یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡۤا اٰبَآءَکُمۡ وَ اِخۡوَانَکُمۡ اَوۡلِیَآءَ اِنِ اسۡتَحَبُّوا الۡکُفۡرَ عَلَی الۡاِیۡمَانِ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ مِّنۡکُمۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۲۳﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے باپوں اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناؤ، اگر وہ ایمان کے مقابلے میں کفر سے محبت رکھیں اور تم میں سے جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا سو وہی لوگ ظالم ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اے اہل ایمان! اگر تمہارے (ماں) باپ اور (بہن) بھائی ایمان کے مقابل کفر کو پسند کریں تو ان سے دوستی نہ رکھو۔ اور جو ان سے دوستی رکھیں گے وہ ظالم ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اے ایمان والو! اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناؤ اگر وه کفر کو ایمان سے زیاده عزیز رکھیں۔ تم میں سے جو بھی ان سے محبت رکھے گا وه پورا گنہگار ﻇالم ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت23){ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ …:} یعنی بعض لوگ دل سے مسلمان ہیں لیکن برادری سے تعلق توڑ بھی نہیں سکتے کہ اپنے اسلام کا اعلان کر دیں، ان کا حال یہاں سے سمجھو۔ (موضح) مزید دیکھیے سورۂ مجادلہ (۲۲)، سورۂ ممتحنہ (۱تا۳)، سورۂ آل عمران (۲۸، ۱۱۸) اور سورۂ مائدہ (۵۱)۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
23۔ 1 یہ وہی مضمون ہے جو قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے (چونکہ اس کی اہمیت واضح ہے اس لئے) اسے یہاں بھی بیان کیا گیا ہے یعنی جہاد و ہجرت میں تمہارے لئے تمہارے باپوں اور بھائیوں وغیرہ کی محبت آڑے نہ آئے، کیونکہ وہ ابھی تک کافر ہیں، تو پھر وہ تمہارے دوست ہو ہی نہیں سکتے، بلکہ وہ تمہارے دشمن ہیں اگر تم ان سے محبت کا تعلق رکھو گے تو یاد رکھو تم ظالم قرار پاؤ گے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
23۔ اے ایمان والو! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بھائی ایمان کے مقابلہ میں کفر کو پسند [21] کریں تو انہیں بھی اپنا رفیق نہ بناؤ اور تم میں سے جو شخص انہیں رفیق بنائے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں
[21] ایمان کی تکمیل کب؟
یعنی ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اگر باپ یا بھائی کافر ہوں تو ان سے قرابت تو کیا رفاقت بھی نہ رکھی جائے اور اگر مومن یا مسلمان اس معیار پر پورا نہیں اترتا تو سمجھ لے کہ اس کا ایمان مکمل نہیں۔ اس مضمون کو کتاب و سنت میں متعدد مقامات پر مختلف پیرایوں میں بیان کیا گیا ہے چنانچہ ایک دفعہ سیدنا عمرؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ مجھے اپنی ذات کے سوا سب سے زیادہ محبوب ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ابھی تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوا۔“ پھر کسی وقت سیدنا عمرؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ”اللہ کی قسم! آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔“ [بخاري۔ كتاب الايمان والنذور۔ باب كيف كانت يمين النبي]
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
ترک موالات و مودت کا حکم ٭٭
اللہ تعالیٰ کافروں سے ترک موالات کا حکم دیتا ہے ان کی دوستیوں سے روکتا ہے گوہ وہ ماں باپ ہوں، بہن بھائی ہوں بشرطیکہ وہ کفر کو اسلام پر پسند کریں۔
اور آیت میں ہے «لاَّ تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ» ۱؎ [58المجادلة:22] اللہ پر اور قیامت پر ایمان لانے والوں کو تو ہرگز اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے دوستیاں کرنے والا نہیں پائے گا گو وہ ان کے باپ ہوں بیٹے ہوں یا بھائی ہوں یا رشتے دار ہوں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان لکھ دیا گیا ہے اور اپنی خاص روح سے ان کی تائید فرمائی ہے۔ انہیں نہروں والی جنت میں پہنچائے گا۔
بیہقی میں ہے سیدنا ابوعبیدبن جراح رضی اللہ عنہ کے باپ نے بدر والے دن ان کے سامنے اپنے بتوں کی تعریفیں شروع کیں آپ نے اسے ہر چند روکنا چاہا لیکن وہ بڑھتا ہی چلا گیا باپ بیٹوں میں جنگ شروع ہو گئی آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کو قتل کر دیا۔ اس پر آیت «لاَّ تَجِدُ» الخ، نازل ہوئی۔ ۱؎ [بیهقی فی شعب الایمان:27/9:منقطع]
پھر ایسا کرنے والوں کو ڈراتا ہے اور فرماتا ہے کہ ”اگر یہ رشتے دار اور اپنے حاصل کئے ہوئے مال اور مندے ہو جانے کی دہشت کی تجارتیں اور پسندیدہ مکانات اگر تمہیں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور جہاد سے بھی زیادہ مرغوب ہیں تو تمہیں اللہ تعالیٰ کے عذابوں کے برداشت کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔
اور آیت میں ہے «لاَّ تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ» ۱؎ [58المجادلة:22] اللہ پر اور قیامت پر ایمان لانے والوں کو تو ہرگز اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے دوستیاں کرنے والا نہیں پائے گا گو وہ ان کے باپ ہوں بیٹے ہوں یا بھائی ہوں یا رشتے دار ہوں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان لکھ دیا گیا ہے اور اپنی خاص روح سے ان کی تائید فرمائی ہے۔ انہیں نہروں والی جنت میں پہنچائے گا۔
بیہقی میں ہے سیدنا ابوعبیدبن جراح رضی اللہ عنہ کے باپ نے بدر والے دن ان کے سامنے اپنے بتوں کی تعریفیں شروع کیں آپ نے اسے ہر چند روکنا چاہا لیکن وہ بڑھتا ہی چلا گیا باپ بیٹوں میں جنگ شروع ہو گئی آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کو قتل کر دیا۔ اس پر آیت «لاَّ تَجِدُ» الخ، نازل ہوئی۔ ۱؎ [بیهقی فی شعب الایمان:27/9:منقطع]
پھر ایسا کرنے والوں کو ڈراتا ہے اور فرماتا ہے کہ ”اگر یہ رشتے دار اور اپنے حاصل کئے ہوئے مال اور مندے ہو جانے کی دہشت کی تجارتیں اور پسندیدہ مکانات اگر تمہیں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور جہاد سے بھی زیادہ مرغوب ہیں تو تمہیں اللہ تعالیٰ کے عذابوں کے برداشت کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔
ایسے بدکاروں کو اللہ تعالیٰ بھی راستہ نہیں دکھاتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ جا رہے تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مجھے ہرچیز سے زیادہ عزیز ہیں بجز میری اپنی جان کے۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی قسم جس کے ہاتھ میرا نفس ہے تم میں سے کوئی مومن نہ ہو گا جب تک کہ وہ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ رکھے۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! اب آپ کی محبت مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب اے عمر رضی اللہ عنہ! [تو مومن ہو گیا] صحیح بخاری۔ ۱؎ [صحیح بخاری:6632]
صحیح حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ثابت ہے کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی ایماندار نہ ہو گا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ سے اولاد سے اور دنیا کے کل لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔ ۱؎ [صحیح بخاری:15]
مسند امام احمد اور ابوداؤد میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”جب تم عین کی خرید و فروخت کرنے لگو گے اور گائے بیل کی دمیں تھام لو گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت ڈال دے گا وہ اس وقت تک دور نہ ہو گی جب تک کہ تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ۔ ۱؎ [سنن ابوداود:3462،قال الشيخ الألباني:صحیح]
صحیح حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ثابت ہے کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی ایماندار نہ ہو گا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ سے اولاد سے اور دنیا کے کل لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔ ۱؎ [صحیح بخاری:15]
مسند امام احمد اور ابوداؤد میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”جب تم عین کی خرید و فروخت کرنے لگو گے اور گائے بیل کی دمیں تھام لو گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت ڈال دے گا وہ اس وقت تک دور نہ ہو گی جب تک کہ تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ۔ ۱؎ [سنن ابوداود:3462،قال الشيخ الألباني:صحیح]