ترجمہ و تفسیر — سورۃ التوبة (9) — آیت 28
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡمُشۡرِکُوۡنَ نَجَسٌ فَلَا یَقۡرَبُوا الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ بَعۡدَ عَامِہِمۡ ہٰذَا ۚ وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ عَیۡلَۃً فَسَوۡفَ یُغۡنِیۡکُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖۤ اِنۡ شَآءَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۸﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بات یہی ہے کہ مشرک لوگ ناپاک ہیں، پس وہ اپنے اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ آئیں اور اگر تم کسی قسم کے فقر سے ڈرتے ہو تو اللہ جلد ہی تمھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا، اگر اس نے چاہا۔ بےشک اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
مومنو! مشرک تو پلید ہیں تو اس برس کے بعد وہ خانہٴ کعبہ کا پاس نہ جانے پائیں اور اگر تم کو مفلسی کا خوف ہو تو خدا چاہے گا تو تم کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ بےشک خدا سب کچھ جانتا (اور) حکمت والا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اے ایمان والو! بے شک مشرک بالکل ہی ناپاک ہیں وه اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں اگر تمہیں مفلسی کا خوف ہے تو اللہ تمہیں دولت مند کر دے گا اپنے فضل سے اگر چاہے اللہ علم وحکمت واﻻ ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت28) ➊ {يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ …:} زمخشری نے فرمایا: { نَجَسٌ } مصدر ہے، کہا جاتا ہے { نَجَِسَ نَجَسًا وَ قَذَِرَ قَذَرًا} (ع، ن) گندا، ناپاک، پلید ہونا۔ گویا تمام مشرک اتنے ناپاک ہیں کہ یوں سمجھو کہ وہ سراسر نجاست ہیں۔ ناپاک ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ عقائد و اعمال اور اخلاق کے لحاظ سے گندے ہیں، ان کی نجاست معنوی نجاست ہے، بدن ناپاک ہونا مراد نہیں کہ اسے ہاتھ لگنے یا اس کے ہاتھ لگانے سے کوئی چیز پلید ہو جاتی ہو، اس لیے اہل کتاب عورتوں سے نکاح کرنا، انھیں لونڈی و غلام بنا کر خدمت لینا جائز ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مشرک عورت کے مشکیزوں کا پانی پیا۔ [بخاری: ۳۵۷۱] اور آپ نے خیبر کے یہود کی دعوت قبول فرمائی۔ [بخاری: ۲۶۱۷] اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا ہاتھ یا جسم لگنے سے کوئی چیز پلید نہیں ہوتی۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو مشرک بدنی طور پر بھی طہارت کا اہتمام نہیں کرتے، نہ استنجا، نہ غسل جنابت، نہ زیر ناف کی صفائی، نہ کسی نجاست سے اجتناب، پھر خنزیر کھانا، سگریٹ اور شراب پینا اور زنا کرنا ان کی عام روش ہے۔ الغرض مشرک جتنا بھی صاف ستھرا ہو، فرانس وغیرہ کی بنی ہوئی خوشبو جتنی بھی لگا لے اس کے جسم اور کپڑوں سے بد بو ختم نہیں ہوگی۔ مسلمان جتنا بھی میلا کچیلا ہو اس سے اس قسم کی بد بو کبھی نہیں آئے گی، بشرطیکہ نماز پڑھتا ہو، اگر نماز ہی نہیں پڑھتا تو مشرک کا اور اس کا معاملہ ایک جیسا ہی ہے۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے، اس لیے کفار کو مسلمان ہونے سے پہلے غسل کی تاکید کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو ناپاک قرار دے کر آئندہ کے لیے مسجد حرام کے قریب آنے سے بھی منع فرما دیا، چنانچہ جیسا کہ پہلے گزرا ہے ۹ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کروایا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک ہر گز حج نہیں کرے گا۔ قریب آنے سے ممانعت کا صاف مطلب ہے کہ غیر مسلم کا پورے حرم مکہ میں داخلہ منع ہے۔ مسند احمد کی ایک روایت ابن کثیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے اس سال کے بعد ہماری اس مسجد میں ذمی اور ان کے خادم کے سوا کوئی نہ آئے۔ مسند احمد میں ایک اور روایت ہے: ہماری اس مسجد میں ہمارے اس سال کے بعد اہل کتاب اور ان کے خادموں کے سوا کوئی داخل نہ ہو۔ مگر یہ دونوں روایتیں ثابت نہیں۔ شعیب الارنؤوط نے دونوں کی سند کو ضعیف کہا ہے، حسن بصری نے جابر رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا اور دو راوی اشعث بن سوار اور شریک ضعیف ہیں، لہٰذا کسی بھی غیر مسلم کو حرم مکہ میں داخلے کی اجازت نہیں، بلکہ اپنی آخری وصیت میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین اور یہود و نصاریٰ کو جزیرۂ عرب ہی سے نکال دینے کا حکم دیا تھا، چنانچہ اس وصیت کے مطابق امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے یہود و نصاریٰ کو بھی جزیرۂ عرب سے نکال دیا۔
➋ مسجد حرام کے سوا دوسری مساجد میں غیر مسلم داخل ہو سکتا ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مشرکوں کو اپنی مسجد میں آنے کی اجازت دی اور ثمامہ کو مسجد کے ستون سے باندھنے کا واقعہ تو مشہور ہی ہے۔
➌ { وَ اِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً …: } غیر مسلموں کی سال بھر تجارت اور حج و عمرہ کے لیے آمد و رفت بند ہونے سے وہ سامان تجارت جو وہ لایا کرتے تھے اور دوسرے مالی فوائد جوان کی آمد سے اہل مکہ کو حاصل ہوتے تھے، لازماً ختم ہوتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے اس اندیشے کو رفع کرنے اور مسلمانوں کو تسلی دینے کے لیے یہ الفاظ نازل فرمائے کہ تجارت اور کاروبار کی بندش کی فکر مت کرو، اللہ تعالیٰ چاہے گا تو تمھیں ضرور غنی کر دے گا، وہ سب کچھ جانتا ہے، یہ تو اس کے لیے کوئی بات ہی نہیں کہ وہ مسلمانوں کو کیسے غنی کرتا ہے، مگر اس کا ہر کام اور ہر طریقہ حکمت پر مبنی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد فتوحات عالم کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ قیصر و کسریٰ کے خزانے مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور وہ سب اللہ کے فضل سے غنی ہو گئے، پھر حج و عمرہ کرنے والے مسلمانوں کی اتنی کثرت ہوئی کہ اہل مکہ کے لیے فقر کا مسئلہ ہی نہ رہا۔ اس وقت ۱۴۳۱ھ میں تقریباً ۳۵ یا ۴۰ لاکھ حاجیوں نے حج ادا کیا ہے اور حکومت سعودیہ کا اندازہ ہے کہ چند ہی سال میں یہ تعداد ایک کروڑ تک پہنچ جائے گی اور حکومت اس کے مطابق باقاعدہ حرم کی عمارات اور رہائشی عمارات کی توسیع کے منصوبے پر نہایت تیزی کے ساتھ عمل کر رہی ہے۔
➍ { اِنْ شَآءَ:} یہ بطور شرط نہیں بلکہ بات کو پختہ کرنے کے لیے ہے، کیونکہ ہر معاملہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ فتح (۲۷)۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

