں سے جہاد کرنے کی رغبت دلاتا ہے۔ فرماتا ہے دیکھو وہ اللہ کی شان میں کیسی گستاخیاں کرتے ہیں؟ یہود عزیر کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا بتلاتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے پاک اور برتر و بلند ہے کہ اس کی اولاد ہو۔
ان لوگوں کو سیدنا عزیر علیہ السلام کی نسبت جو یہ وہم ہوا اس کا قصہ یہ ہے کہ جب عمالقہ بنی اسرائیل پر غالب آ گئے ان کے علماء کو قتل کر دیا ان کے رئیسوں کو قید کر لیا۔ عزیر علیہ السلام کا علم اٹھ جانے اور علماء کے قتل ہو جانے سے اور بنی اسرائیل کی تباہی سے سخت رنجیدہ ہوئے اب جو رونا شروع کیا تو آنکھوں سے آنسو ہی نہ تھمتے تھے روتے روتے پلکیں بھی جھڑ گئیں۔
ایک دن اسی طرح روتے ہوئے ایک میدان سے گزر ہوا تو دیکھا کہ ایک عورت ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی ہے اور کہہ رہی ہے ہائے اب میرے کھانے کا کیا ہو گا؟ میرے کپڑوں کا کیا ہو گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس ٹھہر گئے اور اس سے فرمایا: ”اس شخص سے پہلے تجھے کون کھلاتا تھا اور کون پہناتا تھا“؟ اس نے کہا: ”اللہ تعالیٰ۔“ آپ نے فرمایا: ”پھر اللہ تعالیٰ تو اب بھی زندہ، باقی ہے اس پر تو کبھی نہیں موت آئے گی ہی نہیں۔“
ان لوگوں کو سیدنا عزیر علیہ السلام کی نسبت جو یہ وہم ہوا اس کا قصہ یہ ہے کہ جب عمالقہ بنی اسرائیل پر غالب آ گئے ان کے علماء کو قتل کر دیا ان کے رئیسوں کو قید کر لیا۔ عزیر علیہ السلام کا علم اٹھ جانے اور علماء کے قتل ہو جانے سے اور بنی اسرائیل کی تباہی سے سخت رنجیدہ ہوئے اب جو رونا شروع کیا تو آنکھوں سے آنسو ہی نہ تھمتے تھے روتے روتے پلکیں بھی جھڑ گئیں۔
ایک دن اسی طرح روتے ہوئے ایک میدان سے گزر ہوا تو دیکھا کہ ایک عورت ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی ہے اور کہہ رہی ہے ہائے اب میرے کھانے کا کیا ہو گا؟ میرے کپڑوں کا کیا ہو گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس ٹھہر گئے اور اس سے فرمایا: ”اس شخص سے پہلے تجھے کون کھلاتا تھا اور کون پہناتا تھا“؟ اس نے کہا: ”اللہ تعالیٰ۔“ آپ نے فرمایا: ”پھر اللہ تعالیٰ تو اب بھی زندہ، باقی ہے اس پر تو کبھی نہیں موت آئے گی ہی نہیں۔“
یہ سن کر اس عورت نے کہا: ”اے عزیر! پھر تم یہ تو بتلاؤ کہ بنی اسرائیل سے پہلے علماء کو کون علم سکھاتا تھا“؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ۔“ اس نے کہا: ”آپ علیہ السلام یہ رونا دھونا لے کر کیوں بیٹھے ہیں“؟
آپ علیہ السلام کو سمجھ میں آ گیا کہ یہ جناب باری سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تنبیہہ ہے پھر آپ علیہ السلام سے فرمایا گیا کہ فلاں نہر پر جا کر غسل کرو وہیں دو رکعت نماز ادا کرو وہاں تمہیں ایک شخص ملیں گے وہ جو کچھ کھلائیں گے وہ کھا لو۔
چنانچہ آپ علیہ السلام وہیں تشریف لے گئے نہا کر نماز ادا کی، دیکھا کہ ایک شخص ہیں کہہ رہے ہیں منہ کھولو آپ علیہ السلام نے منہ کھول دیا انہوں نے تین مرتبہ کوئی چیز آپ علیہ السلام کے منہ میں بڑی ساری ڈالی اسی وقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کا سینہ کھول دیا، اور آپ علیہ السلام توراۃ کے سب سے بڑے عالم بن گئے بنی اسرائیل میں گئے ان سے فرمایا کہ ”میں تمہارے پاس تورات لایا ہوں۔“ انہوں نے کہا: ”آپ علیہ السلام ہم سب کے نزدیک سچے ہیں۔“
آپ علیہ السلام نے اپنی انگلی کے ساتھ قلم کو لپیٹ لیا اور اسی انگلی سے بیک وقت پوری تورات لکھ ڈالی۔ ادھر لوگ لڑائی سے لوٹے ان میں ان کے علماء بھی واپس آئے تو انہیں سیدنا عزیر علیہ السلام کی اس بات کا علم ہوا یہ گئے اور پہاڑوں اور غاروں میں تورات شریف کے جو نسخے چھپا آئے تھے وہ نکال لائے اور ان نسخوں سے سیدنا عزیر علیہ السلام کے لکھے ہوئے نسخے کا مقابلہ کیا تو بالکل صحیح پایا۔
اس پر بعض جاہلوں کے دل میں شیطان نے یہ وسوسہ ڈال دیا کہ آپ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کو نصرانی اللہ کا بیٹا کہتے تھے ان کا واقعہ تو ظاہر ہے۔
پس ان دونوں گروہ کی غلط بیانی قرآن بیان فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ ان کی صرف زبانی باتیں ہیں جو محض بےدلیل ہیں جس طرح ان سے پہلے کے لوگ کفر و ضلالت میں تھے یہ بھی انہی کے مرید و مقلد ہیں اللہ تعالیٰ انہیں لعنت کرے حق سے کیسے بھٹک گئے۔
آپ علیہ السلام کو سمجھ میں آ گیا کہ یہ جناب باری سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تنبیہہ ہے پھر آپ علیہ السلام سے فرمایا گیا کہ فلاں نہر پر جا کر غسل کرو وہیں دو رکعت نماز ادا کرو وہاں تمہیں ایک شخص ملیں گے وہ جو کچھ کھلائیں گے وہ کھا لو۔
چنانچہ آپ علیہ السلام وہیں تشریف لے گئے نہا کر نماز ادا کی، دیکھا کہ ایک شخص ہیں کہہ رہے ہیں منہ کھولو آپ علیہ السلام نے منہ کھول دیا انہوں نے تین مرتبہ کوئی چیز آپ علیہ السلام کے منہ میں بڑی ساری ڈالی اسی وقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کا سینہ کھول دیا، اور آپ علیہ السلام توراۃ کے سب سے بڑے عالم بن گئے بنی اسرائیل میں گئے ان سے فرمایا کہ ”میں تمہارے پاس تورات لایا ہوں۔“ انہوں نے کہا: ”آپ علیہ السلام ہم سب کے نزدیک سچے ہیں۔“
آپ علیہ السلام نے اپنی انگلی کے ساتھ قلم کو لپیٹ لیا اور اسی انگلی سے بیک وقت پوری تورات لکھ ڈالی۔ ادھر لوگ لڑائی سے لوٹے ان میں ان کے علماء بھی واپس آئے تو انہیں سیدنا عزیر علیہ السلام کی اس بات کا علم ہوا یہ گئے اور پہاڑوں اور غاروں میں تورات شریف کے جو نسخے چھپا آئے تھے وہ نکال لائے اور ان نسخوں سے سیدنا عزیر علیہ السلام کے لکھے ہوئے نسخے کا مقابلہ کیا تو بالکل صحیح پایا۔
اس پر بعض جاہلوں کے دل میں شیطان نے یہ وسوسہ ڈال دیا کہ آپ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کو نصرانی اللہ کا بیٹا کہتے تھے ان کا واقعہ تو ظاہر ہے۔
پس ان دونوں گروہ کی غلط بیانی قرآن بیان فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ ان کی صرف زبانی باتیں ہیں جو محض بےدلیل ہیں جس طرح ان سے پہلے کے لوگ کفر و ضلالت میں تھے یہ بھی انہی کے مرید و مقلد ہیں اللہ تعالیٰ انہیں لعنت کرے حق سے کیسے بھٹک گئے۔
مسند احمد و ترمذی اور ابن جریر میں ہے کہ جب عدی بن حاتم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین پہنچا تو شام کی طرف بھاگ نکلا۔ جاہلیت میں ہی یہ نصرانی بن گیا تھا یہاں اس کی بہن اور اس کی جماعت قید ہو گئی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور احسان اس کی بہن کو آزاد کر دیا اور رقم بھی دی۔ یہ سیدھی اپنے بھائی کے پاس گئیں اور انہیں اسلام کی رغبت دلائی اور سمجھایا کہ تم رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس چلے جاؤ۔
چنانچہ یہ مدینہ منورہ آ گئے تھے اپنی قوم طے کے سردار تھے ان کے باپ کی سخاوت دنیا بھر میں مشہور تھی۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کے پاس آئے۔ اس وقت عدی کی گردن میں چاندی کی صلیب لٹک رہی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اسی آیت «اتَّخَذُوا» کی تلاوت ہو رہی تھی۔
تو انہوں نے کہا کہ ”یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء اور درویشوں کی عبادت نہیں کی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں سنو ان کے کئے ہوئے حرام کو حرام سمجھنے لگے اور جسے ان کے علماء اور درویش حلال بتا دیں اسے حلال سمجھنے لگے یہی ان کی عبادت تھی۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عدی کیا تم اس سے منکر ہو کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے، کیا تمہارے خیال میں اللہ تعالیٰ سے بڑا اور کوئی ہے کیا تم اس سے انکار کرتے ہو کہ معبود برحق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں؟ کیا تمہارے نزدیک اس کے سوا اور کوئی بھی عبادت کے لائق ہے“؟
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی، انہوں نے مان لی اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا اور فرمایا: ”یہود پر غضب اللہ اترا ہے اور نصرانی گمراہ ہو گئے ہیں۔“ ۱؎ [سنن ترمذي:3095،قال الشيخ الألباني:حسن]
چنانچہ یہ مدینہ منورہ آ گئے تھے اپنی قوم طے کے سردار تھے ان کے باپ کی سخاوت دنیا بھر میں مشہور تھی۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کے پاس آئے۔ اس وقت عدی کی گردن میں چاندی کی صلیب لٹک رہی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اسی آیت «اتَّخَذُوا» کی تلاوت ہو رہی تھی۔
تو انہوں نے کہا کہ ”یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء اور درویشوں کی عبادت نہیں کی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں سنو ان کے کئے ہوئے حرام کو حرام سمجھنے لگے اور جسے ان کے علماء اور درویش حلال بتا دیں اسے حلال سمجھنے لگے یہی ان کی عبادت تھی۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عدی کیا تم اس سے منکر ہو کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے، کیا تمہارے خیال میں اللہ تعالیٰ سے بڑا اور کوئی ہے کیا تم اس سے انکار کرتے ہو کہ معبود برحق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں؟ کیا تمہارے نزدیک اس کے سوا اور کوئی بھی عبادت کے لائق ہے“؟
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی، انہوں نے مان لی اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا اور فرمایا: ”یہود پر غضب اللہ اترا ہے اور نصرانی گمراہ ہو گئے ہیں۔“ ۱؎ [سنن ترمذي:3095،قال الشيخ الألباني:حسن]
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح مروی ہے کہ اس سے مراد حلال و حرام کے مسائل میں علماء اور ائمہ کی محض باتوں کی تقلید ہے۔
سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں انہوں نے بزرگوں کی ماننی شروع کر دی اور اللہ تعالیٰ کی کتاب ایک طرف ہٹا دی، اسی لیے اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں حکم تو صرف یہ تھا کہ اللہ تعاللیٰ کے سوا اور کی عبادت نہ کریں وہی جسے حرام کر دے حرام ہے اور وہ جسے حلال فرما دے حلال ہے اسی کے فرمان شریعت ہیں، اسی کے احکام بجا لانے کے لائق ہیں اسی کی ذات عبادت کی مستحق ہے۔ وہ مشرک سے اور شرک سے پاک ہے اس جیسا، اس کا شریک، اس کا نظیر، اس کا مددگار، اس کی ضد کا کوئی نہیں، وہ اولاد سے پاک ہے نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ پروردگار۔
سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں انہوں نے بزرگوں کی ماننی شروع کر دی اور اللہ تعالیٰ کی کتاب ایک طرف ہٹا دی، اسی لیے اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں حکم تو صرف یہ تھا کہ اللہ تعاللیٰ کے سوا اور کی عبادت نہ کریں وہی جسے حرام کر دے حرام ہے اور وہ جسے حلال فرما دے حلال ہے اسی کے فرمان شریعت ہیں، اسی کے احکام بجا لانے کے لائق ہیں اسی کی ذات عبادت کی مستحق ہے۔ وہ مشرک سے اور شرک سے پاک ہے اس جیسا، اس کا شریک، اس کا نظیر، اس کا مددگار، اس کی ضد کا کوئی نہیں، وہ اولاد سے پاک ہے نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ پروردگار۔