اَلَّذِیۡنَ یُظٰہِرُوۡنَ مِنۡکُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِہِمۡ مَّا ہُنَّ اُمَّہٰتِہِمۡ ؕ اِنۡ اُمَّہٰتُہُمۡ اِلَّا الِّٰٓیۡٔ وَلَدۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّہُمۡ لَیَقُوۡلُوۡنَ مُنۡکَرًا مِّنَ الۡقَوۡلِ وَ زُوۡرًا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوۡرٌ ﴿۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
وہ لوگ جو تم میں سے اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں وہ ان کی مائیں نہیں ہیں، ان کی مائیں ان کے سوا کوئی نہیں جنھوں نے انھیں جنم دیا اور بلاشبہ وہ یقینا ایک بری بات اور جھوٹ کہتے ہیں اور بلاشبہ اللہ یقینا بے حد معاف کرنے والا، نہایت بخشنے والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
جو لوگ تم میں سے اپنی عورتوں کو ماں کہہ دیتے ہیں وہ ان کی مائیں نہیں (ہوجاتیں) ۔ ان کی مائیں تو وہی ہیں جن کے بطن سے وہ پیدا ہوئے۔ بےشک وہ نامعقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں اور خدا بڑا معاف کرنے والا (اور) بخشنے والا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ﻇہار کرتے ہیں (یعنی انہیں ماں کہہ بیٹھتے ہیں) وه دراصل ان کی مائیں نہیں بن جاتیں، ان کی مائیں تو وہی ہیں جن کے بطن سے وه پیدا ہوئے، یقیناً یہ لوگ ایک نامعقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے واﻻ اور بخشنے واﻻ ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 2) ➊ { اَلَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِنْكُمْ مِّنْ نِّسَآىِٕهِمْ مَّا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمْ …: ” يُظٰهِرُوْنَ “ ”ظَهْرٌ“} سے نکلا ہے جس کا معنی ”پیٹھ “ ہے۔ عرب سواری کو {”ظَهْرٌ“} کہتے ہیں۔ یہ استعارہ ہے، جس میں بیوی سے جماع کو گھوڑے وغیرہ کی پشت پر سوار ہونے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ {”أَنْتِ عَلَيَّ كَظَهْرِ أُمِّيْ“} (تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح میرے لیے اپنی ماں پر سوار ہونا اور اس سے جماع حرام ہے، اسی طرح تم بھی میرے لیے میری ماں کی طرح ہو۔ جاہلیت میں لوگ بیوی کو ماں کہہ دیتے تو اسے ماں کی طرح حرام قرار دے لیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس رسمِ بد کو ختم کر دیا، فرمایا منہ کے ساتھ بیوی کو ماں کہنے سے وہ ماں نہیں بن جاتی، آدمی کی ماں وہی ہے جس نے اسے جنم دیا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ احزاب (۴) کی تفسیر۔
➋ { وَ اِنَّهُمْ لَيَقُوْلُوْنَ مُنْكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَ زُوْرًا: ” مُنْكَرًا “ ”أَنْكَرَ يُنْكِرُ“} (افعال) سے اسم مفعول ہے، وہ بات جسے انسانی طبیعت یا عقل یا شرع نہ پہچانتی ہو بلکہ اس کا انکار کرتی ہو۔ {” زُوْرًا “} جھوٹ۔ یعنی بیوی کو ماں کی طرح کہنے والے ایسی بات کہتے ہیں جو نہ انسانی طبیعت مانتی ہے، نہ عقل اور نہ ہی شرع، کیونکہ ماں کے ساتھ بیٹے کا رشتہ اکرام و احترام کا ہے، جبکہ بیوی کے ساتھ خاوند کا رشتہ ایک خاص تعلق کا ہے جو ماں کے ساتھ سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ پھر جس عورت نے آدمی کو جنم ہی نہیں دیا بلکہ اس کا اس کے ساتھ مباشرت کا تعلق رہا، اسے ماں کہنا بری بات اور کتنا بڑا جھوٹ ہے۔
➌ { وَ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ:} یعنی اللہ تعالیٰ تمھاری کوتاہیوں اور غلطیوں کے باوجود ان سے بہت درگزر کرنے والا اور ان پر پردہ ڈالنے والا ہے۔ خصوصاً جب غلطی کرنے والا پلٹ آئے اور توبہ کر کے آئندہ ایسی باتوں سے باز رہے۔
➍ اس آیت میں کئی چیزیں ظہار کے حرام ہونے پر دلالت کر رہی ہیں، پہلی اللہ تعالیٰ کا یہ کہنا کہ {” مَا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمْ “} (وہ ان کی مائیں نہیں)، اس میں ظہار کرنے والے کو جھوٹا قرار دیا ہے، دوسری اور تیسری یہ کہ اللہ نے ان کا نام منکراور زُور رکھا ہے اور چوتھی اللہ تعالیٰ کا فرمان {” اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ “} ہے، کیونکہ عفو و مغفرت گناہ ہی سے ہوتی ہے۔
➋ { وَ اِنَّهُمْ لَيَقُوْلُوْنَ مُنْكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَ زُوْرًا: ” مُنْكَرًا “ ”أَنْكَرَ يُنْكِرُ“} (افعال) سے اسم مفعول ہے، وہ بات جسے انسانی طبیعت یا عقل یا شرع نہ پہچانتی ہو بلکہ اس کا انکار کرتی ہو۔ {” زُوْرًا “} جھوٹ۔ یعنی بیوی کو ماں کی طرح کہنے والے ایسی بات کہتے ہیں جو نہ انسانی طبیعت مانتی ہے، نہ عقل اور نہ ہی شرع، کیونکہ ماں کے ساتھ بیٹے کا رشتہ اکرام و احترام کا ہے، جبکہ بیوی کے ساتھ خاوند کا رشتہ ایک خاص تعلق کا ہے جو ماں کے ساتھ سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ پھر جس عورت نے آدمی کو جنم ہی نہیں دیا بلکہ اس کا اس کے ساتھ مباشرت کا تعلق رہا، اسے ماں کہنا بری بات اور کتنا بڑا جھوٹ ہے۔
➌ { وَ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ:} یعنی اللہ تعالیٰ تمھاری کوتاہیوں اور غلطیوں کے باوجود ان سے بہت درگزر کرنے والا اور ان پر پردہ ڈالنے والا ہے۔ خصوصاً جب غلطی کرنے والا پلٹ آئے اور توبہ کر کے آئندہ ایسی باتوں سے باز رہے۔
➍ اس آیت میں کئی چیزیں ظہار کے حرام ہونے پر دلالت کر رہی ہیں، پہلی اللہ تعالیٰ کا یہ کہنا کہ {” مَا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمْ “} (وہ ان کی مائیں نہیں)، اس میں ظہار کرنے والے کو جھوٹا قرار دیا ہے، دوسری اور تیسری یہ کہ اللہ نے ان کا نام منکراور زُور رکھا ہے اور چوتھی اللہ تعالیٰ کا فرمان {” اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ “} ہے، کیونکہ عفو و مغفرت گناہ ہی سے ہوتی ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
خولہ اور خویلہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا اور مسئلہ ظہار ٭٭
سیدہ خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کی قسم میرے اور میرے خاوند اوس بن صامت رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس سورۃ المجادلہ کی شروع کی چار آیتیں اتری ہیں، میں ان کے گھر میں تھی، یہ بوڑھے اور بڑی عمر کے تھے اور کچھ اخلاق کے بھی اچھے نہ تھے، ایک دن باتوں ہی باتوں میں میں نے ان کی کسی بات کے خلاف کہا اور انہیں کچھ جواب دیا، جس پر وہ بڑے غضب ناک ہوئے اور غصے میں فرمانے لگے، تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے پھر گھر سے چلے گئے اور قومی مجلس میں کچھ دیر بیٹھے رہے پھر واپس آئے اور مجھ سے خاص بات چیت کرنی چاہی، میں نے کہا: اس اللہ کی قسم! جس کے ہاتھ میں خولہ کی جان ہے تمہارے اس کہنے کے بعد اب یہ بات ناممکن ہے یہاں تک کہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ ہمارے بارے میں نہ ہو، لیکن وہ نہ مانے اور زبردستی کرنے لگے مگر چونکہ کمزور اور ضعیف تھے میں ان پر غالب آ گئی اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے، میں اپنی پڑوسن کے ہاں گئی اور اس سے کپڑا مانگ کر اوڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی، اس واقعہ کو بیان کیا اور بھی اپنی مصیبتیں اور تکلیفیں بیان کرنی شروع کر دیں، آپ یہی فرماتے جاتے تھے خولہ! اپنے خاوند کے بارے میں اللہ سے ڈرو، وہ بوڑھے بڑے ہیں، ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی کیفیت طاری ہوئی، جب وحی اتر چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے خولہ! تیرے اور تیرے خاوند کے بارے میں قرآن کریم کی آیتیں نازل ہوئی ہیں“، پھر آپ نے آیات «قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ» [58-المجادلة:1] سے «وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ» [58-المجادلة:4] تک پڑھ سنائیں۔
اور فرمایا: ”جاؤ اپنے میاں سے کہو کہ ایک غلام آزاد کریں“، میں نے کہا: یا رسول اللہ! ان کے پاس غلام کہاں؟ وہ تو بہت مسکین شخص ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا تو دو مہینے کے لگاتار روزے رکھ لیں“، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ تو بڑی عمر کے بوڑھے ناتواں کمزور ہیں انہیں دو ماہ کے روزوں کی بھی طاقت نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر ساٹھ مسکینوں کو ایک وسق (تقریباً چار من پختہ) کھجوریں دے دیں“، میں نے کہا: یا رسول اللہ! ”اس مسکین کے پاس یہ بھی نہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا آدھا وسق کھجوریں میں اپنے پاس سے انہیں دیدوں گا“ میں نے کہا: بہتر آدھا وسق میں دیدوں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تم نے بہت اچھا کیا اور خوب کام کیا، جاؤ یہ ادا کر دو اور اپنے خاوند کے ساتھ جو تمہارے چچا کے لڑکے ہیں محبت، پیار، خیر خواہی اور فرمانبرداری سے گزارا کرو۔“ [سنن ابوداود:2214،قال الشيخ الألباني:حسن]
ان کا نام بعض روایتوں میں خویلہ کے بجائے خولہ رضی اللہ عنہا بھی آیا ہے اور بنت ثعلبہ کے بدلے بنت مالک بن ثعلبہ رضی اللہ عنہا بھی آیا ہے، ان اقوال میں کوئی ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» اس سورت کی ان شروع کی آیتوں کا صحیح شان نزول یہی ہے۔
ان کا نام بعض روایتوں میں خویلہ کے بجائے خولہ رضی اللہ عنہا بھی آیا ہے اور بنت ثعلبہ کے بدلے بنت مالک بن ثعلبہ رضی اللہ عنہا بھی آیا ہے، ان اقوال میں کوئی ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» اس سورت کی ان شروع کی آیتوں کا صحیح شان نزول یہی ہے۔