28۔ 1 مشرک کے (پلید، ناپاک) ہونے کا مطلب، عقائد و اعمال کے لحاظ سے ناپاک ہونا ہے۔ بعض کے نزدیک مشرک ظاہر و باطن دونوں اعتبار سے ناپاک ہے۔ کیونکہ وہ طہارت (صفائی و پاکیزگی) کا اس طرح اہتمام نہیں کرتا، جس کا حکم شریعت نے دیا ہے۔ 28۔ 2 یہ وہی حکم ہے جو سن 9 ہجری میں اعلان برات کے ساتھ کیا گیا تھا، جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے ممانعت بعض کے نزدیک صرف مسجد حرام کے لئے ہے۔ ورنہ حسب ضرورت مشرکین دیگر مساجد میں داخل ہوسکتے ہیں جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ بن اثال کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھے رکھا تھا حتیٰ کہ اللہ نے ان کے دل میں اسلام کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ڈال دی اور وہ مسلمان ہوگئے۔ علاوہ ازیں اکثر علماء کے نزدیک یہاں مسجد حرام سے مراد پورا حرم ہے یعنی حدود حرم کے اندر مشرک کا داخلہ ممنوع ہے بعض آثار کی بنیاد پر اس حکم سے ذمی اور خدام کو مشثنیٰ کیا گیا ہے اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس سے استدلال کرتے ہوئے اپنے دور حکومت میں یہود و نصاریٰ کو بھی مسلمانوں کی مسجدوں میں داخلے سے ممانعت کا حکم جاری فرمایا تھا (ابن کثیر) 28۔ 2 مشرکین کی ممانعت سے بعض مسلمانوں کے دل میں یہ خیال آیا کہ حج کے موسم میں زیادہ اجتماع کی وجہ سے جو تجارت ہوتی ہے، یہ متاثر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس مفلسی (یعنی کاروبار کی کمی) سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ عنقریب اپنے فضل سے تمہیں غنی کر دے گا چناچہ فتوحات کی وجہ سے کثرت سے مال غنیمت مسلمانوں کو حاصل ہوا۔ اور پھر بتدریج سارا عرب بھی مسلمان ہوگیا اور حج کے موسم میں حاجیوں کی ریل پیل پھر اسی طرح ہوگئی جس طرح پہلے تھی بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہوئی اور جو مسلسل روز افزوں ہی ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

28۔ اے ایمان والو! مشرک ناپاک لوگ ہیں لہذا اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب بھی نہ پھٹکنے پائیں اور اگر تمہیں مفلسی [26] کا ڈر ہو تو اللہ اگر چاہے تو جلد ہی تمہیں اپنی مہربانی سے غنی کر دے گا اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے
[26] مشرکوں کے جانے سے میدان معیشت میں خلا کا خدشہ:۔
اس آیت میں مشرکوں کو ناپاک کہا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ فی ذاتہ ناپاک ہوتے ہیں کہ ان سے اگر ہاتھ لگ جائے تو ہاتھ دھونا پڑے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے عقائد ناپاک اور گندے، اخلاق ناپاک اور نیتوں میں ہر وقت فتور اور مکر و فریب اور اعمال گندے ہیں۔ جو ہر وقت اسلام دشمنی، مسلمانوں پر ظلم و تشدد اور معاندانہ سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اس آیت کی رو سے مسلمانوں کو واضح حکم دے دیا گیا کہ اب مشرکین بیت اللہ کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے۔ مکہ جہاں ایک مقدس مقام تھا وہاں تجارتی مرکز بھی تھا اور یہ تجارت زیادہ تر مشرکین مکہ کے ہاتھ میں تھی۔ لہٰذا مکہ اور اس کے آس پاس بسنے والے بالخصوص نو مسلموں کو خدشہ لاحق ہوا کہ اب ضروریات کیسے پوری ہوں گی۔ نیز ذرائع روزگار بھی متاثر ہونے کا اندیشہ تھا۔ اللہ نے ان مسلمانوں کو تسلی دی اور اس خدشہ کا مداوا یوں ہوا کہ مسلمانوں نے معیشت کے سارے میدان خود سنبھال لیے جن میں اللہ نے برکت عطا فرمائی اور مسلمانوں کو غنی بنا دیا۔ اس صورت حال کا صحیح اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ جب پاکستان بننے کے وقت 1947ء میں ہندو لوگ، جن کے ہاتھ میں معیشت کی باگ ڈور تھی، پاکستان کو چھوڑ کر ہندوستان جا رہے تھے اور زندگی کے ہر میدان میں اور بالخصوص معیشت کے میدان میں بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا تو عرصہ تک تجارتی منڈیاں ہی بند رہیں آخر مسلمانوں نے ان منڈیوں کو سنبھال لیا تو اللہ نے انہیں بہت جلد غنی کر دیا۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

مشرکین کو حدود حرم سے نکال دو ٭٭
اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین اپنے پاک دین والے پاکیزہ اور طہارت والے مسلمان بندوں کو حکم فرماتا ہے کہ دین کی رو سے نجس مشرکوں کو بیت اللہ کے پاس نہ آنے دیں۔
یہ آیت سنہ 9ہجری میں نازل ہوئی اسی سال نبی کریم رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیجا اور حکم دیا کہ مجمع حج میں اعلان کر دو کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور کوئی شخص ننگا بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔ اس شرعی حکم کو اللہ تعالیٰ قادر و قیوم نے یوں ہی پورا کیا کہ نہ وہاں مشرکوں کو داخلہ نصیب ہوا تو نہ کسی نے اس کے بعد عریانی کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے گھر کا طواف کیا۔ ۱؎ [مسند احمد:392/3:صحیح]‏‏‏‏
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما غلام اور ذمی شخص کو مستثنیٰ بتاتے ہیں۔ مسند کی حدیث میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ہماری اس مسجد میں اس سال کے بعد سوائے معاہدہ والے اور تمہارے غلاموں کے اور کوئی کافر نہ آئے۔ ۱؎ [مسند احمد:339/3:ضعیف و منقطع]‏‏‏‏ لیکن اس مرفوع سے زیادہ صحیح سند والی موقوف روایت ہے۔
خلیفتہ المسلمین سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہ نے فرمان جاری کر دیا تھا کہ یہود و نصرانی کو مسلمانوں کی مسجدوں میں نہ آنے دو۔ اس منع کرنے میں آپ اس آیت کی ماتحتی میں تھے۔ عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حرم سارا اس حکم میں مثل مسجد الحرام کے ہے۔‏‏‏‏ یہ آیت مشرکوں کی نجاست پر بھی دلیل ہے۔ صحیح حدیث میں ہے مومن نجس نہیں ہوتا۔ ۱؎ [صحیح بخاری:283]‏‏‏‏
باقی رہی یہ بات کہ مشرکوں کا بدن اور ذات بھی نجس ہے یا نہیں، پس جمہور کا قول تو یہ ہے کہ نجس نہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال کیا ہے۔
بعض ظاہریہ کہتے ہیں کہ مشرکوں کے بدن بھی ناپاک ہی۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو ان سے مصافحہ کرے وہ ہاتھ دھو ڈالے۔‏‏‏‏ اس حکم پر بعض لوگوں نے کہا کہ پھر تو ہماری تجارت کا مندا ہو جائے گا ہمارے بازار بےرونق ہو جائیں گے اور بہت سے فائدے جاتے رہیں گے۔‏‏‏‏
اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ غنی و حمید فرماتا ہے کہ تم اس بات سے نہ ڈرو اللہ تعالیٰ تمہیں اور بہت سی صورتوں سے دلا دے گا تمہیں اہل کتاب سے جزیہ دلائے گا اور تمہیں غنی کر دے گا۔ تمہاری مصلحتوں کو تم سے زیادہ تمہارا رب جانتا ہے اس کا حکم اس کی ممانعت کسی نہ کسی حکمت سے ہی ہوتی ہے، یہ تجارت اتنے فائدے کی نہیں جتنا فائدہ وہ تمہیں جزیئے سے دے گا،
ان اہل کتاب سے جو اللہ تعالیٰ کے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قیامت کے منکر ہیں جو کسی نبی کے صحیح معنی میں اور پورے متبع نہیں بلکہ اپنی خواہشوں کے اور اپنے بڑوں کی تقلید کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اگر انہیں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی شریعت پر پورا ایمان ہوتا تو وہ ہمارے اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ضرور ایمان لاتے۔ ان کی بشارت تو ہر نبی دیتا رہا ان کی اتباع کا حکم ہر نبی نے دیا لیکن باوجود اس کے وہ اس اشرف الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے انکاری ہیں پس اگلے نبیوں کے شرع سے بھی دراصل انہیں کوئی سروکار بھی نہیں اسی وجہ سے ان نبیوں کا زبانی اقرار ان کے لیے بےسود ہے کیونکہ یہ سید الانبیاء افضل الرسل خاتم النبین اکمل المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے کفر کرتے ہیں اس لیے ان سے بھی جہاد کرو۔
ان سے جہاد کی یہ پہلی آیت ہے اس وقت تک آس پاس کے مشرکین سے جنگ ہو چکی تھی ان میں سے اکثر توحید کے جھنڈے تلے آ چکے تھے جزیرۃ العرب میں اسلام نے جگہ کر لی تھی اب یہود و نصاریٰ کی خبر لینے اور انہیں راہ حق دکھانے کا حکم ہوا،
سنہ 9 ہجری میں یہ حکم اترا اور آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم رومیوں سے جہاد کی تیاری کی لوگوں کو اپنے ارادے سے مطلع کیا مدینہ کے اردگرد کے عربوں کو آمادہ کیا اور تقریباً تیس ہزار کا لشکر لے کر روم کا رخ کیا بجز منافقین کے یہاں کوئی نہ رکا سوائے بعض کے۔ موسم سخت گرم تھا پھلوں کا وقت تھا روم سے جہاد کیلئے شام کے ملک کا دور دراز کا کٹھن سفر تھا تبوک تک تشریف لے گئے وہاں تقریباً بیس روز قیام فرمایا۔
پھر اللہ تعالیٰ سے استخارہ کر کے واپس لوٹے حالت کی تنگی اور لوگوں کی ضعیفی کی وجہ سے واپس لوٹے۔ جیسے کہ عنقریب اس کا واقعہ ان شاءاللہ تعالیٰ بیان ہو گا۔ اسی آیت سے استدلال کر کے بعض نے فرمایا ہے کہ جزیہ صرف اہل کتاب سے اور ان جیسوں سے ہی لیا جائے جیسے مجوس ہیں۔ چنانچہ ہجر کے مجسیوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیہ لیا تھا۔ ۱؎ [صحیح بخاری:3156]‏‏‏‏
امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اور مشہور مذہب امام احمد کا رحمہ اللہ بھی یہی ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: سب عجمیوں سے لیا جائے خواہ وہ اہل کتاب ہوں خواہ مشرک ہوں۔ ہاں عرب میں سے صرف اہل کتاب سے ہی لیا جائے۔‏‏‏‏ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جزیئے کا لینا تمام کفار سے جائز ہے خواہ وہ کتابی ہوں یا مجوسی ہوں یا بت پرست وغیرہ ہوں۔ ان مذاہب کے دلائل وغیرہ کے بسط کی یہ جگہ نہیں واللہ اعلم۔
پس فرماتا ہے کہ جب تک وہ ذلت و خواری کے ساتھ اپنے ہاتھوں جزیہ نہ دیں انہیں نہ چھوڑو۔ پس اہل ذمہ کو مسلمانوں پر عزت و توقیر دینی اور انہیں اوج و ترقی دینی جائز نہیں۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: یہود و نصاریٰ سے سلام کی ابتداء نہ کرو اور جب ان سے کوئی راستے میں مل جائے تو اسے تنگی سے مجبور کرو۔‏‏‏‏ ۱؎ [صحیح مسلم:2167]‏‏‏‏
یہی وجہ تھی جو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے ایسی ہی شرطیں کی تھیں۔ سیدنا عبدالرحمٰن بن غنم اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اپنے ہاتھ سے عہد نامہ لکھ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیا تھا کہ اہل شام کے فلاں فلاں شہری لوگوں کی طرف سے یہ معاہدہ ہے امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کہ جب آپ کا لشکر ہم پر آئے ہم نے آپ سے اپنی جان، مال اور اہل و عیال کے لیے امن طلب کی ہم ان شرطوں پر وہ امن حاصل کرتے ہیں کہ ہم اپنے ان شہرں میں اور ان کے آس پاس کوئی گرجا گھر اور خانقاہ نیا نہیں بنائیں گے۔ اور نہ ایسے کسی خرابی والے مکان کی اصلاح کریں گے اور جو مٹ چکے ہیں انہی درست نہیں کریں گے۔
ان میں اگر کوئی مسلمان مسافر اترنا چاہے تو روکیں گے نہیں خواہ دن ہو خواہ رات ہو ہم ان کے دروازے راہ گزر اور مسافروں کے لیے کشادہ رکھیں گے اور جو مسلمان آئے ہم اس کی تین دن تک مہمانداری کریں گے ہم اپنے ان مکانوں یا رہائشی مکانوں وغیرہ میں کہیں کسی جاسوس کو نہ چھپائیں گے مسلمانوں سے کوئی دھوکہ فریب نہیں کریں گے اپنی اولاد کو قرآن نہ سکھائیں گے شرک کا اظہار نہ کریں گے نہ کسی کو شرک کی طرف بلائیں گے۔
ہم میں سے کوئی اگر اسلام قبول کرنا چاہے ہم اسے ہرگز نہ روکیں گے مسلمانوں کی توقیر و عزت کریں گے ہماری جگہ اگر وہ بیٹھنا چاہیں تو ہم اٹھ کر انہیں جگہ دے دیں گے ہم مسلمانوں سے کسی چیز میں برابری نہ کریں گے نہ لباس میں نہ جوتی میں نہ مانگ نکالنے میں، ہم ان کی زبانیں نہیں بولیں گے، ان کی کنیتیں نہیں رکھیں گے، زین والے گھوڑوں پر سواریاں نہ کریں گے نہ تلواریں لٹکائیں گے نہ اپنے ساتھ رکھیں گے۔ انگوٹھیوں پر عربی نقش نہیں کرائیں گے شراب فروشی نہیں کریں گے اپنے سروں کے اگلے بالوں کو تراشوا دیں گے اور جہاں کہیں ہوں گے زنار ضرورتاً ڈالیں رہیں گے صلیب کا نشان اپنے گرجوں پر ظاہر نہیں کریں گے۔
اپنی مذہبی کتابیں مسلمانوں کی گزر گاہوں اور بازاروں میں ظاہر نہیں کریں گے گرجوں میں ناقوس بلند آواز سے نہیں بجائیں گے۔ نہ مسلمانوں کی موجودگی میں با آواز بلند اپنی مذہبی کتابیں پڑھیں گے نہ اپنے مذہبی شعار کو راستوں پر کریں گے نہ اپنے مردوں پر اونچی آواز سے ہائے وائے کریں گے نہ ان کے ساتھ مسلمانوں کے راستوں میں آگ لے کر جائیں گے۔ مسلمانوں کے حصے میں آئے ہوئے غلام ہم نہ لیں گے مسلمانوں کی خیر خواہی ضرور کرتے رہیں گے ان کے گھروں میں جھانکیں گے نہیں۔
جب یہ عہد نامہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شرط اور بھی اس میں بڑھوائی کہ ہم کسی مسلمانوں کو ہرگز ماریں گے نہیں یہ تمام شرطیں ہمیں قبول و منظور ہیں اور ہمارے سب ہم مذہب لوگوں کو بھی۔ انہیں شرائط پر ہمیں امن ملی ہے اگر ان میں سے کسی ایک شرط کی بھی ہم خلاف ورزی کریں تو ہم سے آپ کا ذمہ الگ ہو جائے گا اور جو کچھ آپ اپنے دشمنوں اور مخالفوں سے کرتے ہیں ان تمام کے مستحق ہم بھی ہو جائیں گے۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل