ترجمہ و تفسیر — سورۃ الجمعة (62) — آیت 5
مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰىۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًا ؕ بِئۡسَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
ان لوگوں کی مثال جن پر تورات کا بوجھ رکھا گیا، پھر انھوں نے اسے نہیں اٹھایا، گدھے کی مثال کی سی ہے جو کئی کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، ان لوگوں کی مثال بری ہے جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
جن لوگوں (کے سر) پر تورات لدوائی گئی پھر انہوں نے اس (کے بار تعمیل) کو نہ اٹھایا ان کی مثال گدھے کی سی ہے جن پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں۔ جو لوگ خدا کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں ان کی مثال بری ہے۔ اور خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں ﻻدے ہو۔ اللہ کی باتوں کو جھٹلانے والوں کی بڑی بری مثال ہے اور اللہ (ایسے) ﻇالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 5) ➊ {مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا …: اَسْفَارًا سِفْرٌ} کی جمع ہے، بڑی کتاب۔ {سَفَرَ يَسْفُرُ (ن) اَلْكِتَابَ} لکھنا۔ {اَلسَّافِرُ أَيْ اَلْكَاتِبُ} جمع اس کی {سَفَرَةٌ} ہے، جیسا کہ فرمایا: «‏‏‏‏بِاَيْدِيْ سَفَرَةٍ (15) كِرَامٍۭ بَرَرَةٍ» ‏‏‏‏ [عبس: ۱۵،۱۶] ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں۔جو معزز ہیں، نیک ہیں۔
➋ بعض اہلِ علم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے تین باتوں میں یہود کا ردّ فرمایا، انھوں نے فخر کیا کہ وہ اہلِ کتاب ہیں جب کہ عرب اُمی ہیں، تو اس کی تردید کرتے ہوئے انھیں اس گدھے کے ساتھ تشبیہ دی جو بڑی بڑی کتابیں اٹھائے ہوئے ہو۔ انھوں نے فخر کیا کہ وہ اللہ کے دوست اور محبوب ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «‏‏‏‏فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ» [الجمعۃ: ۶] (اگر ایسا ہے) تو موت کی تمنا کرو۔ تیسرا یہ کہ ان کے ہاں سبت (ہفتے کا دن)ہے جو مسلمانوں کے پاس نہیں، تو اللہ تعالیٰ نے یوم جمعہ کی صورت میں مسلمانوں پر اپنے احسان کا ذکر فرمایا، جس سے یہود اپنی نادانی کی وجہسے محروم رہ گئے۔ (الکشاف)
➌ تورات کا بوجھ رکھا جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر عمل کی ذمہ داری ڈالی گئی، جیساکہ فرمایا: «‏‏‏‏اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ» [الأحزاب:۷۲] بے شک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اس کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔ { ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا } پھر انھوں نے اس پر عمل نہیں کیا،یعنی جس طرح گدھے پر کتابیں لدی ہوں اور وہ نہیں جانتا کہ اس کی پیٹھ پر کیا ہے، اسی طرح وہ لوگ ہیں جن پر تورات کا بوجھ ڈالا گیا کہ اس پر عمل کریں، مگر انھوں نے پروا ہی نہیں کی کہ اس میں کیا ہے اور وہ ان سے کیا چاہتی ہے۔
➍ {بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ:} اللہ کی آیات کو جھٹلانے سے مراد ان بشارتوں کو جھٹلانا ہے جو اللہ تعالیٰ نے تورات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نازل فرمائیں۔ (دیکھیے اعراف: ۱۵۷) { بِئْسَ } فعل ذم ہے، { مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ } اس کا فاعل ہے اور اس کا مخصوص بالذم محذوف ہے، یعنی {هٰذَا الْمَثَلُ۔} یعنی ان لوگوں کی یہ مثال جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا بری مثال ہے، جس کا مصداق ایمان والوں کو نہیں بننا چاہیے۔ جیسا کہ کسی مسلمان کو کتے کی مثال کا مصداق بھی نہیں بننا چاہیے کہ اس پر کتے کی مثال صادق آئے۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [لَيْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْءِ، الَّذِيْ يَعُوْدُ فِيْ هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ يَرْجِعُ فِيْ قَيْهٖ] [بخاري، الھبۃ و فضلھا، باب لا یحل لأحد أن یرجع في ھبتہ وصدقتہ: ۲۶۲۲] یہ بری مثال ہمارے لیے نہیں ہے، وہ شخص جو اپنے ہبہ میں لوٹتا ہے اس کتے کی ما نند ہے جو اپنی قے میں لوٹتا ہے۔
➎ استاد محمد عبدہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: کیا وجہ ہے کہ ان علماء کا حال اس سے مختلف ہو جو قرآن و حدیث کا علم رکھتے ہیں لیکن اس پرعمل نہیں کرتے، یا یہودیوں کی طرح ان کی من مانی تاویلیں کرتے ہیں۔ شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: یہود کے عالم ایسے تھے کتاب پڑھی اور دل میں کچھ اثر نہ ہوا، اللہ ہم کو پناہ دے۔ (موضح)
➏ {وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ:} یعنی جاننے کے باوجود نہ ماننا صریح ظلم ہے اور ایسے ظالموں کو اللہ بھی راہِ راست پر چلنے کی توفیق نہیں دیتا، کیونکہ نہ چاہنے والوں کو زبر دستی راہِ راست پر چلانا اس کا دستور نہیں۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

5۔ 1 اَ سْفَار سَفْر کی جمع ہے، معنی ہیں بڑی کتاب۔ کتاب جب پڑھی جاتی ہے تو انسان اس کے معنوں میں سفر کرتا ہے اس لئے کتاب کو سفر کہا جاتا ہے (فتح القدیر) یہ بےعمل یہودیوں کی مثال بیان کی گئی ہے کہ جس طرح گدھے کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی کمر پر جو کتابیں لدی ہیں، ان میں کیا لکھا ہوا ہے۔ یا اس پر کتابیں لدی ہوئی ہیں یا کوڑا کرکٹ۔ اسی طرح یہ یہودی ہیں یہ تورات کو تو اٹھائے پھرتے ہیں، بلکہ اس میں تاویل و تحریف اور تغیر وتبدل سے کام لیتے ہیں۔ اس لیے یہ حقیقت میں گدھے سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ گدھا تو پیدائشی طور پر فہم وشعور سے ہی عاری ہوتا ہے، جب کہ ان کے اندر فہم و شعور ہے لیکن یہ اسے صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرتے۔ اسی لیے آگے فرمایا کہ ان کی بڑی بری مثال ہے۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا " ۭاُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ 179؁" 7۔ الاعراف:179) یہ چوپائے کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں، یہی مثال مسلمانوں کی اور بالخصوص علماء کی ہے جو قرآن پڑھتے ہیں اسے یاد کرتے ہیں اور اس کے معانی ومطالب کو سمجھتے ہیں لیکن اس کے مقتضی پر عمل نہیں کرتے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

کتابوں کا بوجھ لادا گدھا اور بےعمل عالم ٭٭
ان آیتوں میں یہودیوں کی مذمت بیان ہو رہی ہے کہ انہیں تورات دی گئی اور عمل کرنے کے لیے انہوں نے اسے لیا پھر عمل نہ کیا، فرمایا جاتا ہے کہ ان کی مثال گدھے کی سی ہے کہ اگر اس پر کتابوں کا بوجھ لاد دیا جائے تو اسے یہ تو معلوم ہے کہ اس پر کوئی بوجھ ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس میں کیا ہے؟ اسی طرح یہ یہود ہیں کہ ظاہری الفاظ تو خوب رٹے ہوئے ہیں لیکن نہ تو یہ معلوم ہے کہ مطلب کیا ہے؟ نہ اس پر ان کا عمل ہے بلکہ اور تبدیل و تحریف کرتے رہتے ہیں، پس دراصل یہ اس بےسمجھ جانور سے بھی بدترین ہیں، کیونکہ اسے تو قدرت نے سمجھ ہی نہیں دی لیکن یہ سمجھ رکھتے ہوئے پھر بھی اس کا استعمال نہیں کرتے۔
اسی لیے دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے «أُولَـٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ» [7-الاعراف:179]‏‏‏‏ یہ لوگ مثل چوپایوں کے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بہکے ہوئے، یہ غافل لوگ ہیں۔ یہاں فرمایا اللہ کی آیتوں کو جھٹلانے والوں کی بری مثال ہے، ایسے ظالم اللہ کی رہنمائی سے محروم رہتے ہیں۔
«وَقَالَ الْإِمَام أَحْمَد رَحِمَهُ اللَّه حَدَّثَنَا اِبْن نُمَيْر عَنْ مُجَالِد عَنْ الشَّعْبِيّ عَنْ اِبْن عَبَّاس قَالَ: قَالَ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَكَلَّمَ يَوْم الْجُمُعَة وَالْإِمَام يَخْطُب فَهُوَ كَمَثَلِ الْحِمَار يَحْمِل أَسْفَارًا وَاَلَّذِي يَقُول لَهُ أَنْصِتْ لَيْسَ لَهُ جُمْعَة» مسند احمد میں ہے { جو شخص جمعہ کے دن امام کے خطبہ کی حالت میں بات کرے، وہ مثل گدھے کے ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو اور جو اسے کہے کہ چپ رہ اس کا بھی جمعہ جاتا رہا۔ } [مسند احمد:230/1:ضعیف]‏‏‏‏

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل